وفاقی بجٹ صنعت دوست تاجر برادری کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا ایکسپریس فورم

عوام کو ہر ممکن ریلیف دینے کی کوشش کی، صداقت عباسی، ڈیوٹی و ٹیکسوں میں45 ارب ریلیف دیا، چیئر پرسن ایف بی آر

اسی قسم کے بجٹ کی توقع تھی، احمد وحید، زاہد لطیف توقیر بخاری، وحید شیخ، اجمل بلوچ، کاشف چوہدری کا اظہارخیال۔ فوٹو: ایکسپریس

وفاقی بجٹ، معیشت اور صنعت دوست بجٹ ہے جس میں مقامی انڈسٹری کوٹیکس میں زیادہ مراعات اور مینو فیکچرنگ سیکٹر پر توجہ دی گئی ہے۔کوئی نیا ٹیکس نہ لگا کر عوام کو ریلیف دیا گیا ہے جبکہ کورونا سے متاثرہ انڈسٹریز کو مراعات دینے اور تعلیم و صحت کے بجٹ میں بھی اضافہ کیاگیاہے۔

حکومت کیلئے آئی ایم ایف کے ریونیو اہداف کو پورا کرنا بڑا چیلنج ہوگا۔ ٹیکس فری بجٹ میں تاجر برادری کوکوئی ریلیف پیکیج نہیں دیا گیا۔ان خیالات کا اظہار حکومت، بزنس کمیونٹی کے نمائندوں اور ماہرین معاشیات نے ''وفاقی بجٹ 2020-21ء'' کے حوالے سے منعقدہ ''ایکسپریس فورم''میں کیا۔

پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما صداقت علی عباسی نے کہاکہ بدقسمتی سے کورونا وائرس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور یہ واضح بات ہے کہ اس کے منفی اثرات پاکستان پر بھی ہوئے ہیں، کورونا وائرس کی اس مشکل ترین گھڑی میںبجٹ میں عوام کو ہر ممکن ریلیف دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ حکومت نے متاثرہ انڈسٹریز کو مراعات دینے اور غرباء کی مدد کیلئے احساس پروگرام وغربت میں کمی کے دیگر پروگرامز کے بجٹ میں اضافہ کیا ہے، تعلیم اور صحت کے بجٹ میں بھی اضافہ کیاگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کے ویژن کے مطابق غیر ضروری حکومتی اخراجات میں کمی کی گئی ہے، مہنگائی کی جو شرح 14فیصد تک چلی گئی تھی، اس سال اسے 6.6فیصد تک لانے کی مکمل حکمت عملی تیار کر لی گئی ہے۔

چیئرپرسن فیڈرل بورڈ آف ریونیو نوشین جاوید امجد نے کہا کہ ملک میں کاروباری سرگرمیوں کے فروغ کیلئے ڈیوٹی و ٹیکسوں میں رعایت اور چھوٹ کیلئے مجموعی طور پر 45ارب کا ریلیف دیا گیا ہے جبکہ مقامی انڈسٹری کو فروغ دینے کیلئے سٹیشنری ،پولیسٹر یارن سمیت مجموعی طور پر اٹھارہ ٹیرف لائنز پر مشتمل 500 کے قریب اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھائی گئی ہے جس سے ایف بی آر کو ڈیڑھ ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہوسکے گا۔تاریخ میں پہلی بار ایسا بجٹ لایا گیا جس میں کوئی ٹیکس نہیں لگا۔

اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر محمد احمد وحید نے کہا کہ مشکل حالات میں حکومت نے ایک متوازن بجٹ پیش کیا ، امید ہے کہ یہ بجٹ کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہو گااوراس میں بزنس کمیونٹی کی مزید تجاویز کو شامل کیا جائے گا۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ برآمدات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں کیلئے مزید بہتر مراعات کا اعلان کیا جائے۔


پاکستان اسٹاک ایکسچینج اسلام آباد کے رہنما زاہد لطیف خان نے کہا کہ حکومت کو سخت معاشی حالات میں بجٹ بنانا پڑا ہے، حکومتی اقدامات کا مرکز مالی ڈسپلن اور آئی ایم ایف کے ریونیو اہداف کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ بے روزگاری کو روکنا، معاشی نمو اور کورونا کا کنٹرول ہے، 7294 ارب روپے کے بجٹ میں ٹیکس کا ہدف 4963 ارب رکھا گیا ہے جبکہ نان ٹیکس ریونیو 1108 ارب روپے مختص کیا گیا ہے۔ موجودہ حالات میں اسی قسم کے بجٹ کی توقع تھی، امید ہے کورونا کی وباء سے چھٹکارہ پاتے ہی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہوجائے گی۔

سابق نائب صدر فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری عبدالوحید شیخ نے کہا کہ وفاقی بجٹ، معیشت اور صنعت دوست بجٹ ہے جس سے یقیناانڈسٹری کو فروغ ملے گا، حکومت نے کورونا سے پیدا ہونیوالی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے مقامی انڈسٹری کوٹیکسوں میں زیادہ مراعات دی ہیں اور مینو فیکچرنگ سیکٹر پر توجہ دی گئی ہے،مجموعی طور پر یہ بجٹ ٹھیک ہے، اس سے اقتصادی سرگرمیاں تیز اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوںگے،انہوں نے کہا کہ حکومت کو سمال اینڈ میڈیم انٹر پرائزز کو زیادہ فوکس کرنا چاہیے تھا اور اس کے ساتھ برآمدات بڑھانے کیلئے غیر روایتی اشیاء کی ایکسپورٹ پر بھی توجہ دینی چاہیے تھی۔

سابق صدر راولپنڈی اسلام آباد ٹیکس بار ایسوسی ایشن سید توقیر بخاری نے کہا کہ بجٹ میں نیاانکم ٹیکس سیکشن متعارف کروایا ہے جس سے کرپشن کو فروغ ملنے کا خدشہ ہے، اب افسران اور ٹیکس گزار متفقہ اسیسمنٹ کروا سکیں گے ، جس کے بعد 100 روپیہ ٹیکس کا معاملہ 20 یا 50 روپے میں حل کرلیا جائے گا، اپلیٹ ٹربیونل میں اپیل فائل کرنے کے نئے قانون سے انصاف مہنگا ہوجائے گا،اس کے مطابق کمشنر اپیل کے فیصلے کے بعد کمشنر اپیل جو ٹیکس کنفرم کر دے گا ،اس کا دس فیصد جمع کروا کر ہی ٹربیونل میں اپیل جمع کروائی جاسکے گی، یہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے مختلف فیصلوں سے متصادم ہے۔ٹیکس گزار کو ایگزیمشن سرٹیفکیٹ 15 دن میں جاری کرنے کی ترمیم اچھی ہے۔

آل پاکستان انجمن تاجران کے صدر اجمل بلوچ نے کہا کہ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس تو نہیں لگایا گیا ہے تاہم کورونا وائرس سے متاثرہ کاروباری طبقہ بجٹ میں جس ریلیف پیکیج کا انتظار کر رہا تھا وہ سامنے نہیں آیا، اگر حکومت معاشی ترقی چاہتی ہے تو کاروباری طبقے کے لیے بلا سود قرضے دینے کے احکامات جاری کرے۔

مرکزی تنظیم تاجران پاکستان کے صدر کاشف چوہدری نے کہا کہ ٹیکس فری نامی بجٹ میں تاجر برادری کوکوئی ریلیف پیکیج نہیں دیا گیا، یہ غیر حقیقی بجٹ ہے جس میں صنعت و تجارت کی ترقی اورزراعت کے فروغ کیلئے عملی طور پر کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے، حکومت کو چاہیے کہ تعمیراتی شعبے کی طرز پر تمام کاروباروں میں سرمایہ کاری کیلئے چھوٹ دی جائے، بجٹ میں سیلز ٹیکس کو 17 فیصد سے کم کرکے9فیصدپر لایا جائے، بنکوں سے نقد رقوم نکلوانے پر ودہولڈنگ ٹیکس کا خاتمہ کیا جائے۔

 
Load Next Story