وفاقی بجٹ 202021ء …ملکی معیشت مستحکم ہوپائے گی
حکومت و بزنس کمیونٹی کے نمائندوں اور ماہرینِ معاشیات کا ’’ایکسپریس فورم اسلام آباد‘‘ میں اظہارِ خیال
وفاقی حکومت نے جمعہ کے روز 71 کھرب 37 ارب روپے حجم کا وفاقی بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کیا جو اس وقت ملک کے تمام حلقوں میں زیر بحث ہے۔
اس بجٹ میں عوام کوکیا اور کتنا ریلیف ملا؟ اس سے ملکی معیشت مستحکم ہوپائے گی؟ کاروبار کو ترقی ملے گی؟ یہ واقعی ٹیکس فری بجٹ ہے؟ اس کے طرح کے بیشتر سوالات کے جوابات جاننے اور وفاقی بجٹ 2020-21ء کا تفصیلی جائزہ لینے کیلئے ''ایکسپریس فورم اسلام آباد'' میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، بزنس کمیونٹی کے نمائندوں اور ماہرین معاشیات نے خصوصی شرکت کی۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
صداقت علی عباسی
( سینئر رہنما پاکستان تحریک انصاف)
کورونا وائرس کی اس مشکل ترین گھڑی میں آنے والے بجٹ میں عوام کو ہر ممکن ریلیف دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ کورونا وباء سے پہلے کے 9ماہ کی کارکر دگی کا جائزہ لیا جائے توتمام معاشی اشاریے مثبت تھے اور ملکی معیشت درست سمت پر گامز ن تھی۔ یہ ہم نہیں بلکہ دنیا کے ماہرین کہہ رہے تھے اور پاکستانی معیشت کی تعریف کر رہے تھے۔
یہ سب کو معلوم ہے کہ کورونا وائرس سے پہلے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور بجٹ کے خسارے کم ہو رہے تھے۔ ملکی ایکسپورٹ میں پہلی مرتبہ اضافہ ہوا تھا۔ اسی طرح بیرونی زرمبادلہ میں بھی موجودہ دور حکومت میں ہی اضافہ دیکھنے میں آیا اور اس کے ساتھ ساتھ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہوا۔ بدقسمتی سے کورونا وائرس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور یہ واضح بات ہے کہ اس کے منفی اثرات پاکستان پر بھی ہوئے ہیں۔ اس مشکل صورتحال میں بھی ہما ری معاشی ٹیم نے ٹارگٹ کو ریوائز کر کے ایک خاص حد تک محدود رکھا ہے۔
ہماری کوشش ہے کہ اس وباء سے پیدا ہونے والی غربت اور کاروبار کو ہونے والے نقصان کا ازالہ کیا جائے اور متاثرین کو ریلیف دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے متاثرہ انڈسٹریز کو مراعات دینے اور غرباء کی مدد کیلئے احساس پروگرام وغربت میں کمی کے دیگر پروگرامز کے بجٹ میں اضافہ کیا ہے اور ایک بھی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ اس کے علاوہ تعلیم اور صحت کے بجٹ میں بھی اضافہ کیاگیا ہے۔وزیراعظم عمران خان کے ویژن کے مطابق غیر ضروری حکومتی اخراجات میں کمی کی گئی ہے تاکہ اس رقم سے لوگوںکو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کیا جا سکے۔ قوم کیلئے ایک اور خوشخبری یہ ہے کہ مہنگائی کی جو شرح 14فیصد تک چلی گئی تھی، اس سال اسے 6.6فیصد تک لانے کی مکمل حکمت عملی تیار کر لی گئی ہے۔
نوشین جاوید امجد
(چیئرپرسن فیڈرل بورڈ آف ریونیو)
ملک میں کاروباری سرگرمیوں کے فروغ کیلئے ڈیوٹی و ٹیکسوں میں رعایت اور چھوٹ کیلئے مجموعی طور پر 45ارب کا ریلیف دیا گیا ہے جبکہ مقامی انڈسٹری کو فروغ دینے کیلئے اسٹیشنری ،پولیئسٹر یارن سمیت مجموعی طور پر اٹھارہ ٹیرف لائنز پر مشتمل 500 کے قریب اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھائی گئی ہے جس سے ایف بی آر کو ڈیڑھ ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہوسکے گا۔ 5 سے 10 کروڑ روپے کی خدمات دینے والے سپلائر اور ٹھیکیدار کو سیلز ٹیکس ود ہولڈنگ ایجنٹ بنا دیا گیا ہے۔ اسی طرح بجلی اور گیس سپلائی کے ادارے بھی اپنا ڈیٹا شیئر کریں گے۔
بجٹ میں قرآن پاک کی اشاعت کیلئے درآمدی کاغذ پر ڈیوٹیز ختم کر دی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ، کپڑوں اور جوتوں پرسیلز ٹیکس میں کمی کی گئی ہے۔ شادی ہالز ،فنکشنز ،کیبل آپریٹرز ،ڈیلرز اور کمیشن ایجنٹس پرایڈوانس ٹیکس ختم جبکہ تمباکو اور انشورنس پریمیم پر ایڈوانس ٹیکس بھی ختم کر دیا گیا ہے۔
مقامی موبائل مینو فیکچرنگ پر ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے۔ خریداری کیلئے شناختی کارڈ کی شرط 50 ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ کر دی گئی ہے ۔ تاریخ میں پہلی بار ایسا بجٹ لایا گیا جس میں کوئی ٹیکس نہیں لگا لہٰذا اس بجٹ سے عوام کی زندگی میں بہتری آئے گی۔ پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام میں ہے لہٰذاہم اس کے مالیاتی نظم وضبط کے پابند ہیں۔ حکومت نے سیلز ٹیکس کی شرح کم نہیں کی۔ ایف بی آر کی ٹیکس کولیکشن بڑھانے کیلئے ہم آٹومیشن کے طرف بڑھ رہے ہیں۔
اس سال کے اختتام تک مزید 15 پوائنٹ آف سیل رجسٹریشن کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔ مجموعی ہدف کا آدھا درآمدات سے حاصل ہوتا ہے لہٰذا اب ٹیکس نیٹ بڑھایا اور ٹیکس کا طریقہ کار آسان بنایا جائے گا۔ کنسٹرکشن کے شعبہ و سیمنٹ انڈسٹری کیلئے پیکیج دیا گیا ہے اور 1623 ٹیرف لائنز پر ڈیوٹی میں کمی کی گئی جس سے ایکسپورٹ انڈسٹری کے حالات بہتر ہوں گے۔ آئندہ بجٹ میں کاروبار آسان بنانے اور اس کی دستاویزی شکل کیلئے اقدامات کیے گئے ہیں۔ وزارت تجارت، خزانہ اور ٹریڈ باڈیز کی مشاورت سے فنانس بل تیار کیا گیا۔ کسٹم میں 25 ارب روپے کا ریلیف دیا گیا ہے۔ سیمنٹ پر ایکسائز ڈیوٹی میں کمی سے اس کی قیمت 20سے 25 روپے کم ہوجائے گی۔ کپڑے اور جوتوں کے سٹورز پر سیلز ٹیکس 14سے کم کر کے 12 فیصد کر دیا گیا۔
بیرون ملک سے ترسیلات بھجوانے پر ایڈوانس ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے جبکہ پراپرٹی پر گین ٹیکس پر ہولڈنگ پیریڈ 8سے کم کرکے 4سال کر دیا گیا۔ پنشن ،کیبل ،بچوں کی سکول فیس سمیت 10 ودہولڈنگ ٹیکس ختم کر دیئے گئے ہیں۔ مقامی سطح پر تیار کیے جانے والے موبائل پر 350ڈالرتک انکم ٹیکس صفر جبکہ سیلزٹیکس کم کر دیا گیا ہے۔ فیکٹری مالکان کو ضائع شدہ مال پر ٹیکس چھوٹ دے دی گئی ہے جبکہ ریڈی ٹو یوز سپلیمنٹری فوڈ پر بھی کسٹم ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے تاہم انرجی ڈرنکس اور ڈبل کیبن پک اپ گاڑیوں پر ٹیکس بڑھایا گیا ہے۔
ٹیکس گزاروں کے آڈٹ کے طریقہ کار میں بنیادی تبدیلیاں کی گئی ہیں جبکہ ٹیکس گزاروں اور ایف بی آر کے درمیان تنازعات کے حل کے لیے ٹیکس گزار کو مزید اختیارات دے دیے گئے لہٰذا اب ٹیکس گزار اب اپنا کیس واپس لے سکے گا۔ نادرا، ایف آئی اے اور صوبائی ٹیکس محکموں کے تعاون سے ٹیکس چوری کی رئیل ٹائم اطلاع حاصل کرنے کا اختیار ایف بی آر نے حاصل کر لیا ہے۔ اس کے علاوہ ود ہولڈنگ ٹیکس میں متعدد تبدیلیاں کر دی گئی ہیں اورسٹیل میلٹر اور کمپوزٹ یونٹس کے لیے انکم ٹیکس ود ہولڈنگ کے نئے قوانین بنا دیے گئے۔ علاوہ ازیں پنشن فنڈ کے تحت بقایاجات سے متعلق قانون میں تبدیلی کر دی گئی ہیں اور متعدد قسم کے خریداروں کے لیے کوکنگ آئل اور گھی کی خریداری پر ٹیکس کا نیا نظام نافذ کر دیا گیا ہے۔
محمد احمد وحید
(صدر اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)
موجودہ مشکل حالات میں حکومت نے ایک متوازن بجٹ پیش کیا ہے اور امید ہے کہ یہ بجٹ کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہو گا۔ حکومت نے مختلف صنعتوں کے 40قسم کے خام مال پر کسٹم ڈیوٹی کو کم کر دیا ہے اور 90ٹیرف لائنز پر کسٹم ڈیوٹی کو 11فیصد سے کم کر کے 3فیصد یا صفر کر دیا ہے جو کافی حوصلہ افراء بات ہے۔ حکومت نے متعدد انڈسٹریل اِن پٹس پر بھی ریگولیٹری ڈیوٹی کم کر دی ہے جس سے کاروبار ی لاگت کم ہو جائے گی۔ حکومت نے شناختی کارڈ کیلئے پچاس ہزار کی حد کو بڑھا کر ایک لاکھ کر دیا ہے جو مثبت ہے۔
سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو 2روپے فی کلو سے کم کر کے 1.75روپے فی کلو کر دیا گیا ہے جس سے سیمنٹ کی قیمت کم ہو گی اور تعمیراتی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔ حکومت نے ودہولڈنگ ٹیکس کانظام آسان بنانے کیلئے چند ترامیم تجویز کی ہیں، امید ہے ان سے کاروباری طبقے کوفائدہ ہو گا۔ یہ خوش آئند ہے کہ مشکل حالات کے باوجود حکومت نے اس بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا۔ پاکستان کو اس وقت برآمدات کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے تاکہ مشکلات کا شکار معیشت کو بحال کیا جا سکے لہٰذامیرامطالبہ ہے کہ برآمدات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں کیلئے مزید بہتر مراعات کا اعلان کیا جائے تاکہ برآمدات میں اضافہ ہو اور سرمایہ کاری کو فروغ ملے۔ مشکل حالات میں حکومت نے ایک بہتر بجٹ پیش کیا ہے، امید ہے اس میں بزنس کمیونٹی کی مزید تجاویز کو شامل کیا جائے گا۔
زاہد لطیف خان
(رہنما پاکستان سٹاک ایکسچینج اسلام آباد)
وفاقی حکومت نے ایک متوازن بجٹ پیش کیا ہے جسے عوام اور کاروبار دوست بجٹ کہا جاسکتا ہے۔ کورونا کی عالمی وباء کے دوران پیش کیے گئے بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایاگیا۔ حکومت کو سخت معاشی حالات میں بجٹ بنانا پڑا ہے۔ حکومتی اقدامات کا مرکز مالی ڈسپلن اور آئی ایم ایف کے ریونیو اہداف کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ بے روزگاری کو روکنا، معاشی نمو اور کورونا کا کنٹرول ہے۔ 7294 ارب روپے کے بجٹ میں ٹیکس کا ہدف 4963 ارب رکھا گیا ہے جبکہ نان ٹیکس ریونیو 1108 ارب روپے مختص کیا گیا ہے۔
سود اور قرضوں کی ادائیگی کی مد میں 2946 ارب رکھے گئے ہیں۔ دفاع کیلئے 1290 ارب مختص ہیں۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا ہے ۔ مجموعی خسارہ 3195 ارب کے قریب ہوگا۔ وفاقی ترقیاتی بجٹ 650ارب رکھا گیا ہے۔ پاکستان کی معیشت کی بنیادی کمزوریوں میں ٹیکسوں کی کمی، بچتوں کا فقدان اور برآمدات کی کمی ہے۔اس کے علاوہ حکومت کیلئے داخلی اور خارجی محاذ پر بہت سارے چیلنجز ہونگے۔ میرے نزدیک سب سے بڑا چیلنج آئی ایم ایف کے ریونیو اہداف کو پورا کرنا ہوگا جس کیلئے مالی ڈسپلن قائم رکھنا پڑے گا۔ ٹیکس اصلاحات کے ساتھ ساتھ ریونیو جنریشن اور معیشت کی دستاویزات بھی ایک چیلنج ہوگا تاہم کورونا سے انتہائی متاثرہ معیشت میں لیکویڈٹی، سرمایہ کاری اور بچت کو ترجیح دینا ہوگی۔ اس سال بھی معیشت دباؤ کا شکار رہے گی۔
اس وقت ملکی قرضوں کا بوجھ جی ڈی پی کا 88 فیصد ہے جو کہ آئینی طور پر 60 فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے تاہم معیشت کی کمزوری کی وجہ سے ایسا نہیں ہوسکا۔ حکومت نے آئندہ مالی سال 2020-21ء کے بجٹ میں حقیقی جی ڈی پی نمو کا ہدف 2.1 فیصد رکھا ہے جبکہ کورونا کی تباہی کی وجہ سے رواں سال 2019-20ء میں جی ڈی پی کی شرح نمو 0.38 فیصد رہی۔ مہنگائی کا ہدف پچھلے سال کے 6.5 فیصد کے مقابلے میں اوسطاََ 9 فیصد رہے گا۔ حکومت نے نئے مالی سال میں ترقیاتی بجٹ 701 ارب روپے سے کم کرکے 650 ارب روپے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 45 اداروں کی نجکاری کا پلان دیا گیا ہے۔
بجٹ تقریر کے مطابق صنعتیں اور کاروبار کورونا کی وجہ سے بند ہونے سے جی ڈی پی میں 2100 ارب کی کمی ہوئی۔ کورونا وائرس کی صورتحال میں خصوصی ترقیاتی بجٹ کی مد میں 70 ارب ، طبی آلات کی خریداری کیلئے 71 ارب، غریب خاندانوں کیلئے 150 ارب ، ایمرجنسی فنڈ کیلئے 100 ارب، آزاد جموں کشمیر کیلئے 55 ارب، گلگت بلتستان کے لیے 32ارب ،کے پی کے میں ضم اضلاع کیلئے 56 ارب ، سندھ کیلئے 19 ارب،بلوچستان کیلئے 10 ارب، توانائی اور خوراک کے شعبے میں 180 ارب ، ریلوے کیلئے 40 ارب روپے ، تعلیمی منصوبوں اور مدرسوں کا نصاب ضم کرنے اور ای سکولز کے قیام کیلئے 5 ارب ، آبی وسائل کیلئے مجموعی طور پر 69 ارب، زراعت اور ٹڈی دل کے خاتمے کیلئے 10 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
مہنگائی کی شرح ساڑھے 6 فیصد تک لائی جائے گی۔ قومی شناختی کارڈ کی فراہمی کی شرط کیلئے خریداری کی حد 50 ہزار روپے سے بڑھا کر 1 لاکھ روپے کر دی گئی ہے۔ درآمدی سگریٹ کی شرح 65 فیصد سے بڑھا کر 100 فیصد کر دی گئی ہے۔ موجودہ حالات میں اسی قسم کے بجٹ کی توقع تھی۔ امید ہے کورونا کی وباء سے چھٹکارہ پاتے ہی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہوجائے گی۔
عبدالوحید شیخ
( سابق نائب صدر فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری )
وفاقی بجٹ، معیشت اور صنعت دوست بجٹ ہے جس سے یقیناانڈسٹری کو فروغ ملے گا۔ حکومت نے کورونا سے پیدا ہونیوالی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے مقامی انڈسٹری کوٹیکسوں میں زیادہ مراعات دی ہیں اور مینو فیکچرنگ سیکٹر پر توجہ دی ہے جو خوش آئند ہے۔اسی طرح خام مال کی درآمد پر ڈیوٹی و ٹیکسوں میں بھی رعایت دی گئی ہے جو بہتر اقدام ہے تاہم اگر حکومت نے اس بجٹ میں پیچیدہ قسم کے اقدامات اٹھائے ہیں تو وہ اگلے چند دن میں سامنے آجائیں گے البتہ مجموعی طور پر یہ بجٹ ٹھیک ہے۔
اس سے اقتصادی سرگرمیاں تیز ہوں گی اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوںگے۔میرے نزدیک اس بجٹ کے بعد اب حکومت کو سرمایہ کاری کیلئے ماحول کو سازگاربنانا ہوگا اور غیر یقینی کی صورتحال کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ حکومت نے بجٹ میں سٹیل میلٹرز اور کمپوزٹ یونٹس پر ودہولڈنگ ٹیکس کی چھوٹ دینے اور مقامی پیدا شدہ خوردنی تیل پر ودہولڈنگ ٹیکس ختم کرنے کی تجویز دی ہے، اس سے یقینی طور پر اسٹیل انڈسٹری اور کوکنگ آئل و گھی انڈسٹریز کو فروغ ملے گا اور گھی و کوکنگ آئل کی قیمتوں میں کمی بھی آئے گی جو عوام کیلئے بڑا ریلیف ہوگا۔
اسٹیل انڈسٹری کا تعمیراتی شعبے میں اہم کردار ہے لہٰذا جب اسٹیل کی قیمتوں میں کمی آئے گی تو تعمیراتی اخراجات بھی کم ہوجائیں گے۔ بیرون ملک تعلیمی اخراجات بھیجنے کے لیے ودہولڈنگ ٹیکس کو ختم کیا جا رہا ہے۔اسی طرح فارن رمیٹنس کیش نکالنے پر ودہولڈنگ ٹیکس کی چھوٹ کی تجویز بھی دی گئی ہے، اس سے بھی معیشت پر اچھے اثرات مرتب ہونگے۔ میرے نزدیک سمال اینڈ میڈیم انٹر پرائزز کو زیادہ فوکس کرنا چاہیے تھا اور اس کے ساتھ برآمدات بڑھانے کیلئے غیر روایتی اشیاء کی ایکسپورٹ پر بھی توجہ دینی چاہیے تھی۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ حکومت نے مشکل ترین حالات میں بہتر بجٹ پیش کرنے کی کوشش کی ہے البتہ اس میں زیادہ توجہ نان ٹیکس ریونیو پر دی گئی ہے جس کیلئے قوانین میں ترامیم کی تجویز بھی دی گئی ہے لہٰذا اب دیکھنا یہ ہے کہ ا س کے اثرات کیا ہوں گے۔
سید توقیر بخاری
( سابق صدر راولپنڈی اسلام آباد ٹیکس بار ایسوسی ایشن)
فنانس بل 2020-21 ء میں جہاں اچھی بجٹ تجاویز دی گئی ہیں وہاں کچھ ایسی تجاویز بھی ہیں جن سے کرپشن بڑھنے کا اندیشہ ہے لہٰذا ایسے اقدامات سے اجتناب کرنا چاہیے جن سے کرپشن کا اندیشہ ہو۔ اس بجٹ میں ایک نیاانکم ٹیکس سیکشن متعارف کرایا جارہا ہے جس کے تحت انکم ٹیکس کے افسران اور ٹیکس گزار متفقہ اسیسمنٹ کروا سکیں گے اور یہ بات ناقابل فہم ہے کہ ایک طرف ٹیکس گزار اور ٹیکس افسر کے رابطے کو کم سے کم کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف ''agreed assessment'' کا نظام رائج کیا جا رہا ہے جس میں انکم ٹیکس کے افسران ٹیکس گزار کو بتائیں گے کہ تمہارا ٹیکس100 روپیہ بنتا ہے اگر تم پچاس روپے یا 20 روپے جمع کرانے کے لیے تیار ہو تو ہم ''ایگریڈاسیسمنٹ'' کر دیتے ہیں۔
دوسری طرف اپلیٹ ٹربیونل میں اپیل فائل کرنے کے لیے نیا قانون متعارف کرایا جارہا ہے جس کے مطابق کمشنر اپیل کے فیصلے کے بعد کمشنر اپیل جو ٹیکس کنفرم کر دے گا اس کا دس فیصد جمع کروا کر ٹربیونل میں اپیل جمع کروائی جاسکے گی۔ اس میں اگر کسی ٹیکس گزار کا غلط آڈر پاس ہو جائے گا اور کمشنر اپیل بھی اس کو کنفرم کر دے گا تو ٹیکس گزار کے پاس کوئی راستہ نہ ہوگا، سوائے یہ کہ وہ دس فیصد ٹیکس جمع کروائے اور اپیل دائر کرے لہٰذااس اقدام سے انصاف سستا نہیں بلکہ مہنگا ہوتا نظر آرہا ہے۔ اس ضمن میں سپریم کورٹ آف پاکستان اور ہائی کورٹ کے مختلف فیصلے موجود ہیں کہ ایپلیٹ ٹربیونل کے فیصلے تک ایف بی آر کا ٹیکس ریکوری کرنا ناجائز ہے۔
انکم ٹیکس کے ایک اور قانون میں ترمیم کی جا رہی ہے کہ اگر کوئی ٹیکس گزار ایسے شخص کو فروخت کرے گا جو سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ نہ ہوگا تو اس کے جو اخراجات آئیں گے ان کی ایڈجسٹمنٹ نہیں ملے گی بلکہ انہیں انکم میں شامل کر دیا جائے گا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں کو سیلز ٹیکس میں رجسٹر کرنا حکومت وقت کا کام ہے لہٰذااگر لوگ سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ نہیں ہوتے تو اس کی سزا دوسرے کاروباری لوگوں کو کیوں دی جارہی ہے؟ اس ترمیم سے کاروباری شخص کے لیے کاروبار کرنا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔
بعض ترامیم ایسی ہیں جو کاروباری طبقے کے لیے خوش آئند ہیں اور وقت کی ضرورت بھی ہیں۔ان میں سٹیل میلٹرز اور کمپوزٹ یونٹس ،پنشن فنڈ پر ودہولڈنگ ٹیکس کی چھوٹ، مقامی سطح پر پیدا شدہ خوردنی تیل پر ودہولڈنگ ٹیکس ختم کرنے کی تجویز، فنکشن، کیبل آپریٹرز ، الیکٹرانک میڈیا، آڑھتی،کمیشن ایجنٹ ، ڈیلر،انشورنس پریمیم پر لوڈنگ ٹیکس ختم کرنے کی تجویز، انکم ٹیکس ود ہولڈ کرنے والے افراد کی تھریش ہولڈ حد کو پانچ کروڑ سے بڑھا کر دس کروڑ کرنے کی تجویز،جائیداد پر کیپٹل گین کی مدت چار سال کرنے کی تجویز، فارن رمیٹنس کیش نکلوالنے پر ودہولڈنگ ٹیکس کی چھوٹ ،نیلامی کے ذریعے خریدی گئی جائیداد پر ایڈوانس ٹیکس اقساط میں دینے کی تجویز و دیگر شامل ہیں۔
اس کے علاوہ ایک انتہائی اچھی ترمیم کی جا رہی ہے کہ ٹیکس گزار کو ایگزامشن سرٹیفکیٹ 15 دن میں جاری کرنے کے حکم جاری کیا جائے گا اور اگر پندرہ دن گزرنے کے بعد ٹیکس افسران نے سرٹیفکیٹ جاری نہ کیا تو تصور کیا جائے گا کہ سرٹیفکیٹ جاری ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ امپورٹ پر ایڈوانس ٹیکس کے نظام کو بھی درست کرنے کی تجویز قابل تحسین ہے ۔ الیکٹرانک آڈٹ کا نظام متعارف کروایا جا رہا ہے جو کہ انتہائی خوش آئند ہے اس سے ٹیکس گزار اور ٹیکس افسران کا رابطہ کم سے کم ہوگا اور ٹیکس گزاروں کو بھی ریکارڈ جمع کرانے کی سہولت ہوگی۔
اس کے علاوہ کنسٹرکشن کے بزنس کو انڈسٹری کا درجہ دینا اور بلڈرز، ڈویلپرز و کنٹریکٹرز کے لئے جو آرڈیننس جاری کیا گیا تھا اس کو ایکٹ کا حصہ بنانے کی تجویز دی گئی ہے جس کے لیے مجوزہ قوانین اور رولز بنائے جائیں گئے ، اس سے نہ صرف کنسٹرکشن کے کاروبار کو فروغ ملے گا بلکہ اس کے ساتھ ملحقہ دوسری انڈسٹری بھی چلے گی۔
سیلز ٹیکس میں رٹیلرز کے لیے شناختی کارڈ کی حد 50 ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ کرنے اور جو رٹیلرز ایف بی آر کے ساتھ آن لائن انٹی گریٹڈ ہیں یا ہوں گے ان کے لیے سیلز ٹیکس کی شرح 14 فیصد سے کم کرکے 12 فیصد کرنے کی تجویز خوش آئند ہے۔ مصالحتی کمیٹیوں کو فعال بنانے کے لئے قانون میں ترمیم تجویز کی گئی ہے تاکہ عدالتوں کی بجائے ٹیکس گزار کی درخواست پر ٹیکس کیسز کے فیصلے مصالحتی کمیٹیوں کے ذریعے کیے جائیں ۔ اس سے نہ صرف عدالتوں پر غیر ضروری بوجھ کم ہوگا بلکہ ریوینیو بھی جلد حاصل ہوسکے گا ۔
اجمل بلوچ
(صدر آل پاکستان انجمن تاجران)
بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس تو نہیں لگایا گیا ہے تاہم کورونا وائرس سے متاثرہ کاروباری طبقہ بجٹ میں جس ریلیف پیکیج کا انتظار کر رہا تھا وہ سامنے نہیں آیا۔ تاجر کیلئے اس وقت اپنے گھر کے اخراجات دوکان کا کرایہ اور چند ملازمین کی تنخواہ پوری کرناانتہائی مشکل ہوگیا ہے۔
حکومت کو چاہیے تھا کہ کاروباری طبقے کے لیے فوری طور پر امدادی پیکیج کا اعلان کرتی مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ اس سے معیشت کو بہت نقصان ہوگا۔ اگر حکومت معاشی ترقی چاہتی ہے تو کاروباری طبقے کے لیے بلا سود قرضے دینے کے احکامات جاری کرے۔اس سے نہ صرف معاشی پہیہ چلے گا بلکہ حکومت کو ٹیکس بھی حاصل ہوگا۔ مشکل حالات میں کاروباری طبقے کو شناختی کارڈ کی شرط سمیت آئی ایم ایف کی تمام شرائط سے چھٹکارہ دلوا کر آزاد تجارت کا موقع فراہم کیا جائے ، یہ نہ صرف تاجروں بلکہ ملک کیلئے بھی بہتر ہوگا۔
زراعت اور چھوٹی انڈسٹری کے لئے بھی لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے تاکہ عام کاروباری شخص بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔ معاشی ترقی کیلئے ملکی اخراجات میں کمی کرنا بہت ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ایسے ادارے جو خسارے میں ہیں، انہیں جلد از جلد منافع بخش بنایا جائے تاکہ خزانے پر بوجھ کم ہوسکے۔
کاشف چوہدری
(صدر مرکزی تنظیم تاجران پاکستان)
ٹیکس فری نامی بجٹ میں تاجر برادری کوکوئی ریلیف پیکیج نہیں دیا گیا۔ یہ غیر حقیق بجٹ ہے جس میں صنعت و تجارت کی ترقی اورزراعت کے فروغ کیلئے عملی طور پر کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ حکومت کو چاہیے کہ تعمیراتی شعبے کی طرز پر تمام کاروباروں میں سرمایہ کاری کیلئے چھوٹ دی جائے۔
بجٹ میں سیلز ٹیکس کو 17 فیصد سے کم کرکے9فیصدپر لایا جائے۔ بنکوں سے نقد رقوم نکلوانے پر ودہولڈنگ ٹیکس کا خاتمہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ آٹا،چینی و دیگر اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی کیلئے سیلز ٹیکس ختم جبکہ انکم ٹیکس و دیگر تمام ٹیکسز کی شرح کو کم ازکم 50 فیصد کیا جائے۔ کاٹیج انڈسٹری کو سیلز ٹیکس سے استثنیٰ قرار دے کر خصوصی مراعات دی جائیں۔ جیولری ،موبائل فون اور آٹوانڈسٹری کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کیے جائیں۔ شرح سود مزید کم کر کے 4 فیصد کی جائے اور تاجروں کوکاروباری ضمانت پر 5 لاکھ تا 5 کروڑ تک بلا سود قرضے دیے جائیں۔ پٹرولیم مصنوعات و بجلی کی قیمتوں کو مزید کم کیا جائے۔ایکسپورٹ میں اضافے کیلئے زیرو ریٹڈ سیکٹر کو بحال کیا جائے۔ چھوٹے تاجروں کے لیے قابل عمل فکسڈ ٹیکس اسکیم کا اجرا کیا جائے۔
انکم ٹیکس آمدن کی حد4 لاکھ روپے سے بڑھا کر 12 لاکھ روپے سالانہ کی جائے۔ ڈسٹری بیوٹرز اور ہول سیلرز کا ٹرن اوور ٹیکس 0.25 فیصد کیا جائے۔اِنکم ٹیکس رجسٹریشن کا فارم آسان و سادہ کیاجائے۔ کورونا وائرس کے مشکل حالات میں پوائنٹ آف سیلز لگانے کی پالیسی پر نظرثانی کی جائے۔سیلز ٹیکس میں لازمی رجسٹریشن کے قانون کا خاتمہ کیا جائے اورآڑھتیوں کی سالانہ لائسنس فیس کو بھی ختم کیا جائے۔ بجٹ اقدامات سے محسوس ہوتا ہے کہ تجارت و زراعت حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی پالیسی سامنے آئی ہے۔ ادویات و دیگر صنعتوں اور متعدد اشیاء کے خام مال پر ٹیکسز میں چھوٹ کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
اس بجٹ میں عوام کوکیا اور کتنا ریلیف ملا؟ اس سے ملکی معیشت مستحکم ہوپائے گی؟ کاروبار کو ترقی ملے گی؟ یہ واقعی ٹیکس فری بجٹ ہے؟ اس کے طرح کے بیشتر سوالات کے جوابات جاننے اور وفاقی بجٹ 2020-21ء کا تفصیلی جائزہ لینے کیلئے ''ایکسپریس فورم اسلام آباد'' میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، بزنس کمیونٹی کے نمائندوں اور ماہرین معاشیات نے خصوصی شرکت کی۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
صداقت علی عباسی
( سینئر رہنما پاکستان تحریک انصاف)
کورونا وائرس کی اس مشکل ترین گھڑی میں آنے والے بجٹ میں عوام کو ہر ممکن ریلیف دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ کورونا وباء سے پہلے کے 9ماہ کی کارکر دگی کا جائزہ لیا جائے توتمام معاشی اشاریے مثبت تھے اور ملکی معیشت درست سمت پر گامز ن تھی۔ یہ ہم نہیں بلکہ دنیا کے ماہرین کہہ رہے تھے اور پاکستانی معیشت کی تعریف کر رہے تھے۔
یہ سب کو معلوم ہے کہ کورونا وائرس سے پہلے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور بجٹ کے خسارے کم ہو رہے تھے۔ ملکی ایکسپورٹ میں پہلی مرتبہ اضافہ ہوا تھا۔ اسی طرح بیرونی زرمبادلہ میں بھی موجودہ دور حکومت میں ہی اضافہ دیکھنے میں آیا اور اس کے ساتھ ساتھ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہوا۔ بدقسمتی سے کورونا وائرس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور یہ واضح بات ہے کہ اس کے منفی اثرات پاکستان پر بھی ہوئے ہیں۔ اس مشکل صورتحال میں بھی ہما ری معاشی ٹیم نے ٹارگٹ کو ریوائز کر کے ایک خاص حد تک محدود رکھا ہے۔
ہماری کوشش ہے کہ اس وباء سے پیدا ہونے والی غربت اور کاروبار کو ہونے والے نقصان کا ازالہ کیا جائے اور متاثرین کو ریلیف دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے متاثرہ انڈسٹریز کو مراعات دینے اور غرباء کی مدد کیلئے احساس پروگرام وغربت میں کمی کے دیگر پروگرامز کے بجٹ میں اضافہ کیا ہے اور ایک بھی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ اس کے علاوہ تعلیم اور صحت کے بجٹ میں بھی اضافہ کیاگیا ہے۔وزیراعظم عمران خان کے ویژن کے مطابق غیر ضروری حکومتی اخراجات میں کمی کی گئی ہے تاکہ اس رقم سے لوگوںکو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کیا جا سکے۔ قوم کیلئے ایک اور خوشخبری یہ ہے کہ مہنگائی کی جو شرح 14فیصد تک چلی گئی تھی، اس سال اسے 6.6فیصد تک لانے کی مکمل حکمت عملی تیار کر لی گئی ہے۔
نوشین جاوید امجد
(چیئرپرسن فیڈرل بورڈ آف ریونیو)
ملک میں کاروباری سرگرمیوں کے فروغ کیلئے ڈیوٹی و ٹیکسوں میں رعایت اور چھوٹ کیلئے مجموعی طور پر 45ارب کا ریلیف دیا گیا ہے جبکہ مقامی انڈسٹری کو فروغ دینے کیلئے اسٹیشنری ،پولیئسٹر یارن سمیت مجموعی طور پر اٹھارہ ٹیرف لائنز پر مشتمل 500 کے قریب اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھائی گئی ہے جس سے ایف بی آر کو ڈیڑھ ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہوسکے گا۔ 5 سے 10 کروڑ روپے کی خدمات دینے والے سپلائر اور ٹھیکیدار کو سیلز ٹیکس ود ہولڈنگ ایجنٹ بنا دیا گیا ہے۔ اسی طرح بجلی اور گیس سپلائی کے ادارے بھی اپنا ڈیٹا شیئر کریں گے۔
بجٹ میں قرآن پاک کی اشاعت کیلئے درآمدی کاغذ پر ڈیوٹیز ختم کر دی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ، کپڑوں اور جوتوں پرسیلز ٹیکس میں کمی کی گئی ہے۔ شادی ہالز ،فنکشنز ،کیبل آپریٹرز ،ڈیلرز اور کمیشن ایجنٹس پرایڈوانس ٹیکس ختم جبکہ تمباکو اور انشورنس پریمیم پر ایڈوانس ٹیکس بھی ختم کر دیا گیا ہے۔
مقامی موبائل مینو فیکچرنگ پر ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے۔ خریداری کیلئے شناختی کارڈ کی شرط 50 ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ کر دی گئی ہے ۔ تاریخ میں پہلی بار ایسا بجٹ لایا گیا جس میں کوئی ٹیکس نہیں لگا لہٰذا اس بجٹ سے عوام کی زندگی میں بہتری آئے گی۔ پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام میں ہے لہٰذاہم اس کے مالیاتی نظم وضبط کے پابند ہیں۔ حکومت نے سیلز ٹیکس کی شرح کم نہیں کی۔ ایف بی آر کی ٹیکس کولیکشن بڑھانے کیلئے ہم آٹومیشن کے طرف بڑھ رہے ہیں۔
اس سال کے اختتام تک مزید 15 پوائنٹ آف سیل رجسٹریشن کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔ مجموعی ہدف کا آدھا درآمدات سے حاصل ہوتا ہے لہٰذا اب ٹیکس نیٹ بڑھایا اور ٹیکس کا طریقہ کار آسان بنایا جائے گا۔ کنسٹرکشن کے شعبہ و سیمنٹ انڈسٹری کیلئے پیکیج دیا گیا ہے اور 1623 ٹیرف لائنز پر ڈیوٹی میں کمی کی گئی جس سے ایکسپورٹ انڈسٹری کے حالات بہتر ہوں گے۔ آئندہ بجٹ میں کاروبار آسان بنانے اور اس کی دستاویزی شکل کیلئے اقدامات کیے گئے ہیں۔ وزارت تجارت، خزانہ اور ٹریڈ باڈیز کی مشاورت سے فنانس بل تیار کیا گیا۔ کسٹم میں 25 ارب روپے کا ریلیف دیا گیا ہے۔ سیمنٹ پر ایکسائز ڈیوٹی میں کمی سے اس کی قیمت 20سے 25 روپے کم ہوجائے گی۔ کپڑے اور جوتوں کے سٹورز پر سیلز ٹیکس 14سے کم کر کے 12 فیصد کر دیا گیا۔
بیرون ملک سے ترسیلات بھجوانے پر ایڈوانس ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے جبکہ پراپرٹی پر گین ٹیکس پر ہولڈنگ پیریڈ 8سے کم کرکے 4سال کر دیا گیا۔ پنشن ،کیبل ،بچوں کی سکول فیس سمیت 10 ودہولڈنگ ٹیکس ختم کر دیئے گئے ہیں۔ مقامی سطح پر تیار کیے جانے والے موبائل پر 350ڈالرتک انکم ٹیکس صفر جبکہ سیلزٹیکس کم کر دیا گیا ہے۔ فیکٹری مالکان کو ضائع شدہ مال پر ٹیکس چھوٹ دے دی گئی ہے جبکہ ریڈی ٹو یوز سپلیمنٹری فوڈ پر بھی کسٹم ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے تاہم انرجی ڈرنکس اور ڈبل کیبن پک اپ گاڑیوں پر ٹیکس بڑھایا گیا ہے۔
ٹیکس گزاروں کے آڈٹ کے طریقہ کار میں بنیادی تبدیلیاں کی گئی ہیں جبکہ ٹیکس گزاروں اور ایف بی آر کے درمیان تنازعات کے حل کے لیے ٹیکس گزار کو مزید اختیارات دے دیے گئے لہٰذا اب ٹیکس گزار اب اپنا کیس واپس لے سکے گا۔ نادرا، ایف آئی اے اور صوبائی ٹیکس محکموں کے تعاون سے ٹیکس چوری کی رئیل ٹائم اطلاع حاصل کرنے کا اختیار ایف بی آر نے حاصل کر لیا ہے۔ اس کے علاوہ ود ہولڈنگ ٹیکس میں متعدد تبدیلیاں کر دی گئی ہیں اورسٹیل میلٹر اور کمپوزٹ یونٹس کے لیے انکم ٹیکس ود ہولڈنگ کے نئے قوانین بنا دیے گئے۔ علاوہ ازیں پنشن فنڈ کے تحت بقایاجات سے متعلق قانون میں تبدیلی کر دی گئی ہیں اور متعدد قسم کے خریداروں کے لیے کوکنگ آئل اور گھی کی خریداری پر ٹیکس کا نیا نظام نافذ کر دیا گیا ہے۔
محمد احمد وحید
(صدر اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)
موجودہ مشکل حالات میں حکومت نے ایک متوازن بجٹ پیش کیا ہے اور امید ہے کہ یہ بجٹ کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہو گا۔ حکومت نے مختلف صنعتوں کے 40قسم کے خام مال پر کسٹم ڈیوٹی کو کم کر دیا ہے اور 90ٹیرف لائنز پر کسٹم ڈیوٹی کو 11فیصد سے کم کر کے 3فیصد یا صفر کر دیا ہے جو کافی حوصلہ افراء بات ہے۔ حکومت نے متعدد انڈسٹریل اِن پٹس پر بھی ریگولیٹری ڈیوٹی کم کر دی ہے جس سے کاروبار ی لاگت کم ہو جائے گی۔ حکومت نے شناختی کارڈ کیلئے پچاس ہزار کی حد کو بڑھا کر ایک لاکھ کر دیا ہے جو مثبت ہے۔
سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو 2روپے فی کلو سے کم کر کے 1.75روپے فی کلو کر دیا گیا ہے جس سے سیمنٹ کی قیمت کم ہو گی اور تعمیراتی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔ حکومت نے ودہولڈنگ ٹیکس کانظام آسان بنانے کیلئے چند ترامیم تجویز کی ہیں، امید ہے ان سے کاروباری طبقے کوفائدہ ہو گا۔ یہ خوش آئند ہے کہ مشکل حالات کے باوجود حکومت نے اس بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا۔ پاکستان کو اس وقت برآمدات کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے تاکہ مشکلات کا شکار معیشت کو بحال کیا جا سکے لہٰذامیرامطالبہ ہے کہ برآمدات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں کیلئے مزید بہتر مراعات کا اعلان کیا جائے تاکہ برآمدات میں اضافہ ہو اور سرمایہ کاری کو فروغ ملے۔ مشکل حالات میں حکومت نے ایک بہتر بجٹ پیش کیا ہے، امید ہے اس میں بزنس کمیونٹی کی مزید تجاویز کو شامل کیا جائے گا۔
زاہد لطیف خان
(رہنما پاکستان سٹاک ایکسچینج اسلام آباد)
وفاقی حکومت نے ایک متوازن بجٹ پیش کیا ہے جسے عوام اور کاروبار دوست بجٹ کہا جاسکتا ہے۔ کورونا کی عالمی وباء کے دوران پیش کیے گئے بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایاگیا۔ حکومت کو سخت معاشی حالات میں بجٹ بنانا پڑا ہے۔ حکومتی اقدامات کا مرکز مالی ڈسپلن اور آئی ایم ایف کے ریونیو اہداف کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ بے روزگاری کو روکنا، معاشی نمو اور کورونا کا کنٹرول ہے۔ 7294 ارب روپے کے بجٹ میں ٹیکس کا ہدف 4963 ارب رکھا گیا ہے جبکہ نان ٹیکس ریونیو 1108 ارب روپے مختص کیا گیا ہے۔
سود اور قرضوں کی ادائیگی کی مد میں 2946 ارب رکھے گئے ہیں۔ دفاع کیلئے 1290 ارب مختص ہیں۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا ہے ۔ مجموعی خسارہ 3195 ارب کے قریب ہوگا۔ وفاقی ترقیاتی بجٹ 650ارب رکھا گیا ہے۔ پاکستان کی معیشت کی بنیادی کمزوریوں میں ٹیکسوں کی کمی، بچتوں کا فقدان اور برآمدات کی کمی ہے۔اس کے علاوہ حکومت کیلئے داخلی اور خارجی محاذ پر بہت سارے چیلنجز ہونگے۔ میرے نزدیک سب سے بڑا چیلنج آئی ایم ایف کے ریونیو اہداف کو پورا کرنا ہوگا جس کیلئے مالی ڈسپلن قائم رکھنا پڑے گا۔ ٹیکس اصلاحات کے ساتھ ساتھ ریونیو جنریشن اور معیشت کی دستاویزات بھی ایک چیلنج ہوگا تاہم کورونا سے انتہائی متاثرہ معیشت میں لیکویڈٹی، سرمایہ کاری اور بچت کو ترجیح دینا ہوگی۔ اس سال بھی معیشت دباؤ کا شکار رہے گی۔
اس وقت ملکی قرضوں کا بوجھ جی ڈی پی کا 88 فیصد ہے جو کہ آئینی طور پر 60 فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے تاہم معیشت کی کمزوری کی وجہ سے ایسا نہیں ہوسکا۔ حکومت نے آئندہ مالی سال 2020-21ء کے بجٹ میں حقیقی جی ڈی پی نمو کا ہدف 2.1 فیصد رکھا ہے جبکہ کورونا کی تباہی کی وجہ سے رواں سال 2019-20ء میں جی ڈی پی کی شرح نمو 0.38 فیصد رہی۔ مہنگائی کا ہدف پچھلے سال کے 6.5 فیصد کے مقابلے میں اوسطاََ 9 فیصد رہے گا۔ حکومت نے نئے مالی سال میں ترقیاتی بجٹ 701 ارب روپے سے کم کرکے 650 ارب روپے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 45 اداروں کی نجکاری کا پلان دیا گیا ہے۔
بجٹ تقریر کے مطابق صنعتیں اور کاروبار کورونا کی وجہ سے بند ہونے سے جی ڈی پی میں 2100 ارب کی کمی ہوئی۔ کورونا وائرس کی صورتحال میں خصوصی ترقیاتی بجٹ کی مد میں 70 ارب ، طبی آلات کی خریداری کیلئے 71 ارب، غریب خاندانوں کیلئے 150 ارب ، ایمرجنسی فنڈ کیلئے 100 ارب، آزاد جموں کشمیر کیلئے 55 ارب، گلگت بلتستان کے لیے 32ارب ،کے پی کے میں ضم اضلاع کیلئے 56 ارب ، سندھ کیلئے 19 ارب،بلوچستان کیلئے 10 ارب، توانائی اور خوراک کے شعبے میں 180 ارب ، ریلوے کیلئے 40 ارب روپے ، تعلیمی منصوبوں اور مدرسوں کا نصاب ضم کرنے اور ای سکولز کے قیام کیلئے 5 ارب ، آبی وسائل کیلئے مجموعی طور پر 69 ارب، زراعت اور ٹڈی دل کے خاتمے کیلئے 10 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
مہنگائی کی شرح ساڑھے 6 فیصد تک لائی جائے گی۔ قومی شناختی کارڈ کی فراہمی کی شرط کیلئے خریداری کی حد 50 ہزار روپے سے بڑھا کر 1 لاکھ روپے کر دی گئی ہے۔ درآمدی سگریٹ کی شرح 65 فیصد سے بڑھا کر 100 فیصد کر دی گئی ہے۔ موجودہ حالات میں اسی قسم کے بجٹ کی توقع تھی۔ امید ہے کورونا کی وباء سے چھٹکارہ پاتے ہی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہوجائے گی۔
عبدالوحید شیخ
( سابق نائب صدر فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری )
وفاقی بجٹ، معیشت اور صنعت دوست بجٹ ہے جس سے یقیناانڈسٹری کو فروغ ملے گا۔ حکومت نے کورونا سے پیدا ہونیوالی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے مقامی انڈسٹری کوٹیکسوں میں زیادہ مراعات دی ہیں اور مینو فیکچرنگ سیکٹر پر توجہ دی ہے جو خوش آئند ہے۔اسی طرح خام مال کی درآمد پر ڈیوٹی و ٹیکسوں میں بھی رعایت دی گئی ہے جو بہتر اقدام ہے تاہم اگر حکومت نے اس بجٹ میں پیچیدہ قسم کے اقدامات اٹھائے ہیں تو وہ اگلے چند دن میں سامنے آجائیں گے البتہ مجموعی طور پر یہ بجٹ ٹھیک ہے۔
اس سے اقتصادی سرگرمیاں تیز ہوں گی اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوںگے۔میرے نزدیک اس بجٹ کے بعد اب حکومت کو سرمایہ کاری کیلئے ماحول کو سازگاربنانا ہوگا اور غیر یقینی کی صورتحال کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ حکومت نے بجٹ میں سٹیل میلٹرز اور کمپوزٹ یونٹس پر ودہولڈنگ ٹیکس کی چھوٹ دینے اور مقامی پیدا شدہ خوردنی تیل پر ودہولڈنگ ٹیکس ختم کرنے کی تجویز دی ہے، اس سے یقینی طور پر اسٹیل انڈسٹری اور کوکنگ آئل و گھی انڈسٹریز کو فروغ ملے گا اور گھی و کوکنگ آئل کی قیمتوں میں کمی بھی آئے گی جو عوام کیلئے بڑا ریلیف ہوگا۔
اسٹیل انڈسٹری کا تعمیراتی شعبے میں اہم کردار ہے لہٰذا جب اسٹیل کی قیمتوں میں کمی آئے گی تو تعمیراتی اخراجات بھی کم ہوجائیں گے۔ بیرون ملک تعلیمی اخراجات بھیجنے کے لیے ودہولڈنگ ٹیکس کو ختم کیا جا رہا ہے۔اسی طرح فارن رمیٹنس کیش نکالنے پر ودہولڈنگ ٹیکس کی چھوٹ کی تجویز بھی دی گئی ہے، اس سے بھی معیشت پر اچھے اثرات مرتب ہونگے۔ میرے نزدیک سمال اینڈ میڈیم انٹر پرائزز کو زیادہ فوکس کرنا چاہیے تھا اور اس کے ساتھ برآمدات بڑھانے کیلئے غیر روایتی اشیاء کی ایکسپورٹ پر بھی توجہ دینی چاہیے تھی۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ حکومت نے مشکل ترین حالات میں بہتر بجٹ پیش کرنے کی کوشش کی ہے البتہ اس میں زیادہ توجہ نان ٹیکس ریونیو پر دی گئی ہے جس کیلئے قوانین میں ترامیم کی تجویز بھی دی گئی ہے لہٰذا اب دیکھنا یہ ہے کہ ا س کے اثرات کیا ہوں گے۔
سید توقیر بخاری
( سابق صدر راولپنڈی اسلام آباد ٹیکس بار ایسوسی ایشن)
فنانس بل 2020-21 ء میں جہاں اچھی بجٹ تجاویز دی گئی ہیں وہاں کچھ ایسی تجاویز بھی ہیں جن سے کرپشن بڑھنے کا اندیشہ ہے لہٰذا ایسے اقدامات سے اجتناب کرنا چاہیے جن سے کرپشن کا اندیشہ ہو۔ اس بجٹ میں ایک نیاانکم ٹیکس سیکشن متعارف کرایا جارہا ہے جس کے تحت انکم ٹیکس کے افسران اور ٹیکس گزار متفقہ اسیسمنٹ کروا سکیں گے اور یہ بات ناقابل فہم ہے کہ ایک طرف ٹیکس گزار اور ٹیکس افسر کے رابطے کو کم سے کم کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف ''agreed assessment'' کا نظام رائج کیا جا رہا ہے جس میں انکم ٹیکس کے افسران ٹیکس گزار کو بتائیں گے کہ تمہارا ٹیکس100 روپیہ بنتا ہے اگر تم پچاس روپے یا 20 روپے جمع کرانے کے لیے تیار ہو تو ہم ''ایگریڈاسیسمنٹ'' کر دیتے ہیں۔
دوسری طرف اپلیٹ ٹربیونل میں اپیل فائل کرنے کے لیے نیا قانون متعارف کرایا جارہا ہے جس کے مطابق کمشنر اپیل کے فیصلے کے بعد کمشنر اپیل جو ٹیکس کنفرم کر دے گا اس کا دس فیصد جمع کروا کر ٹربیونل میں اپیل جمع کروائی جاسکے گی۔ اس میں اگر کسی ٹیکس گزار کا غلط آڈر پاس ہو جائے گا اور کمشنر اپیل بھی اس کو کنفرم کر دے گا تو ٹیکس گزار کے پاس کوئی راستہ نہ ہوگا، سوائے یہ کہ وہ دس فیصد ٹیکس جمع کروائے اور اپیل دائر کرے لہٰذااس اقدام سے انصاف سستا نہیں بلکہ مہنگا ہوتا نظر آرہا ہے۔ اس ضمن میں سپریم کورٹ آف پاکستان اور ہائی کورٹ کے مختلف فیصلے موجود ہیں کہ ایپلیٹ ٹربیونل کے فیصلے تک ایف بی آر کا ٹیکس ریکوری کرنا ناجائز ہے۔
انکم ٹیکس کے ایک اور قانون میں ترمیم کی جا رہی ہے کہ اگر کوئی ٹیکس گزار ایسے شخص کو فروخت کرے گا جو سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ نہ ہوگا تو اس کے جو اخراجات آئیں گے ان کی ایڈجسٹمنٹ نہیں ملے گی بلکہ انہیں انکم میں شامل کر دیا جائے گا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں کو سیلز ٹیکس میں رجسٹر کرنا حکومت وقت کا کام ہے لہٰذااگر لوگ سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ نہیں ہوتے تو اس کی سزا دوسرے کاروباری لوگوں کو کیوں دی جارہی ہے؟ اس ترمیم سے کاروباری شخص کے لیے کاروبار کرنا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔
بعض ترامیم ایسی ہیں جو کاروباری طبقے کے لیے خوش آئند ہیں اور وقت کی ضرورت بھی ہیں۔ان میں سٹیل میلٹرز اور کمپوزٹ یونٹس ،پنشن فنڈ پر ودہولڈنگ ٹیکس کی چھوٹ، مقامی سطح پر پیدا شدہ خوردنی تیل پر ودہولڈنگ ٹیکس ختم کرنے کی تجویز، فنکشن، کیبل آپریٹرز ، الیکٹرانک میڈیا، آڑھتی،کمیشن ایجنٹ ، ڈیلر،انشورنس پریمیم پر لوڈنگ ٹیکس ختم کرنے کی تجویز، انکم ٹیکس ود ہولڈ کرنے والے افراد کی تھریش ہولڈ حد کو پانچ کروڑ سے بڑھا کر دس کروڑ کرنے کی تجویز،جائیداد پر کیپٹل گین کی مدت چار سال کرنے کی تجویز، فارن رمیٹنس کیش نکلوالنے پر ودہولڈنگ ٹیکس کی چھوٹ ،نیلامی کے ذریعے خریدی گئی جائیداد پر ایڈوانس ٹیکس اقساط میں دینے کی تجویز و دیگر شامل ہیں۔
اس کے علاوہ ایک انتہائی اچھی ترمیم کی جا رہی ہے کہ ٹیکس گزار کو ایگزامشن سرٹیفکیٹ 15 دن میں جاری کرنے کے حکم جاری کیا جائے گا اور اگر پندرہ دن گزرنے کے بعد ٹیکس افسران نے سرٹیفکیٹ جاری نہ کیا تو تصور کیا جائے گا کہ سرٹیفکیٹ جاری ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ امپورٹ پر ایڈوانس ٹیکس کے نظام کو بھی درست کرنے کی تجویز قابل تحسین ہے ۔ الیکٹرانک آڈٹ کا نظام متعارف کروایا جا رہا ہے جو کہ انتہائی خوش آئند ہے اس سے ٹیکس گزار اور ٹیکس افسران کا رابطہ کم سے کم ہوگا اور ٹیکس گزاروں کو بھی ریکارڈ جمع کرانے کی سہولت ہوگی۔
اس کے علاوہ کنسٹرکشن کے بزنس کو انڈسٹری کا درجہ دینا اور بلڈرز، ڈویلپرز و کنٹریکٹرز کے لئے جو آرڈیننس جاری کیا گیا تھا اس کو ایکٹ کا حصہ بنانے کی تجویز دی گئی ہے جس کے لیے مجوزہ قوانین اور رولز بنائے جائیں گئے ، اس سے نہ صرف کنسٹرکشن کے کاروبار کو فروغ ملے گا بلکہ اس کے ساتھ ملحقہ دوسری انڈسٹری بھی چلے گی۔
سیلز ٹیکس میں رٹیلرز کے لیے شناختی کارڈ کی حد 50 ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ کرنے اور جو رٹیلرز ایف بی آر کے ساتھ آن لائن انٹی گریٹڈ ہیں یا ہوں گے ان کے لیے سیلز ٹیکس کی شرح 14 فیصد سے کم کرکے 12 فیصد کرنے کی تجویز خوش آئند ہے۔ مصالحتی کمیٹیوں کو فعال بنانے کے لئے قانون میں ترمیم تجویز کی گئی ہے تاکہ عدالتوں کی بجائے ٹیکس گزار کی درخواست پر ٹیکس کیسز کے فیصلے مصالحتی کمیٹیوں کے ذریعے کیے جائیں ۔ اس سے نہ صرف عدالتوں پر غیر ضروری بوجھ کم ہوگا بلکہ ریوینیو بھی جلد حاصل ہوسکے گا ۔
اجمل بلوچ
(صدر آل پاکستان انجمن تاجران)
بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس تو نہیں لگایا گیا ہے تاہم کورونا وائرس سے متاثرہ کاروباری طبقہ بجٹ میں جس ریلیف پیکیج کا انتظار کر رہا تھا وہ سامنے نہیں آیا۔ تاجر کیلئے اس وقت اپنے گھر کے اخراجات دوکان کا کرایہ اور چند ملازمین کی تنخواہ پوری کرناانتہائی مشکل ہوگیا ہے۔
حکومت کو چاہیے تھا کہ کاروباری طبقے کے لیے فوری طور پر امدادی پیکیج کا اعلان کرتی مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ اس سے معیشت کو بہت نقصان ہوگا۔ اگر حکومت معاشی ترقی چاہتی ہے تو کاروباری طبقے کے لیے بلا سود قرضے دینے کے احکامات جاری کرے۔اس سے نہ صرف معاشی پہیہ چلے گا بلکہ حکومت کو ٹیکس بھی حاصل ہوگا۔ مشکل حالات میں کاروباری طبقے کو شناختی کارڈ کی شرط سمیت آئی ایم ایف کی تمام شرائط سے چھٹکارہ دلوا کر آزاد تجارت کا موقع فراہم کیا جائے ، یہ نہ صرف تاجروں بلکہ ملک کیلئے بھی بہتر ہوگا۔
زراعت اور چھوٹی انڈسٹری کے لئے بھی لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے تاکہ عام کاروباری شخص بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔ معاشی ترقی کیلئے ملکی اخراجات میں کمی کرنا بہت ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ایسے ادارے جو خسارے میں ہیں، انہیں جلد از جلد منافع بخش بنایا جائے تاکہ خزانے پر بوجھ کم ہوسکے۔
کاشف چوہدری
(صدر مرکزی تنظیم تاجران پاکستان)
ٹیکس فری نامی بجٹ میں تاجر برادری کوکوئی ریلیف پیکیج نہیں دیا گیا۔ یہ غیر حقیق بجٹ ہے جس میں صنعت و تجارت کی ترقی اورزراعت کے فروغ کیلئے عملی طور پر کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ حکومت کو چاہیے کہ تعمیراتی شعبے کی طرز پر تمام کاروباروں میں سرمایہ کاری کیلئے چھوٹ دی جائے۔
بجٹ میں سیلز ٹیکس کو 17 فیصد سے کم کرکے9فیصدپر لایا جائے۔ بنکوں سے نقد رقوم نکلوانے پر ودہولڈنگ ٹیکس کا خاتمہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ آٹا،چینی و دیگر اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی کیلئے سیلز ٹیکس ختم جبکہ انکم ٹیکس و دیگر تمام ٹیکسز کی شرح کو کم ازکم 50 فیصد کیا جائے۔ کاٹیج انڈسٹری کو سیلز ٹیکس سے استثنیٰ قرار دے کر خصوصی مراعات دی جائیں۔ جیولری ،موبائل فون اور آٹوانڈسٹری کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کیے جائیں۔ شرح سود مزید کم کر کے 4 فیصد کی جائے اور تاجروں کوکاروباری ضمانت پر 5 لاکھ تا 5 کروڑ تک بلا سود قرضے دیے جائیں۔ پٹرولیم مصنوعات و بجلی کی قیمتوں کو مزید کم کیا جائے۔ایکسپورٹ میں اضافے کیلئے زیرو ریٹڈ سیکٹر کو بحال کیا جائے۔ چھوٹے تاجروں کے لیے قابل عمل فکسڈ ٹیکس اسکیم کا اجرا کیا جائے۔
انکم ٹیکس آمدن کی حد4 لاکھ روپے سے بڑھا کر 12 لاکھ روپے سالانہ کی جائے۔ ڈسٹری بیوٹرز اور ہول سیلرز کا ٹرن اوور ٹیکس 0.25 فیصد کیا جائے۔اِنکم ٹیکس رجسٹریشن کا فارم آسان و سادہ کیاجائے۔ کورونا وائرس کے مشکل حالات میں پوائنٹ آف سیلز لگانے کی پالیسی پر نظرثانی کی جائے۔سیلز ٹیکس میں لازمی رجسٹریشن کے قانون کا خاتمہ کیا جائے اورآڑھتیوں کی سالانہ لائسنس فیس کو بھی ختم کیا جائے۔ بجٹ اقدامات سے محسوس ہوتا ہے کہ تجارت و زراعت حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی پالیسی سامنے آئی ہے۔ ادویات و دیگر صنعتوں اور متعدد اشیاء کے خام مال پر ٹیکسز میں چھوٹ کا خیرمقدم کرتے ہیں۔