300 بچت بازاروں پر پابندی سے لاکھوں افراد بیروزگار
بچت بازاروں کی بندش سے شہرکی مارکیٹوں اورروایتی بازاروں میں رش بڑھ گیا،پرہجوم بازاروں سے کوروناکی وباپھیلنے کاخدشہ
کراچی میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلیے نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن میں بچت بازاروں پر پابندی سے لاکھوں گھروں کے چولہے بجھ گئے ہیں جب کہ بچت بازاروں پر پابندی سے مہنگائی اور بیروزگاری کے مارے شہریوں کے لیے سستے داموں اشیائے صرف کا حصول بھی دشوار ہوگیا ہے۔
کراچی بھر میں300 ہفتہ وار بچت بازار لگائے جاتے ہیں جن میں سے زیادہ ترکم آمدن والے متوسط اور غریب آبادیوں میں لگائے جاتے ہیں، بچت بازار جہاں غریب طبقے کے لیے روزگار کے حصول کا اہم ذریعہ ہیں وہیں کم آمدن والے طبقے کی محدود وسائل میں گزربسر کو آسان بنانے کا اہم ذریعہ ہیں ان بازاروں سے مہنگائی کا شکار غریب عوام سستے داموں پھل سبزیاں اجناس کے علاوہ گھریلو استعمال کی اشیا حتیٰ کہ کپڑے، پردے، جوتے، چپل، استعمال شدہ فرنیچر اور کچن کی اشیا خرید کر زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھاتے ہیں۔
بچت بازار ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر ظفر خان کے مطابق کراچی میں لگنے والے کم و بیش300 بچت بازاروں میں 50 ہزار اسٹال لگائے جاتے ہیں ہر اسٹال پر 3 سے 5 افراد کا اوسط لگایا جائے تو ڈھائی لاکھ محنت کشوں کو ان بازاروں سے براہ راست روزگار ملتا ہے اس کے علاوہ اسٹالوں کی اشیا لانے لے جانے والی گاڑیوں کے ڈرائیورز، کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے والے، بازار میں چل پھر کر تھیلیاں اورشاپرز فروخت کرنے والے، رکشہ ٹیکسی والوں کا روزگار بھی ان بازاروں سے چلتا ہے۔
کراچی کے 300 میں سے 50 فیصد بازار نجی اور 50 فیصد بلدیہ عظمیٰ کی اراضی پر لگتے ہیں جن سے کے ایم سی کو بھی آمدن ہوتی ہے اس کے ساتھ ہی پارکنگ فیس کی مد میں بھی حکومت کو محصولات حاصل ہوتے ہیں ظفر خان کے مطابق سندھ حکومت نے کورونا کی روک تھام کے لیے جہاں عام بازاروں کو ایس او پی کے مطابق کھولنے کی اجازت دی ہے بچت بازاروں کو بھی کھولنے کی اجازت دی جائے تاکہ مہنگائی اور بے روزگاری کے شکار عوام کو ریلیف مل سکے۔
بچت بازاروں کی مستقل بندش میں منصوبہ بندی کا فقدان ہے حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ بچت بازار بند ہونے سے عوام کا عام بازاروں میں رش لگ رہا ہے شہر کی50 فیصد غریب آبادی بچت بازاروں سے خریداری کرتی ہے اور قوت خرید کم ہونے کے باعث اب متوسط طبقہ بھی ان بچت بازاروں کے گاہکوں میں شامل ہوچکا ہے۔
بازاروں کی انجمن نے بچت بازارکیلیے ایس او پیز وضع کرلیے
بچت بازار ویلفیئر ایسوسی ایشن نے بچت بازاروں کے لیے حفاظتی تدابیر (ایس او پیز) وضع کیے ہیں جن پر عمل کرکے بچت بازاروں کو کھولا جاسکتا ہے ان ایس او پیز پر حکومت بھی نظر ثانی کرکے انھیں مزید موثر بناسکتی ہیں، کورونا کی وبا کے دوران لگنے والے بچت بازاروں میں 10 سال اور اس سے کم عمر کے بچوں کا داخلہ ممنوع ہوگا اسی طرح زیادہ عمر کے افراد اور بیماروں کا بھی داخلہ ممنوع ہوگا، بچت بازاروں میں داخل اور باہر جانے کے راستے الگ الگ مخصوص ہوں گے۔
داخلہ کے وقت گاہکوں کو ڈس انفیکشن گیٹ سے گزرنا ہوگا جہاں ان کا درجہ حرارت بھی چیک کیا جائے گا اور گاہکوں کے ساتھ اسٹال ہولڈرز کے لیے بھی ماسک پہننا لازمی ہوگا، بچت بازاروں میں لگنے والے اسٹالز پر بھاؤ تاؤ کی اجازت نہیں ہوگی اور ''ایک دام''پر اشیا فروخت کی جائیں گی تاکہ گاہک کم سے کم وقت میں خریداری کرکے بازار سے باہر آجائیں ان اقدامات کے ساتھ بچت بازار کھول کر لاکھوں افراد کو روزگار فراہم کرنے کے ساتھ کم آمدن والے طبقے کی مشکلات کو کم کیا جاسکتا ہے۔
اسٹال ہولڈرزنے اپنامال اونے پونے داموں بیچ دیا
بچت بازاروں کی طویل عرصے سے بندش کی وجہ سے بچت بازاروں میں اسٹال لگانے والوں نے اپنا مال اونے پونے فروخت کرکے رقوم خرچ کرلی اور اب ان کے پاس اسٹال لگانے کے لیے مال یا پیسہ نہیں ہے۔
دوسری جانب بڑے بازاروں کے مستقل دکاندار بھی بچت بازار کا حصہ بننے کے لیے تیار ہیں کیونکہ قوت خرید میں کمی کی وجہ سے بڑے بازاروں کی فروخت بھی گرگئی ہے اور دکانداروں کے لیے دکانوں کے کرائے نکالنا سیلز مینوں کی اجرت اور بجلی گیس کے بلوں کی ادائیگی مشکل تر ہوگئی ہے۔
لاک ڈاؤن سے بیروزگار ہونیوالے بھی بچت بازارکھلنے کے منتظر
لاک ڈاؤن کی وجہ سے بازاروں، دکانوں، فیکٹریوں اور کارخانوں سے فارغ کیے گئے لاکھوں بے روزگار افراد بھی بچت بازار کھلنے کے منتظر ہیں جہاں چھوٹی سی رقم کے ذریعے کاروبار شروع کیا جاسکتا ہے۔
بچت بازاروں کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یومیہ بنیاد پر مختلف علاقوں میں بیروزگار افراد کی بڑی تعداد رابطہ کرکے معلوم کرتی ہے کہ بچت بازار کب کھلیں گے تاکہ وہ اسٹال لگاکر روزی کماسکیں، بچت بازاروں کی انتظامیہ کے مطابق ہفتہ وار بچت بازار کھلتے ہی بڑی تعداد میں پرانے اسٹال ہولڈرز کی تعداد کم ہوگی اور ان کی جگہ نئے اور دوسرے شعبوں سے فارغ ہونیوالے بے روزگار افراد جگہ لیں گے۔
بازاروں میں سندھ کے چھوٹے قصبوں کے افراداسٹال لگاتے تھے
کراچی سے متصل سندھ اور بلوچستان کے چھوٹے قصبوں اور ساحلی آبادیوں کے ماہی گیر بچت بازاروں میں سبزیاں، مرغی، مچھلی، دستکاریاں فروخت کرکے روزگار کماتے ہیںکراچی میں لگنے والے بچت بازار سندھ اور بلوچستان کے کاشتکاروں کے لیے بھی روزگار کا اہم ذریعہ ہیں، کراچی کے نواحی علاقوں کے علاوہ حب بلوچستان، ٹھٹھہ، گھارو، گجو، حیدرآباداور کراچی سے متصل سندھ اور بلوچستان کے چھوٹے قصبوں اور ساحلی آبادیوں کے ماہی گیر بچت بازاروں میں سبزیاں، مرغی، مچھلی، دستکاریاں فروخت کرکے روزگار کماتے ہیں، کراچی کے بچت بازاروں میں کراچی کے نواحی علاقوں سے تعلق رکھنے والے اسٹال ہولڈز کی تعداد 25 فیصد کے لگ بھگ ہے۔
کراچی میں لگنے والے بچت بازار خواتین تاجروں کے روزگار کا بھی اہم ذریعہ ہیں غریب علاقوں کی خواتین جو گھروں پر کام کرتی ہیں ان بچت بازاروں کے اسٹال ہولڈرز کے لیے گھروں پر اشیا تیار کرتی ہیں اسی طرح بیوائیں جن کا کوئی سہارا یا کمانے والا نہ ہو بچت بازاروں میں اسٹال لگاکر روزی روٹی کماتی ہیں اور اپنے گھروں کی کفالت کرتی ہیں۔
ایک بڑی تعداد ان خواتین کی بھی ہے جن کے شوہر کام کاج نہیں کرتے یا نشے کی لت کا شکار ہیں ایسی خواتین کی بڑی تعداد بھی اسٹال لگاکر اپنے خاندانوں کی کفالت کا بوجھ اٹھاتی ہیں بچت بازار نہ لگنے کی وجہ سے کراچی کے نواحی علاقوں کے کسانوں کے علاوہ خواتین بھی بے روزگار ہوچکی ہیں۔
کراچی بھر میں300 ہفتہ وار بچت بازار لگائے جاتے ہیں جن میں سے زیادہ ترکم آمدن والے متوسط اور غریب آبادیوں میں لگائے جاتے ہیں، بچت بازار جہاں غریب طبقے کے لیے روزگار کے حصول کا اہم ذریعہ ہیں وہیں کم آمدن والے طبقے کی محدود وسائل میں گزربسر کو آسان بنانے کا اہم ذریعہ ہیں ان بازاروں سے مہنگائی کا شکار غریب عوام سستے داموں پھل سبزیاں اجناس کے علاوہ گھریلو استعمال کی اشیا حتیٰ کہ کپڑے، پردے، جوتے، چپل، استعمال شدہ فرنیچر اور کچن کی اشیا خرید کر زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھاتے ہیں۔
بچت بازار ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر ظفر خان کے مطابق کراچی میں لگنے والے کم و بیش300 بچت بازاروں میں 50 ہزار اسٹال لگائے جاتے ہیں ہر اسٹال پر 3 سے 5 افراد کا اوسط لگایا جائے تو ڈھائی لاکھ محنت کشوں کو ان بازاروں سے براہ راست روزگار ملتا ہے اس کے علاوہ اسٹالوں کی اشیا لانے لے جانے والی گاڑیوں کے ڈرائیورز، کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے والے، بازار میں چل پھر کر تھیلیاں اورشاپرز فروخت کرنے والے، رکشہ ٹیکسی والوں کا روزگار بھی ان بازاروں سے چلتا ہے۔
کراچی کے 300 میں سے 50 فیصد بازار نجی اور 50 فیصد بلدیہ عظمیٰ کی اراضی پر لگتے ہیں جن سے کے ایم سی کو بھی آمدن ہوتی ہے اس کے ساتھ ہی پارکنگ فیس کی مد میں بھی حکومت کو محصولات حاصل ہوتے ہیں ظفر خان کے مطابق سندھ حکومت نے کورونا کی روک تھام کے لیے جہاں عام بازاروں کو ایس او پی کے مطابق کھولنے کی اجازت دی ہے بچت بازاروں کو بھی کھولنے کی اجازت دی جائے تاکہ مہنگائی اور بے روزگاری کے شکار عوام کو ریلیف مل سکے۔
بچت بازاروں کی مستقل بندش میں منصوبہ بندی کا فقدان ہے حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ بچت بازار بند ہونے سے عوام کا عام بازاروں میں رش لگ رہا ہے شہر کی50 فیصد غریب آبادی بچت بازاروں سے خریداری کرتی ہے اور قوت خرید کم ہونے کے باعث اب متوسط طبقہ بھی ان بچت بازاروں کے گاہکوں میں شامل ہوچکا ہے۔
بازاروں کی انجمن نے بچت بازارکیلیے ایس او پیز وضع کرلیے
بچت بازار ویلفیئر ایسوسی ایشن نے بچت بازاروں کے لیے حفاظتی تدابیر (ایس او پیز) وضع کیے ہیں جن پر عمل کرکے بچت بازاروں کو کھولا جاسکتا ہے ان ایس او پیز پر حکومت بھی نظر ثانی کرکے انھیں مزید موثر بناسکتی ہیں، کورونا کی وبا کے دوران لگنے والے بچت بازاروں میں 10 سال اور اس سے کم عمر کے بچوں کا داخلہ ممنوع ہوگا اسی طرح زیادہ عمر کے افراد اور بیماروں کا بھی داخلہ ممنوع ہوگا، بچت بازاروں میں داخل اور باہر جانے کے راستے الگ الگ مخصوص ہوں گے۔
داخلہ کے وقت گاہکوں کو ڈس انفیکشن گیٹ سے گزرنا ہوگا جہاں ان کا درجہ حرارت بھی چیک کیا جائے گا اور گاہکوں کے ساتھ اسٹال ہولڈرز کے لیے بھی ماسک پہننا لازمی ہوگا، بچت بازاروں میں لگنے والے اسٹالز پر بھاؤ تاؤ کی اجازت نہیں ہوگی اور ''ایک دام''پر اشیا فروخت کی جائیں گی تاکہ گاہک کم سے کم وقت میں خریداری کرکے بازار سے باہر آجائیں ان اقدامات کے ساتھ بچت بازار کھول کر لاکھوں افراد کو روزگار فراہم کرنے کے ساتھ کم آمدن والے طبقے کی مشکلات کو کم کیا جاسکتا ہے۔
اسٹال ہولڈرزنے اپنامال اونے پونے داموں بیچ دیا
بچت بازاروں کی طویل عرصے سے بندش کی وجہ سے بچت بازاروں میں اسٹال لگانے والوں نے اپنا مال اونے پونے فروخت کرکے رقوم خرچ کرلی اور اب ان کے پاس اسٹال لگانے کے لیے مال یا پیسہ نہیں ہے۔
دوسری جانب بڑے بازاروں کے مستقل دکاندار بھی بچت بازار کا حصہ بننے کے لیے تیار ہیں کیونکہ قوت خرید میں کمی کی وجہ سے بڑے بازاروں کی فروخت بھی گرگئی ہے اور دکانداروں کے لیے دکانوں کے کرائے نکالنا سیلز مینوں کی اجرت اور بجلی گیس کے بلوں کی ادائیگی مشکل تر ہوگئی ہے۔
لاک ڈاؤن سے بیروزگار ہونیوالے بھی بچت بازارکھلنے کے منتظر
لاک ڈاؤن کی وجہ سے بازاروں، دکانوں، فیکٹریوں اور کارخانوں سے فارغ کیے گئے لاکھوں بے روزگار افراد بھی بچت بازار کھلنے کے منتظر ہیں جہاں چھوٹی سی رقم کے ذریعے کاروبار شروع کیا جاسکتا ہے۔
بچت بازاروں کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یومیہ بنیاد پر مختلف علاقوں میں بیروزگار افراد کی بڑی تعداد رابطہ کرکے معلوم کرتی ہے کہ بچت بازار کب کھلیں گے تاکہ وہ اسٹال لگاکر روزی کماسکیں، بچت بازاروں کی انتظامیہ کے مطابق ہفتہ وار بچت بازار کھلتے ہی بڑی تعداد میں پرانے اسٹال ہولڈرز کی تعداد کم ہوگی اور ان کی جگہ نئے اور دوسرے شعبوں سے فارغ ہونیوالے بے روزگار افراد جگہ لیں گے۔
بازاروں میں سندھ کے چھوٹے قصبوں کے افراداسٹال لگاتے تھے
کراچی سے متصل سندھ اور بلوچستان کے چھوٹے قصبوں اور ساحلی آبادیوں کے ماہی گیر بچت بازاروں میں سبزیاں، مرغی، مچھلی، دستکاریاں فروخت کرکے روزگار کماتے ہیںکراچی میں لگنے والے بچت بازار سندھ اور بلوچستان کے کاشتکاروں کے لیے بھی روزگار کا اہم ذریعہ ہیں، کراچی کے نواحی علاقوں کے علاوہ حب بلوچستان، ٹھٹھہ، گھارو، گجو، حیدرآباداور کراچی سے متصل سندھ اور بلوچستان کے چھوٹے قصبوں اور ساحلی آبادیوں کے ماہی گیر بچت بازاروں میں سبزیاں، مرغی، مچھلی، دستکاریاں فروخت کرکے روزگار کماتے ہیں، کراچی کے بچت بازاروں میں کراچی کے نواحی علاقوں سے تعلق رکھنے والے اسٹال ہولڈز کی تعداد 25 فیصد کے لگ بھگ ہے۔
کراچی میں لگنے والے بچت بازار خواتین تاجروں کے روزگار کا بھی اہم ذریعہ ہیں غریب علاقوں کی خواتین جو گھروں پر کام کرتی ہیں ان بچت بازاروں کے اسٹال ہولڈرز کے لیے گھروں پر اشیا تیار کرتی ہیں اسی طرح بیوائیں جن کا کوئی سہارا یا کمانے والا نہ ہو بچت بازاروں میں اسٹال لگاکر روزی روٹی کماتی ہیں اور اپنے گھروں کی کفالت کرتی ہیں۔
ایک بڑی تعداد ان خواتین کی بھی ہے جن کے شوہر کام کاج نہیں کرتے یا نشے کی لت کا شکار ہیں ایسی خواتین کی بڑی تعداد بھی اسٹال لگاکر اپنے خاندانوں کی کفالت کا بوجھ اٹھاتی ہیں بچت بازار نہ لگنے کی وجہ سے کراچی کے نواحی علاقوں کے کسانوں کے علاوہ خواتین بھی بے روزگار ہوچکی ہیں۔