بلوچستان کے ترقیاتی منصوبوں کا معاملہ شکوک و شبہات کا شکار
جام کمال وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کے 44 منصوبوں کو نظر انداز کرنے پر اپنا احتجاج ریکارڈ کراچکے ہیں
یہ خبریں آرہی ہیں کہ وفاقی حکومت نے اپنی پی ایس ڈی پی میں وزیراعظم عمران خان کی یقین دہانیوں کے باوجود بلوچستان کے اہم ترقیاتی منصوبوں کو نکال دیا ہے اور حسب روایت بلوچستان کو وفاقی پی ایس ڈی پی میں دوسرے صوبوں کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر حصہ دے کر پرانی روش برقرار رکھی گئی ہے۔
اس سے قبل بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال خان وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کے اہم 44 منصوبوں کو نظر انداز کرنے پر اپنا احتجاج بھی وفاقی حکومت کو ریکارڈ کراچکے ہیں جس پر وزیراعظم عمران خان نے اُن سے اسلام آباد میں ملاقات کی تھی اور اُنہیں یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ بلوچستان کے ساتھ نا انصافی نہیں ہونے دیں گے اور وفاقی بجٹ پیش ہونے سے ایک دن قبل تک جب وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے وزیراعظم عمران خان سے ٹیلی فونک رابطہ کیا تو اس رابطے کے دوران بھی وزیراعظم نے اُنہیں بھرپور یقین دہانی کرائی تھی کہ گذشتہ سال بلوچستان کے جن منصوبوں کی منظوری ہوئی اور وہ پی ایس ڈی پی میں شامل نہ ہوسکے اُنہیں آئندہ مالی سال کی وفاقی پی ایس ڈی پی میں شامل کیا جاچکا ہے اور بلوچستان کے نئے تجویز کردہ منصوبے بھی وفاقی پی ایس ڈی پی کا حصہ ہونگے جن کی منظوری وفاقی بجٹ سیشن میں دے دی جائے گی۔
تاہم وفاقی بجٹ آنے کے بعد اس حوالے سے متضاد خبریں آرہی ہیں جن کا صوبائی مخلوط حکومت بغور جائزہ لے رہی ہے۔ وزیراعلی بلوچستان جام کمال خان نے اپنی جماعت کے ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹرز کو ہدایت کی ہے کہ وہ اسلام آباد میں ایک مشترکہ لائحہ عمل مرتب کرتے ہوئے اس بات کا تجزیہ کریں کہ صوبائی حکومت کی جانب سے بلوچستان کے حوالے سے جن ترقیاتی منصوبوں کی تجاویز وفاقی حکومت کو دی گئی ہیں اُن پر کس حد تک عملدرآمد ہوا اور آگے مزید کیا ہوگا؟۔
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے وفاقی حکومت کو بھی اپنے دو ٹوک موقف سے آگاہ کردیا ہے کہ وفاقی سطح پر بلوچستان کے ترقیاتی معاملات کو آسان نہ لیا جائے بلوچستان کی محرومی کی ایک اہم وجہ نا مناسب اور ناکافی ترقیاتی سرمایہ کاری ہے وزیراعلیٰ بلوچستان نے گذشتہ دنوں قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس جس کی صدارت وزیراعظم پاکستان عمران خان کررہے تھے میں اپنا سخت اور واضح موقف رکھا تھا ۔ سیاسی مبصرین کے مطابق وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کو نظر انداز کیا جاتا ہے تو اس مرتبہ وفاقی حکومت کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مرکز میں اس وقت بلوچستان کی دو بڑی پارلیمانی جماعتوں بلوچستان عوامی پارٹی اور بی این پی پی ٹی آئی کی حکومت کی حمایت کررہی ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ صوبے کی دوسری بڑی قوم پرست پارلیمانی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کو پی ٹی آئی حکومت سے بعض معاملات پر شکایات ہیں۔ اور پی ٹی آئی کی حکومت نے بی این پی کی حمایت حاصل کرنے کیلئے ایک تحریری معاہدہ کیا تھا لیکن وہ اس تحریری معاہدے پر اُس طرح سے عملدرآمد نہیں کر پائی جس طرح سے بی این پی چاہتی تھی یہی وجہ ہے کہ بی این پی کو اس حوالے سے پی ٹی ائی کی حکومت سے نہ صرف شکایات ہیں بلکہ تحفظات بھی ہیں اور بی این پی جو کہ اس وقت قومی اسمبلی میں آزاد بنچوں پر بیٹھی ہے پی ٹی آئی کی حکومت کے اس رویئے کے باعث اپنی حمایت جاری رکھنے کے حوالے سے غور کر رہی ہے۔
ان سیاسی مبصرین کے مطابق موجودہ حالات میں پی ٹی آئی اگر بلوچستان کو تعمیر و ترقی کے حوالے سے نظر انداز کرتی ہے تو وہ اپنے لئے مزید مشکلات پیدا کردے گی کیونکہ بلوچستان کے حوالے سے بی این پی بھی سخت موقف رکھتی ہے قوی امکان ہے کہ وہ بھی اس کے مدمقابل کھڑی ہوجائے گی۔اس بات کا بھی امکان ہے کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی پی ٹی آئی کی دونوں بڑی اتحادی جماعتیں بلوچستان عوامی پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی گو کہ ایک دوسرے سے سیاسی مخالفت رکھتی ہیں لیکن بلوچستان کو وفاقی پی ایس ڈی پی میں نظر انداز کرنے کی پالیسی پر اکٹھی بھی ہوسکتی ہیں؟ اور وفاقی حکومت کو بجٹ منظور کرانے میں سخت مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ کوئی بھی بڑا سیاسی سرپرائز جون کے مہینے میں سامنے آسکتا ہے۔
بعض سیاسی حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے رویئے سے لگ رہا ہے کہ وہ پہل کرتے ہوئے وفاقی حکومت کی حمایت سے اپنا ہاتھ کھینچ لے اور اگر اُس نے ایسا کیا تو یقیناً اُس کا بلوچستان کی سیاست میں سیاسی قد مزید بڑھ جائے گا جس کا اثرات نہ صرف مستقبل میں بلوچستان کی سیاست خصوصاً بلدیاتی انتخابات پر مرتب ہونگے کیونکہ اب تک کی اس کی سیاست نے دیگر سیاسی جماعتوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ان سیاسی حلقوں کے مطابق بی این پی کی قیادت بھی حالات کا بغور جائزہ لے رہی ہے اور اس حوالے سے پارٹی کے اندر مشاورت کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔
دوسری جانب بلوچستان کی متحدہ اپوزیشن بھی جام حکومت کے خلاف میدان میں اُتری ہوئی ہے اور گذشتہ دنوں وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کے سامنے متحدہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی نے دھرنا دیا اور صوبائی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اس دھرنے کے نتیجے میں اپوزیشن ارکان کی وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال سے نشست ہوئی جس میں اپوزیشن ارکان نے اپنے تین اہم نکات اُن کے سامنے رکھے جس میں اپوزیشن ارکان کو حکومتی ارکان کے حلقوں کے برابر فنڈز کی فراہمی، اپوزیشن ارکان کے حلقوں میں غیر منتخب حکومتی نمائندوں کی مداخلت کا خاتمہ اور منتخب ارکان اسمبلی کا استحقاق اور عزت کو برقرار رکھنا شامل تھے۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ان نکات پر مذاکرات کا سلسلہ ابھی جاری ہے توقع کی جارہی ہے کہ اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ18 جون کو بجٹ اجلاس سے قبل کرلیا جائے گا جس کے بعد ہی متحدہ اپوزیشن بلوچستان کے نئے مالی سال کے بجٹ اجلاس کے حوالے سے اپنی حکمت عملی مرتب کرے گی۔
اس سے قبل بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال خان وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کے اہم 44 منصوبوں کو نظر انداز کرنے پر اپنا احتجاج بھی وفاقی حکومت کو ریکارڈ کراچکے ہیں جس پر وزیراعظم عمران خان نے اُن سے اسلام آباد میں ملاقات کی تھی اور اُنہیں یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ بلوچستان کے ساتھ نا انصافی نہیں ہونے دیں گے اور وفاقی بجٹ پیش ہونے سے ایک دن قبل تک جب وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے وزیراعظم عمران خان سے ٹیلی فونک رابطہ کیا تو اس رابطے کے دوران بھی وزیراعظم نے اُنہیں بھرپور یقین دہانی کرائی تھی کہ گذشتہ سال بلوچستان کے جن منصوبوں کی منظوری ہوئی اور وہ پی ایس ڈی پی میں شامل نہ ہوسکے اُنہیں آئندہ مالی سال کی وفاقی پی ایس ڈی پی میں شامل کیا جاچکا ہے اور بلوچستان کے نئے تجویز کردہ منصوبے بھی وفاقی پی ایس ڈی پی کا حصہ ہونگے جن کی منظوری وفاقی بجٹ سیشن میں دے دی جائے گی۔
تاہم وفاقی بجٹ آنے کے بعد اس حوالے سے متضاد خبریں آرہی ہیں جن کا صوبائی مخلوط حکومت بغور جائزہ لے رہی ہے۔ وزیراعلی بلوچستان جام کمال خان نے اپنی جماعت کے ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹرز کو ہدایت کی ہے کہ وہ اسلام آباد میں ایک مشترکہ لائحہ عمل مرتب کرتے ہوئے اس بات کا تجزیہ کریں کہ صوبائی حکومت کی جانب سے بلوچستان کے حوالے سے جن ترقیاتی منصوبوں کی تجاویز وفاقی حکومت کو دی گئی ہیں اُن پر کس حد تک عملدرآمد ہوا اور آگے مزید کیا ہوگا؟۔
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے وفاقی حکومت کو بھی اپنے دو ٹوک موقف سے آگاہ کردیا ہے کہ وفاقی سطح پر بلوچستان کے ترقیاتی معاملات کو آسان نہ لیا جائے بلوچستان کی محرومی کی ایک اہم وجہ نا مناسب اور ناکافی ترقیاتی سرمایہ کاری ہے وزیراعلیٰ بلوچستان نے گذشتہ دنوں قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس جس کی صدارت وزیراعظم پاکستان عمران خان کررہے تھے میں اپنا سخت اور واضح موقف رکھا تھا ۔ سیاسی مبصرین کے مطابق وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کو نظر انداز کیا جاتا ہے تو اس مرتبہ وفاقی حکومت کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مرکز میں اس وقت بلوچستان کی دو بڑی پارلیمانی جماعتوں بلوچستان عوامی پارٹی اور بی این پی پی ٹی آئی کی حکومت کی حمایت کررہی ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ صوبے کی دوسری بڑی قوم پرست پارلیمانی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کو پی ٹی آئی حکومت سے بعض معاملات پر شکایات ہیں۔ اور پی ٹی آئی کی حکومت نے بی این پی کی حمایت حاصل کرنے کیلئے ایک تحریری معاہدہ کیا تھا لیکن وہ اس تحریری معاہدے پر اُس طرح سے عملدرآمد نہیں کر پائی جس طرح سے بی این پی چاہتی تھی یہی وجہ ہے کہ بی این پی کو اس حوالے سے پی ٹی ائی کی حکومت سے نہ صرف شکایات ہیں بلکہ تحفظات بھی ہیں اور بی این پی جو کہ اس وقت قومی اسمبلی میں آزاد بنچوں پر بیٹھی ہے پی ٹی آئی کی حکومت کے اس رویئے کے باعث اپنی حمایت جاری رکھنے کے حوالے سے غور کر رہی ہے۔
ان سیاسی مبصرین کے مطابق موجودہ حالات میں پی ٹی آئی اگر بلوچستان کو تعمیر و ترقی کے حوالے سے نظر انداز کرتی ہے تو وہ اپنے لئے مزید مشکلات پیدا کردے گی کیونکہ بلوچستان کے حوالے سے بی این پی بھی سخت موقف رکھتی ہے قوی امکان ہے کہ وہ بھی اس کے مدمقابل کھڑی ہوجائے گی۔اس بات کا بھی امکان ہے کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی پی ٹی آئی کی دونوں بڑی اتحادی جماعتیں بلوچستان عوامی پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی گو کہ ایک دوسرے سے سیاسی مخالفت رکھتی ہیں لیکن بلوچستان کو وفاقی پی ایس ڈی پی میں نظر انداز کرنے کی پالیسی پر اکٹھی بھی ہوسکتی ہیں؟ اور وفاقی حکومت کو بجٹ منظور کرانے میں سخت مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ کوئی بھی بڑا سیاسی سرپرائز جون کے مہینے میں سامنے آسکتا ہے۔
بعض سیاسی حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے رویئے سے لگ رہا ہے کہ وہ پہل کرتے ہوئے وفاقی حکومت کی حمایت سے اپنا ہاتھ کھینچ لے اور اگر اُس نے ایسا کیا تو یقیناً اُس کا بلوچستان کی سیاست میں سیاسی قد مزید بڑھ جائے گا جس کا اثرات نہ صرف مستقبل میں بلوچستان کی سیاست خصوصاً بلدیاتی انتخابات پر مرتب ہونگے کیونکہ اب تک کی اس کی سیاست نے دیگر سیاسی جماعتوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ان سیاسی حلقوں کے مطابق بی این پی کی قیادت بھی حالات کا بغور جائزہ لے رہی ہے اور اس حوالے سے پارٹی کے اندر مشاورت کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔
دوسری جانب بلوچستان کی متحدہ اپوزیشن بھی جام حکومت کے خلاف میدان میں اُتری ہوئی ہے اور گذشتہ دنوں وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کے سامنے متحدہ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی نے دھرنا دیا اور صوبائی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اس دھرنے کے نتیجے میں اپوزیشن ارکان کی وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال سے نشست ہوئی جس میں اپوزیشن ارکان نے اپنے تین اہم نکات اُن کے سامنے رکھے جس میں اپوزیشن ارکان کو حکومتی ارکان کے حلقوں کے برابر فنڈز کی فراہمی، اپوزیشن ارکان کے حلقوں میں غیر منتخب حکومتی نمائندوں کی مداخلت کا خاتمہ اور منتخب ارکان اسمبلی کا استحقاق اور عزت کو برقرار رکھنا شامل تھے۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ان نکات پر مذاکرات کا سلسلہ ابھی جاری ہے توقع کی جارہی ہے کہ اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ18 جون کو بجٹ اجلاس سے قبل کرلیا جائے گا جس کے بعد ہی متحدہ اپوزیشن بلوچستان کے نئے مالی سال کے بجٹ اجلاس کے حوالے سے اپنی حکمت عملی مرتب کرے گی۔