مجھے اور بیٹے کو ہراساں کیا گیا اہلیہ جسٹس فائز عیسی
اپنوں نے ایسا کیس بنایا جیسے میں ماسٹر مائنڈ مجرم ہوں، جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ بیان قلمبند کراتے ہوئے آبدیدہ
جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ سپریم کورٹ میں ویڈیو لنک پر بیان قلم بند کراتے ہوئے آب دیدہ ہوگئیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ نے سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسی کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کو ویڈیو لنک پر بیان دینے کی اجازت دے دی۔
یہ بھی پڑھیں: قاضی فائز عیسی کیس؛ معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے پر کوئی اعتراض نہیں، حکومتی وکیل
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کے گھر پر ویڈیو لنک انتظامات کروا رہے ہیں، دوپہر میں بیان لیں گے، وہ ہمارے لیے قابل احترام ہیں اور ہمارے سامنے فریق نہیں، ہماری درخواست ہے کہ بیان دیتے وقت عدالتی ڈیکورم کا خیال رکھتے ہوئے مختصر بات کریں اور مناسب الفاظ کا استعمال کریں۔
حکومتی وکیل فروغ نسیم نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ بدنیتی پر فائنڈنگ دینے پر جوڈیشل کونسل کے سامنے کوئی چیز مانع نہیں، کونسل بدنیتی کے ساتھ نیک نیتی کا بھی جائزہ لے سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس فائز کیخلاف ریفرنس میں بدنیتی ہوئی تو کیس خارج ہوسکتا ہے، سپریم کورٹ
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ کسی جگہ بدنیتی ہو تو عدالت جائزہ لینے کے لیے بااختیار ہے اور اپنے اختیارات پر سمجھوتہ نہیں کرے گی۔
فروغ نسیم نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ تشدد کے بغیر حاصل مواد قابل قبول دستاویز ہیں ، برطانیہ میں بھی جاسوسی اور چھپ کر تصویر بنانے کو قابل قبول شواہد قرار دیا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے آپ کہہ رہے ہیں میری جاسوسی ہو سکتی ہے ، میں گالف کلب جاتا ہوں کیا میری تصاویر لی جاتی ہیں، یہ تو ایسے ہی ہو گا جمہوریت سے فاش ازم کی طرف بڑھا جائے۔
فروغ نسیم نے جواب دیا کہ میں فاش ازم کی بات نہیں کر رہا ، یہاں بات شواہد کے اکھٹا کرنے کی ہو رہی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ کوئی نہیں کہتا کہ جج جوابدہ نہیں ہے ، جج چاہتا ہے کہ میری پرائویسی بھی ہو اور میری عزت کا خیال بھی رکھا جائے۔
احتساب کے نام پر تباہی پیدا
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ملک میں احتساب کے نام پر تباہی پیدا ہو رہی، ہوسکتا ہے کہ ملک میں جاری احتساب پر بھی کبھی کوئی فیصلہ لکھیں، ضیا المصطفی نامی شخص کے پاس اختیار نہیں تھا کہ نجی جاسوس کی خدمات حاصل کرے ، مقصد کسی نہ کسی طرح جج کو سامنے لانا تھا، تمام کارروائی کے بعد ڈوگر کو لاکر کھڑا کردیا گیا، میں اپنی تفصیلات آرام سے نہیں لے سکتا تو ایک جج کی تفصیلات وحید ڈوگر کے پاس کیسے آئی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ انجینئرنگ کے الزامات لگتے ہیں، مجھے افسوس ہے کہ اس میں ہمارے ادارے کو استعمال کیا گیا ہے۔
وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو
جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ نے وڈیو لنک پر بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا کہ میرے لیے یہ بڑا مشکل وقت تھا ، میرے والد قریب المرگ ہیں ، میری شادی 25 دسمبر 1980 کو ہوئی۔
اہلیہ نے اپنا برتھ سرٹیفکیٹ اور پرانا شناختی کارڈ دکھاتے ہوئے کہا کہ میرا نام سرینا ہے، 1983 میں مجھے نہیں معلوم تھا کہ 21 سال بعد لندن میں جائیداد خریدوں گی،
شادی کے اکیس سال بعد میں نے لندن میں جائیداد خریدی، میرا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ 2003 میں بنا ، تب میرے خاوند جج نہیں تھے، میرا ویزا ختم ہوا تو نئے ویزے کے لیے اپلائی کر دیا، دوسرا ویزا جب جاری ہوا تب وہ سپریم کورٹ کے جج نہیں تھے، جنوری 2020 میں مجھے صرف ایک سال کا ویزا جاری ہوا ، یہ ویزا جاری کرنے سے پہلے ہراساں کیا گیا، ہراساں کرنے کے لیے کم مدت کا ویزا جاری کیا گیا۔
اہلیہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بتایا کہ اپنوں نے ایسا کیس بنایا جیسے میں ماسٹر مائنڈ مجرم ہوں، میرا نام شناختی کارڈ پر سرینا عیسیٰ ہے، میری والدہ اسپینش ہے اور
میرے پاس اسپینش پاسپورٹ ہے، الزام دیا گیا کہ میں نے جج کے آفس کا غلط استعمال کیا۔
اہلیہ موقف دیتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں اور بتایا کہ پہلی جائیداد 2004 میں برطانیہ میں خریدی جس کے لیے پاسپورٹ کو قبول کیا گیا، کراچی میں امریکن اسکول میں ملازمت کرتی رہی ، گوشوارے کرانے پر حکومت نے مجھے ٹیکس سرٹیفکیٹ جاری کیا، میرا ٹیکس ریکارڈ کراچی سے اسلام آباد منتقل کر دیا گیا، ایف بی آر سے ریکارڈ کی منتقلی کا پوچھا تو کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
سرینا عیسیٰ نے بتایا کہ زرعی زمین کی دیکھ بھال میرے والد کرتے تھے، حکومت کو میری زمین کے بارے میں پتہ ہے۔ اہلیہ نے فارن کرنسی اکاؤنٹ کا ریکارڈ دکھاتے ہوئے کہا کہ 2003 سے 2013 تک رقم اسی اکاؤنٹ سے باہر گئی پیسہ بینک اکاونٹ سے لندن بهیجا گیا، جس اکائونٹ سے پیسہ باہر گیا وہ میرے نام پر ہے، ایک پراپرٹی 26300 پائونڈ میں خریدی گئی، بنک کے فارن کرنسی اکاؤنٹس میں سات لاکھ پائونڈ کی رقم ٹرانسفر کی گئی، میرا لندن اکاونٹ بهی صرف میرے نام پر ہے.
اہلیہ نے بتایا کہ میں ایف بی آر گئی مجھے کئی گھنٹے انتظار کرایا ، ایک بندے سے دوسرے بندے کے پاس بھیجا گیا، 236000 پاونڈز سے 2013 میں تیسری جائیداد خریدی، اس پراپرٹی میں میرا بیٹا رہتا ہے، 270000 پاونڈز سے پراپرٹی اپنے اور بیٹی کے نام خریدی، یہ پراپرٹی میرے خاوند کے نہیں میرے اور بیٹی کے نام ہے، 2 جائیدادیں کرایہ پر دے دی گئیں، تیسری پراپرٹی میں بیٹا رہتا ہے، اس معاملے پر میرے بیٹے کو انگلینڈ میں ہراساں کیا گیا۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے سرینا عیسیٰ سے کہا کہ آپ کے حوصلے کی داد دیتے ہیں، آپ کو ٹیکس مین کے پاس جانا ہو گا ، امید کرتے ہیں ٹیکس حکام آپ کو عزت دیں گے،آپ بہت بہادر اور حوصلہ مند خاتون ہیں، ہمارے پاس مقدمہ میرٹ پر سننے کا حق نہیں، ہم آپ کے حوالے سے اور خریداری کے زرائع سے مطمئن ہیں، اس پر فیصلہ متعلقہ اتھارٹی نے کرنا ہے، جج کی اہلیہ نے ایف بی آر کی بہت شکایت کی ہے۔
فروغ نسیم نے کہا کہ ایف بی آر نے زیادتی کی تو براہ راست شکایت وزیر اعظم کے پاس جائیگی۔ عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ نے سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسی کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کو ویڈیو لنک پر بیان دینے کی اجازت دے دی۔
یہ بھی پڑھیں: قاضی فائز عیسی کیس؛ معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے پر کوئی اعتراض نہیں، حکومتی وکیل
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کے گھر پر ویڈیو لنک انتظامات کروا رہے ہیں، دوپہر میں بیان لیں گے، وہ ہمارے لیے قابل احترام ہیں اور ہمارے سامنے فریق نہیں، ہماری درخواست ہے کہ بیان دیتے وقت عدالتی ڈیکورم کا خیال رکھتے ہوئے مختصر بات کریں اور مناسب الفاظ کا استعمال کریں۔
حکومتی وکیل فروغ نسیم نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ بدنیتی پر فائنڈنگ دینے پر جوڈیشل کونسل کے سامنے کوئی چیز مانع نہیں، کونسل بدنیتی کے ساتھ نیک نیتی کا بھی جائزہ لے سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس فائز کیخلاف ریفرنس میں بدنیتی ہوئی تو کیس خارج ہوسکتا ہے، سپریم کورٹ
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ کسی جگہ بدنیتی ہو تو عدالت جائزہ لینے کے لیے بااختیار ہے اور اپنے اختیارات پر سمجھوتہ نہیں کرے گی۔
فروغ نسیم نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ تشدد کے بغیر حاصل مواد قابل قبول دستاویز ہیں ، برطانیہ میں بھی جاسوسی اور چھپ کر تصویر بنانے کو قابل قبول شواہد قرار دیا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے آپ کہہ رہے ہیں میری جاسوسی ہو سکتی ہے ، میں گالف کلب جاتا ہوں کیا میری تصاویر لی جاتی ہیں، یہ تو ایسے ہی ہو گا جمہوریت سے فاش ازم کی طرف بڑھا جائے۔
فروغ نسیم نے جواب دیا کہ میں فاش ازم کی بات نہیں کر رہا ، یہاں بات شواہد کے اکھٹا کرنے کی ہو رہی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ کوئی نہیں کہتا کہ جج جوابدہ نہیں ہے ، جج چاہتا ہے کہ میری پرائویسی بھی ہو اور میری عزت کا خیال بھی رکھا جائے۔
احتساب کے نام پر تباہی پیدا
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ملک میں احتساب کے نام پر تباہی پیدا ہو رہی، ہوسکتا ہے کہ ملک میں جاری احتساب پر بھی کبھی کوئی فیصلہ لکھیں، ضیا المصطفی نامی شخص کے پاس اختیار نہیں تھا کہ نجی جاسوس کی خدمات حاصل کرے ، مقصد کسی نہ کسی طرح جج کو سامنے لانا تھا، تمام کارروائی کے بعد ڈوگر کو لاکر کھڑا کردیا گیا، میں اپنی تفصیلات آرام سے نہیں لے سکتا تو ایک جج کی تفصیلات وحید ڈوگر کے پاس کیسے آئی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ انجینئرنگ کے الزامات لگتے ہیں، مجھے افسوس ہے کہ اس میں ہمارے ادارے کو استعمال کیا گیا ہے۔
وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو
جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ نے وڈیو لنک پر بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا کہ میرے لیے یہ بڑا مشکل وقت تھا ، میرے والد قریب المرگ ہیں ، میری شادی 25 دسمبر 1980 کو ہوئی۔
اہلیہ نے اپنا برتھ سرٹیفکیٹ اور پرانا شناختی کارڈ دکھاتے ہوئے کہا کہ میرا نام سرینا ہے، 1983 میں مجھے نہیں معلوم تھا کہ 21 سال بعد لندن میں جائیداد خریدوں گی،
شادی کے اکیس سال بعد میں نے لندن میں جائیداد خریدی، میرا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ 2003 میں بنا ، تب میرے خاوند جج نہیں تھے، میرا ویزا ختم ہوا تو نئے ویزے کے لیے اپلائی کر دیا، دوسرا ویزا جب جاری ہوا تب وہ سپریم کورٹ کے جج نہیں تھے، جنوری 2020 میں مجھے صرف ایک سال کا ویزا جاری ہوا ، یہ ویزا جاری کرنے سے پہلے ہراساں کیا گیا، ہراساں کرنے کے لیے کم مدت کا ویزا جاری کیا گیا۔
اہلیہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بتایا کہ اپنوں نے ایسا کیس بنایا جیسے میں ماسٹر مائنڈ مجرم ہوں، میرا نام شناختی کارڈ پر سرینا عیسیٰ ہے، میری والدہ اسپینش ہے اور
میرے پاس اسپینش پاسپورٹ ہے، الزام دیا گیا کہ میں نے جج کے آفس کا غلط استعمال کیا۔
اہلیہ موقف دیتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں اور بتایا کہ پہلی جائیداد 2004 میں برطانیہ میں خریدی جس کے لیے پاسپورٹ کو قبول کیا گیا، کراچی میں امریکن اسکول میں ملازمت کرتی رہی ، گوشوارے کرانے پر حکومت نے مجھے ٹیکس سرٹیفکیٹ جاری کیا، میرا ٹیکس ریکارڈ کراچی سے اسلام آباد منتقل کر دیا گیا، ایف بی آر سے ریکارڈ کی منتقلی کا پوچھا تو کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
سرینا عیسیٰ نے بتایا کہ زرعی زمین کی دیکھ بھال میرے والد کرتے تھے، حکومت کو میری زمین کے بارے میں پتہ ہے۔ اہلیہ نے فارن کرنسی اکاؤنٹ کا ریکارڈ دکھاتے ہوئے کہا کہ 2003 سے 2013 تک رقم اسی اکاؤنٹ سے باہر گئی پیسہ بینک اکاونٹ سے لندن بهیجا گیا، جس اکائونٹ سے پیسہ باہر گیا وہ میرے نام پر ہے، ایک پراپرٹی 26300 پائونڈ میں خریدی گئی، بنک کے فارن کرنسی اکاؤنٹس میں سات لاکھ پائونڈ کی رقم ٹرانسفر کی گئی، میرا لندن اکاونٹ بهی صرف میرے نام پر ہے.
اہلیہ نے بتایا کہ میں ایف بی آر گئی مجھے کئی گھنٹے انتظار کرایا ، ایک بندے سے دوسرے بندے کے پاس بھیجا گیا، 236000 پاونڈز سے 2013 میں تیسری جائیداد خریدی، اس پراپرٹی میں میرا بیٹا رہتا ہے، 270000 پاونڈز سے پراپرٹی اپنے اور بیٹی کے نام خریدی، یہ پراپرٹی میرے خاوند کے نہیں میرے اور بیٹی کے نام ہے، 2 جائیدادیں کرایہ پر دے دی گئیں، تیسری پراپرٹی میں بیٹا رہتا ہے، اس معاملے پر میرے بیٹے کو انگلینڈ میں ہراساں کیا گیا۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے سرینا عیسیٰ سے کہا کہ آپ کے حوصلے کی داد دیتے ہیں، آپ کو ٹیکس مین کے پاس جانا ہو گا ، امید کرتے ہیں ٹیکس حکام آپ کو عزت دیں گے،آپ بہت بہادر اور حوصلہ مند خاتون ہیں، ہمارے پاس مقدمہ میرٹ پر سننے کا حق نہیں، ہم آپ کے حوالے سے اور خریداری کے زرائع سے مطمئن ہیں، اس پر فیصلہ متعلقہ اتھارٹی نے کرنا ہے، جج کی اہلیہ نے ایف بی آر کی بہت شکایت کی ہے۔
فروغ نسیم نے کہا کہ ایف بی آر نے زیادتی کی تو براہ راست شکایت وزیر اعظم کے پاس جائیگی۔ عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔