ٹرمپ دوبارہ منتخب ہونے کیلیے چینی صدر کی منت سماجت کرتے رہے جان بولٹن
امریکی صدریہ بھی نہیں جانتے کہ فن لینڈ روس کا حصہ نہیں اور برطانیہ جوہری قوت ہے، سابق مشیر کی کتاب میں انکشافات
ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق مشیر برائے قومی سلامتی جان بولٹن نے انکشاف کیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے آئندہ صدارتی انتخابات میں دوبارہ کام یابی کے لیے چینی صدر کی منت سماجت کی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق جان بولٹن نے اپنی نئی کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ صدر ٹرمپ قومی سلامتی کے فیصلے کرتے ہوئے اپنے سیاسی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ ٹرمپ اپنے اختیارات اور عہدے کو سیاست کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
قومی سلامتی کے سابق مشیر جان بولٹن کے مطابق 2019 میں جاپان کے شہر اوساکا میں ہونے والی جی 20 ممالک کے اجلاس میں چینی صدرشی جن پنگ سے ملاقات کے دوران 2020 میں دوبارہ منتخب ہونے کے لیے تعاون کی التجائیں کرتے رہے۔ ملاقات کے دوران صدر ٹرمپ نے گفتگو کا رُخ امریکا کے آٗئندہ انتخاب کی طرف موڑ دیا اور امریکی کسانوں کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے امریکا سے زیادہ زیادہ سویابین خریدنے کی درخواست کرنے لگے۔ صدر ٹرمپ کے خیال میں اگر چین امریکا سے سویابین کی درآمد بڑھاتا ہے تو اس سے براہ راست امریکی کسانوں کو فائدہ ہوگا اور ان کے انتخابی نتائج پر بھی اس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔
بولٹن نے کتاب میں لکھا ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کی گفتگو لفظ بہ لفظ نقل کرنا چاہتے تھے لیکن حکومت کی جانب سے قبل از اشاعت نظر ثانی میں اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ ٹرمپ نے چینی صدر کو اس بات پر بھی قائل کرنے کی کوشش کی کہ ان کی مخالف ٹیموکریٹ پارٹی چین سے متعلق مخالفانہ نکتۂ نظر رکھتی ہے۔
کتاب میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے یوکرین کی فوجی مدد کو اپنے ڈیموکریٹک سیاسی حریف اور سابق امریکی نائب صدر جو بائڈن کے خلاف تحقیقات میں مدد کرنے سے مشروط کیا۔ واضح رہے کہ جوبائڈن پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے روس کے خلاف یوکرین کی مدد کرنے کے عوض یوکرینی گیس کمپنی میں اپنے بیٹے ہنٹر بائیڈن کے لیے اعلیٰ عہدہ حاصل کیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے اپنے مقابل صدارتی امیدوار کے خلاف تحقیقات کے لیے یوکرینی حکومت پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی اور اس الزام پرامریکی کانگریس میں ان کے مؤاخذے کی تحریک بھی پیش ہوئی۔
جان بولٹن 17 ماہ تک صدر ٹرمپ کے مشیر برائے قومی سلامتی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں 577 صفحات پر مبنی کتاب "The Room Where It Happened: A White House Memoir," تصنیف کی ہے۔ اس کتاب میں بولٹن نے صدر ٹرمپ اور وہائٹ ہاؤس سے اپنے اختلافات کے بارے میں تفیصلی معلومات فراہم کی ہیں اور کئی اہم انکشافات کیے ہیں۔ امریکی محکمہ انصاف بھی اس کتاب کی اشاعت رکوانے کے لیے سرگرم ہے اور منگل کو سرکاری راز افشا کرنے کو بنیاد بنا کر اس مصنف پر مقدمہ کی درخواست دے چکا ہے۔ اس سے قبل صدر ٹرمپ نے بدھ کو امریکی نیوز چینل فوکس نیوز کو انٹرویو میں بولٹن کی کتاب میں لگائے الزامات کی تردید کے بجائے معلومات کے افشا کو غیر قانونی قرار دیا۔
''ٹرمپ کچھ نہیں جانتے''
بولٹن نے منصبی ذمے داریوں میں ٹرمپ کی جانب سے برتے جانے والے رویے پر بھی کڑی تنقید کی گئی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ٹرمپ ہرکسی پر شک کرتے ہیں اور انھیں اکثر صورت حال کا اندازہ نہیں ہوتا۔ کئی مرتبہ وہ بنیادی حقائق بھی نہیں جانتے مثلاً ٹرمپ کے خیال میں فن لینڈ روس کا حصہ ہے اور وہ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ برطانیہ جوہری قوت ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق جان بولٹن نے اپنی نئی کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ صدر ٹرمپ قومی سلامتی کے فیصلے کرتے ہوئے اپنے سیاسی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ ٹرمپ اپنے اختیارات اور عہدے کو سیاست کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
قومی سلامتی کے سابق مشیر جان بولٹن کے مطابق 2019 میں جاپان کے شہر اوساکا میں ہونے والی جی 20 ممالک کے اجلاس میں چینی صدرشی جن پنگ سے ملاقات کے دوران 2020 میں دوبارہ منتخب ہونے کے لیے تعاون کی التجائیں کرتے رہے۔ ملاقات کے دوران صدر ٹرمپ نے گفتگو کا رُخ امریکا کے آٗئندہ انتخاب کی طرف موڑ دیا اور امریکی کسانوں کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے امریکا سے زیادہ زیادہ سویابین خریدنے کی درخواست کرنے لگے۔ صدر ٹرمپ کے خیال میں اگر چین امریکا سے سویابین کی درآمد بڑھاتا ہے تو اس سے براہ راست امریکی کسانوں کو فائدہ ہوگا اور ان کے انتخابی نتائج پر بھی اس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔
بولٹن نے کتاب میں لکھا ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کی گفتگو لفظ بہ لفظ نقل کرنا چاہتے تھے لیکن حکومت کی جانب سے قبل از اشاعت نظر ثانی میں اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ ٹرمپ نے چینی صدر کو اس بات پر بھی قائل کرنے کی کوشش کی کہ ان کی مخالف ٹیموکریٹ پارٹی چین سے متعلق مخالفانہ نکتۂ نظر رکھتی ہے۔
کتاب میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے یوکرین کی فوجی مدد کو اپنے ڈیموکریٹک سیاسی حریف اور سابق امریکی نائب صدر جو بائڈن کے خلاف تحقیقات میں مدد کرنے سے مشروط کیا۔ واضح رہے کہ جوبائڈن پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے روس کے خلاف یوکرین کی مدد کرنے کے عوض یوکرینی گیس کمپنی میں اپنے بیٹے ہنٹر بائیڈن کے لیے اعلیٰ عہدہ حاصل کیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے اپنے مقابل صدارتی امیدوار کے خلاف تحقیقات کے لیے یوکرینی حکومت پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی اور اس الزام پرامریکی کانگریس میں ان کے مؤاخذے کی تحریک بھی پیش ہوئی۔
جان بولٹن 17 ماہ تک صدر ٹرمپ کے مشیر برائے قومی سلامتی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں 577 صفحات پر مبنی کتاب "The Room Where It Happened: A White House Memoir," تصنیف کی ہے۔ اس کتاب میں بولٹن نے صدر ٹرمپ اور وہائٹ ہاؤس سے اپنے اختلافات کے بارے میں تفیصلی معلومات فراہم کی ہیں اور کئی اہم انکشافات کیے ہیں۔ امریکی محکمہ انصاف بھی اس کتاب کی اشاعت رکوانے کے لیے سرگرم ہے اور منگل کو سرکاری راز افشا کرنے کو بنیاد بنا کر اس مصنف پر مقدمہ کی درخواست دے چکا ہے۔ اس سے قبل صدر ٹرمپ نے بدھ کو امریکی نیوز چینل فوکس نیوز کو انٹرویو میں بولٹن کی کتاب میں لگائے الزامات کی تردید کے بجائے معلومات کے افشا کو غیر قانونی قرار دیا۔
''ٹرمپ کچھ نہیں جانتے''
بولٹن نے منصبی ذمے داریوں میں ٹرمپ کی جانب سے برتے جانے والے رویے پر بھی کڑی تنقید کی گئی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ٹرمپ ہرکسی پر شک کرتے ہیں اور انھیں اکثر صورت حال کا اندازہ نہیں ہوتا۔ کئی مرتبہ وہ بنیادی حقائق بھی نہیں جانتے مثلاً ٹرمپ کے خیال میں فن لینڈ روس کا حصہ ہے اور وہ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ برطانیہ جوہری قوت ہے۔