عجائب خانوں کی عجیب دنیا
اسٹیم انجن، حکومت پاکستان کے جاری کردہ ڈاک ٹکٹوں، ہاتھی دانت سے بنے تاج محل کا تذکرہ
(دوسری قسط)
7- بہاولپور میوزیم ؛
تقسیم سے پہلے ریاست بہاولپور اپنے وقت کی ایک خوش حال اور امیر ترین ریاست تھی، جس کا اپنا سِکہ، ریلوے کا نظام، نہری نظام، ڈاک کا نظام، بینک، ٹکسال اور فوج تھی۔ محلات کا شہر کہلایا جانے والا بہاولپور آج شاید تاریخ میں کہیں گم ہوچکا ہے لیکن اس شہر نے اپنے تاریخی اہمیت پر آنچ نہیں آنے دی جس کی جیتی جاگتی مثال اس شہر کا میوزیم ہے۔
ایک عام سی عمارت میں واقع بہاولپور میوزیم سینٹرل لائبریری کے بالکل پہلو میں بہاول وکٹوریہ اسپتال کے ساتھ واقع ہے۔
اس عجائب گھر کا قیام لگ بھگ 1976 میں بہاولپور کی ضلعی انتظامیہ کی زیرنگرانی عمل میں آیا۔
گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی جو چیز آپ کا استقبال کرتی ہے وہ ایک بڑے چبوترے پر نمائش کے لیے رکھی گئی نواب صاحب کی گاڑی ہے جس کے قریب ہی ایک صدی پرانا اسٹیم انجن کھڑا ہوا ہے، جو ابتدائی طور پر بنگال ریلوے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ تاریخ کے مطابق اسی انجن کو پھر ہیڈ پنجند کی تعمیر میں استعمال ہونے والے سامان کی ترسیل کے لیے کام میں لایا گیا۔ 1931 میں ہیڈ پنجند کی تعمیر کے بعد اسے ورکشاپ میں کھڑا کر دیا گیا۔ 2004 میں اسے پنجند سے بہاولپور میوزیم منتقل کر دیا گیا جو اب تک یہیں ہے۔
ٹکٹ لے کر میوزیم کے اندر داخل ہوں تو پہلی گیلری میں تین مختلف اقسام کی توپیں اور دیگر جنگی سامان نظر آتا ہے۔ یہ توپیں ریاست بہاولپور کے شاہی توپ خانے سے لائی گئی ہیں۔ دیگر سامان زیادہ تر پرانی جنگوں میں استعمال کیا جانے والا ہے جن میں موتیوں کے کام والے طمنچے، تلواریں، ڈھالیں، تیر کمان اور زرہ بکتر شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہاتھی دانت کی اشیاء، زیورات اور منقش پلیٹیں رکھی گئی ہیں۔
اگلی گیلری میں آپ موہن جو دڑو، ہڑپہ اور گندھارا سے نکلنے والے قدیم مجسمے اور دیگر اشیاء دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں رکھی گئی اشیاء میں کالی دیوی کا مجسمہ، کالادھاری مندر بہاولپور کا لکڑی کا منقش دروازہ، سنگ مرمر کے مجسمے، ریت کے پتھر کا ستون، ناپ تول کے باٹ اور گوتم بدھ کا سر شامل ہیں۔ یہیں گیلری کے وسط میں نور محل کا خوب صورت ماڈل بھی رکھا گیا ہے۔
اس سے آگے ڈاک گیلری ہے جہاں ریاست بہاولپور سمیت حکومت پاکستان کے جاری کردہ مختلف ڈاک ٹکٹ نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔
ریاست بہاولپور کی ثقافتی گیلری اس میوزیم کی سب سے منفرد جگہ ہے جہاں آپ چولستان کی ثقافت کو ایک چھت تلے دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں آپ کو چاندی کے قدیم زیورات، صندوقچے، لکڑی کے چرخے، آئینے، مٹی کے برتن، چھبیاں، لسی بنانے والی مندھانی اور قلعہ دیراوڑ کا ایک خوب صورت ماڈل دیکھنے کو ملے گا۔ ملبوسات کی گیلری میں بہاولپور ریجن میں بنائے جانے والے دلکش کھیس، دریاں، چادریں، کُھسے، کشمیری و بلوچی پوشاکیں، چنری، تکیوں کے غلاف، ہاتھ کی کڑہائی والی ٹوپیاں، لنگیاں اور دولہا کے سہرے شامل ہیں۔
اگلی گیلریوں میں آپ نواب صاحب، ان کی اولاد، دیگر سربراہانِ مملکت اور ان کے محلات کی تصویریں، ریاست کے جاری کردہ سکے، شاہی بگھی، چولستان کی روز مرہ زندگی اور ثقافت، روہیلوں کے گوپے اور بہاولپور کے محلوں کے ماڈل دیکھ سکتے ہیں۔
غرض یہ میوزیم جنوبی پنجاب خصوصاً بہاولپور و چولستان کی ثقافت سے روشناس ہونے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔
8- شاہی قلعہ لاہور میوزیم؛
یوں تو شاہی قلعے کو کسی میوزیم کی ضرورت نہیں تھی کہ یہ اپنے آپ میں پوری تاریخ کی کتاب ہے۔ لیکن قلعے کے اندر تین آرٹ گیلریوں پر مشتمل ایک نایاب عجائب گھر قائم ہے۔
پہلی گیلری موتی مسجد کے پاس واقع ہے جہاں سکھ اور برطانوی دور کے اسلحے کو نمائش کے لیے رکھا گیا ہے جن میں تلواریں، ڈھالیں، زرہ بکتر، تیر، کمان، نیزے، خنجر اور پستول وغیرہ شامل ہیں۔
مغل گیلری ایک تاریخی لائبریری کی طرح ہے جہاں آپ مغلیہ دور کی دستاویزات، تصاویر، سِکے اور دیگر نوادرات دیکھ سکتے ہیں۔
سکھ گیلری اس میوزیم کی آخری گیلری ہے جہاں راج کماری بمبا کی اشیاء اور دیگر تصاویر رکھی گئی ہیں۔
اس میوزیم کی ایک خاص چیز یہاں موجود ہاتھی دانت سے بنا تاج محل کا ماڈل ہے جو دیکھنے والوں کو مبہوت کر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
9- ہُنڈ میوزیم صوابی؛
پنجاب کے شہر اٹک کے قریب واقع اٹک قلعے تقریباً 15 کلومیٹرشمل میں سندھو ندی کے بائیں کنارے پر ضلع صوابی کا ایک چھوٹا سا گاؤں ''ہْنڈ'' آباد ہے جو گندھارا تہذیب کا اہم مسکن رہا ہے۔ یہ بالکل اس جگہ واقع ہے جہاں سے سکندرِ اعظم کی فوجوں نے دریائے سندھ عبور کیا تھا۔ کہتے ہیں کہ ہندو حکم رانوں کے زیر اثر گندھارا سلطنت کا آخری دارالحکومت ہُنڈ تھا۔ اس شہر کا قدیم نام ''ادابھنداپورا'' تھا۔ اس کی دفاعی اہمیت کے پیشِ نظر مغل بادشاہ اکبر نے یہاں ایک قلعہ بنوایا اور ہُنڈ مغل دور کی ایک اہم فوجی چھاؤنی رہی۔ اس قلعے کے کھنڈرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
ہُنڈ کے موام پر کھدائی کا آغاز 1996 میں کیا گیا۔ کھدائی کے دوران انڈو یونانی تہذیب کے خوب صورت گھر، سکے، زیور اور دیگر سامان دریافت ہوا جبکہ کشان، ہندو شاہی دور اور مسلم دور کے گھر بھی ملے۔ ان گھروں سے پرانے زمانے کا ایسا خوب صورت فنِ تعمیر سامنے آیا جس نے وہاں سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ پکی گلیاں، کشادہ کمرے، ستونوں کی قطار اور خوب صورت فرش۔ کیا نہیں تھا اس دور کی تہذیبوں کے پاس۔
2002 میں ہنڈ میوزیم کے لیے 33 کنال زمین لی گئی اور اس کا افتتاح ماہرِتعمیرات ڈاکٹر احمد حسن دانی مرحوم نے کیا۔
10- ہڑپہ میوزیم ساہیوال؛
ضلع ساہیوال میں واقع ہڑپہ کی قدیم تہذیب کو تحفظ دینے کے لیے یہ سائٹ میوزیم 1926 میں بنایا گیا۔ 1966 میں اسے حکومتِ پاکستان کی بنائی عمارت میں منتقل کردیا گیا۔ بنیادی طور پر یہ عجائب گھر ہڑپہ کی تہذیب کا امین ہے جہاں اس علاقے کی کھدائی سے ملنے والی نایاب اشیاء جن میں کپڑے، برتن، ڈھانچے، زیور اور اوزار شامل ہیں رکھے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ میوزیم سے باہر آپ کئی کھنڈرات اور قدیم تعمیرات بھی ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
11- بنوں میوزیم؛
اس میوزیم کو پاکستان کے نئے بننے والے عجائب گھروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ بنوں میوزیم خیبرپختونخواہ کے محکمہ آثارِقدیمہ اور عجائب گھر کی کاوشوں سے بنایا گیا ہے اور اس کا افتتاح 2011 میں کیا گیا۔ بنوں اور گرد و نواح کے علاقوں سے مختلف کھدائیوں کے دوران برآمد ہونے والی اشیاء کو رکھنے کا مسئلہ پیدا ہوا تو یہاں ایک عجائب گھر بنانے کی شدید ضرورت محسوس کی گئی جسے بنوں میوزیم سے پورا کیا گیا۔
بنوں کے آس پاس شیری خان ترکئی، لیوان اور آکرہ کے مقامات پر پشاور یونیورسٹی، کیمبرج یونیورسٹی، برٹش میوزیم اور محکمہ آثارِ قدیمہ بنوں کے اشتراک سے کھدائی کی گئی اور ملنے والے نوادرات بنوں میوزیم سمیت برٹش میوزیم میں رکھے گئے ہیں۔ سادہ سی عمارت میں بنا یہ میوزیم ایک بار لازمی دیکھنا چاہیے۔
12- کیلاش میوزیم بمبوریت؛
شہروں کی ہلچل سے بہت دور کیلاش کی خوب صورت و پُراسرار وادی میں موجود اس حسین عجائب گھر کی روایتی عمارت لکڑی اور پتھر سے بنائی گئی ہے جس میں قدیم و جدید کی آمیزش اس طرح سے کی گئی ہے کہ جیسے یہ کسی دورِ جدید کے کیلاشی راجا کا محل ہو۔ اس میوزیم کو مقامی زبان میں ''دْر کالاشہ'' کہا جاتا ہے جب کہ اس کا نام بمبوریت میوزیم ہے۔ بمبوریت میں واقع اس میوزیم کو 2005 میں مکمل کیا گیا۔ یہاں تقریباً 1300 نوادرات محفوظ ہیں جو عمومی طور پرکوہِ ہندوکش اور خصوصی طور پر وادیٔ کیلاش کی ثقافت، معاشرت اور رہن سہن کو اجاگر کرتے ہیں۔
یہاں رکھے جانے والے زیادہ تر نوادرات ''یونانی رضاکار'' نامی تنظیم سے حاصل کیے گئے ہیں جو 1995 سے ان وادیوں میں کام کر رہی ہے۔ بہت سے قدیم اور نادر برتن پشاور اور چترال سے بھی خریدے گئے ہیں۔
اس عمارت میں دو منزلیں ہیں۔ نیچے کیلاش اور ہندوکش کے لوگوں کی خاندانی اشیاء رکھی گئی ہیں جن میں کیلاشی خواتین کے بنائے ہوئی کپڑے، ٹوکریاں، قدیم اور بھاری زیور، چمڑے کے پرس، گھریلو برتن، موسیقی کے آلات اور کام والے دروازے اور کھڑکیاں شامل ہیں۔ خوشی کی بات یہ کہ یہ سب سامان بہت اچھے طریقے سے محفوظ کیا گیا ہے، جب کہ اوپری حصے میں ایک کیلاش پر لکھی گئی کتابوں پر مشتمل ایک لائبریری، مقامی ہنرمندوں کے لیے ایک ٹریننگ سنٹر اور ایک سکول قائم ہے جہاں کیلاشی بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ زندگی میں ایک بار یہ وادی اور یہ عجائب گھر ضرور دیکھنے جائیے گا۔
13- شیر شاہ سوری میوزیم، قلعہ روہتاس؛
جہلم کی تحصیل دینہ کے پاس واقع قلعہ روہتاس، یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ کا حِصہ ہے۔ ویسے تو یہ قلعہ خود کسی عجوبے سے کم نہیں ہے لیکن اس کے اندر بھی ایک چھوٹا سا عجائب گھر بنایا گیا ہے جہاں شیرشاہ سوری اور اس کے دورِحکومت سے متعلق تمام اشیاء نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں اور اسی بنیاد پر اسے شیر شاہ سوری کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ اس میوزیم میں رکھا گیا جنگی سازوسامان اور پرانے سکے (سکندر لودھی اور ہمایوں کے دور کے) بہت نفاست سے رکھے گئے ہیں۔ دیگر اہم نوادرات میں قرآن کریم کے اٹھارویں صدی کے قلمی نسخے، مختلف پہناوے خصوصاً جنگی پوشاکیں ، بھاری تلواریں، ڈھالیں اور قلعے کا ایک جامع ماڈل شامل ہیں۔
14- عجائب گھر قصور؛
پنجاب کا شہر قصور یوں تو کئی حوالوں سے جانا جاتا ہے لیکن بابا بْلھے شاہ، قصوری فالودہ اور چرخے یہاں کی پہچان ہیں۔ قصور کا پرانا نام قسو سے منسوب کیا جاتا ہے جو رامائین کے مشہور ہیرو رام چندرا کا بیٹا تھا۔ قسوپور کا نام بعد میں تبدیل ہو کر قصور ہوگیا۔ قصور میوزیم قصور سے گنڈا سنگھ والا جاتے ہوئے برلبِ سڑک واقع ہے جس کی منفرد عمارت تقسیم سے پہلے سب ڈویڑنل مجسٹریٹ کا دفتر ہوا کرتی تھی۔ اس کا سنگ بنیاد 1999ء میں ڈسٹرکٹ قصور کے ثقافتی ورثہ کو محفوظ کرنے کے لیے رکھا گیا تھا۔
قصور میوزیم کی پانچ گیلریاں ہیں جن میں مختلف نوادرات نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔
آثارِقدیمہ گیلری: اس گیلری میں ''بن امیر خاتون'' ضلع چکوال سے دریات شدہ قدیم درختوں اور ہڈیوں کے نمونے (فاسلز) زیرنمائش ہیں جن کی عمر کا تعین 80 لاکھ سے ایک کروڑ سال تک کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہڑپہ اور چکوال کے دیگر تاریخی آثار کی کھدائیوں سے ملنے والے پکی مٹی کے برتن، ٹھیکریاں، انسانی اور حیوانی مورتیاں اوزان کے پیمانے اور باٹ بھی زیرنمائش ہیں۔ گیلری میں گندھارا عہد کے متعلق بدھا اور ہندو دیوتاؤں کے مجسّمے بھی رکھے گئے ہیں۔
سکہ جات گیلری: اس گیلری کا دائرہ نہایت وسیع ہے جو انڈویونی، پارتھی، کشان، ہندوستان، ابتدائی اسلامی، مغل، سکھ اور برطانوی عہد تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ گیلری میں قیام پاکستان کے بعد 1948ء میں جاری ہونے والے ابتدائی ترین سِکّوں سے لے کر موجودہ عہد تک کے سکے رکھے گئے ہیں۔
اِسلامی گیلری: اس گیلری کے تین حصے ہیں پہلے حصے میں صنائع دستی، لکڑی کی کھدائی والا کام، پچکاری، زیورات اور گھریلو استعمال کی دیگر اشیاء رکھی گئی ہیں دوسرا حصہ مخطوطات اور خطاطی پر مشتمل ہے، جس میں مشہور خطاط حافظ مرتضیٰ افغان قصور1179ء کے ہاتھ کا لکھا ہوا قرآن مجید، خط نسخ میں عزیز خان کشمیری کے ہاتھ کا لکھا ہوا 1290ء کا مخطوطہ دلائل الخیرات خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ خط نستعلیق کے چند نمونے بھی نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔ تیسرا حصہ مسلم عہد اور اس کے بعد کے اسلحہ پر مشتمل ہے اس حصے میں تلواریں، خنجر، چاقو، زرہ بکتر، پستول اور بندوقیں زیرنمائش ہیں۔
تحریک پاکستان گیلری: اس گیلری میں طلبہ وطالبات کو تحریک پاکستان کے اہم کرداروں اور قدم بہ قدم تحریک آزادی سے روشناس کرانے کے لیے تحریک آزادی کی کہانی تصویروں کی زبانی پیش کی گئی ہے۔
قصور کرافٹ گیلری: قصور مدتوں سے لکڑی کی خوب صورت کھدائی کے کام، لکڑی پر روغنی کام، چمڑے کے کام اور کھڈی سے تیار کی جانے والی مصنوعات کے سلسلے میں مشہور چلا آ رہا ہے۔ قصور کا چارخانہ، کھیس، دریاں اور چمڑے کی زینیں (Saddles) دنیا بھر میں مشہور ہیں جن کی نمائندگی اس گیلری میں کی گئی ہے۔
دیکھنے میں تو یہ میوزیم چھوٹا سا ہے لیکن لاجواب شاہ کاروں سے مزین ہے۔
15- پی اے ایف میوزیم کراچی ؛
یوں تو پاکستان کی تقریباً ہر ایئر بیس میں چھوٹا موٹا کوئی نہ کوئی میوزیم موجود ہے لیکن پی اے ایف میوزیم کراچی کو ہم ائیر فورس کا فخر کہہ سکتے ہیں جہاں فضائیہ کے متروک جنگی ہوائی جہازوں اور ان کی اشیاء کو خوب صورتی سے نمایاں کیا گیا ہے۔ 1990 میں بنائے جانے والے اس میوزیم کی کہانی ائیر بیس میں دور دراز واقع ایک جہازوں کے شیڈ سے شروع ہوئی جو دیکھتے ہی دیکھتے ایک وسیع میوزیم میں بدل گیا۔ یہاں زیادہ تر پرانے جہازوں، ہتھیاروں اور پاکستان ائیر فورس کے ریڈاروں کو باہر پارک میں رکھا گیا ہے جبکہ فضائیہ کے تمام مرکزی لڑاکا طیارے اندر ہال میں موجود ہیں۔
یہاں قائدِاعظم کے استعمال میں رہنے والا وائیکر-1 ایئرکرافٹ اور 1965 کی جنگ میں پسرور میں لینڈ کرنے والا انڈین ائیر فورس کا طیارہ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ جنگِ عظیم اول اور دوم کے کچھ جہازوں کے علاوہ یہاں پاکستان ائیر فورس کی تصویری گیلری بھی ہے۔ یہاں بچوں کے کھیلنے کی جگہ اور خوب صورت فوڈ کورٹ بھی بنایا گیا ہے۔
(جاری ہے)
7- بہاولپور میوزیم ؛
تقسیم سے پہلے ریاست بہاولپور اپنے وقت کی ایک خوش حال اور امیر ترین ریاست تھی، جس کا اپنا سِکہ، ریلوے کا نظام، نہری نظام، ڈاک کا نظام، بینک، ٹکسال اور فوج تھی۔ محلات کا شہر کہلایا جانے والا بہاولپور آج شاید تاریخ میں کہیں گم ہوچکا ہے لیکن اس شہر نے اپنے تاریخی اہمیت پر آنچ نہیں آنے دی جس کی جیتی جاگتی مثال اس شہر کا میوزیم ہے۔
ایک عام سی عمارت میں واقع بہاولپور میوزیم سینٹرل لائبریری کے بالکل پہلو میں بہاول وکٹوریہ اسپتال کے ساتھ واقع ہے۔
اس عجائب گھر کا قیام لگ بھگ 1976 میں بہاولپور کی ضلعی انتظامیہ کی زیرنگرانی عمل میں آیا۔
گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی جو چیز آپ کا استقبال کرتی ہے وہ ایک بڑے چبوترے پر نمائش کے لیے رکھی گئی نواب صاحب کی گاڑی ہے جس کے قریب ہی ایک صدی پرانا اسٹیم انجن کھڑا ہوا ہے، جو ابتدائی طور پر بنگال ریلوے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ تاریخ کے مطابق اسی انجن کو پھر ہیڈ پنجند کی تعمیر میں استعمال ہونے والے سامان کی ترسیل کے لیے کام میں لایا گیا۔ 1931 میں ہیڈ پنجند کی تعمیر کے بعد اسے ورکشاپ میں کھڑا کر دیا گیا۔ 2004 میں اسے پنجند سے بہاولپور میوزیم منتقل کر دیا گیا جو اب تک یہیں ہے۔
ٹکٹ لے کر میوزیم کے اندر داخل ہوں تو پہلی گیلری میں تین مختلف اقسام کی توپیں اور دیگر جنگی سامان نظر آتا ہے۔ یہ توپیں ریاست بہاولپور کے شاہی توپ خانے سے لائی گئی ہیں۔ دیگر سامان زیادہ تر پرانی جنگوں میں استعمال کیا جانے والا ہے جن میں موتیوں کے کام والے طمنچے، تلواریں، ڈھالیں، تیر کمان اور زرہ بکتر شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ہاتھی دانت کی اشیاء، زیورات اور منقش پلیٹیں رکھی گئی ہیں۔
اگلی گیلری میں آپ موہن جو دڑو، ہڑپہ اور گندھارا سے نکلنے والے قدیم مجسمے اور دیگر اشیاء دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں رکھی گئی اشیاء میں کالی دیوی کا مجسمہ، کالادھاری مندر بہاولپور کا لکڑی کا منقش دروازہ، سنگ مرمر کے مجسمے، ریت کے پتھر کا ستون، ناپ تول کے باٹ اور گوتم بدھ کا سر شامل ہیں۔ یہیں گیلری کے وسط میں نور محل کا خوب صورت ماڈل بھی رکھا گیا ہے۔
اس سے آگے ڈاک گیلری ہے جہاں ریاست بہاولپور سمیت حکومت پاکستان کے جاری کردہ مختلف ڈاک ٹکٹ نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔
ریاست بہاولپور کی ثقافتی گیلری اس میوزیم کی سب سے منفرد جگہ ہے جہاں آپ چولستان کی ثقافت کو ایک چھت تلے دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں آپ کو چاندی کے قدیم زیورات، صندوقچے، لکڑی کے چرخے، آئینے، مٹی کے برتن، چھبیاں، لسی بنانے والی مندھانی اور قلعہ دیراوڑ کا ایک خوب صورت ماڈل دیکھنے کو ملے گا۔ ملبوسات کی گیلری میں بہاولپور ریجن میں بنائے جانے والے دلکش کھیس، دریاں، چادریں، کُھسے، کشمیری و بلوچی پوشاکیں، چنری، تکیوں کے غلاف، ہاتھ کی کڑہائی والی ٹوپیاں، لنگیاں اور دولہا کے سہرے شامل ہیں۔
اگلی گیلریوں میں آپ نواب صاحب، ان کی اولاد، دیگر سربراہانِ مملکت اور ان کے محلات کی تصویریں، ریاست کے جاری کردہ سکے، شاہی بگھی، چولستان کی روز مرہ زندگی اور ثقافت، روہیلوں کے گوپے اور بہاولپور کے محلوں کے ماڈل دیکھ سکتے ہیں۔
غرض یہ میوزیم جنوبی پنجاب خصوصاً بہاولپور و چولستان کی ثقافت سے روشناس ہونے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔
8- شاہی قلعہ لاہور میوزیم؛
یوں تو شاہی قلعے کو کسی میوزیم کی ضرورت نہیں تھی کہ یہ اپنے آپ میں پوری تاریخ کی کتاب ہے۔ لیکن قلعے کے اندر تین آرٹ گیلریوں پر مشتمل ایک نایاب عجائب گھر قائم ہے۔
پہلی گیلری موتی مسجد کے پاس واقع ہے جہاں سکھ اور برطانوی دور کے اسلحے کو نمائش کے لیے رکھا گیا ہے جن میں تلواریں، ڈھالیں، زرہ بکتر، تیر، کمان، نیزے، خنجر اور پستول وغیرہ شامل ہیں۔
مغل گیلری ایک تاریخی لائبریری کی طرح ہے جہاں آپ مغلیہ دور کی دستاویزات، تصاویر، سِکے اور دیگر نوادرات دیکھ سکتے ہیں۔
سکھ گیلری اس میوزیم کی آخری گیلری ہے جہاں راج کماری بمبا کی اشیاء اور دیگر تصاویر رکھی گئی ہیں۔
اس میوزیم کی ایک خاص چیز یہاں موجود ہاتھی دانت سے بنا تاج محل کا ماڈل ہے جو دیکھنے والوں کو مبہوت کر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
9- ہُنڈ میوزیم صوابی؛
پنجاب کے شہر اٹک کے قریب واقع اٹک قلعے تقریباً 15 کلومیٹرشمل میں سندھو ندی کے بائیں کنارے پر ضلع صوابی کا ایک چھوٹا سا گاؤں ''ہْنڈ'' آباد ہے جو گندھارا تہذیب کا اہم مسکن رہا ہے۔ یہ بالکل اس جگہ واقع ہے جہاں سے سکندرِ اعظم کی فوجوں نے دریائے سندھ عبور کیا تھا۔ کہتے ہیں کہ ہندو حکم رانوں کے زیر اثر گندھارا سلطنت کا آخری دارالحکومت ہُنڈ تھا۔ اس شہر کا قدیم نام ''ادابھنداپورا'' تھا۔ اس کی دفاعی اہمیت کے پیشِ نظر مغل بادشاہ اکبر نے یہاں ایک قلعہ بنوایا اور ہُنڈ مغل دور کی ایک اہم فوجی چھاؤنی رہی۔ اس قلعے کے کھنڈرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
ہُنڈ کے موام پر کھدائی کا آغاز 1996 میں کیا گیا۔ کھدائی کے دوران انڈو یونانی تہذیب کے خوب صورت گھر، سکے، زیور اور دیگر سامان دریافت ہوا جبکہ کشان، ہندو شاہی دور اور مسلم دور کے گھر بھی ملے۔ ان گھروں سے پرانے زمانے کا ایسا خوب صورت فنِ تعمیر سامنے آیا جس نے وہاں سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ پکی گلیاں، کشادہ کمرے، ستونوں کی قطار اور خوب صورت فرش۔ کیا نہیں تھا اس دور کی تہذیبوں کے پاس۔
2002 میں ہنڈ میوزیم کے لیے 33 کنال زمین لی گئی اور اس کا افتتاح ماہرِتعمیرات ڈاکٹر احمد حسن دانی مرحوم نے کیا۔
10- ہڑپہ میوزیم ساہیوال؛
ضلع ساہیوال میں واقع ہڑپہ کی قدیم تہذیب کو تحفظ دینے کے لیے یہ سائٹ میوزیم 1926 میں بنایا گیا۔ 1966 میں اسے حکومتِ پاکستان کی بنائی عمارت میں منتقل کردیا گیا۔ بنیادی طور پر یہ عجائب گھر ہڑپہ کی تہذیب کا امین ہے جہاں اس علاقے کی کھدائی سے ملنے والی نایاب اشیاء جن میں کپڑے، برتن، ڈھانچے، زیور اور اوزار شامل ہیں رکھے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ میوزیم سے باہر آپ کئی کھنڈرات اور قدیم تعمیرات بھی ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
11- بنوں میوزیم؛
اس میوزیم کو پاکستان کے نئے بننے والے عجائب گھروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ بنوں میوزیم خیبرپختونخواہ کے محکمہ آثارِقدیمہ اور عجائب گھر کی کاوشوں سے بنایا گیا ہے اور اس کا افتتاح 2011 میں کیا گیا۔ بنوں اور گرد و نواح کے علاقوں سے مختلف کھدائیوں کے دوران برآمد ہونے والی اشیاء کو رکھنے کا مسئلہ پیدا ہوا تو یہاں ایک عجائب گھر بنانے کی شدید ضرورت محسوس کی گئی جسے بنوں میوزیم سے پورا کیا گیا۔
بنوں کے آس پاس شیری خان ترکئی، لیوان اور آکرہ کے مقامات پر پشاور یونیورسٹی، کیمبرج یونیورسٹی، برٹش میوزیم اور محکمہ آثارِ قدیمہ بنوں کے اشتراک سے کھدائی کی گئی اور ملنے والے نوادرات بنوں میوزیم سمیت برٹش میوزیم میں رکھے گئے ہیں۔ سادہ سی عمارت میں بنا یہ میوزیم ایک بار لازمی دیکھنا چاہیے۔
12- کیلاش میوزیم بمبوریت؛
شہروں کی ہلچل سے بہت دور کیلاش کی خوب صورت و پُراسرار وادی میں موجود اس حسین عجائب گھر کی روایتی عمارت لکڑی اور پتھر سے بنائی گئی ہے جس میں قدیم و جدید کی آمیزش اس طرح سے کی گئی ہے کہ جیسے یہ کسی دورِ جدید کے کیلاشی راجا کا محل ہو۔ اس میوزیم کو مقامی زبان میں ''دْر کالاشہ'' کہا جاتا ہے جب کہ اس کا نام بمبوریت میوزیم ہے۔ بمبوریت میں واقع اس میوزیم کو 2005 میں مکمل کیا گیا۔ یہاں تقریباً 1300 نوادرات محفوظ ہیں جو عمومی طور پرکوہِ ہندوکش اور خصوصی طور پر وادیٔ کیلاش کی ثقافت، معاشرت اور رہن سہن کو اجاگر کرتے ہیں۔
یہاں رکھے جانے والے زیادہ تر نوادرات ''یونانی رضاکار'' نامی تنظیم سے حاصل کیے گئے ہیں جو 1995 سے ان وادیوں میں کام کر رہی ہے۔ بہت سے قدیم اور نادر برتن پشاور اور چترال سے بھی خریدے گئے ہیں۔
اس عمارت میں دو منزلیں ہیں۔ نیچے کیلاش اور ہندوکش کے لوگوں کی خاندانی اشیاء رکھی گئی ہیں جن میں کیلاشی خواتین کے بنائے ہوئی کپڑے، ٹوکریاں، قدیم اور بھاری زیور، چمڑے کے پرس، گھریلو برتن، موسیقی کے آلات اور کام والے دروازے اور کھڑکیاں شامل ہیں۔ خوشی کی بات یہ کہ یہ سب سامان بہت اچھے طریقے سے محفوظ کیا گیا ہے، جب کہ اوپری حصے میں ایک کیلاش پر لکھی گئی کتابوں پر مشتمل ایک لائبریری، مقامی ہنرمندوں کے لیے ایک ٹریننگ سنٹر اور ایک سکول قائم ہے جہاں کیلاشی بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ زندگی میں ایک بار یہ وادی اور یہ عجائب گھر ضرور دیکھنے جائیے گا۔
13- شیر شاہ سوری میوزیم، قلعہ روہتاس؛
جہلم کی تحصیل دینہ کے پاس واقع قلعہ روہتاس، یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ کا حِصہ ہے۔ ویسے تو یہ قلعہ خود کسی عجوبے سے کم نہیں ہے لیکن اس کے اندر بھی ایک چھوٹا سا عجائب گھر بنایا گیا ہے جہاں شیرشاہ سوری اور اس کے دورِحکومت سے متعلق تمام اشیاء نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں اور اسی بنیاد پر اسے شیر شاہ سوری کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ اس میوزیم میں رکھا گیا جنگی سازوسامان اور پرانے سکے (سکندر لودھی اور ہمایوں کے دور کے) بہت نفاست سے رکھے گئے ہیں۔ دیگر اہم نوادرات میں قرآن کریم کے اٹھارویں صدی کے قلمی نسخے، مختلف پہناوے خصوصاً جنگی پوشاکیں ، بھاری تلواریں، ڈھالیں اور قلعے کا ایک جامع ماڈل شامل ہیں۔
14- عجائب گھر قصور؛
پنجاب کا شہر قصور یوں تو کئی حوالوں سے جانا جاتا ہے لیکن بابا بْلھے شاہ، قصوری فالودہ اور چرخے یہاں کی پہچان ہیں۔ قصور کا پرانا نام قسو سے منسوب کیا جاتا ہے جو رامائین کے مشہور ہیرو رام چندرا کا بیٹا تھا۔ قسوپور کا نام بعد میں تبدیل ہو کر قصور ہوگیا۔ قصور میوزیم قصور سے گنڈا سنگھ والا جاتے ہوئے برلبِ سڑک واقع ہے جس کی منفرد عمارت تقسیم سے پہلے سب ڈویڑنل مجسٹریٹ کا دفتر ہوا کرتی تھی۔ اس کا سنگ بنیاد 1999ء میں ڈسٹرکٹ قصور کے ثقافتی ورثہ کو محفوظ کرنے کے لیے رکھا گیا تھا۔
قصور میوزیم کی پانچ گیلریاں ہیں جن میں مختلف نوادرات نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔
آثارِقدیمہ گیلری: اس گیلری میں ''بن امیر خاتون'' ضلع چکوال سے دریات شدہ قدیم درختوں اور ہڈیوں کے نمونے (فاسلز) زیرنمائش ہیں جن کی عمر کا تعین 80 لاکھ سے ایک کروڑ سال تک کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہڑپہ اور چکوال کے دیگر تاریخی آثار کی کھدائیوں سے ملنے والے پکی مٹی کے برتن، ٹھیکریاں، انسانی اور حیوانی مورتیاں اوزان کے پیمانے اور باٹ بھی زیرنمائش ہیں۔ گیلری میں گندھارا عہد کے متعلق بدھا اور ہندو دیوتاؤں کے مجسّمے بھی رکھے گئے ہیں۔
سکہ جات گیلری: اس گیلری کا دائرہ نہایت وسیع ہے جو انڈویونی، پارتھی، کشان، ہندوستان، ابتدائی اسلامی، مغل، سکھ اور برطانوی عہد تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ گیلری میں قیام پاکستان کے بعد 1948ء میں جاری ہونے والے ابتدائی ترین سِکّوں سے لے کر موجودہ عہد تک کے سکے رکھے گئے ہیں۔
اِسلامی گیلری: اس گیلری کے تین حصے ہیں پہلے حصے میں صنائع دستی، لکڑی کی کھدائی والا کام، پچکاری، زیورات اور گھریلو استعمال کی دیگر اشیاء رکھی گئی ہیں دوسرا حصہ مخطوطات اور خطاطی پر مشتمل ہے، جس میں مشہور خطاط حافظ مرتضیٰ افغان قصور1179ء کے ہاتھ کا لکھا ہوا قرآن مجید، خط نسخ میں عزیز خان کشمیری کے ہاتھ کا لکھا ہوا 1290ء کا مخطوطہ دلائل الخیرات خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ خط نستعلیق کے چند نمونے بھی نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔ تیسرا حصہ مسلم عہد اور اس کے بعد کے اسلحہ پر مشتمل ہے اس حصے میں تلواریں، خنجر، چاقو، زرہ بکتر، پستول اور بندوقیں زیرنمائش ہیں۔
تحریک پاکستان گیلری: اس گیلری میں طلبہ وطالبات کو تحریک پاکستان کے اہم کرداروں اور قدم بہ قدم تحریک آزادی سے روشناس کرانے کے لیے تحریک آزادی کی کہانی تصویروں کی زبانی پیش کی گئی ہے۔
قصور کرافٹ گیلری: قصور مدتوں سے لکڑی کی خوب صورت کھدائی کے کام، لکڑی پر روغنی کام، چمڑے کے کام اور کھڈی سے تیار کی جانے والی مصنوعات کے سلسلے میں مشہور چلا آ رہا ہے۔ قصور کا چارخانہ، کھیس، دریاں اور چمڑے کی زینیں (Saddles) دنیا بھر میں مشہور ہیں جن کی نمائندگی اس گیلری میں کی گئی ہے۔
دیکھنے میں تو یہ میوزیم چھوٹا سا ہے لیکن لاجواب شاہ کاروں سے مزین ہے۔
15- پی اے ایف میوزیم کراچی ؛
یوں تو پاکستان کی تقریباً ہر ایئر بیس میں چھوٹا موٹا کوئی نہ کوئی میوزیم موجود ہے لیکن پی اے ایف میوزیم کراچی کو ہم ائیر فورس کا فخر کہہ سکتے ہیں جہاں فضائیہ کے متروک جنگی ہوائی جہازوں اور ان کی اشیاء کو خوب صورتی سے نمایاں کیا گیا ہے۔ 1990 میں بنائے جانے والے اس میوزیم کی کہانی ائیر بیس میں دور دراز واقع ایک جہازوں کے شیڈ سے شروع ہوئی جو دیکھتے ہی دیکھتے ایک وسیع میوزیم میں بدل گیا۔ یہاں زیادہ تر پرانے جہازوں، ہتھیاروں اور پاکستان ائیر فورس کے ریڈاروں کو باہر پارک میں رکھا گیا ہے جبکہ فضائیہ کے تمام مرکزی لڑاکا طیارے اندر ہال میں موجود ہیں۔
یہاں قائدِاعظم کے استعمال میں رہنے والا وائیکر-1 ایئرکرافٹ اور 1965 کی جنگ میں پسرور میں لینڈ کرنے والا انڈین ائیر فورس کا طیارہ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ جنگِ عظیم اول اور دوم کے کچھ جہازوں کے علاوہ یہاں پاکستان ائیر فورس کی تصویری گیلری بھی ہے۔ یہاں بچوں کے کھیلنے کی جگہ اور خوب صورت فوڈ کورٹ بھی بنایا گیا ہے۔
(جاری ہے)