رسولِ کریمؐ بہ حیثیت شارع و قانون ساز

’’جو رسول (ﷺ) تمہیں دیں وہ لے لو اور جن سے منع فرمائیں، اُن سے رک جاؤ۔‘‘

’’جو رسول (ﷺ) تمہیں دیں وہ لے لو اور جن سے منع فرمائیں، اُن سے رک جاؤ۔‘‘۔فوٹو : فائل

قانون دراصل معاشرے میں امن و عافیت، نظم و نسق قائم رکھنے اور افرادِ معاشرہ کے حقوق و فرائض کے درمیان توازن پیدا کرنے کا نام ہے۔ قانون ہی معاشرے کے بگاڑ کی اصلاح کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سے انسان دنیا میں آباد ہوئے ہیں، اُس وقت سے قانون کا وجود بھی ہمیں نظر آتا ہے۔

قرآنِ مجید میں اﷲ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کے درمیان ہونے والے تنازع کا ذکر فرمایا ہے اور اس وقت کے مروّجہ قانون کی رُو سے اِس تنازع کے دفعیہ کا حل بھی ذکر فرمایا ہے۔ یہ واقعہ اُس وقت میں بھی قانون کے باقاعدہ وجود کی بہت بڑی دلیل ہے۔

قانون کی وضع عام طور پر دو طریقوں سے ہوتی رہی ہے، جن میں ایک طریقہ یہ رہا ہے کہ انسان خود اپنے حالات و واقعات اور معاشرے کی ضرورت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے قانون سازی کرلیتا ہے اور پھر اُن موضوعہ قوانین کو معاشرے پر لاگو کردیتا ہے۔ چوں کہ اس طریقۂ قانون سازی میں انسان اپنی ناقص عقل و فہم کو اِستعمال کرتا ہے۔

۔لہٰذا اِس میں کئی اعتبار سے خامیاں رہ جاتی ہیں۔ لہٰذا اِس طرح سے وضع کیے ہوئے قوانین میں بعد میں تبدیلیاں ناگزیر ہوجاتی ہیں۔ قانون سازی کا دوسرا طریقہ الہامی ہدایات پر مشتمل ہے، جو اﷲ جل شانۂ اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے کراتا رہا ہے۔ قانون سازی کے اِس عمل میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے انبیائے کرامؑ کو کتب و صحائف کی صورت میں ہدایات عطا فرمائیں۔ ان ہدایات کی رُو سے قتل و غارت گری، چوری، سُود، رشوت اور زنا وغیرہ کو ممنوع قرار دے دیا گیا اور ان کے مرتکبین کے لیے سزائیں مقرر کی گئیں۔

الہامی ہدایات کی روشنی میں قانون سازی کی آخر ی کڑی جنابِ رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے اور چوں کہ اﷲ تعالیٰ کے پیغامات و ہدایات انسانوں تک پہنچانے والے آپؐ آخری نبی ہیں، جن کی نبوت و رسالت کا دائرۂ کار تاقیامت وسیع ہے۔ لہٰذا آپؐ کے وضع کردہ تمام قوانین انتہائی جامع اور مکمل دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِس حوالے سے جب قرآنِ مجید کا بہ نظرِ غائر مطالعہ کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآنِ مجید میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا تعارف مختلف حیثیتوں سے ملتا ہے، جن میں ایک اہم حیثیت شارع و مقنّن کی بھی ہے۔ شارع عربی میں قانون ساز کو کہا جاتا ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ حیثیت اس قدر مسلَّم ہے کہ ربِّ کائنات نے آپؐ کی طرف سے دی گئیں تمام ہدایات و فرمودات کو مِن و عن تسلیم کرنے اور اُن پر عمل پیرا ہونے کا حکم ارشاد فرمایا ۔ چناں چہ ارشادِ ربانی کا مفہوم ہے: ''جو رسول (ﷺ) تمہیں دیں وہ لے لو اور جن سے منع فرمائیں، اُن سے رک جاؤ۔'' (سورۂ حشر)


سورۂ اعراف میں فرمایا گیا، مفہوم: ''وہ اُن (انسانوں) کو نیک باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بُری باتوں سے منع کرتے ہیں اور پاکیزہ چیزوں کو اُن پر حلال کرتے ہیں اور گندی چیزوں کو اُن پر حرام قرار دیتے ہیں۔'' (سورۂ اعراف)

رسول اﷲ ﷺ کی یہ حیثیت اس قدر اہم ہے کہ اِس حیثیت کے انکار کرنے والے کے ایمان کی نفی کردی گئی ہے۔ لہٰذا ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ''سو، آپؐ کے ربّ کی قسم! یہ مومن نہیں ہوسکتے، جب تک کہ آپؐ کو اپنے تمام معاملات میں حاکم تسلیم نہ کرلیں پھر جو فیصلے آپؐ ان میں کردیں، ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرماں برداری کے ساتھ قبول کرلیں۔'' (سورۂ نساء)

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بہ حیثیت شارع و قانون ساز صحابۂ کرامؓ، یہاں تک کہ اُس زمانے کے یہودیوں کے درمیان پائے جانے والے تنازعات کا فیصلہ صادر فرمایا کرتے تھے اور ان فیصلوں کے نفاذ کے دوران آپؐ نے ایسے اُصول و ضوابط وضع فرمائے، جو بعد میں آنے والے دور کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوئے اور وہ آج باقاعدہ مسلّمہ قانون کی حیثیت سے دنیا بھر کی عدالتوں میں رائج ہیں۔ اِس حوالے سے دو اُصول بہ طور مثال پیش کیے جارہے ہیں۔

آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ثبوت پیش کرنا مدَّعی کی ذمے داری ہے، جب کہ عدمِ ثبوت کی صورت میں مدَّعا علیہ پر حلف ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ اُصول آج ایک مسلّمہ حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ اسی طرح ایک اُصول یہ بھی بیان فرمایا کہ کسی بھی شخص کو اُس وقت تک سزا نہیں دی جاسکتی جب تک کہ اُسے سُن نہ لیا جائے یعنی کسی کو سزا دینے سے پہلے اُسے اپنے حق میں صفائی پیش کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ قرآنِ مجید میں بیان قصۂ آدم و ابلیس میں بھی یہ اُصول کارفرما نظر آتا ہے۔ یہ واقعہ اُس وقت کا ہے جب یہ دنیا انسانوں سے آباد نہیں ہوئی تھی۔ جب ابلیس نے اﷲ تعالیٰ کی حکم عدولی کرتے ہوئے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا، تو اﷲ تعالیٰ نے فورا اُسے مجرم قرار نہیں دیا بل کہ پہلے اُسے اپنی صفائی میں بولنے کا پورا موقع دیا پھر اُسے بہ طورِ سزا راندۂ درگاہ قرار دیا۔

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے ربّ کے عطا کردہ اس اعلیٰ منصب کی بنا پر قرآنِ مجید کی آیات کی تعبیر و تشریح اور امّت کی آسانی کی خاطر مختلف قسم کے قوانین وضع فرماتے رہے ہیں۔ وہ سب قوانین جو آپؐ نے قرآنی احکامات کی صورت میں عطا فرمائے اور جو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی احادیثِ کریمہ کے ذریعے سے دیے سب کے سب مسلمانوں کے لیے بالخصوص اور عام لوگوں کے لیے بالعموم سُودمند اور فلاح و نجات کا ذریعہ ہیں۔ آج اگر پاکستان میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے لائے ہوئے قوانین کو نافذ کردیا جائے تو ملک کو موجودہ معاشی و سماجی اور اخلاقی مسائل سے نجات مل سکتی ہے۔
Load Next Story