فنون لطیفہ سے وابستہ افراد میں خودکشی کا بڑھتا رحجان
معاشرے کے یہ افراد عام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ حساس اور محبت کرنے والے ہوتے ہیں، وہ معاشرے سے الگ ہوکر سوچتے ہیں
نوجوان بھارتی اداکار سشانت سنگھ راجپوت کی المناک اور اچانک خودکشی نے نہ صرف اپنے مداحوں کو افسردہ کردیا بلکہ میڈیا سے وابستہ شخصیات نے بھی اس سانحے پر گہرے رنج و دکھ کا اظہار کیا ہے۔ اب کوئی کچھ بھی کہے کہ ان کا کوئی ذاتی مسئلہ تھا یا وہ قرض کی ادائیگی کی بنا پر پریشان تھے۔ سوال صرف یہ ہے کہ خودکشی بذات خود ایک بزدلی کا کام ہے۔ جب انسان ہر طرف سے مایوس ہوجاتا ہے تو اپنی زندگی کے خاتمے کو ہی تمام مسائل کا حل سمجھ لیتا ہے۔ لیکن دوسری طرف خواہ خود کو گولی مارنا ہو یا پھندے سے لٹکنا، یہ کام بھی بہت دل گردے کا ہے۔
فنون لطیفہ سے وابستہ افراد میں خودکشی کا رحجان کیوں بڑھ رہا ہے؟ یہ پہلی مرتبہ تو نہیں ہوا۔ بالی وڈ، ہالی وڈ اور خود پاکستان میں بھی شوبز سے منسلک افراد کے اپنی زندگیاں ختم کرلینے کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔
مشہور شاعر شکیب جلالی، جن کا اصل نام سید حسن رضوی تھا 1934 میں پیدا ہوئے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ انھیں اپنے ہم عصر شاعروں کی جانب سے بے اعتنائی کا سامنا کرنا پڑا۔ شاید کسی کو معلوم نہ ہو کہ شکیب جلالی کے والد ذہنی عارضے میں مبتلا تھے اور انھوں نے ان کی والدہ کو ان کے اور دیگر بہن بھائیوں کے سامنے چلتی ٹرین کے آگے پھینک دیا تھا۔ والدہ کی المناک موت کا صدمہ ساری زندگی شکیب جلالی کے ساتھ رہا اور 12 نومبر 1966 کو انھوں نے چلتی ٹرین کے سامنے خودکشی کرلی۔ ان کا شعری مجموعہ ''روشنی اے روشنی'' ان کے اس دنیا سے جانے کے بعد 1972 میں شائع ہوا۔
مصطفیٰ زیدی سرکاری افسر ہونے کے ساتھ ایک شاعر بھی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے ایک خاتون کے عشق میں ناکامی پر خودکشی کی تھی۔ وہ 12 اکتوبر 1970 کو اپنے کمرے میں پراسرار حالت میں مردہ پائے گئے تھے۔ کئی لوگوں کا یہ خیال ہے کہ انھیں قتل کیا گیا لیکن اکثریت کی یہ رائے ہے کہ انھوں نے خود اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔
مشہور پاکستانی مزاحیہ اداکار ننھا، جن کا اصل نام محمد رفیع خاور تھا، نے اپنے فنی کیریئر میں 391 فلموں میں کام کیا۔ وہ 1964 میں ریڈیو پاکستان سے پروگرام بھی کرتے رہے۔ انھوں نے کئی فلموں میں کام کیا جن میں ''سالا صاحب''، ''دبئی چلو''، ''آس''، ''نوکر''، ''آخری جنگ '' وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ تاہم انھیں اصل شہرت مشہور مصنف اور ڈرامہ نگار کمال احمد رضوی کے پروگرام ''الف نون'' سے ملی۔ وہ ایک اداکارہ نازلی کے عشق میں مبتلا تھے اور نازلی کی بے وفائی کے بعد انھوں نے 2 جولائی 1986 میں خود کو گولی مار کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔؎
امریکی ناول نگار اور صحافی ارنسٹ ہیمنگوئے سے کون واقف نہیں۔ انھیں 1954 میں ادب کا نوبل پرائز ملا تھا۔ ان کے 7 ناول اور افسانوں کے چھ مجموعے شائع ہوئے۔ ان کا شہرہ آفاق ناول ''فار ہوم دی بیل ٹالز'' 1940 میں شائع ہوا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ کئی جسمانی عارضوں میں مبتلا ہوئے تھے، جس کے بعد انھوں نے جولائی 1961 کو خود کو گولی مار کر خودکشی کی۔
جیا خان، نفیسہ جوزف، پروین بابی، دیویا بھارتی ان سب کو بھی نہیں بھلایا جاسکتا۔ پروین بابی اپنے کمرے میں مردہ پائی گئیں. دیویا بھارتی نے 1993 میں پانچ منزلہ عمارت سے چھلانگ لگائی۔ جیا خان اور نفسیہ جوزف نے پنکھے سے پھندا لگا کر خودکشی کی۔ ان سب کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ انھیں ڈپریشن کا عارضہ لاحق تھا۔
اگر اس بات پر غور کیا جائے کہ ادیب، شاعر، فنکار خودکشی کیوں کررہے ہیں، تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ معاشرے کے یہ افراد عام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ حساس اور محبت کرنے والے ہوتے ہیں۔ وہ معاشرے سے الگ ہوکر سوچتے ہیں، لہٰذا اپنے اردگرد ہونے والے واقعات کا ان پر عام لوگوں کی نسبت زیادہ اثر ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ جلد ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔
دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ عوام ادبیوں اور فنکاروں سے بہت سی توقعات وابستہ کرلیتے ہیں کہ اب اس ڈرامے میں کام کیا اور اتنی شاندار اداکاری کی اور اب اس رول میں کیوں برا آیا؟ یہ فلم کیوں فلاپ ہوئی؟ تو گویا عوام کی رائے ایک سلیبرٹی کےلیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ کسی کے بارے میں کمنٹس پاس کرتے ہوئے عوام اور مداح یہ بالکل نہیں سوچتے کہ ضروری نہیں کہ ان کا پسندیدہ ایکٹر ہر وقت کامیاب ہو۔ وہ بھی انسان ہیں، ان کے ساتھ اتنی توقعات وابستہ کرنا ٹھیک نہیں ہوتا۔ ان کی ذاتی زندگی کو لے کر باتیں کرنا عام انسانوں کی طرح انھیں بھی ذہنی الجھنوں میں مبتلا کرتا ہے۔
شوبز کی دنیا بھی زندگی کی طرح بے وفا ہوتی ہے۔ یہاں ہیرو سے زیرو بننے میں سکینڈ نہیں لگتا۔ اپنی پے در پے کامیابیوں کے بعد فنکار اور ادیب خود بھی اپنے آُپ سے ہمیشہ مثبت امیدیں وابستہ کرلیتا ہے۔ اگر اوسط درجے کا کام ہو، کام نہ ملے، فلمیں ناکام ہوں، کالم نگاری میں ناکامی ہو، قلم کار کو اس کا حق اور معاوضہ نہ ملے تو وہ حسرت و یاس کا شکار ہوکر زندگی کا خاتمہ کرلیتا ہے۔ شہرت، دولت یہ سب چیزیں نہ ملیں تو ڈپریشن تو ہوتا ہے، پریشانی اور ذہنی تناؤ تو ہوتا ہے۔
ڈپریشن کیا ہے؟ یہ انہی مندرجہ بالا وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے۔ ہمیں فلیش لائٹ میں، لائم لائٹ میں رہنے والی شخصیات بظاہر بہت خوش دکھائی دیتی ہیں، لیکن ہم نقابوں میں ملفوف، پردوں کے پیچھے چھپے معاشرے کے ان کارآمد افراد کے اصل دکھوں سے کبھی واقف نہیں ہوتے۔
کاش کہ کوئی بھی خودکشی جیسی ناگہانی موت سے دوچار نہ ہو۔ فنکاروں کو جب ڈپریشن ہوتا ہے وہ عوام کے سامنے اس کا مذاق بننے کے خوف سے اسے بتاتے بھی نہیں۔ خدارا فنکاروں کو، ادبیوں کو، شاعروں کو بھی انسان سمجھئے۔ ان کے ساتھ بھی محبت و ہمدردی کا سلوک کیجئے۔ ان کے چہروں پر بھی مسکراہٹیں بکھیریئے۔ ان کی خوشیوں کے واپس لانے کےلیے حکومتی اور نجی سطح پر بھی مالی لحاظ سے معاونت ناگزیر ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
فنون لطیفہ سے وابستہ افراد میں خودکشی کا رحجان کیوں بڑھ رہا ہے؟ یہ پہلی مرتبہ تو نہیں ہوا۔ بالی وڈ، ہالی وڈ اور خود پاکستان میں بھی شوبز سے منسلک افراد کے اپنی زندگیاں ختم کرلینے کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔
مشہور شاعر شکیب جلالی، جن کا اصل نام سید حسن رضوی تھا 1934 میں پیدا ہوئے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ انھیں اپنے ہم عصر شاعروں کی جانب سے بے اعتنائی کا سامنا کرنا پڑا۔ شاید کسی کو معلوم نہ ہو کہ شکیب جلالی کے والد ذہنی عارضے میں مبتلا تھے اور انھوں نے ان کی والدہ کو ان کے اور دیگر بہن بھائیوں کے سامنے چلتی ٹرین کے آگے پھینک دیا تھا۔ والدہ کی المناک موت کا صدمہ ساری زندگی شکیب جلالی کے ساتھ رہا اور 12 نومبر 1966 کو انھوں نے چلتی ٹرین کے سامنے خودکشی کرلی۔ ان کا شعری مجموعہ ''روشنی اے روشنی'' ان کے اس دنیا سے جانے کے بعد 1972 میں شائع ہوا۔
مصطفیٰ زیدی سرکاری افسر ہونے کے ساتھ ایک شاعر بھی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے ایک خاتون کے عشق میں ناکامی پر خودکشی کی تھی۔ وہ 12 اکتوبر 1970 کو اپنے کمرے میں پراسرار حالت میں مردہ پائے گئے تھے۔ کئی لوگوں کا یہ خیال ہے کہ انھیں قتل کیا گیا لیکن اکثریت کی یہ رائے ہے کہ انھوں نے خود اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔
مشہور پاکستانی مزاحیہ اداکار ننھا، جن کا اصل نام محمد رفیع خاور تھا، نے اپنے فنی کیریئر میں 391 فلموں میں کام کیا۔ وہ 1964 میں ریڈیو پاکستان سے پروگرام بھی کرتے رہے۔ انھوں نے کئی فلموں میں کام کیا جن میں ''سالا صاحب''، ''دبئی چلو''، ''آس''، ''نوکر''، ''آخری جنگ '' وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ تاہم انھیں اصل شہرت مشہور مصنف اور ڈرامہ نگار کمال احمد رضوی کے پروگرام ''الف نون'' سے ملی۔ وہ ایک اداکارہ نازلی کے عشق میں مبتلا تھے اور نازلی کی بے وفائی کے بعد انھوں نے 2 جولائی 1986 میں خود کو گولی مار کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا۔؎
امریکی ناول نگار اور صحافی ارنسٹ ہیمنگوئے سے کون واقف نہیں۔ انھیں 1954 میں ادب کا نوبل پرائز ملا تھا۔ ان کے 7 ناول اور افسانوں کے چھ مجموعے شائع ہوئے۔ ان کا شہرہ آفاق ناول ''فار ہوم دی بیل ٹالز'' 1940 میں شائع ہوا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ کئی جسمانی عارضوں میں مبتلا ہوئے تھے، جس کے بعد انھوں نے جولائی 1961 کو خود کو گولی مار کر خودکشی کی۔
جیا خان، نفیسہ جوزف، پروین بابی، دیویا بھارتی ان سب کو بھی نہیں بھلایا جاسکتا۔ پروین بابی اپنے کمرے میں مردہ پائی گئیں. دیویا بھارتی نے 1993 میں پانچ منزلہ عمارت سے چھلانگ لگائی۔ جیا خان اور نفسیہ جوزف نے پنکھے سے پھندا لگا کر خودکشی کی۔ ان سب کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ انھیں ڈپریشن کا عارضہ لاحق تھا۔
اگر اس بات پر غور کیا جائے کہ ادیب، شاعر، فنکار خودکشی کیوں کررہے ہیں، تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ معاشرے کے یہ افراد عام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ حساس اور محبت کرنے والے ہوتے ہیں۔ وہ معاشرے سے الگ ہوکر سوچتے ہیں، لہٰذا اپنے اردگرد ہونے والے واقعات کا ان پر عام لوگوں کی نسبت زیادہ اثر ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ جلد ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔
دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ عوام ادبیوں اور فنکاروں سے بہت سی توقعات وابستہ کرلیتے ہیں کہ اب اس ڈرامے میں کام کیا اور اتنی شاندار اداکاری کی اور اب اس رول میں کیوں برا آیا؟ یہ فلم کیوں فلاپ ہوئی؟ تو گویا عوام کی رائے ایک سلیبرٹی کےلیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ کسی کے بارے میں کمنٹس پاس کرتے ہوئے عوام اور مداح یہ بالکل نہیں سوچتے کہ ضروری نہیں کہ ان کا پسندیدہ ایکٹر ہر وقت کامیاب ہو۔ وہ بھی انسان ہیں، ان کے ساتھ اتنی توقعات وابستہ کرنا ٹھیک نہیں ہوتا۔ ان کی ذاتی زندگی کو لے کر باتیں کرنا عام انسانوں کی طرح انھیں بھی ذہنی الجھنوں میں مبتلا کرتا ہے۔
شوبز کی دنیا بھی زندگی کی طرح بے وفا ہوتی ہے۔ یہاں ہیرو سے زیرو بننے میں سکینڈ نہیں لگتا۔ اپنی پے در پے کامیابیوں کے بعد فنکار اور ادیب خود بھی اپنے آُپ سے ہمیشہ مثبت امیدیں وابستہ کرلیتا ہے۔ اگر اوسط درجے کا کام ہو، کام نہ ملے، فلمیں ناکام ہوں، کالم نگاری میں ناکامی ہو، قلم کار کو اس کا حق اور معاوضہ نہ ملے تو وہ حسرت و یاس کا شکار ہوکر زندگی کا خاتمہ کرلیتا ہے۔ شہرت، دولت یہ سب چیزیں نہ ملیں تو ڈپریشن تو ہوتا ہے، پریشانی اور ذہنی تناؤ تو ہوتا ہے۔
ڈپریشن کیا ہے؟ یہ انہی مندرجہ بالا وجوہات کی بنا پر ہوتا ہے۔ ہمیں فلیش لائٹ میں، لائم لائٹ میں رہنے والی شخصیات بظاہر بہت خوش دکھائی دیتی ہیں، لیکن ہم نقابوں میں ملفوف، پردوں کے پیچھے چھپے معاشرے کے ان کارآمد افراد کے اصل دکھوں سے کبھی واقف نہیں ہوتے۔
کاش کہ کوئی بھی خودکشی جیسی ناگہانی موت سے دوچار نہ ہو۔ فنکاروں کو جب ڈپریشن ہوتا ہے وہ عوام کے سامنے اس کا مذاق بننے کے خوف سے اسے بتاتے بھی نہیں۔ خدارا فنکاروں کو، ادبیوں کو، شاعروں کو بھی انسان سمجھئے۔ ان کے ساتھ بھی محبت و ہمدردی کا سلوک کیجئے۔ ان کے چہروں پر بھی مسکراہٹیں بکھیریئے۔ ان کی خوشیوں کے واپس لانے کےلیے حکومتی اور نجی سطح پر بھی مالی لحاظ سے معاونت ناگزیر ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔