خوف اور مایوسی مت پھیلائیے امید کی شمع روشن رکھیے
لوکی تکدے عیب، گناہ میرے، میں تے تکدہ رحمتاں تیریاں
چھوٹا تھا، بہت کم سِن، لیکن تھا بَلا کا شرارتی اور نڈر، جی کوئی نہیں ڈرا سکا فقیر کو، رب تعالٰی کے کرم و عنایت سے رات کے اندھیرے میں بھی ہر اُس جگہ پہنچ جاتا تھا، جہاں لوگ دن کے اُجالے میں بھی جانے سے گھبراتے تھے۔
جب سائیکل چلانا سیکھا تو ایک سنسان گلی ہُوا کرتی تھی، کوئی نہیں گزرتا تھا وہاں سے، نہ جانے کیا کچھ عجیب واقعات اس گلی سے منسوب تھے، کسی کو وہاں ڈراؤنی شکل والی مخلوق دکھائی دی تھی تو کسی کو کوئی بُڑھیا روتی ہوئی ملی تھی، کبھی کسی کو اُس گلی سے رات گئے موسیقی کی آوازیں سنائی دیتی تھی لیکن نظر کوئی نہیں آتا تھا اور کبھی کوئی آوارہ کُتّا چلتے چلتے کسی نے غائب ہوتے دیکھا تھا۔ لیکن سب سے زیادہ اس گلی سے منسوب سَرکٹے تھے، جو نہ جانے کتنے ہی لوگوں کو دکھائی دیے تھے اور پھر وہ گلی سَرکٹوں والی گلی مشہور ہوگئی تھی۔
گلی کے ایک طرف پُرانے زمانے کے اجاڑ اور وسیع مکینوں سے محروم خالی مکانات تھے اور دوسری طرف پاور ہاؤس کی اونچی دیوار۔ تو جب سائیکل چلانے کا ارادہ کیا تو اپنے ایک بیلی سے کہا کہ چلو اس گلی میں سائیکل چلاتے ہیں لیکن اس نے تو یک سر انکار کردیا تو پھر اکیلے ہی اس گلی کا انتخاب کیا تھا۔
یاد ہے مجھے وہ ایک انتہائی گرم دوپہر تھی، سورج جہنّم بنا آگ برسا رہا تھا جب میں وہاں اپنی سائیکل لے کر پہنچا، دُور تک ہُو کا عالم، بندہ نہ بندے کی ذات، وحشت ناک خاموشی، میں نے تھوڑی دیر رک کر دُور تک گلی کا جائزہ لیا اور رب تعالٰی کا نام لے کر سائیکل چلاتا ہوا اس گلی میں داخل ہوگیا۔ جی کئی مرتبہ گرا، سنبھلا پھر گرا اور تھوڑی دیر بعد میں سائیکل پر رواں ہو ہی گیا تھا، ظاہر ہے مشاق ہونے میں تو بہت عرصہ لگا تھا۔
میں اتنا سرشار تھا کہ میں نے بغیر کسی کی مدد لیے سائیکل چلانا سیکھ لی ہے اور مجھے کچھ اور یاد ہی نہیں رہا تھا، پھر مجھے تھکن ہونے لگی اور میں ایک ویران گھر کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ اور میرے ذہن کے پردے پر اُس گلی کی کہانیاں رقص کرنے لگیں، مجھے نظر تو کچھ نہیں آرہا تھا، ہاں سناٹا ضرور تھا، کوئی آواز نہ کوئی اور مخلوق، پھر اچانک مجھے ایک آوارہ کتّا نظر آیا اور میں انتظار کرنے لگا کہ وہ کب غائب ہوجائے گا۔
وہ مجھ سے خاصے فاصلے پر منہ کھولے زبان لٹکائے ہانپ رہا تھا لیکن ہم اک دوجے کے سامنے تھے، شاید اسے مجھ پر رحم آگیا ہو کہ وہ بس اپنی جگہ ساکت رہا، میں نے صبر کو بچھونا بنایا اور اس کے غائب ہونے کا انتظار کرنے لگا، بتایا تو ہے کہ انتظار کی تکلیف موت کی سختی سے بدتر ہوتی ہے تو بس کچھ ایسا ہی ہوا، میں اور وہ ایک دوسرے کو دیکھتے رہے بس۔ میں تو اب تک عجلت پسند ہوں تو آخر کب تک انتظار کرتا۔ میں اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور فیصلہ کرلیا کہ اس ٹنٹے کو ختم کیا جائے پھر جو ہونا ہے وہ تو ہوگا ہی۔ میں نے اس کی جانب چلنا شروع کیا، وہ اب تک اپنی جگہ بیٹھا ہوا تھا، جیسے جیسے میں اس کے قریب ہو رہا تھا اس نے چوکس ہونا شروع کیا، اور پھر جیسے ہی میں نے اس کے پاس پہنچ کر پتھر اٹھانے کے لیے جھکا وہ مخالف سمت سرپٹ دوڑنے لگا اور مجھے اس کے غائب ہونے سے محروم ہونا پڑا۔
پھر میں خود سے کہا یہ تو حیوان ہے، ویسے ہی یہاں آگیا ہوگا، ہو سکتا ہے وہ غائب ہونے والا کتّا کوئی اور ہو، یہ سوچ کر مجھے قرار آگیا لیکن اب میں تجسس کا مارا جو ہوں، بس اک پھانس مجھ میں چبھ گئی تھی، اب جب تک وہ نہ نکلے تو چین کہاں سے آئے۔ میں نے سائیکل پر اس گلی کے تین چکر لگائے اور واپس گھر کی راہ لی، گلی کے اختتام پر رک کر میں نے پھر سے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا کہ ہوسکتا کوئی انہونی ہوجائے لیکن صاحبو! محرومی کا کیا کیا جائے۔
پھر تو مجھ پر اس گلی کے اسرار کھولنے کا جنون سوار ہوگیا، کئی ماہ تک مختلف اوقات میں اس گلی میں قیام کیا، سیاہ رات میں، تپتی دوپہر میں، سہانی شام میں مجھے تو کچھ نظر نہیں آیا، شاید میں اس قابل ہی نہیں ہوں جسے کچھ نظر آئے۔ خیر! ہمارے محلے کے جہاں دیدہ بزرگ حافظ سعید احمد کے گھر پہنچا، مجھے دیکھ کر مسکرائے اور دریافت کیا: ہاں بھئی! بتاؤ کیسے آنا ہوا، خیریت تو ہے ناں۔ جی خیریت ہے سعید چچا! میں جاننا چاہتا ہوں کہ یہ جو پاور ہاؤس والی گلی سے منسوب واقعات ہیں، کیا واقعی درست ہیں؟ کیا شان دار انسان تھے۔
کاروباری تھے لیکن دردمند و بااخلاق و باکردار، ہر ایک کی مدد کرنے پر ہمہ وقت تیار اور حافظ قرآن بھی جو رمضان میں مسجد میں تراویح کی امامت بھی کرتے تھے، یاد ہے مجھے جب حج کرنے گئے تو میرے لیے ایک کھلونا ٹی وی لائے تھے جس میں حجاز مقدس کی تصاویر تھیں جو بٹن دباتے بدلتی تھیں، بہت سنبھال کے رکھا تھا اسے جو بعد میں میرے بڑے بیٹے شامل نے لے لیا کہ اسے پُرانی اور نایاب اشیاء جمع کرنے کا شوق ہے تو ایسے تھے حافظ سعید احمد۔ میرا سوال توجّہ سے سنا، پھر مجھے بہ غور دیکھا اور کہا: اچھا تو اب تمہیں اس گلی کا راز معلوم کرنا ہے۔
میں نے کہا: جی بالکل! تو کہنے لگے: دیکھو بیٹا! کیا فضول کاموں میں اپنا قیمتی وقت صرف کرتے ہو، کسی اچھے اور مثبت کام پر توجہ دو، چھوڑو ایسی باتوں کو۔ یہ کیا بات ہوئی چچا! کوئی اس گلی میں سے گزرتا نہیں اور سب نے اسے ڈراؤنی مخلوق کا مسکن قرار دیا ہوا ہے، کیوں۔۔۔؟ میں تو کئی ماہ سے اس گلی میں جا رہا ہوں مجھے کیوں کچھ نظر نہیں آتا ۔۔۔؟ سعید چچا نے مجھے پھر تلقین کی اور کہا: بیٹا! میں تو اس بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ بہت مایوسی ہوئی تو میں ایک اور بزرگ حاجی ممتازاﷲ کے پاس جا پہنچا جو ایک زمین دار اور ابّا جی کے بہت اچھے دوست تھے، انہوں نے بھی بس مجھے ٹال دیا۔
داستان بہت طویل ہے، ہاں کئی برس کے بعد جب میں آوارگی کرتا ہوا اس گلی میں پہنچا تو دنگ رہ گیا کہ اتنے خوب صورت اور شان دار مکانات وہاں بنے ہوئے تھے اور گلی میں مکینوں کا آنا جانا لگا ہوا تھا، تب مجھے وہاں ایک بزرگ نظر آئے تو میں ان سے یہ سب کچھ دریافت کیا تو وہ بولے: بیٹا! تم تو بہت پُرانی بات کر رہے ہو، اس وقت تو یہاں سارے خالی مکانات جو تقسیم کے وقت ان کے مکین چھوڑ گئے تھے تو ان پر کچھ لوگوں نے قبضہ کرلیا اور یہ اس لیے مشہور کردیا کہ کوئی اور ان مکانات پر قابض نہ ہوجائے اور کوئی ان مکانات کو نہ خریدے۔ تب اچانک ہی میرے اندر کے سارے سوالات کا جواب روشن ہوگیا اور اچانک میرے منہ سے نکلا: اوہ اچھا! تو یہ تھی حقیقت۔ اس بزرگ نے مجھ سے میرے متعلق پوچھا تھا کہ میں کون ہوں تب میں نے انہیں ٹال دیا تھا اس لیے کہ میں انہیں پہچان گیا تھا اور وہ تھے ہمارے محلے کے راؤ ثناء اﷲ اور ابّا جی کے بہترین دوست۔ بس اس سفر میں خوشی ہوئی کہ ایک راز آشکار ہوا جو برسوں میرے اندر آگ بڑھکائے ہوئے تھا۔
مجھے یاد ہے اور بہت اچھی طرح کہ برسات کی رات میں جب میں اپنی گلی میں سیاہ چادر اوڑھ کر نکلتا اور مختلف گھروں کے دروازوں پر جو لکڑی کے بنے ہوئے ہوتے تھے اور ان کی جِھریوں سے اندر تاکتا اور بہت ڈراونی آوازیں نکالا کرتا اور مکین دبک جایا کرتے، اور صبح محلے بھر کی خواتین اک دوجے کو بتایا کرتیں: ارے اکبری! رات کو ہماری گلی میں بَدروحیں بین کر رہی تھیں اور اکبری باجی تشویش سے کہتیں ہاں! بدّن آپا ہم نے بھی وہ آوازیں سنی تھیں بل کہ امّاں نے تو مُصلّہ ڈال کر حفاظت کے لیے نفل بھی پڑھے تھے، بس خدا خیر کرے، کوئی مصیبت ہی محلے پر نازل نہ ہوجائے۔ مجھے بہت اچھی طرح سے یہ بھی یاد ہے کہ ہمارے محلے میں ایک خاتون رہتی تھیں اور سب انہیں پَتلی خالہ کہا کرتے تھے۔
ان کے گھر میں پیپل کا ایک گھنا پیڑ تھا، پھر وہ بیمار ہوگئی تھیں اور ایک دن رب تعالی کو پیاری ہوگئیں۔ اُس دن اُن کا تیجا تھا اور ان کا وسیع گھر خواتین سے بھرا ہوا تھا، قرآن خوانی ہوگئی تھی اور مغرب کے بعد سب خواتین کھانا کھا کر صحن میں جمع تھیں، میں پیپل کے درخت کو سر اٹھائے دیکھ رہا تھا کہ یہی اکبری باجی اپنی نندوں مہرو اور نسرین کے ساتھ میرے قریب آکر کھڑی ہوگئیں اور کہا: کیا دیکھ رہے ہو تم! بس کچھ دیکھ رہا ہوں، میں نے کہا۔ کیا دیکھ رہے ہو تم! ہمیں بھی تو بتاؤ۔ بس یہی موقع تھا جب میں نے اکبری باجی سے کہا: وہ دیکھیے اکبری باجی! درخت پر پَتلی خالہ بیٹھی ہوئی ہیں۔
انہوں نے اوپر دیکھا اور چیختے ہوئے باہر کی جانب دوڑیں ان کے ساتھ مہرو اور نسرین بھی تھیں، اور پھر میں نے دیکھا ساری خواتین اس پر متفق تھیں کہ ہاں انہیں بھی پتلی خالہ نظر آئی تھیں کہ نیک لوگ مرنے کے بعد بھی اپنے گھر کا خیال رکھتے ہیں۔ سچ بتاؤں تو مجھے وہاں کچھ نظر نہیں آیا تھا، میں تو ویسے ہی انہیں ڈرا رہا تھا اور حیرت اس بات پر تھی کہ سب کو وہ کچھ نظر آرہا تھا۔ ایسے نہ جانے کتنے ہی واقعات میری پٹاری میں ہیں۔
ہمارے ایک عزیز نے ایک دن بتاتا تھا کہ ایک بیوہ جو شوہر کے انتقال کے بعد اپنے کسی رشتے دار کے ہاں مقیم تھی، کی ملکیت وسیع خالی مکان کو جو وہ بیچنا چاہتی تھیں اور ایک صاحب اسے اپنی پسند کے دام میں خریدنا چاہتے تھے جو مارکیٹ سے انتہائی کم تھے تو اس بیوہ نے اپنا وہ خالی مکان بیچنے سے انکار کردیا اور اس مکان پر برائے فروخت کا بورڈ آویزاں کردیا، اب ان صاحب جو اسے اونے پونے خریدنا چاہتے تھے، نے اس خالی مکان میں اپنے چند ملازمین کی ذمے داری لگائی کہ وہ رات کو اس مکان میں جاکر ٹیپ ریکارڈر پر ڈراؤنی آوازیں اونچی آواز میں لگا دیتے اور دن میں خود ہی اس مکان کے متعلق مشہور کرتے کہ یہ مکان تو آسیب زدہ ہے اور اس ہتھ کنڈے کی وجہ سے لوگوں نے اس مکان کو خریدنے سے انکار کردیا اور پھر اس مجبور بیوہ سے وہ اس کا مکان ہتھیانے میں کام یاب ہوگئے۔ کیسے سفاک لوگ ہیں یہ۔
کہنا صرف اتنا ہے کہ سنی سنائی باتوں پر کان مت دھریے، تحقیق کیجیے، سوچیے، ثبوت تلاش کیجیے، واقعات کو بہ غور دیکھیے اور پھر فیصلہ کیجیے۔ یہ جو کورونا وبا جس نے سارے عالم کو تہہ و بالا کیا ہوا ہے، یہ ایک حقیقت ہے، جی یہ ایک وبائی مرض ہے جو ہجوم میں پھیلنے لگتا ہے، نہ جانے کتنے ہی انسان اس کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں، ساری دنیا کا کاروبار رُک گیا اور ایک نفسانفسی کا عالم ہے، دردمند طبیب جو احتیاط بتا رہے ہیں ان پر ضرور عمل کیجیے، خود کو بھی محفوظ رکھیے اور دوسروں کو، من گھڑت باتوں سے خود بھی پرہیز کیجیے اور جو ایسی بے سر و پا باتیں کرے اسے بھی منع کیجیے، مایوسی مت پھیلائیے اور امید کی شمع روشن رکھیے، لیکن خوف مت پھیلائیے کہ یہ بہ ذات خود ایک مہلک مرض ہے۔ حقیقت بتائیے کہ اس مرض کا علاج احتیاط ہے اور وہ جو دردمند طبیب بتائیں ان پر عمل کیجیے۔
مایوس ہونے سے یک سر انکار کردیجیے اور رجائیت کو فروغ دیجیے کہ یہی ہے اس وقت کی ضرورت، اور ساتھ میں اس رب عظیم سے دعا کیجیے کہ الہی! میرے شر سے دوسروں کو اور دوسروں کے شر سے مجھے امان میں رکھنا اور اس یقین کامل کے ساتھ کہ رب تعالٰی ہم سب کو اس آزمائش سے سرخ رو نکال باہر کرے اور اپنی رحمتوں کی برسات کردے جس میں سب غم دھل جائیں، سارے خدشات بہہ جائیں، ساری کلفتوں کا صفایا ہوجائے، سارے زخم بھر جائیں، دُکھ دور ہوں اور سُکھ چھا جائیں۔
یقین رکھیے! ان شاء اﷲ ایسا ہی ہوگا اور جلد۔
دیکھیے! یہ کیسی التجا ہے، دل کی سماعت سے سنیے ناں!
سائیں! تُوں نہ کریں تے ہور کیہڑا، میریاں ساری ضرورتاں پُوریاں
لوکی تکدے عیب، گناہ میرے، میں تے تکدہ رحمتاں تیریاں
جب سائیکل چلانا سیکھا تو ایک سنسان گلی ہُوا کرتی تھی، کوئی نہیں گزرتا تھا وہاں سے، نہ جانے کیا کچھ عجیب واقعات اس گلی سے منسوب تھے، کسی کو وہاں ڈراؤنی شکل والی مخلوق دکھائی دی تھی تو کسی کو کوئی بُڑھیا روتی ہوئی ملی تھی، کبھی کسی کو اُس گلی سے رات گئے موسیقی کی آوازیں سنائی دیتی تھی لیکن نظر کوئی نہیں آتا تھا اور کبھی کوئی آوارہ کُتّا چلتے چلتے کسی نے غائب ہوتے دیکھا تھا۔ لیکن سب سے زیادہ اس گلی سے منسوب سَرکٹے تھے، جو نہ جانے کتنے ہی لوگوں کو دکھائی دیے تھے اور پھر وہ گلی سَرکٹوں والی گلی مشہور ہوگئی تھی۔
گلی کے ایک طرف پُرانے زمانے کے اجاڑ اور وسیع مکینوں سے محروم خالی مکانات تھے اور دوسری طرف پاور ہاؤس کی اونچی دیوار۔ تو جب سائیکل چلانے کا ارادہ کیا تو اپنے ایک بیلی سے کہا کہ چلو اس گلی میں سائیکل چلاتے ہیں لیکن اس نے تو یک سر انکار کردیا تو پھر اکیلے ہی اس گلی کا انتخاب کیا تھا۔
یاد ہے مجھے وہ ایک انتہائی گرم دوپہر تھی، سورج جہنّم بنا آگ برسا رہا تھا جب میں وہاں اپنی سائیکل لے کر پہنچا، دُور تک ہُو کا عالم، بندہ نہ بندے کی ذات، وحشت ناک خاموشی، میں نے تھوڑی دیر رک کر دُور تک گلی کا جائزہ لیا اور رب تعالٰی کا نام لے کر سائیکل چلاتا ہوا اس گلی میں داخل ہوگیا۔ جی کئی مرتبہ گرا، سنبھلا پھر گرا اور تھوڑی دیر بعد میں سائیکل پر رواں ہو ہی گیا تھا، ظاہر ہے مشاق ہونے میں تو بہت عرصہ لگا تھا۔
میں اتنا سرشار تھا کہ میں نے بغیر کسی کی مدد لیے سائیکل چلانا سیکھ لی ہے اور مجھے کچھ اور یاد ہی نہیں رہا تھا، پھر مجھے تھکن ہونے لگی اور میں ایک ویران گھر کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ اور میرے ذہن کے پردے پر اُس گلی کی کہانیاں رقص کرنے لگیں، مجھے نظر تو کچھ نہیں آرہا تھا، ہاں سناٹا ضرور تھا، کوئی آواز نہ کوئی اور مخلوق، پھر اچانک مجھے ایک آوارہ کتّا نظر آیا اور میں انتظار کرنے لگا کہ وہ کب غائب ہوجائے گا۔
وہ مجھ سے خاصے فاصلے پر منہ کھولے زبان لٹکائے ہانپ رہا تھا لیکن ہم اک دوجے کے سامنے تھے، شاید اسے مجھ پر رحم آگیا ہو کہ وہ بس اپنی جگہ ساکت رہا، میں نے صبر کو بچھونا بنایا اور اس کے غائب ہونے کا انتظار کرنے لگا، بتایا تو ہے کہ انتظار کی تکلیف موت کی سختی سے بدتر ہوتی ہے تو بس کچھ ایسا ہی ہوا، میں اور وہ ایک دوسرے کو دیکھتے رہے بس۔ میں تو اب تک عجلت پسند ہوں تو آخر کب تک انتظار کرتا۔ میں اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور فیصلہ کرلیا کہ اس ٹنٹے کو ختم کیا جائے پھر جو ہونا ہے وہ تو ہوگا ہی۔ میں نے اس کی جانب چلنا شروع کیا، وہ اب تک اپنی جگہ بیٹھا ہوا تھا، جیسے جیسے میں اس کے قریب ہو رہا تھا اس نے چوکس ہونا شروع کیا، اور پھر جیسے ہی میں نے اس کے پاس پہنچ کر پتھر اٹھانے کے لیے جھکا وہ مخالف سمت سرپٹ دوڑنے لگا اور مجھے اس کے غائب ہونے سے محروم ہونا پڑا۔
پھر میں خود سے کہا یہ تو حیوان ہے، ویسے ہی یہاں آگیا ہوگا، ہو سکتا ہے وہ غائب ہونے والا کتّا کوئی اور ہو، یہ سوچ کر مجھے قرار آگیا لیکن اب میں تجسس کا مارا جو ہوں، بس اک پھانس مجھ میں چبھ گئی تھی، اب جب تک وہ نہ نکلے تو چین کہاں سے آئے۔ میں نے سائیکل پر اس گلی کے تین چکر لگائے اور واپس گھر کی راہ لی، گلی کے اختتام پر رک کر میں نے پھر سے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا کہ ہوسکتا کوئی انہونی ہوجائے لیکن صاحبو! محرومی کا کیا کیا جائے۔
پھر تو مجھ پر اس گلی کے اسرار کھولنے کا جنون سوار ہوگیا، کئی ماہ تک مختلف اوقات میں اس گلی میں قیام کیا، سیاہ رات میں، تپتی دوپہر میں، سہانی شام میں مجھے تو کچھ نظر نہیں آیا، شاید میں اس قابل ہی نہیں ہوں جسے کچھ نظر آئے۔ خیر! ہمارے محلے کے جہاں دیدہ بزرگ حافظ سعید احمد کے گھر پہنچا، مجھے دیکھ کر مسکرائے اور دریافت کیا: ہاں بھئی! بتاؤ کیسے آنا ہوا، خیریت تو ہے ناں۔ جی خیریت ہے سعید چچا! میں جاننا چاہتا ہوں کہ یہ جو پاور ہاؤس والی گلی سے منسوب واقعات ہیں، کیا واقعی درست ہیں؟ کیا شان دار انسان تھے۔
کاروباری تھے لیکن دردمند و بااخلاق و باکردار، ہر ایک کی مدد کرنے پر ہمہ وقت تیار اور حافظ قرآن بھی جو رمضان میں مسجد میں تراویح کی امامت بھی کرتے تھے، یاد ہے مجھے جب حج کرنے گئے تو میرے لیے ایک کھلونا ٹی وی لائے تھے جس میں حجاز مقدس کی تصاویر تھیں جو بٹن دباتے بدلتی تھیں، بہت سنبھال کے رکھا تھا اسے جو بعد میں میرے بڑے بیٹے شامل نے لے لیا کہ اسے پُرانی اور نایاب اشیاء جمع کرنے کا شوق ہے تو ایسے تھے حافظ سعید احمد۔ میرا سوال توجّہ سے سنا، پھر مجھے بہ غور دیکھا اور کہا: اچھا تو اب تمہیں اس گلی کا راز معلوم کرنا ہے۔
میں نے کہا: جی بالکل! تو کہنے لگے: دیکھو بیٹا! کیا فضول کاموں میں اپنا قیمتی وقت صرف کرتے ہو، کسی اچھے اور مثبت کام پر توجہ دو، چھوڑو ایسی باتوں کو۔ یہ کیا بات ہوئی چچا! کوئی اس گلی میں سے گزرتا نہیں اور سب نے اسے ڈراؤنی مخلوق کا مسکن قرار دیا ہوا ہے، کیوں۔۔۔؟ میں تو کئی ماہ سے اس گلی میں جا رہا ہوں مجھے کیوں کچھ نظر نہیں آتا ۔۔۔؟ سعید چچا نے مجھے پھر تلقین کی اور کہا: بیٹا! میں تو اس بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ بہت مایوسی ہوئی تو میں ایک اور بزرگ حاجی ممتازاﷲ کے پاس جا پہنچا جو ایک زمین دار اور ابّا جی کے بہت اچھے دوست تھے، انہوں نے بھی بس مجھے ٹال دیا۔
داستان بہت طویل ہے، ہاں کئی برس کے بعد جب میں آوارگی کرتا ہوا اس گلی میں پہنچا تو دنگ رہ گیا کہ اتنے خوب صورت اور شان دار مکانات وہاں بنے ہوئے تھے اور گلی میں مکینوں کا آنا جانا لگا ہوا تھا، تب مجھے وہاں ایک بزرگ نظر آئے تو میں ان سے یہ سب کچھ دریافت کیا تو وہ بولے: بیٹا! تم تو بہت پُرانی بات کر رہے ہو، اس وقت تو یہاں سارے خالی مکانات جو تقسیم کے وقت ان کے مکین چھوڑ گئے تھے تو ان پر کچھ لوگوں نے قبضہ کرلیا اور یہ اس لیے مشہور کردیا کہ کوئی اور ان مکانات پر قابض نہ ہوجائے اور کوئی ان مکانات کو نہ خریدے۔ تب اچانک ہی میرے اندر کے سارے سوالات کا جواب روشن ہوگیا اور اچانک میرے منہ سے نکلا: اوہ اچھا! تو یہ تھی حقیقت۔ اس بزرگ نے مجھ سے میرے متعلق پوچھا تھا کہ میں کون ہوں تب میں نے انہیں ٹال دیا تھا اس لیے کہ میں انہیں پہچان گیا تھا اور وہ تھے ہمارے محلے کے راؤ ثناء اﷲ اور ابّا جی کے بہترین دوست۔ بس اس سفر میں خوشی ہوئی کہ ایک راز آشکار ہوا جو برسوں میرے اندر آگ بڑھکائے ہوئے تھا۔
مجھے یاد ہے اور بہت اچھی طرح کہ برسات کی رات میں جب میں اپنی گلی میں سیاہ چادر اوڑھ کر نکلتا اور مختلف گھروں کے دروازوں پر جو لکڑی کے بنے ہوئے ہوتے تھے اور ان کی جِھریوں سے اندر تاکتا اور بہت ڈراونی آوازیں نکالا کرتا اور مکین دبک جایا کرتے، اور صبح محلے بھر کی خواتین اک دوجے کو بتایا کرتیں: ارے اکبری! رات کو ہماری گلی میں بَدروحیں بین کر رہی تھیں اور اکبری باجی تشویش سے کہتیں ہاں! بدّن آپا ہم نے بھی وہ آوازیں سنی تھیں بل کہ امّاں نے تو مُصلّہ ڈال کر حفاظت کے لیے نفل بھی پڑھے تھے، بس خدا خیر کرے، کوئی مصیبت ہی محلے پر نازل نہ ہوجائے۔ مجھے بہت اچھی طرح سے یہ بھی یاد ہے کہ ہمارے محلے میں ایک خاتون رہتی تھیں اور سب انہیں پَتلی خالہ کہا کرتے تھے۔
ان کے گھر میں پیپل کا ایک گھنا پیڑ تھا، پھر وہ بیمار ہوگئی تھیں اور ایک دن رب تعالی کو پیاری ہوگئیں۔ اُس دن اُن کا تیجا تھا اور ان کا وسیع گھر خواتین سے بھرا ہوا تھا، قرآن خوانی ہوگئی تھی اور مغرب کے بعد سب خواتین کھانا کھا کر صحن میں جمع تھیں، میں پیپل کے درخت کو سر اٹھائے دیکھ رہا تھا کہ یہی اکبری باجی اپنی نندوں مہرو اور نسرین کے ساتھ میرے قریب آکر کھڑی ہوگئیں اور کہا: کیا دیکھ رہے ہو تم! بس کچھ دیکھ رہا ہوں، میں نے کہا۔ کیا دیکھ رہے ہو تم! ہمیں بھی تو بتاؤ۔ بس یہی موقع تھا جب میں نے اکبری باجی سے کہا: وہ دیکھیے اکبری باجی! درخت پر پَتلی خالہ بیٹھی ہوئی ہیں۔
انہوں نے اوپر دیکھا اور چیختے ہوئے باہر کی جانب دوڑیں ان کے ساتھ مہرو اور نسرین بھی تھیں، اور پھر میں نے دیکھا ساری خواتین اس پر متفق تھیں کہ ہاں انہیں بھی پتلی خالہ نظر آئی تھیں کہ نیک لوگ مرنے کے بعد بھی اپنے گھر کا خیال رکھتے ہیں۔ سچ بتاؤں تو مجھے وہاں کچھ نظر نہیں آیا تھا، میں تو ویسے ہی انہیں ڈرا رہا تھا اور حیرت اس بات پر تھی کہ سب کو وہ کچھ نظر آرہا تھا۔ ایسے نہ جانے کتنے ہی واقعات میری پٹاری میں ہیں۔
ہمارے ایک عزیز نے ایک دن بتاتا تھا کہ ایک بیوہ جو شوہر کے انتقال کے بعد اپنے کسی رشتے دار کے ہاں مقیم تھی، کی ملکیت وسیع خالی مکان کو جو وہ بیچنا چاہتی تھیں اور ایک صاحب اسے اپنی پسند کے دام میں خریدنا چاہتے تھے جو مارکیٹ سے انتہائی کم تھے تو اس بیوہ نے اپنا وہ خالی مکان بیچنے سے انکار کردیا اور اس مکان پر برائے فروخت کا بورڈ آویزاں کردیا، اب ان صاحب جو اسے اونے پونے خریدنا چاہتے تھے، نے اس خالی مکان میں اپنے چند ملازمین کی ذمے داری لگائی کہ وہ رات کو اس مکان میں جاکر ٹیپ ریکارڈر پر ڈراؤنی آوازیں اونچی آواز میں لگا دیتے اور دن میں خود ہی اس مکان کے متعلق مشہور کرتے کہ یہ مکان تو آسیب زدہ ہے اور اس ہتھ کنڈے کی وجہ سے لوگوں نے اس مکان کو خریدنے سے انکار کردیا اور پھر اس مجبور بیوہ سے وہ اس کا مکان ہتھیانے میں کام یاب ہوگئے۔ کیسے سفاک لوگ ہیں یہ۔
کہنا صرف اتنا ہے کہ سنی سنائی باتوں پر کان مت دھریے، تحقیق کیجیے، سوچیے، ثبوت تلاش کیجیے، واقعات کو بہ غور دیکھیے اور پھر فیصلہ کیجیے۔ یہ جو کورونا وبا جس نے سارے عالم کو تہہ و بالا کیا ہوا ہے، یہ ایک حقیقت ہے، جی یہ ایک وبائی مرض ہے جو ہجوم میں پھیلنے لگتا ہے، نہ جانے کتنے ہی انسان اس کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں، ساری دنیا کا کاروبار رُک گیا اور ایک نفسانفسی کا عالم ہے، دردمند طبیب جو احتیاط بتا رہے ہیں ان پر ضرور عمل کیجیے، خود کو بھی محفوظ رکھیے اور دوسروں کو، من گھڑت باتوں سے خود بھی پرہیز کیجیے اور جو ایسی بے سر و پا باتیں کرے اسے بھی منع کیجیے، مایوسی مت پھیلائیے اور امید کی شمع روشن رکھیے، لیکن خوف مت پھیلائیے کہ یہ بہ ذات خود ایک مہلک مرض ہے۔ حقیقت بتائیے کہ اس مرض کا علاج احتیاط ہے اور وہ جو دردمند طبیب بتائیں ان پر عمل کیجیے۔
مایوس ہونے سے یک سر انکار کردیجیے اور رجائیت کو فروغ دیجیے کہ یہی ہے اس وقت کی ضرورت، اور ساتھ میں اس رب عظیم سے دعا کیجیے کہ الہی! میرے شر سے دوسروں کو اور دوسروں کے شر سے مجھے امان میں رکھنا اور اس یقین کامل کے ساتھ کہ رب تعالٰی ہم سب کو اس آزمائش سے سرخ رو نکال باہر کرے اور اپنی رحمتوں کی برسات کردے جس میں سب غم دھل جائیں، سارے خدشات بہہ جائیں، ساری کلفتوں کا صفایا ہوجائے، سارے زخم بھر جائیں، دُکھ دور ہوں اور سُکھ چھا جائیں۔
یقین رکھیے! ان شاء اﷲ ایسا ہی ہوگا اور جلد۔
دیکھیے! یہ کیسی التجا ہے، دل کی سماعت سے سنیے ناں!
سائیں! تُوں نہ کریں تے ہور کیہڑا، میریاں ساری ضرورتاں پُوریاں
لوکی تکدے عیب، گناہ میرے، میں تے تکدہ رحمتاں تیریاں