کورونا معیشت اوردہشت گردی

کورونا نے عالمی معیشت کو اربوں کے خسارے سے دوچار کردیا ہے

کورونا نے عالمی معیشت کو اربوں کے خسارے سے دوچار کردیا ہے،

ملک کو کورونا اور معیشت کے جن جن اعصاب شکن چیلنجز کا سامنا ہے، اس کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت کو اقتصادی نظام کے استحکام کے لیے ہر وہ غیر روایتی طریقہ استعمال کرنا پڑے گا جو معاشی ریلیف اور معیشت کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لیے ناگزیر ہے، دنیا گلوبلائزیشن اور کثیرالبنیاد ادارہ جاتی اشتراک وتعاون اور سخت مسابقت کے حصار میں ہے۔

کورونا نے عالمی معیشت کو اربوں کے خسارے سے دوچار کردیا ہے، صحت اور معیشت کے دوطرفہ مسائل میں جب بڑے صنعتی ممالک کی سانسیں اکھڑ رہی ہیں تو پاکستان جیسے کمزور اور مقروض و غریب ملک کس شمار وقطار میں ہیں، اس تناظر میں عالمی بینکنگ اداروں کی طرف سے پاکستان کے لیے کورونا سپورٹ کے ضمن میں امداد کی پیشکش ہوا کا تازہ جھونکا ہے، میڈیا کے مطابق عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور ایشین انٹرنیشنل سٹرکچر بینک بجٹ سپورٹ کے لیے پاکستان کو مجموعی طور پر ڈیڑھ کروڑ ڈالر رعایتی قرضہ فراہم کرے گا۔

جمعہ کو حکومت پاکستان اور مالیاتی اداروں کے درمیان معاہدہ طے پا گیا، تقریب میں وزیر اعظم عمران خان اور وفاقی وزیر اقتصادی امور خسرو بختیار نے شرکت کی، حکومت پاکستان کی طرف سے سیکریٹری اقتصادی امور نور عالم نے معاہدوں پر دستخط کیے، وزارت اقتصادی امور نے تینوں بینکوں کے مالی تعاون پر شکریہ ادا کیا، اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیر اقتصادی امور خسرو بختیار نے کہا کہ رعایتی بنیاد پر مالی امداد ملنا عالمی برادری کا پاکستان کی معاشی پالیسیوں پر اعتماد کا اظہار ہے۔

بلاشبہ مالیاتی اداروں کی طرف سے قرضوں کی فراہمی ایک پیش رفت ہے مگر ملکی اقتصادی صورتحال ایک مشکل ترین صورتحال میں گرفتار ہے، بجٹ قوم کے سامنے آچکا ہے مگر عوام الناس کا کہنا ہے کہ اس میں ان کے لیے کچھ بھی نہیں، وعدوں، دعوؤں، تجاویز اور دلفریب خیالی پلاؤ کا دسترخوان ہے، عوام برس ہا برس سے جس دسترخوان سے دل بہلاتے آرہے ہیں ان کی قسمت میں اب بھی اطمینان اور آسودگی کا کوئی لمحہ نہیں، مہنگائی کا زہر پیتے ہوئے دن ہی کتنے گزرے تھے کہ کورونا نے حملہ کر دیا۔

زندگی میں جمود تھا لیکن کورونا کی وبا نے زندگی میں انگارے بھر دیے، کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں، حکومت کو مہنگائی میں پسے ہوئے عوام کی کوئی فکر نہیں، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کہ گورنر، وزرائے اعلیٰ اور متعلقہ وزرا مارکیٹوں میں دو چار گھنٹے گزار دیتے، اشیائے ضروریہ کے دام معلوم کرتے، لوگوں کی قوت خرید سے متعلق موقع پر موجود شہریوں سے سوالات کرتے، ایسا تو کوئی کلچر تشکیل نہیں پاسکا، ایک صارف کلچر پیدا کیا گیا، درجنوں پروڈکٹس کے اشتہار اس تواتر سے نظر آتے ہیں جیسے ملک کے ہر آدمی کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ ٹی وی پر نظر آنے والی ہر چیز خرید سکے۔

وزیر اعظم نے لاک ڈاؤن کو پسند نہیں کیا، ہمیشہ غریب دھیاڑی دار مزدوروں کی مدد اور ان کی غربت اور بھوک سے مرنے کے دکھ میں بظاہر آنسو ہی بہاتے نظر آئے، مگر حکومت کو ادراک کرنا ہوگا کہ ملک معاشی استحکام، روزگار کی فراہمی، مہنگائی کے خاتمے اور اقتصادی و صنعتی ترقی کے بغیر کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں، عوام لاک ڈاؤن کے قیدی بن گئے ہیں، کوئی اس لاک ڈاؤن اور کورونا کی وبا سے آئی ہوئی بد نصیبی کے خاتمے کے لیے صائب پالیسی اور دانشمندانہ حکمت عملی لے کر سامنے نہیں آتا، ایک الجھن اور وسوسوں کے خوف میں عوام جمہوریت کے دن رات گزار رہے ہیں۔


وزیر اعظم کو کورونا کے خاتمے کی توقع ہے لیکن عوام سے وابستگی کا وہ احساس ابھی تک سیاسی نظام میں پیدا نہیں ہوا، لہٰذا وزرا سے لے کر بیوروکریٹس اور وزیر اعلیٰ سندھ تک یہ شکوہ کرتے ہیں کہ ایس او پیز پر لوگ سنجیدگی سے عمل نہیں کر رہے اس لیے کیسز بڑھ رہے ہیں، ہلاکتیں عروج پر ہیں، دریں اثنا گھوٹکی ریلوے اسٹیشن کے باہر رینجرز کی گاڑی کے قریب دھماکے میں 2 اہلکاروں سمیت 3 افراد شہید اور ایک رینجرز اہلکار سمیت 2 افراد زخمی جب کہ کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں رینجرز کی گاڑی کے قریب دستی بم حملے کے نتیجے میں ایک شہری شہید اور رینجرز اہلکار سمیت 8 افراد زخمی ہوگئے۔

شہید افراد کی لاشیں اسپتال منتقل کردی گئیں۔ واقعہ کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے علاقے کو سیل کردیا۔ ڈی ایس پی گھوٹکی کا کہنا ہے کہ رینجرز اہلکار گھوٹا مارکیٹ میں گوشت خرید رہے تھے کہ اچانک دھماکہ ہو گیا۔ سپاہی ظہور احمد، سپاہی فیاض احمد اور ایک راہگیر موقع پر چل بسے۔ داخلی امن وامان کو ایک دھچکا لگا ہے، سیاسی عناصر کی طرف سے شدت پسندی کے خطرات سے بھی نمٹنے کی ضرورت ہے۔ قیمتی انسانی جانیں برباد ہورہی ہیں۔

سب ڈائیلاگ اور میڈیا پر سنائی جانے والی دلچسپ اور ناقابل یقین باتیں ہیں جن کا زمینی سیاسی حقیقتوں سے کوئی لینا دینا نہیں، زمینی حقائق نے عوام کو باور کردیا کہ حکمران چونکہ سیاستدان ہیں اور لوگ کہتے ہیں کہ سیاستدان کے سینہ میں دل نہیں ہوتا۔ عوام بجٹ کی تجاویز اور ہوشربا مہنگائی اور بیروزگاری کی جکڑبندیوں کے ہاتھوں نالاں ہیں، اس تناؤ اور ہمہ گیر معاشی مصائب کے باعث قرضوں کی معیشت کے ذریعے جمہوریت پر منڈلاتے خطرات ختم نہیں ہونگے، ملک ابھی تک کورونا کے لائے ہوئے صحت بحران سے نہیں نکلا کہ داخلی مسائل کے گرداب نے اس کے لیے معاملات کو گھمبیر بنا دیا ہے۔

عوام حکومت کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں مگر حکمراں ایک مربوط اقتصادی اور سیاسی نظام کی تشکیل کے لیے افق کے پار تو دیکھ رہے ہیں لیکن زمینی حقائق سے ان کا رشتہ بن نہیں رہا، اکثر مبصرین کا کہناہے کہ معاشی استحکام کے لیے سیاسی امن، سماجی انصاف اور عوام کی خوشحالی شرط اول ہے، مگر خوشحالی کے لیے حکومتیں معاشی مساوات پیدا کریں تب ہی تبدیلی آئیگی، پی ٹی آئی دل خوش کن نعروں کے ساتھ برسر اقتدار آئی ہے، حکومت احتساب اور جوابدہی کا نظام لانے کا شدت سے وعدہ کرتی رہی ہے۔

اس نے زیرو ٹالیرنس کی بات کی، اپوزیشن کے ہر کرپٹ سیاست دان کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے پھینکنے کے دعوے کیے، مگر کچھ بہتری نظر نہیں آئی، ملک معاشی دلدل میں ہے اور میڈیا پرsay no to کرپشن کی تسبیح جاری ہے۔ عوام ایک سڑے ہوئے صحت نظام کی بربادیوں کے مارے ہوئے ہیں، لاک ڈاؤن کو نسخہ کیمیا سمجھا گیا ہے اور عوام معاشی بدحالی، غربت اور بیروزگاری کے ساتھ ساتھ گھروں میں قید ہیں کہ اس کے سوا حکومت کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں۔ ضرورت ایک ہمہ جہتی کورونا ماسٹر پلان کی ہے، حکومت کو ذہن صاف کرنا ہوگا، کورونا کے خاتمہ کی حکمت عملی میں انتشار اور ابہام جاری رہا تو بہت سی قیمتی جانیں ہماری ناتدبیریوں کی نذر ہوجائینگی اس وقت سے ڈرنا چاہیے۔

دوسری جانب وزارت زراعت و خوراک کے ذرائع نے ایک بار پھر ٹڈی دل کے ہولناک حملوں کی خبر دی ہے، بتایا جاتا ہے کہ ٹڈیوں کے لشکر راجن پور اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں موجود ہیں اور بھارت ہجرت کر جانے والے ٹڈی دل کی واپسی موسم اور تیز ہواؤں کے باعث ممکن نہیں ہے، اب خطرہ اس بات کا ہے کہ ٹڈی دل سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے ٹارگیٹڈ علاقوں کو تاراج کریں، فصلیں چٹ کر جائینگے، اور حکومت فی کلو15 روپے ٹڈی پکڑنے کی تجارتی اور کاروباری مہم پر تکیہ کیے بیٹھی ہے۔
Load Next Story