بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کا کامیاب انعقاد
بلوچستان کے بلدیاتی الیکشن کا مرحلہ خوش اسلوبی سے مکمل ہو گیا ہے۔ بلوچستان کی 7190نشستوں پر انتخابات ہوئے ہیں۔
بلوچستان کے بلدیاتی الیکشن کا مرحلہ خوش اسلوبی سے مکمل ہو گیا ہے۔ بلوچستان کی 7190نشستوں پر انتخابات ہوئے ہیں۔ ان سطور کے لکھے جانے تک جو غیر حتمی نتائج سامنے آئے ہیں ان کے مطابق آزاد امیدوار اکثریت میں جیتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے اعتبار سے دیکھا جائے تو نیشنل پارٹی' پشتونخوا میپ اور مسلم لیگ ن پر مشتمل حکومتی اتحاد سرفہرست ہے۔ الیکشن کے نتائج سے قطع نظر اہم بات بلوچستان میں گراس روٹ لیول پر جمہوری عمل کا مکمل ہونا ہے اور یہ بلدیاتی الیکشن جماعتی بنیادوں پر ہوئے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق بلوچستان کے عوام نے ان انتخابات میں بھرپور شرکت کی۔ بلوچستان کے بلدیاتی الیکشن میں گو آزاد امیدوار سب سے بڑا گروپ بن کر سامنے آیا ہے لیکن عموماً ہوتا یہ ہے کہ آزادامیدوار برسراقتدار جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں' یوں دیکھا جائے تو بلوچستان کے بلدیاتی الیکشن میں حکومتی اتحاد کو ہی کامیابی ملی ہے تاہم دوسری سیاسی جماعتوں جن میں جے یو آئی ف، مسلم لیگ ق، جے یو آئی نظریاتی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور ایم کیو ایم کے امیدواروں پر مشتمل پینلز نے بھی کامیابی حاصل کی۔
یہ بڑی صحت مند علامت ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان کے بلدیاتی الیکشن میں ملک کی تمام چھوٹی بڑی جماعتوں نے بھرپور شرکت کی ہے۔ اس سے ان انتخابات پر سیاسی جماعتوں کا بھرپور اعتماد ظاہر ہوتا ہے۔ بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں نے بھی ان انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پولنگ کے دوران بعض مقامات پر اکا دکا تشدد کے واقعات ضرور ہوئے ہیں لیکن انتخابات مجموعی طور پر پُرامن ماحول میں منعقد ہوئے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق بلوچستان کے بلدیاتی انتخابات میں اٹھارہ ہزار امیدواروں نے حصہ لیا۔ جب کہ ایف سی، پولیس اور فوج کے چون ہزار جوانوں اور افسروں کو پولنگ اسٹیشنوں کے اندر اور باہر تعینات کیا گیا تھا۔ بلوچستان میں بلدیاتی الیکشن سے یہ واضح ہو گئی ہے کہ یہاں علیحدگی پسندی کی کوئی ایسی تحریک نہیں ہے جس سے گراس روٹ لیول پر عوام کی حمایت حاصل ہو۔ بلوچستان میں بلدیاتی الیکشن اصل میں پاکستان کی جیت ہے۔
بلوچستان کی حکومت نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ اگر ارادہ مضبوط ہو تو نا مساعد حالات میں بھی انتخابات کرائے جا سکتے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ملک کے دیگر تین صوبوں کی طرف سے ابھی تک ہچکچاہٹ کا اظہار جاری ہے' اس صورت میں بلوچستان حکومت نے انتخابات منعقد کروا کے دوسروں کے لیے مثال قائم کر دی ہے۔ بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کے کامیاب انعقاد نے صوبے میں سیکیورٹی کے مبالغہ آمیز خدشات کو بھی باطل قرار دے دیا ہے لہذا اب توقع کی جا سکتی ہے کہ دیگر صوبوں کا بھی اس حوالے سے تردد کم ہو گا اور وہ بھی بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کر دیں گے۔ یوں پورے ملک میں گراس روٹ لیول تک جمہوریت قائم ہو جائے گی اور جمہوری حکومتوں پر عاید ہونے والے اس الزام کی سیاہی بھی دھل جائے گی کہ ان کے دور میں ہمیشہ بلدیاتی انتخابات سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوششیں کی گئیں۔
یہ بڑی صحت مند علامت ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان کے بلدیاتی الیکشن میں ملک کی تمام چھوٹی بڑی جماعتوں نے بھرپور شرکت کی ہے۔ اس سے ان انتخابات پر سیاسی جماعتوں کا بھرپور اعتماد ظاہر ہوتا ہے۔ بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں نے بھی ان انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پولنگ کے دوران بعض مقامات پر اکا دکا تشدد کے واقعات ضرور ہوئے ہیں لیکن انتخابات مجموعی طور پر پُرامن ماحول میں منعقد ہوئے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق بلوچستان کے بلدیاتی انتخابات میں اٹھارہ ہزار امیدواروں نے حصہ لیا۔ جب کہ ایف سی، پولیس اور فوج کے چون ہزار جوانوں اور افسروں کو پولنگ اسٹیشنوں کے اندر اور باہر تعینات کیا گیا تھا۔ بلوچستان میں بلدیاتی الیکشن سے یہ واضح ہو گئی ہے کہ یہاں علیحدگی پسندی کی کوئی ایسی تحریک نہیں ہے جس سے گراس روٹ لیول پر عوام کی حمایت حاصل ہو۔ بلوچستان میں بلدیاتی الیکشن اصل میں پاکستان کی جیت ہے۔
بلوچستان کی حکومت نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ اگر ارادہ مضبوط ہو تو نا مساعد حالات میں بھی انتخابات کرائے جا سکتے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ملک کے دیگر تین صوبوں کی طرف سے ابھی تک ہچکچاہٹ کا اظہار جاری ہے' اس صورت میں بلوچستان حکومت نے انتخابات منعقد کروا کے دوسروں کے لیے مثال قائم کر دی ہے۔ بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کے کامیاب انعقاد نے صوبے میں سیکیورٹی کے مبالغہ آمیز خدشات کو بھی باطل قرار دے دیا ہے لہذا اب توقع کی جا سکتی ہے کہ دیگر صوبوں کا بھی اس حوالے سے تردد کم ہو گا اور وہ بھی بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کر دیں گے۔ یوں پورے ملک میں گراس روٹ لیول تک جمہوریت قائم ہو جائے گی اور جمہوری حکومتوں پر عاید ہونے والے اس الزام کی سیاہی بھی دھل جائے گی کہ ان کے دور میں ہمیشہ بلدیاتی انتخابات سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوششیں کی گئیں۔