کورونا اور ہماری معیشت
کورونا کی روک تھام کے بجائے ہمارے وزیر اعظم اعلان کرتے ہیں کہ یہ وبا زندگی کے ساتھ ساتھ چلتی رہے گی۔
ایک جانب کورونا کی یلغار ہے تو دوسری جانب معیشت کا انحطاط۔ دونوں ہی جانب ہمارے حکمران بے خبر اور لاپرواہ ہیں۔ ماضی کی طرح ایک بار پھر سالانہ بجٹ پیش ہوگیا ہے۔ بجٹ سے عوام اپنی زندگیوں میں سہولتیں ملنے کی توقع لگائے رکھتے ہیں ،جب کہ ہمارا بجٹ انھیں مزید پریشانیوں میں مبتلا اورافلاس کی جانب دھکیلتا ہے۔
ادھرکورونا کی روک تھام کے بجائے ہمارے وزیر اعظم اعلان کرتے ہیں کہ یہ وبا زندگی کے ساتھ ساتھ چلتی رہے گی۔ نہ جانے وہ کیسے بھول جاتے ہیں کہ نیپال اور نیوزی لینڈ نے اس وبا پر مکمل قابو پایا ہے۔ ایک جانب ملک میں ڈیڑھ لاکھ سے زائدکورونا مریض تکلیف سے تڑپ رہے ہیں تو دوسری جانب ہماری حکومت دیگر کاموں میں لگی ہوئی ہے۔ صحت کا بجٹ تو ہمیشہ کم ہی ہوتا ہے۔
اس بار صحت بجٹ میں بیس ارب روپے رکھے گئے ہیں اور تعلیم کے لیے چار عشاریہ چھ ارب روپے ۔ یعنی زندگی بچانے کے لیے بیس روپے۔ ہونا تویہ چاہیے تھا کہ غیر ترقیاتی بجٹ کو روک کر صحت کی جانب منتقل کردیا جاتا۔ یہ کرنا تو حکمرانوں کو ناگوار گزرتا ہے ۔ویسے کورونا کے مریضوں کی دیکھ بھال کرنے والے ڈاکٹرز، نرسز، مڈوائف، پیرامیڈکس اور خاکروبوں کی اموات جاری ہے ، کیونکہ ان کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا ہے۔
جب کہ وسطی ایشیائی ملک آرمینیا کی حکومت نے اپنے پولیس چیف کو ان کے عہدے سے برطرف کردیا ہے کیونکہ وہ ملک میں کورونا وائرس کی روک تھام میں ناکام ہوئے تھے۔ امریکی جوائنٹ چیف آف آرمی اسٹاف کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ چہل قدمی کرنے اور مظاہرین کے خلاف ایکشن لینے پر جوائنٹ چیف آف آرمی اسٹاف نے صدر ٹرمپ سے معافی مانگی ہے۔ اس لیے کہ صدر منتخب ہوتا ہے جب کہ آرمی چیف ملازم ہوتا ہے۔
ہماری حکومت کہتی ہے کہ مغربی ترقی یافتہ ممالک اگر کورونا کو روک نہیں پا رہے ہیں تو ہم کیسے روک سکتے ہیں۔ انھیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اٹلی، اسپین، فرانس، جرمنی، برطانیہ ، امریکا اور جاپان سمیت سارے ملکوں میں اموات کی تعداد میں کمی آرہی ہے۔ اس وقت چلی، برازیل، میکسیکو اور امریکا میں اموات زیادہ ہے۔ اب تو پھر میکسیکو، روس اور امریکا میں اموات میں کمی آرہی ہے۔
ہمارے پڑوسی جنوبی ایشیائی ممالک بھوٹان، نیپال، کمبوڈیا، منگولیا، ویتنام، شمالی کوریا اور افریقہ میں روانڈا اورکینیا میں کوئی بھی شخص بھی ہلاک نہیں ہوا۔ اس لیے کہ انھوں نے شروع دن سے ہی احتیاط برتی۔ نیپال میں ایک شخص کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا لیکن وہ احتیاط سے صحت یاب ہوگیا۔ شمالی کوریا میں تین سو سے زائد افراد کا ٹیسٹ کیا گیا ، سب کی منفی رپورٹ آئی۔
دنیا میں اس وقت تقریبا پچاس ممالک ایسے ہیں جہاں روزانہ اموات پچاس سے کم ہیں۔ جہاں بہت زیادہ اموات ہو رہی تھیں اٹلی، اسپین، ایران اور جرمنی اب وہاں بھی بہت کم اموات ہو رہی ہیں۔ جنوبی کوریا، سنگاپور،ہانگ کانگ، یونان اور چین خاتمہ باالخیر کرنے کو ہیں۔ جہاںاضافہ ہورہا ہے، ان ایشیائی ملکوں میں پاکستان چوتھے نمبر پہ ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے پہلے سندھ میں لاک ڈائون اور بہتر کارکردگی پر تعریف کی تھی اور اب پاکستان کو نوٹس بھیجا ہے اور تجویز دی ہے کہ مہینے میں پندرہ دن لاک ڈائون کیا جائے اور پندرہ دن نرمی برتی جائے۔ پاکستان کے حالات پہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے تشویش کا اظہارکیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت اور نوکر شاہی نے مل کر ڈاکٹروں کے خلاف محاذ بنایا ہوا ہے۔ ہمارے وزیراعظم عمران خان فرماتے ہیں کہ امریکا میں تو روزانہ دوہزار لوگوں کی ہلاکتیں ہورہی ہیں جب کہ ہمارے ہاں تو روزانہ سو بھی نہیں ہوئیں۔ یہ اعداد و شمارغلط ہیں۔
امریکا میں ایک روز میں پندرہ سو لوگ بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ توکیا عمران خان اس کے منتظر ہیں کہ امریکا میں دو ہزار لوگ مرے تو ہمارے ہاں صرف سوکیوں مرے ؟ یہاں بھی روزانہ امریکا کی طرح دو ہزار افراد مرجائیں تو پھر جاکر ہوشیار ہونا ہے۔ پاکستان دنیا کا پسماندہ ترین ملک ہے جب کہ ایٹم بم بنانے والے نو ملکوں میں سے ایک ہے۔ دوسری طرف ملک میں اسپتالوں،ڈاکٹرز ، نرسز، مڈوائف، پیرامیڈکس کی شدید کمی ہے، بڑے اسپتالوں نے مزید مریضوں کو داخل کرنے سے منع کردیا ہے۔
ادھر اب بجٹ بھی پیش کیا گیا ہے ۔ پہلے سے چینی، آٹا اور پٹرول کا بحران چلا آرہا ہے۔ ذخیرہ اندوزوں اور لٹیروں کی کوئی پکڑ نہیں ہورہی ہے، وہ تو چارٹرڈ جہازوں سے بیرون ملک جا رہے ہیں۔ پہلے پٹرول کی قیمت بڑھتی تھی تو اس آڑ میں دکاندار ہرچیزکی قیمت میں اضافہ کر دیتے تھے اور اب جب پٹرول کی قیمت میں کمی آئی ہے توکسی بھی چیزکی قیمت میں کمی کرنا تو درکنار ، نہ صرف اضافہ ہی کر دیا گیا ہے بلکہ پٹرول ہی کو بازار سے غائب کر دیا گیا ہے، جب کہ ان سارے معاملات میں حکومت بے بس نظر آتی ہے، اس لیے کہ وہ اپنا بجٹ من وعن آئی ایم ایف کی حکم پہ بناتی ہے۔
پاکستان عالمی سرمایہ داری نظام کا ایک ادنیٰ سا حصہ ہے۔ جب امریکا کا گروتھ ریٹ دو عشاریہ پانچ، یورپ کا دو فیصد، جاپان کا منفی، چین کا چھ، بھارت کا چار عشاریہ تین، برازیل،جنوبی افریقہ اور روس کا ایک فیصد پہ آگیا ہے۔ ساڑھے سات ارب کی آبادی میں پانچ ارب کی آبادی غربت کی لکیرکے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ صرف بھوک سے روزانہ پچھتر ہزار لوگ لقمہ اجل ہو رہے ہیں، جب کہ دوسری جانب دنیا کے دس سرمایہ دار اس دنیا کی آدھی دولت کے مالک ہیں، یہی صورتحال پاکستان کی ہے۔
لوگ بھوک سے مر رہے ہیں ادھر آٹا، چینی اور پٹرول کی اب اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی ہو رہی ہے۔ چینی کی سبسڈیز، ڈالرکی بڑھتی ہوئی قیمت سے فائدہ حاصل کرنے اور مقامی بازار میں چینی کی قیمت میں اضافہ سے اربوں روپے لوٹ لیے گئے، تو دوسری جانب اسپتال اور وینٹی لیٹر نہیں ہیں، مریضوں کے لیے بستر نہیں ہیں۔ پاکستان میں لاکھوں ایکڑ زمین کے مالک چند درجن جاگیردار ہیں اور دوسری طرف کروڑوں بے زمین کسان۔ ان جاگیرداروں کے بچے یورپ میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جب کہ بے زمین کسانوں کے بچوں کے سرکاری اسکولوں میں یہی جاگیردارگائے اور بھینسیں باندھ جاتے ہیں اورکسانوں کے بچے ناخواندہ رہ جاتے ہیں۔
کسانوں کے علاج کے لیے اسپتال ، دوا اور ڈاکٹرز نہیں ہیں اور جاگیرداروں کی تیمارداری کرنے کے لیے بھوکے کسان ایک پائوں پر ہر وقت کھڑے رہتے ہیں۔یہ ہیں ریاست کے کارنامے اور طبقاتی نظام ۔ جب تک اس جاگیرداری اور سرمایہ داری کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکا نہیں جائے گا اور زمین کسانوں میں تقسیم نہیں کی جائے گی، اس وقت تک آئی ایم ایف کی غلامی سے نجات حاصل نہیںہوگی۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں سے ناتا توڑکر ملکی اورمقامی بنیادوں پر فیکٹریاں، مل اور کارخانے قائم کرکے خود انحصاریت اختیار نہیں کی جائے گی اس وقت تک کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا ہے۔
اسٹیل مل سمیت چھیاسٹھ اداروں کی نجکاری کا ارادہ حکومت رکھتی ہے، اس سے ملک میں مزید بے روزگاری بڑھے گی اور سرمایہ چند ہاتھوں میں مرکوز ہوگا، عوام کو ان مزدور دشمن اقدامات کو روکنے کے لیے میدان عمل میں آنا ہوگا، جیساکہ فرانس کی پیلی جیکٹ تحریک اور امریکا میں سیاہ فاموں کا تاریخی احتجاج جاری ہے۔ دونوں تحریکوں نے اپنے کچھ مطالبات منوا لیے ہیں اورمزید مطالبات کے لیے لڑ رہے ہیں۔گزشتہ برسوں میں بعض اداروں کی نجکاری کو مزدوروں نے اپنے خون کا نذرانہ دے کر رکوایا تھا،آ ج بھی مزدور اگر میدان عمل میں آجائیں، تو ان نجکاریوں کو رکوا سکتے ہیں۔
ادھرکورونا کی روک تھام کے بجائے ہمارے وزیر اعظم اعلان کرتے ہیں کہ یہ وبا زندگی کے ساتھ ساتھ چلتی رہے گی۔ نہ جانے وہ کیسے بھول جاتے ہیں کہ نیپال اور نیوزی لینڈ نے اس وبا پر مکمل قابو پایا ہے۔ ایک جانب ملک میں ڈیڑھ لاکھ سے زائدکورونا مریض تکلیف سے تڑپ رہے ہیں تو دوسری جانب ہماری حکومت دیگر کاموں میں لگی ہوئی ہے۔ صحت کا بجٹ تو ہمیشہ کم ہی ہوتا ہے۔
اس بار صحت بجٹ میں بیس ارب روپے رکھے گئے ہیں اور تعلیم کے لیے چار عشاریہ چھ ارب روپے ۔ یعنی زندگی بچانے کے لیے بیس روپے۔ ہونا تویہ چاہیے تھا کہ غیر ترقیاتی بجٹ کو روک کر صحت کی جانب منتقل کردیا جاتا۔ یہ کرنا تو حکمرانوں کو ناگوار گزرتا ہے ۔ویسے کورونا کے مریضوں کی دیکھ بھال کرنے والے ڈاکٹرز، نرسز، مڈوائف، پیرامیڈکس اور خاکروبوں کی اموات جاری ہے ، کیونکہ ان کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا ہے۔
جب کہ وسطی ایشیائی ملک آرمینیا کی حکومت نے اپنے پولیس چیف کو ان کے عہدے سے برطرف کردیا ہے کیونکہ وہ ملک میں کورونا وائرس کی روک تھام میں ناکام ہوئے تھے۔ امریکی جوائنٹ چیف آف آرمی اسٹاف کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ چہل قدمی کرنے اور مظاہرین کے خلاف ایکشن لینے پر جوائنٹ چیف آف آرمی اسٹاف نے صدر ٹرمپ سے معافی مانگی ہے۔ اس لیے کہ صدر منتخب ہوتا ہے جب کہ آرمی چیف ملازم ہوتا ہے۔
ہماری حکومت کہتی ہے کہ مغربی ترقی یافتہ ممالک اگر کورونا کو روک نہیں پا رہے ہیں تو ہم کیسے روک سکتے ہیں۔ انھیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اٹلی، اسپین، فرانس، جرمنی، برطانیہ ، امریکا اور جاپان سمیت سارے ملکوں میں اموات کی تعداد میں کمی آرہی ہے۔ اس وقت چلی، برازیل، میکسیکو اور امریکا میں اموات زیادہ ہے۔ اب تو پھر میکسیکو، روس اور امریکا میں اموات میں کمی آرہی ہے۔
ہمارے پڑوسی جنوبی ایشیائی ممالک بھوٹان، نیپال، کمبوڈیا، منگولیا، ویتنام، شمالی کوریا اور افریقہ میں روانڈا اورکینیا میں کوئی بھی شخص بھی ہلاک نہیں ہوا۔ اس لیے کہ انھوں نے شروع دن سے ہی احتیاط برتی۔ نیپال میں ایک شخص کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا لیکن وہ احتیاط سے صحت یاب ہوگیا۔ شمالی کوریا میں تین سو سے زائد افراد کا ٹیسٹ کیا گیا ، سب کی منفی رپورٹ آئی۔
دنیا میں اس وقت تقریبا پچاس ممالک ایسے ہیں جہاں روزانہ اموات پچاس سے کم ہیں۔ جہاں بہت زیادہ اموات ہو رہی تھیں اٹلی، اسپین، ایران اور جرمنی اب وہاں بھی بہت کم اموات ہو رہی ہیں۔ جنوبی کوریا، سنگاپور،ہانگ کانگ، یونان اور چین خاتمہ باالخیر کرنے کو ہیں۔ جہاںاضافہ ہورہا ہے، ان ایشیائی ملکوں میں پاکستان چوتھے نمبر پہ ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے پہلے سندھ میں لاک ڈائون اور بہتر کارکردگی پر تعریف کی تھی اور اب پاکستان کو نوٹس بھیجا ہے اور تجویز دی ہے کہ مہینے میں پندرہ دن لاک ڈائون کیا جائے اور پندرہ دن نرمی برتی جائے۔ پاکستان کے حالات پہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے تشویش کا اظہارکیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت اور نوکر شاہی نے مل کر ڈاکٹروں کے خلاف محاذ بنایا ہوا ہے۔ ہمارے وزیراعظم عمران خان فرماتے ہیں کہ امریکا میں تو روزانہ دوہزار لوگوں کی ہلاکتیں ہورہی ہیں جب کہ ہمارے ہاں تو روزانہ سو بھی نہیں ہوئیں۔ یہ اعداد و شمارغلط ہیں۔
امریکا میں ایک روز میں پندرہ سو لوگ بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ توکیا عمران خان اس کے منتظر ہیں کہ امریکا میں دو ہزار لوگ مرے تو ہمارے ہاں صرف سوکیوں مرے ؟ یہاں بھی روزانہ امریکا کی طرح دو ہزار افراد مرجائیں تو پھر جاکر ہوشیار ہونا ہے۔ پاکستان دنیا کا پسماندہ ترین ملک ہے جب کہ ایٹم بم بنانے والے نو ملکوں میں سے ایک ہے۔ دوسری طرف ملک میں اسپتالوں،ڈاکٹرز ، نرسز، مڈوائف، پیرامیڈکس کی شدید کمی ہے، بڑے اسپتالوں نے مزید مریضوں کو داخل کرنے سے منع کردیا ہے۔
ادھر اب بجٹ بھی پیش کیا گیا ہے ۔ پہلے سے چینی، آٹا اور پٹرول کا بحران چلا آرہا ہے۔ ذخیرہ اندوزوں اور لٹیروں کی کوئی پکڑ نہیں ہورہی ہے، وہ تو چارٹرڈ جہازوں سے بیرون ملک جا رہے ہیں۔ پہلے پٹرول کی قیمت بڑھتی تھی تو اس آڑ میں دکاندار ہرچیزکی قیمت میں اضافہ کر دیتے تھے اور اب جب پٹرول کی قیمت میں کمی آئی ہے توکسی بھی چیزکی قیمت میں کمی کرنا تو درکنار ، نہ صرف اضافہ ہی کر دیا گیا ہے بلکہ پٹرول ہی کو بازار سے غائب کر دیا گیا ہے، جب کہ ان سارے معاملات میں حکومت بے بس نظر آتی ہے، اس لیے کہ وہ اپنا بجٹ من وعن آئی ایم ایف کی حکم پہ بناتی ہے۔
پاکستان عالمی سرمایہ داری نظام کا ایک ادنیٰ سا حصہ ہے۔ جب امریکا کا گروتھ ریٹ دو عشاریہ پانچ، یورپ کا دو فیصد، جاپان کا منفی، چین کا چھ، بھارت کا چار عشاریہ تین، برازیل،جنوبی افریقہ اور روس کا ایک فیصد پہ آگیا ہے۔ ساڑھے سات ارب کی آبادی میں پانچ ارب کی آبادی غربت کی لکیرکے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ صرف بھوک سے روزانہ پچھتر ہزار لوگ لقمہ اجل ہو رہے ہیں، جب کہ دوسری جانب دنیا کے دس سرمایہ دار اس دنیا کی آدھی دولت کے مالک ہیں، یہی صورتحال پاکستان کی ہے۔
لوگ بھوک سے مر رہے ہیں ادھر آٹا، چینی اور پٹرول کی اب اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی ہو رہی ہے۔ چینی کی سبسڈیز، ڈالرکی بڑھتی ہوئی قیمت سے فائدہ حاصل کرنے اور مقامی بازار میں چینی کی قیمت میں اضافہ سے اربوں روپے لوٹ لیے گئے، تو دوسری جانب اسپتال اور وینٹی لیٹر نہیں ہیں، مریضوں کے لیے بستر نہیں ہیں۔ پاکستان میں لاکھوں ایکڑ زمین کے مالک چند درجن جاگیردار ہیں اور دوسری طرف کروڑوں بے زمین کسان۔ ان جاگیرداروں کے بچے یورپ میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جب کہ بے زمین کسانوں کے بچوں کے سرکاری اسکولوں میں یہی جاگیردارگائے اور بھینسیں باندھ جاتے ہیں اورکسانوں کے بچے ناخواندہ رہ جاتے ہیں۔
کسانوں کے علاج کے لیے اسپتال ، دوا اور ڈاکٹرز نہیں ہیں اور جاگیرداروں کی تیمارداری کرنے کے لیے بھوکے کسان ایک پائوں پر ہر وقت کھڑے رہتے ہیں۔یہ ہیں ریاست کے کارنامے اور طبقاتی نظام ۔ جب تک اس جاگیرداری اور سرمایہ داری کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکا نہیں جائے گا اور زمین کسانوں میں تقسیم نہیں کی جائے گی، اس وقت تک آئی ایم ایف کی غلامی سے نجات حاصل نہیںہوگی۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں سے ناتا توڑکر ملکی اورمقامی بنیادوں پر فیکٹریاں، مل اور کارخانے قائم کرکے خود انحصاریت اختیار نہیں کی جائے گی اس وقت تک کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا ہے۔
اسٹیل مل سمیت چھیاسٹھ اداروں کی نجکاری کا ارادہ حکومت رکھتی ہے، اس سے ملک میں مزید بے روزگاری بڑھے گی اور سرمایہ چند ہاتھوں میں مرکوز ہوگا، عوام کو ان مزدور دشمن اقدامات کو روکنے کے لیے میدان عمل میں آنا ہوگا، جیساکہ فرانس کی پیلی جیکٹ تحریک اور امریکا میں سیاہ فاموں کا تاریخی احتجاج جاری ہے۔ دونوں تحریکوں نے اپنے کچھ مطالبات منوا لیے ہیں اورمزید مطالبات کے لیے لڑ رہے ہیں۔گزشتہ برسوں میں بعض اداروں کی نجکاری کو مزدوروں نے اپنے خون کا نذرانہ دے کر رکوایا تھا،آ ج بھی مزدور اگر میدان عمل میں آجائیں، تو ان نجکاریوں کو رکوا سکتے ہیں۔