سندھی ٹوپی اجرک ڈے

سندھ صدیوں سے ثقافتی ورثے سے مالا مال رہا ہے اور یہاں کے رہنے والوں نے اپنی جان کی قربانی دے کر...

سندھ صدیوں سے ثقافتی ورثے سے مالا مال رہا ہے اور یہاں کے رہنے والوں نے اپنی جان کی قربانی دے کر اپنی زبان وثقافت کو محفوظ رکھا ہے۔ مگر اب افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ ہم اپنی ثقافت کو بھول کر اس کی تباہی کے سامان کرتے رہے ہیں سندھ میں رہنے والا ہر فرد اس کا ذمے دار ہے۔ نہ جانے کیوں اور کیسے 2009 میں کسی کو خیال آیا کہ ہم اپنی صدیوں کی ثقافت سندھی ٹوپی اور اجرک کو ختم ہونے سے بچائیں جو نہ صرف ہماری پہچان ہے بلکہ ہماری خوبصورتی بھی ہے۔ یہ سلسلہ مسلسل آج تک سندھ کے ہر کونے سے جاری ہے جس میں ہمارے بچے، بوڑھے، عورتیں اور جوان نسل اٹھ کھڑی ہوئی ہے ۔ حکومت سندھ، میڈیا، سیاست دان اور عام آدمی اس میں بھرپور حصہ لے رہے ہیں۔ اس موقعے پر جلسے، جلوس اور ریلی نکالی جاتی ہیں، لوگ سندھی ٹوپی پہن کر اور سندھی اجرک اوڑھ کر سڑکوں پر نکل آتے ہیں ، فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جس میں ثقافتی گیت گائے جاتے ہیں، بچے ٹیبلو پیش کرتے ہیں اور سامعین چاہے وہ اسٹیج پر ہوں یا پھر گھر میں ٹی وی سیٹ پر سندھی جھمر لگاتے ہیں اور ہر طرف عید کا سا سماں لگتا ہے۔ ہاتھوں میں جو جھنڈے اٹھائے ہوتے ہیں انھیں خوشی سے لہراتے ہوئے خود بھی گنگناتے ہیں۔ باپ اپنے بچوں کو اپنے کندھے پر اٹھاکر اس میلہ کا منظر بڑے پیار سے دکھاتاہے جس سے یہ ننھی نسل کے ذہن میں بات بیٹھ جاتی ہے کہ سندھی ٹوپی اور اجرک ان کی ثقافت اور پہچان ہے جسے آگے چل کر خود ذمے داری سے سنبھالنے لگیںگے۔

اس حوالے سے میں یہ کہوںگا کہ اس کے ساتھ ہمیں ہماری ثقافت پگڑی کو بھی شامل کیاجائے تاکہ یہ ثقافت مکمل ہوجائے۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہنا ہے کہ اب خوشی کی بات ہے کہ سارے ادارے یہ خوشی کا دن ایک ہی دن منارہے ہیں جب کہ اس سے پہلے ایک ادارہ ایک طرف تھا اور باقی ادارے دوسری طرف تھے جس سے معلوم ہورہاتھا کہ ان میں تو اتحاد ہی نہیں ہے تو یہ اس دن کو صحیح طریقے سے کیسے برقرار رکھیںگے۔ یہ اچھی بات ہے کہ ان لوگوں نے اپنی اپنی انا کو اٹھاکر باہر پھینک دیا ہے جس سے یکجہتی ظاہر ہوگی۔ تیسری بات یہ ہے کہ جس طرح ایم کیو ایم بھی الگ اس ثقافتی دن کو مناتی ہے اسے بھی اب یہ دن سب کے ساتھ ملکر منانا چاہیے۔ سندھ میں رہنے والے اردو اسپیکنگ، پشتو، سرائیکی، پنجابی، بلوچی، زبانیں بولنے والے بھی شامل ہیں وہ بھی اس دن کو منائیں اس سے یہ ہوگا کہ صوبے میں رہنے والوں میں محبت، ہم آہنگی، بھائی چارہ اور اتحاد پیدا ہوگا۔ ہمیں ایک دوسرے کی زبان اور ثقافت کی عزت اور احترام کرنا چاہیے۔ جس سے صوبے میں امن اور پیار کی فضاء قائم ہوگی۔

پہلے سندھی ٹوپی اور اجرک بنانے کا کام بڑی حد تک متاثر ہوگیا تھا مگر اس دن کو منانے سے اس میں نئی روح پھونک دی گئی ہے اور سال میں ایک مرتبہ اس کی فروخت میں بے پناہ اضافہ بھی ہوجاتاہے جس سے مزدوروں اور کاریگروں کے چولہے دوبارہ جل اٹھے ہیں ورنہ اجرک کی صنعت تو آخری سانسیں گن رہی تھی۔ سب سے بڑی خوشی کی بات یہ ہے کہ اب سندھ میں ہر زبان بولنے والا جب بھی کبھی اپنے مہمان کو کوئی تحفہ دیتا ہے تو اس میں سندھی ٹوپی اور اجرک شامل ہے۔ چاہے وہ کسی دوسرے صوبے یا ملک سے آنے والا مہمان ہی کیوں نہ ہو۔ اب اس تحریر کے حوالے سے مجھے موقع ملا ہے تو یہ بات اپنے ان دوستوں سے عرض کروں کہ اب قوم پرست پارٹیاں بھی ملکر ایک ہوجائیں اور سب ملکر اپنے صوبے کی خدمت کریں اور وہاں پر رہنے والوں کو ان کا حق دلانے میں ایک رائے ہوکر کام کریں۔


اب جب کہ ہمارے لوگوں میں یہ شعور آگیاہے کہ انھیں اپنی ثقافت کو بچانا ہے تو پھر وہ اپنے ورثے اور زبان کی بھی خدمت کریں اور انھیں ختم ہونے سے بچانے کے لیے ایک آواز بن کر کھڑے ہوں۔ اب آپ دیکھیں آپ کا موہن جو دڑو، منچھر جھیل، کینجھر جھیل، وائلڈ لائف، رنی کوٹ، گورکھ ہل اسٹیشن، ڈیلٹا، مکلی کا قبرستان، دریائے سندھ اور بہت ساری ورثے کی چیزیں دن بہ دن تباہی کی طرف بڑھ رہی ہیں، ان کے لیے بھی آواز اٹھائیں، ان کے دن بین الاقوامی طورپر منائیں جس میں پاکستان کے لوگوں کے ساتھ دنیا والوں کو بھی اپنے ساتھ رکھیں ۔کیوںکہ یہ ورثہ قومی ہے جس سے پوری دنیا میں ہمارا نام روشن ہے۔ حال ہی میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے موہن جو دڑو کا دورہ کیا جہاں پر سائٹ کی خستہ حالی دیکھ کر یہ وعدہ کیا کہ وہ بین الاقوامی طورپر موہن جو دڑو کی بحالی اور اسے تباہی سے بچانے کے لیے دنیا کے ممالک اور ورثے کو محفوظ رکھنے والے اداروں سے رابطہ کرکے ملک کی اہم سائٹ کو بچانے میں اپنا کردار ادا کریںگے اب اس کے اس جواب میں کوئی بھی سیاسی پارٹی یا عوام آگے ابھی تک نہیں آئی ہے۔

کینجھراور منچھر جھیل کا پانی زہریلا ہوگیا ہے اور یہ پانی نہ صرف وہاں کے لوگ پی رہے ہیں بلکہ یہ پانی کراچی اور حیدرآباد اور ٹھٹھہ کے لوگ استعمال کررہے ہیں جس سے کئی خطرناک بیماریاں پیدا ہوگئی ہیں۔ اس کے لیے بھی ایک لائحہ عمل ہونا چاہیے اور جو انڈسٹریز والے اس میں پانی چھوڑرہے ہیں وہ بھی خود از خود اس کو بند کرکے یکجہتی اور ثقافتی ورثے کو بچانے میں اپنی محبت کا ثبوت دیں۔ ہمارے صوبے کی پہچان کئی پرندے اور جانور ہیں جن کی نسل ختم ہورہی ہے جس سے ہماری وائلڈ لائف کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس میں بھی شکار کرنے والے بھی یہ بات مد نظر رکھیں کہ جو پرند اور چرند اس علاقے کی خوبصورتی اور پہچان ہیں انھیں سنبھال کر رکھیں۔ اس کے علاوہ ہمارے سندھ صوبے میں کبھی چاروں طرف جنگل ہی جنگل ہوتا تھا جس سے ہمیں ہر قسم کی لکڑی، شہد، مچھلی اور پرندے ملتے تھے اور ہمارے علاقے کی آب و ہوا صاف اور غیر آلودہ تھی اب زمینداروں نے لالچ کے تحت اور ڈاکوئوں نے اپنے ٹھکانے کے طورپر اسے تباہ کردیا۔

ہماری ثقافت تھی کہ ہم ایک لڑکی کی اتنی عزت کرتے تھے کہ اگر کوئی کسی کا کتنا بھی نقصان کردے اور معافی کے لیے اگر کوئی لڑکی لے آتے تو انھیں خون تک معاف کیاجاتاتھا اور سید گھرانے کی بڑی عزت و احترام تھا۔ لیکن ڈاکوئوں نے اس ثقافت کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے ہیں وہ عورتوں کو اٹھالیتے ہیں، بے غیرت قسم کے لوگ اپنی عورت کو کاری کہہ کر اسے قتل کردیتے ہیں، مکلی کا قبرستان جہاں پر لا تعداد ورثے کی اہم شخصیات اور ادارے دفن ہے جہاں پر لوگ یہ کہہ کر انھیں مسمار کردینا چاہتے ہیں کہ یہ ان اجڑے ہوئے کھنڈرات کو توڑ کر اس پر مکان اور دکانیں بنانا چاہتے ہیں تو یہ سب کچھ کیا ہے۔ ہمیں ان کی اس سوچ کو بدلنے کے لیے اور ان میں اپنی ثقافت کے لیے محبت پیدا کرنے کے لیے بھی کئی دن منانے پڑیںگے۔ تاکہ ان میں یہ شعور پیدا ہو کہ ان کی آنے والی نسلوں کے لیے یہ مقامات اور ورثہ کتنے اہم ہیں جن سے ان کی عزت اور تاریخ جڑی ہوئی ہے۔

ہمارا ثقافتی کھیل جس میں پہلوانی میں ملھ بھی شامل ہے، کھیلوں میں کوڈی کوڈی، بلھاڑو، ونجھ وٹی وغیرہ شامل ہیں انھیں بھی ثقافتی دن کے طورپر منانا چاہیے۔ کیوںکہ یہ صرف شاہ بھائی اور قلندر شہباز کے میلے میں منعقد ہوتے ہیں باقی نئی نسل ان سے نا آشنا ہے۔ جسے بھی آگے لایاجائے۔ سندھ میں رنی کوٹ اور گورکھ ہل اسٹیشن جیسے مقامات موجود ہیں۔ اس کے پروموشن اور حفاظت کے لیے کوئی بھی آواز نہیں اٹھ رہی ہے صرف چند Archaeology سے دلچسپی لینے والوں نے اپنا فرض پورا کیا اور ان مقامات کو بین الاقوامی لیول پر لانے کے لیے کتابیں بھی لکھی ہیں مگر حکومت اور عوام ان سے میلوں دور ہیں۔ چلو اچھا ہے کہ اب ثقافت کو بچانے کے لیے کچھ تو ابتدا ہوئی ہے جو آہستہ آہستہ ہم باقی سائٹس، اداروں اور ورثے کی طرف بڑھیںگے جس کے لیے ہمیں کوئی دن متعین کرنا پڑے گا مگر اس سے پہلے عام آدمی میں اس کے لیے شعور پیدا کرنا ہوگا۔
Load Next Story