کورونا وائرس عالمی قیادت نے مایوس کیا
کورونا تو ایک بہانہ ہے دیگر شعبہ ہائے زندگی میں کون سی تبدیلیاں آئی ہیں، فہمیدہ لوگ قحط الرجال کی بات کرتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد لاک ڈاؤن سے ہوٹلوں اور شادی ہالز سمیت سروس سیکٹر بری طرح متاثر ہوا ہے، آیندہ اگر صوبے لاک ڈاؤن کے آپشن پر غور کا کہیں گے تو بھی میں اس کی حمایت نہیں کروں گا کیونکہ چین کے شہر ووہان کے مقابلہ میں یہاں پر صورتحال مختلف ہے۔
پیر کو یہاں وزیر اعظم ہاؤس میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کورونا کی وجہ سے پوری دنیا کو غیر متوقع صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ چین اور یورپ کو دیکھ کر یہاں سب نے کہا وبا پھیل گئی ہے تو ہم نے سخت لاک ڈاؤن کردیا، فیصلہ گھبراہٹ میں کیا گیا، لاڑکانہ کے متاثرین میں صرف 20 فیصد کاروباری تھے، سمجھ نہیں آیا چھابڑی والوں کو کیوں بند کر دیا، مجھ پر بڑی تنقید ہوئی لیکن شکر ہے میری بات سن لی گئی۔
حقیقت کے اس بے محابہ انکشاف کی منطق کی رمزیت تو وزیر اعظم ہی بتا سکتے ہیں لیکن ان کا یہ کہنا کہ اگر صوبے لاک ڈاؤن کے آپشن پر غور کا کہیں تب بھی میں اس کی حمایت نہیں کرونگا، مگر دوسری طرف وہ بیماروں اور بزرگوں کی خاطر اسمارٹ لاک ڈاؤن کی اسی منطق سے جان چھڑانے پر تیار نہیں، اس دو طرفہ تضاد سے کورونا کے حوالہ سے حکومت کے پورے ڈاکٹرائن کی دیومالا عام آدمی کو بھی اب سمجھ آگئی ہے۔
حکومت کا ذہن ابھی تک لاک ڈاؤن کے بارے میں شکوک سے آزاد نہیں، لاک ڈاؤن کئی پینترے بدل چکا ہے، کبھی ٹوٹل لاک ڈاؤن تو کبھی اسمارٹ لاک ڈاؤن، کبھی کرفیو کی باتیں اور کبھی شہر کے متاثرہ علاقوں کو مکمل سر بہ مہر کرنے کی حکمت عملی جب کہ ضرورت ہوئی تو لاک ڈاؤن کے اندر سے خصوصی تجارتی شعبوں اور کاروبار کو اچانک کھولنے کے یک طرفہ اعلانات، ایک عجیب صورتحال پیدا ہوئی، جس میں صوبے بھی الجھن کا شکار ہوئے۔
سندھ حکومت اور وفاق میں تو باضابطہ ایک نہ ختم ہونے والی محاذ آرائی شروع ہوئی جس کا تسلسل ہلاکتوں میں ہوشربا اضافہ اور اسپتالوں پر غیر معمولی دباؤ کی صورت میں ظاہر ہوتا رہا، نجی لیباریٹریز نے ٹیسٹنگ اور دیگر مدات میں کورونا مریضوں کو زیر بار کیا، اوور چارجنگ پر صوبوں نے نجی اسپتالوں کو نوٹس بھیجنا شروع کیے، کئی انتظامی فیصلے ایسے ہوئے جن پر عملدرآمد میں موجود سقم دور ہی نہیں کیے جاسکے۔
وزیر اعظم کی زیرصدارت گزشتہ روز کورونا سے متعلق اجلاس ہوا ۔ اجلاس میں اسمارٹ لاک ڈاؤن کی حکمت عملی پر غور کیا گیا۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ اسمارٹ لاک ڈاؤن کی حکمت عملی پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے جہاں ایک طرف مقامی رہنماؤں اور کمیونٹی کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے وہاں اس حوالے سے ٹائیگر فورس کی خدمات بھی حاصل کی جائیں۔
وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ عیدالاضحی کے پیش نظر ایس او پیز کو صوبائی حکومتوں کی مشاورت سے جلد از جلد حتمی شکل دے کر ان کا نفاذ یقینی بنایا جائے۔ اجلاس میں کورونا کی صورتحال، ملک بھر کے اسپتالوں میں آکسیجن بیڈ ز کی تعداد میں اضافے، آکسیجن کی طلب اور سپلائی کے معاملات پر تفصیلی غور کیا گیا۔ چیئرمین این ڈی ایم اے نے بریفنگ دی۔
وزیر اعظم نے بیڈز اور آکسیجن کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا لیکن معترضین کا کہنا ہے کہ بنیادی تضاد، انتظامی بے سمتی، ضروری سہولتوں، حفاظتی کٹس کی عدم فراہمی اور مربوط حکمت عملی کا سارا ملبہ سندھ سمیت دیگر صوبوں کی طبی برادری، میڈیکل اسٹاف اور ڈاکٹروں نے وفاق پر ڈال دیا، وجہ صاف ظاہر تھی کہ کورونا سے نمٹنے کے کثیر جہتی اور قومی اتفاق رائے پر مبنی ایک میثاق کی عدم موجودگی تھی۔
دو مائنڈ سیٹ تھے، ایک طرف شتر مرغ جیسی وفاقی حکومت تھی جو لاک ڈاؤن کے حق میں نہیں تھی، دوسری جانب سندھ حکومت تھی جسے لاک ڈاؤن کی مخالفت پر وفاق سے مالی، تکنیکی شکایات اور پالیسی تحفظات بھی تھے اور اب بھی ہیں، وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے امریکا میں عوام کو خوراک حاصل کرنے کے لیے لمبی قطاروں میں کھڑا ہونا پڑا جب کہ اٹلی میں بھی لوگوں کو خوراک کے حصول میں مشکلات کا سامنا رہا ہے۔
مودی کی حکومت نے تمام تر اعداد و شمار کی روشنی میں بھارت میں مکمل لاک ڈاؤن کیا تو مزید 34فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے چلی گئی۔ وزیر اعظم کے مطابق اگلا مہینہ مشکل ہے جس میں صرف بوڑھوں اور بیمار افراد کے لیے اسمارٹ لاک ڈاؤن ہوگا، ذیابیطس، بلڈ پریشر، دل کی بیماریوں والے افراد کے لیے لاک ڈاؤن کرنا ہے، انھیں خاص احتیاط کی ضرورت ہے، ان لوگوں کو بچا لیا تو کورونا کا وہ نقصان نہیں ہوگا جتنا دیگر ممالک میں ہوا ہے۔
ٹائیگر فورس کے رضاکار ایسی صورتحال میں معاون و مددگار ثابت ہوں گے۔ لیکن حکومت ٹائیگر فورس کا صرف وعدہ ہی کرتی ہے عملی طور پر کہیں بھی ٹائیگر فورس کا وجود نظر نہیں آتا، ان کی تنظیمی صلاحیت صیغہ راز میں ہے، ان کا میکنزم کس طرح چلے گا، ٹائیگر فورس پولیس اور رینجرز سے کس طرح کا اشتراک وتعاون کریگی، کیا فورس سے دوسری فورسز کے انٹرایکشن یا ''ریپڈ کارروائی'' سے کسی قسم کا معاندانہ ماحول تو پیدا نہیں ہوگا، کوآرڈینیشن کی ضمانت کون دیگا، ان سوالات کا کسی کے پاس جواب تو ہونا چاہیے۔
بہر کیف بہت ہی اچھا ہوگا اگر ٹائیگر فورس پولیس اور رینجرز کے ساتھ مل کر ایک اضافی کمک کے طور پر نتائج پیدا کرے۔ تاہم مشاہدہ میں آیا ہے کہ ماضی میں ایسی کئی فورسز جنم لیتی رہی ہیں اور ان سے پولیس فورس کی کارکردگی میں کوئی معیاری تبدیلی نظر نہیں آئی، ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا ٹائیگر فورس وزیر اعظم کی نگرانی میں کام کریگی۔
وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت کووڈ۔19سے متاثرہ معاشرے کے طبقات کی معاونت اور سپورٹ کے لیے عطیہ کیے گئے ہر ایک روپے کے حوالے سے شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے۔ حکومت متعلقہ ایپس اور ویب سائٹس کو لانچ کرکے شفافیت کے حوالے سے ڈونرز کو اعتماد فراہم کر رہی ہے۔
دریں اثنا عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈ ورس ادانوم گیبر یوسیس نے ایک نیا انتباہ جاری کیا ہے جو کورونا وائرس میں پیدا ہونے والی ایک نئی پیچیدگی سے متعلق ہے اگرچہ دنیا میں لاک ڈاؤن کھولنے کی کوششیں تیز ہوئی ہیں، فرانس اور نیوزی لینڈ نے جشن مسرت منایا، فیسٹیول منعقد کیا، فرانس نے لاکھوں بچوں کے لیے اسکولوں کے دروازے کھول دیے، یورپی ملکوں میں پابندیاں نرم کی گئیں، لیکن کورونا کی دوسری لہر کا خطرہ ہے، لاطینی امریکا کے ملک برازیل میں اموات پچاس ہزار سے تجاوز کر گئیں، وبا کا دائرہ اور اس کی شدت بڑھ رہی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے اس وبائی بحران سے معاشی، صحت، سیاسی اور سماجی بحرانوں نے جنم لیا ہے، جس کے آیندہ نتائج ہولناک ہونگے، ادارہ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ اس وبا کا سب سے بڑا خطرہ صرف وائرس نہیں بلکہ 90ملین افراد ہونگے جو اس کورونا کو بھگتیں گے، انھوں نے کہا کہ دنیا کی عالمی قیادت میں یکجہتی اور گلوبل لیڈرشپ کا فقدان ہے۔
انھوں نے برازیل کے صدر بولسونارہ کا تقابل کرتے ہوئے کہا کہ ان کے نزدیک شٹ ڈاؤن تو وائرس سے بھی بڑی تباہی ہے جب کہ برازیل امریکا کے بعد دوسرا ملک ہے جو وائرس سے متاثر ہوا ہے، ان کا کہنا تھا کہ وائرس لاطینی امریکا کے ملک میکسیکو، چلی اور پیرو میں اس شدت سے پھیلا ہے کہ صحت سسٹم سقوط پذیر ہوا ہے، میکسیکو میں کاروبار بند ہے، تاہم انھوں نے کہا کہ یورپ میں بہترین میوزیکل جشن منایا گیا مگر سیاسی رہنماؤں نے قیادت کا شاندار مظاہرہ نہیں کیا۔ خیال رہے یورپ میں صورتحال اب بہتر ہونے لگی ہے۔
مگر ہم ملکی سطح پر کورونا سے نمٹنے کی وہ اسپورٹسمین شپ کیوں نہیں دیکھ پائے جس کے باعث وفاق اور صوبوں کے مابین اتفاق رائے، تعاون اشتراک، مثالی تعلقات کار اور جوش وجذبہ نظر آنا چاہیے تھا۔ کہتے ہیں کہ ہمارے سیاست دانوں، حکمرانوں اور سول سوسائٹی کی ترجیحات دوسری رہیں، حکومت اور اپوزیشن میں تصادم، بلیم گیم اور محاذ آرائی کورونا کیسز کی طرح عروج پر ہے، برہمی قومی مزاج بن چکا ہے، خطے کے حالات اور معیشت سوالیہ نشان بن گئی ہے مگر کسی کو پرواہ نہیں۔
کورونا سے برسرپیکار ہونے کے لیے جس ہنگامی صورتحال کا نقشہ نظر آنا شرط ہے اس کی کمی محسوس ہوتی ہے، ایک قومی کردار ہوتا ہے جس کو آئینہ بنا کر حکمران دنیا کے سامنے پیش کرسکتے ہیں، لیکن سب نے ریت میں سر چھپا لیے ہیں، بس اسی انتظار میں ہیں کہ کورونا آیا ہے تو کبھی نہ کبھی جائے گا ضرور۔ حکومت کو شکایت ہے کہ ایس او پیز پر عمل نہیں ہورہا، فیس ماسک لگانے پر لوگ تیار نہیں، حالانکہ دنیا بھر میں ماہرین کہتے ہیں کہ سماجی فاصلہ ہی رکھ لیں تو کورونا دم توڑنے پر مجبور ہوگا۔
کورونا تو ایک بہانہ ہے دیگر شعبہ ہائے زندگی میں کون سی تبدیلیاں آئی ہیں، فہمیدہ لوگ قحط الرجال کی بات کرتے ہیں، غربت اور بیروزگاری کے خاتمے پر بھی کوئی سنجیدہ نہیں، دیہاڑی دار مزدوروں کی ہمدردی کے دعوے دار بہت ہیں، غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کی کہانیاں ہیں مگر نئی چم چماتی گاڑیوں کی آمد کے قصے ہیں۔
ادھر امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بجٹ شفافیت نام کی کوئی چیز نہیں۔ ملک میں کورونا کیسز میں کمی اور بہتر صحت یابی کی نوید بھی ملتی ہے مگر حکومت جولائی اور اگست میں طوفانوں کے ایک عظیم اجتماع gathering storm کی خبر دے رہی ہے، کیا ہونے والا ہے۔ اللہ جانے مولا جانے۔
پیر کو یہاں وزیر اعظم ہاؤس میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کورونا کی وجہ سے پوری دنیا کو غیر متوقع صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ چین اور یورپ کو دیکھ کر یہاں سب نے کہا وبا پھیل گئی ہے تو ہم نے سخت لاک ڈاؤن کردیا، فیصلہ گھبراہٹ میں کیا گیا، لاڑکانہ کے متاثرین میں صرف 20 فیصد کاروباری تھے، سمجھ نہیں آیا چھابڑی والوں کو کیوں بند کر دیا، مجھ پر بڑی تنقید ہوئی لیکن شکر ہے میری بات سن لی گئی۔
حقیقت کے اس بے محابہ انکشاف کی منطق کی رمزیت تو وزیر اعظم ہی بتا سکتے ہیں لیکن ان کا یہ کہنا کہ اگر صوبے لاک ڈاؤن کے آپشن پر غور کا کہیں تب بھی میں اس کی حمایت نہیں کرونگا، مگر دوسری طرف وہ بیماروں اور بزرگوں کی خاطر اسمارٹ لاک ڈاؤن کی اسی منطق سے جان چھڑانے پر تیار نہیں، اس دو طرفہ تضاد سے کورونا کے حوالہ سے حکومت کے پورے ڈاکٹرائن کی دیومالا عام آدمی کو بھی اب سمجھ آگئی ہے۔
حکومت کا ذہن ابھی تک لاک ڈاؤن کے بارے میں شکوک سے آزاد نہیں، لاک ڈاؤن کئی پینترے بدل چکا ہے، کبھی ٹوٹل لاک ڈاؤن تو کبھی اسمارٹ لاک ڈاؤن، کبھی کرفیو کی باتیں اور کبھی شہر کے متاثرہ علاقوں کو مکمل سر بہ مہر کرنے کی حکمت عملی جب کہ ضرورت ہوئی تو لاک ڈاؤن کے اندر سے خصوصی تجارتی شعبوں اور کاروبار کو اچانک کھولنے کے یک طرفہ اعلانات، ایک عجیب صورتحال پیدا ہوئی، جس میں صوبے بھی الجھن کا شکار ہوئے۔
سندھ حکومت اور وفاق میں تو باضابطہ ایک نہ ختم ہونے والی محاذ آرائی شروع ہوئی جس کا تسلسل ہلاکتوں میں ہوشربا اضافہ اور اسپتالوں پر غیر معمولی دباؤ کی صورت میں ظاہر ہوتا رہا، نجی لیباریٹریز نے ٹیسٹنگ اور دیگر مدات میں کورونا مریضوں کو زیر بار کیا، اوور چارجنگ پر صوبوں نے نجی اسپتالوں کو نوٹس بھیجنا شروع کیے، کئی انتظامی فیصلے ایسے ہوئے جن پر عملدرآمد میں موجود سقم دور ہی نہیں کیے جاسکے۔
وزیر اعظم کی زیرصدارت گزشتہ روز کورونا سے متعلق اجلاس ہوا ۔ اجلاس میں اسمارٹ لاک ڈاؤن کی حکمت عملی پر غور کیا گیا۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ اسمارٹ لاک ڈاؤن کی حکمت عملی پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے جہاں ایک طرف مقامی رہنماؤں اور کمیونٹی کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے وہاں اس حوالے سے ٹائیگر فورس کی خدمات بھی حاصل کی جائیں۔
وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ عیدالاضحی کے پیش نظر ایس او پیز کو صوبائی حکومتوں کی مشاورت سے جلد از جلد حتمی شکل دے کر ان کا نفاذ یقینی بنایا جائے۔ اجلاس میں کورونا کی صورتحال، ملک بھر کے اسپتالوں میں آکسیجن بیڈ ز کی تعداد میں اضافے، آکسیجن کی طلب اور سپلائی کے معاملات پر تفصیلی غور کیا گیا۔ چیئرمین این ڈی ایم اے نے بریفنگ دی۔
وزیر اعظم نے بیڈز اور آکسیجن کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا لیکن معترضین کا کہنا ہے کہ بنیادی تضاد، انتظامی بے سمتی، ضروری سہولتوں، حفاظتی کٹس کی عدم فراہمی اور مربوط حکمت عملی کا سارا ملبہ سندھ سمیت دیگر صوبوں کی طبی برادری، میڈیکل اسٹاف اور ڈاکٹروں نے وفاق پر ڈال دیا، وجہ صاف ظاہر تھی کہ کورونا سے نمٹنے کے کثیر جہتی اور قومی اتفاق رائے پر مبنی ایک میثاق کی عدم موجودگی تھی۔
دو مائنڈ سیٹ تھے، ایک طرف شتر مرغ جیسی وفاقی حکومت تھی جو لاک ڈاؤن کے حق میں نہیں تھی، دوسری جانب سندھ حکومت تھی جسے لاک ڈاؤن کی مخالفت پر وفاق سے مالی، تکنیکی شکایات اور پالیسی تحفظات بھی تھے اور اب بھی ہیں، وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے امریکا میں عوام کو خوراک حاصل کرنے کے لیے لمبی قطاروں میں کھڑا ہونا پڑا جب کہ اٹلی میں بھی لوگوں کو خوراک کے حصول میں مشکلات کا سامنا رہا ہے۔
مودی کی حکومت نے تمام تر اعداد و شمار کی روشنی میں بھارت میں مکمل لاک ڈاؤن کیا تو مزید 34فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے چلی گئی۔ وزیر اعظم کے مطابق اگلا مہینہ مشکل ہے جس میں صرف بوڑھوں اور بیمار افراد کے لیے اسمارٹ لاک ڈاؤن ہوگا، ذیابیطس، بلڈ پریشر، دل کی بیماریوں والے افراد کے لیے لاک ڈاؤن کرنا ہے، انھیں خاص احتیاط کی ضرورت ہے، ان لوگوں کو بچا لیا تو کورونا کا وہ نقصان نہیں ہوگا جتنا دیگر ممالک میں ہوا ہے۔
ٹائیگر فورس کے رضاکار ایسی صورتحال میں معاون و مددگار ثابت ہوں گے۔ لیکن حکومت ٹائیگر فورس کا صرف وعدہ ہی کرتی ہے عملی طور پر کہیں بھی ٹائیگر فورس کا وجود نظر نہیں آتا، ان کی تنظیمی صلاحیت صیغہ راز میں ہے، ان کا میکنزم کس طرح چلے گا، ٹائیگر فورس پولیس اور رینجرز سے کس طرح کا اشتراک وتعاون کریگی، کیا فورس سے دوسری فورسز کے انٹرایکشن یا ''ریپڈ کارروائی'' سے کسی قسم کا معاندانہ ماحول تو پیدا نہیں ہوگا، کوآرڈینیشن کی ضمانت کون دیگا، ان سوالات کا کسی کے پاس جواب تو ہونا چاہیے۔
بہر کیف بہت ہی اچھا ہوگا اگر ٹائیگر فورس پولیس اور رینجرز کے ساتھ مل کر ایک اضافی کمک کے طور پر نتائج پیدا کرے۔ تاہم مشاہدہ میں آیا ہے کہ ماضی میں ایسی کئی فورسز جنم لیتی رہی ہیں اور ان سے پولیس فورس کی کارکردگی میں کوئی معیاری تبدیلی نظر نہیں آئی، ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا ٹائیگر فورس وزیر اعظم کی نگرانی میں کام کریگی۔
وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت کووڈ۔19سے متاثرہ معاشرے کے طبقات کی معاونت اور سپورٹ کے لیے عطیہ کیے گئے ہر ایک روپے کے حوالے سے شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے۔ حکومت متعلقہ ایپس اور ویب سائٹس کو لانچ کرکے شفافیت کے حوالے سے ڈونرز کو اعتماد فراہم کر رہی ہے۔
دریں اثنا عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈ ورس ادانوم گیبر یوسیس نے ایک نیا انتباہ جاری کیا ہے جو کورونا وائرس میں پیدا ہونے والی ایک نئی پیچیدگی سے متعلق ہے اگرچہ دنیا میں لاک ڈاؤن کھولنے کی کوششیں تیز ہوئی ہیں، فرانس اور نیوزی لینڈ نے جشن مسرت منایا، فیسٹیول منعقد کیا، فرانس نے لاکھوں بچوں کے لیے اسکولوں کے دروازے کھول دیے، یورپی ملکوں میں پابندیاں نرم کی گئیں، لیکن کورونا کی دوسری لہر کا خطرہ ہے، لاطینی امریکا کے ملک برازیل میں اموات پچاس ہزار سے تجاوز کر گئیں، وبا کا دائرہ اور اس کی شدت بڑھ رہی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے اس وبائی بحران سے معاشی، صحت، سیاسی اور سماجی بحرانوں نے جنم لیا ہے، جس کے آیندہ نتائج ہولناک ہونگے، ادارہ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ اس وبا کا سب سے بڑا خطرہ صرف وائرس نہیں بلکہ 90ملین افراد ہونگے جو اس کورونا کو بھگتیں گے، انھوں نے کہا کہ دنیا کی عالمی قیادت میں یکجہتی اور گلوبل لیڈرشپ کا فقدان ہے۔
انھوں نے برازیل کے صدر بولسونارہ کا تقابل کرتے ہوئے کہا کہ ان کے نزدیک شٹ ڈاؤن تو وائرس سے بھی بڑی تباہی ہے جب کہ برازیل امریکا کے بعد دوسرا ملک ہے جو وائرس سے متاثر ہوا ہے، ان کا کہنا تھا کہ وائرس لاطینی امریکا کے ملک میکسیکو، چلی اور پیرو میں اس شدت سے پھیلا ہے کہ صحت سسٹم سقوط پذیر ہوا ہے، میکسیکو میں کاروبار بند ہے، تاہم انھوں نے کہا کہ یورپ میں بہترین میوزیکل جشن منایا گیا مگر سیاسی رہنماؤں نے قیادت کا شاندار مظاہرہ نہیں کیا۔ خیال رہے یورپ میں صورتحال اب بہتر ہونے لگی ہے۔
مگر ہم ملکی سطح پر کورونا سے نمٹنے کی وہ اسپورٹسمین شپ کیوں نہیں دیکھ پائے جس کے باعث وفاق اور صوبوں کے مابین اتفاق رائے، تعاون اشتراک، مثالی تعلقات کار اور جوش وجذبہ نظر آنا چاہیے تھا۔ کہتے ہیں کہ ہمارے سیاست دانوں، حکمرانوں اور سول سوسائٹی کی ترجیحات دوسری رہیں، حکومت اور اپوزیشن میں تصادم، بلیم گیم اور محاذ آرائی کورونا کیسز کی طرح عروج پر ہے، برہمی قومی مزاج بن چکا ہے، خطے کے حالات اور معیشت سوالیہ نشان بن گئی ہے مگر کسی کو پرواہ نہیں۔
کورونا سے برسرپیکار ہونے کے لیے جس ہنگامی صورتحال کا نقشہ نظر آنا شرط ہے اس کی کمی محسوس ہوتی ہے، ایک قومی کردار ہوتا ہے جس کو آئینہ بنا کر حکمران دنیا کے سامنے پیش کرسکتے ہیں، لیکن سب نے ریت میں سر چھپا لیے ہیں، بس اسی انتظار میں ہیں کہ کورونا آیا ہے تو کبھی نہ کبھی جائے گا ضرور۔ حکومت کو شکایت ہے کہ ایس او پیز پر عمل نہیں ہورہا، فیس ماسک لگانے پر لوگ تیار نہیں، حالانکہ دنیا بھر میں ماہرین کہتے ہیں کہ سماجی فاصلہ ہی رکھ لیں تو کورونا دم توڑنے پر مجبور ہوگا۔
کورونا تو ایک بہانہ ہے دیگر شعبہ ہائے زندگی میں کون سی تبدیلیاں آئی ہیں، فہمیدہ لوگ قحط الرجال کی بات کرتے ہیں، غربت اور بیروزگاری کے خاتمے پر بھی کوئی سنجیدہ نہیں، دیہاڑی دار مزدوروں کی ہمدردی کے دعوے دار بہت ہیں، غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کی کہانیاں ہیں مگر نئی چم چماتی گاڑیوں کی آمد کے قصے ہیں۔
ادھر امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بجٹ شفافیت نام کی کوئی چیز نہیں۔ ملک میں کورونا کیسز میں کمی اور بہتر صحت یابی کی نوید بھی ملتی ہے مگر حکومت جولائی اور اگست میں طوفانوں کے ایک عظیم اجتماع gathering storm کی خبر دے رہی ہے، کیا ہونے والا ہے۔ اللہ جانے مولا جانے۔