سیاست کی سوجھ بوجھ اورہمارے لیڈران
سیاست کی یہ سوجھ بوجھ کسی کسی کو حاصل ہوتی ہے ہرایک کو نصیب نہیں ہوتی۔
HANOI:
اس سے پہلے بھی ہمارے یہاں مجبور اور لاچار حکومتیں بنتی رہی ہیں۔آج جو کچھ ہمیں نظر آرہا ہے ایسا ہم نے پہلے بھی ہوتے ہوئے دیکھا ہے ۔ یونہی کمپرومائزڈ سیاست کا چلن رہا ہے، لیکن ایسالگتا ہے کہ موجودہ حکومت نے سابقہ تمام ریکارڈز توڑ دیے ہیں۔ماضی میں میاں نواز شریف نے اپنے پہلے دور اقتدارمیں بڑی حد تک اِسی طرح مفاہمتی سیاست کامظاہرہ کیاتھا ۔
میاں نواز شریف کو سیاست میں لانے والے جنرل ضیاء الحق اورجنرل جیلانی تھے۔ اِس سے پہلے میاں صاحب یا اُن کے خاندان کا سیاست سے کوئی تعلق نہ تھا۔ پیشے کے اعتبار سے وہ ایک بزنس مین تھے۔ جنرل ضیاء کے دور میں سیاست میں داخل ہوئے اورپھرآگے بڑھتے چلے گئے۔
اُن کی نظر میں ملکوں کی ترقی کاراز جدید ٹیکنالوجی اورکمیونیکیشن کے حصول میں پنہاں تھا۔ اِسی وجہ سے وزیراعظم بنتے ہی موٹر وے بنانے کے اپنے پروگرام پرفوراً عمل پیرا ہوگئے۔ ساتھ ہی ساتھ نوجوانوں کے لیے خود روزگار اسکیم کے تحت یلوکیب کے منصوبے کا اجرا کیا۔
اُن کے دونوں منصوبوں کی ہمارے یہاںکچھ حلقوں کی جانب سے شدید مخالفت کی گئی لیکن وہ اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے۔یلو کیب اُن کے بعد آہستہ آہستہ ختم ہوتی چلی گئیں لیکن موٹر وے کامنصوبہ ختم نہیں کیا جاسکا۔ رفتہ رفتہ خود ہی تمام لوگ اِس کے قائل ہوتے چلے گئے اورآج یہ منصوبہ پشاور سے کراچی تک پھیلا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔جنھوں نے اُس زمانے میں بڑی مخالفت کی تھی وہ بھی اِس کی افادیت اور اہمیت کے نہ صرف قائل ہوگئے بلکہ ایک اور ایسے ہی بڑے منصوبے ''سی پیک'' کے بھی بڑے حامی اورمتمنی ہوگئے۔
اپریل 1993ء میں میاں نواز شریف کی حکومت کو غلام اسحاق خان نے چلتا کیالیکن پھر مئی 1993ء میں سپریم کورٹ نے اپنے ایک حکم کے تحت اُسے بحال کردیا،مگر یہ بحالی بھی زیادہ دنوں تک برقرار نہیں رہ سکی اوراگست کے مہینے میںانھیںازخود استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا گیا۔
تین ماہ کی عبوری اورعارضی حکومت کے لیے باہر سے جس شخص کو درآمد کیاگیا تھااُسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سیاست کے اِس اتھل پتھل کے پیچھے کون کون سے بڑی طاقتیں ملوث تھیں۔میاں نواز شریف کی سوچ اِسی واقعہ کے بعد بدلی اور وہ اُسی دن سے اپنی اِس غیر ضروری اطاعت اور تابعداری سے تائب ہوگئے۔انھیں دوسری بار جب اقتدار ملا تووہ پہلے جیسے میاں نواز شریف نہ تھے لیکن ملک وقوم کو ترقی کی راہ پرگامزن کرنے کااُن کاوژن برقرار رہا اور وہ ایک بار پھر اِسی کام میں جت گئے۔
1998ء میں ایٹمی دھماکے کرتے وقت اُن کی ذہن میں یہ بات موجود تھی کہ اِس کے بعد وہ شاید برسراقتدار نہیں رہ پائیںگے لیکن انھوں نے پھربھی صدر کلنٹن کی جانب سے پیش کردہ تمام مالی مراعات کو ٹھکراکریہ تاریخی فیصلہ کرڈالا۔پھر اُن کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ توقعات اورخدشات کے عین مطابق ہی تھا۔پاکستان میں کوئی بھی سویلین حکمران اپنی آئینی مدت کبھی پوری نہیں کرسکے گا۔
2018ء سے عمران خان کا دور شروع ہوتا ہے۔ میاں صاحب کی طرح یہ بھی فی الحال وہی کچھ کررہے ہیں جو میاں صاحب اپنے ابتدائی ادوار میں کرتے رہے۔یعنی اطاعت او ر تابعدار ی۔ خان صاحب میں یہ منفرد خصوصیت ہے کہ وہ بہت جلد اپنی کہی گئی تمام باتوں سے منحرف ہوجاتے ہیں۔ لمحہ بھر کے لیے بھی انھیں احساس نہیں ہوتا کہ انھوں نے ماضی میں کیسی کیسی دلفریب اور دلکش باتیں کی تھیں۔
اِسی طرح بہت سے معاملات ایسے ہیں جن پر خان صاحب مسلسل سمجھوتہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔اندرونی طور پربھی اور بین الاقوامی طور پر بھی۔جن عالمی لیڈروں کو اپنارول ماڈل کہا کرتے تھے آج اُن کانام لیتے ہوئے بھی وہ ہچکچاتے دکھائی دے رہے ہیں۔مہاتیر محمد سے ایسے لاتعلق ہوئے کہ جیسے انھیں جانتے ہی نہ ہوں۔اِسی طرح طیب اردگان سے بھی وہ آج دوستی نبھانے سے پہلے کسی کے ماتھے پر پڑنے والی شکنوںکی جانب ضروردیکھتے ہیں۔
دوسال بیت چکے ہیں ملک اورقوم کے لیے بھی وہ ابھی تک کوئی کارنامہ دکھا نہیں پائے ہیں۔اُن کے دور میں لوگوں کو راحت اور سکون کیانصیب ہوتا بلکہ اُن کے لیے مصائب و مشکلات کے پہاڑ کھڑے کر دیے گئے ہیں۔روپے کی ویلیوجس قدر اِن کے دور میں گری ہے کسی اور دور میں نہیں گری۔اِس کے باوجود GDPکی شرح نمود منفی درجوں میں جاگری ہے۔
زرمبادلہ کے ذخائر بیرونی امداد اورقرضوں کے باوجود ختم ہوتے جارہے ہیں، کوئی ترقیاتی کام نہیں ہورہا۔جتنے منصوبے پہلے سے جاری تھے انھیں بھی یا تو روک دیا گیا ہے یا پھرسست روی کاشکار بنادیاگیا ہے۔ پانچ سال ہوگئے ایک پشاور میٹر و مکمل نہیں ہوپائی ہے۔ہرسال بجٹ میں ایک نئی رقم اِ س کے لیے مختص کی جاتی ہے لیکن پھر بھی یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوپارہا۔ اِن سب ناکامیوں کے باوجود وہ اگر اب بھی برسراقتدار ہیں توشاید اُسی اطاعت اور تابعداری کی بدولت جوانھوں نے اب تک اپنائی ہوئی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کو ہم اِس لیے خصوصی داد دیتے ہیں کہ اُس نے کبھی بھی اقتدار میں آنے اور اُسے بچانے کی غرض سے ایک حد سے آگے جانے کا مظاہرہ نہیں کیا جیسے ہمارے مذکورہ بالا لیڈران کرتے آئے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو بلاشبہ ایوب خان کی کابینہ میں شامل تھے لیکن وزیراعظم بننے کے لیے انھوں نے بھی یہ آسان راستہ منتخب نہیں کیا۔بلکہ ایوب خان کی کابینہ سے استعفیٰ دیکرخالصتاً عوام کی حمایت اور پذیرائی سے برسراقتدارآئے۔وہ چاہتے تو ایسا کرسکتے تھے لیکن انھیں اپنی اہلیت اورقابلیت پرکامل بھروسہ اوریقین تھا۔اُن کی جانشیں محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی یہی طرزسیاست اپنایااورکبھی بھی چور دروازے سے حکومت حاصل نہیں کی۔
یہ خصلت بلاول بھٹومیں بھی موجود ہے اور وہ کسی کے مرہون منت اقتدار میں آنے نہیں چاہتے۔ میاں نوازشریف کے ہٹائے جانے کے بعداُن کے لیے یہ آسان اورسازگار راستہ کھلا ہواتھا، لیکن انھوں نے بھی سازش کرکے اقتدارلینا پسند نہیں کیا۔انھوں نے اگلے پانچ برس اپوزیشن میں رہنے کوترجیح دی مگراُصولوں پرکوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ اِس لیے بلاول بھٹو کا قد شاید آج خان صاحب سے زیادہ بڑا اورعظمت والانظر آتاہے۔وہ جب بھی برسراقتدار آئیں گے عوام کی تائیدوحمایت ہی سے آئیں گے۔ سیاست کی یہ سوجھ بوجھ کسی کسی کو حاصل ہوتی ہے ہرایک کو نصیب نہیں ہوتی۔
اس سے پہلے بھی ہمارے یہاں مجبور اور لاچار حکومتیں بنتی رہی ہیں۔آج جو کچھ ہمیں نظر آرہا ہے ایسا ہم نے پہلے بھی ہوتے ہوئے دیکھا ہے ۔ یونہی کمپرومائزڈ سیاست کا چلن رہا ہے، لیکن ایسالگتا ہے کہ موجودہ حکومت نے سابقہ تمام ریکارڈز توڑ دیے ہیں۔ماضی میں میاں نواز شریف نے اپنے پہلے دور اقتدارمیں بڑی حد تک اِسی طرح مفاہمتی سیاست کامظاہرہ کیاتھا ۔
میاں نواز شریف کو سیاست میں لانے والے جنرل ضیاء الحق اورجنرل جیلانی تھے۔ اِس سے پہلے میاں صاحب یا اُن کے خاندان کا سیاست سے کوئی تعلق نہ تھا۔ پیشے کے اعتبار سے وہ ایک بزنس مین تھے۔ جنرل ضیاء کے دور میں سیاست میں داخل ہوئے اورپھرآگے بڑھتے چلے گئے۔
اُن کی نظر میں ملکوں کی ترقی کاراز جدید ٹیکنالوجی اورکمیونیکیشن کے حصول میں پنہاں تھا۔ اِسی وجہ سے وزیراعظم بنتے ہی موٹر وے بنانے کے اپنے پروگرام پرفوراً عمل پیرا ہوگئے۔ ساتھ ہی ساتھ نوجوانوں کے لیے خود روزگار اسکیم کے تحت یلوکیب کے منصوبے کا اجرا کیا۔
اُن کے دونوں منصوبوں کی ہمارے یہاںکچھ حلقوں کی جانب سے شدید مخالفت کی گئی لیکن وہ اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے۔یلو کیب اُن کے بعد آہستہ آہستہ ختم ہوتی چلی گئیں لیکن موٹر وے کامنصوبہ ختم نہیں کیا جاسکا۔ رفتہ رفتہ خود ہی تمام لوگ اِس کے قائل ہوتے چلے گئے اورآج یہ منصوبہ پشاور سے کراچی تک پھیلا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔جنھوں نے اُس زمانے میں بڑی مخالفت کی تھی وہ بھی اِس کی افادیت اور اہمیت کے نہ صرف قائل ہوگئے بلکہ ایک اور ایسے ہی بڑے منصوبے ''سی پیک'' کے بھی بڑے حامی اورمتمنی ہوگئے۔
اپریل 1993ء میں میاں نواز شریف کی حکومت کو غلام اسحاق خان نے چلتا کیالیکن پھر مئی 1993ء میں سپریم کورٹ نے اپنے ایک حکم کے تحت اُسے بحال کردیا،مگر یہ بحالی بھی زیادہ دنوں تک برقرار نہیں رہ سکی اوراگست کے مہینے میںانھیںازخود استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا گیا۔
تین ماہ کی عبوری اورعارضی حکومت کے لیے باہر سے جس شخص کو درآمد کیاگیا تھااُسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سیاست کے اِس اتھل پتھل کے پیچھے کون کون سے بڑی طاقتیں ملوث تھیں۔میاں نواز شریف کی سوچ اِسی واقعہ کے بعد بدلی اور وہ اُسی دن سے اپنی اِس غیر ضروری اطاعت اور تابعداری سے تائب ہوگئے۔انھیں دوسری بار جب اقتدار ملا تووہ پہلے جیسے میاں نواز شریف نہ تھے لیکن ملک وقوم کو ترقی کی راہ پرگامزن کرنے کااُن کاوژن برقرار رہا اور وہ ایک بار پھر اِسی کام میں جت گئے۔
1998ء میں ایٹمی دھماکے کرتے وقت اُن کی ذہن میں یہ بات موجود تھی کہ اِس کے بعد وہ شاید برسراقتدار نہیں رہ پائیںگے لیکن انھوں نے پھربھی صدر کلنٹن کی جانب سے پیش کردہ تمام مالی مراعات کو ٹھکراکریہ تاریخی فیصلہ کرڈالا۔پھر اُن کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ توقعات اورخدشات کے عین مطابق ہی تھا۔پاکستان میں کوئی بھی سویلین حکمران اپنی آئینی مدت کبھی پوری نہیں کرسکے گا۔
2018ء سے عمران خان کا دور شروع ہوتا ہے۔ میاں صاحب کی طرح یہ بھی فی الحال وہی کچھ کررہے ہیں جو میاں صاحب اپنے ابتدائی ادوار میں کرتے رہے۔یعنی اطاعت او ر تابعدار ی۔ خان صاحب میں یہ منفرد خصوصیت ہے کہ وہ بہت جلد اپنی کہی گئی تمام باتوں سے منحرف ہوجاتے ہیں۔ لمحہ بھر کے لیے بھی انھیں احساس نہیں ہوتا کہ انھوں نے ماضی میں کیسی کیسی دلفریب اور دلکش باتیں کی تھیں۔
اِسی طرح بہت سے معاملات ایسے ہیں جن پر خان صاحب مسلسل سمجھوتہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔اندرونی طور پربھی اور بین الاقوامی طور پر بھی۔جن عالمی لیڈروں کو اپنارول ماڈل کہا کرتے تھے آج اُن کانام لیتے ہوئے بھی وہ ہچکچاتے دکھائی دے رہے ہیں۔مہاتیر محمد سے ایسے لاتعلق ہوئے کہ جیسے انھیں جانتے ہی نہ ہوں۔اِسی طرح طیب اردگان سے بھی وہ آج دوستی نبھانے سے پہلے کسی کے ماتھے پر پڑنے والی شکنوںکی جانب ضروردیکھتے ہیں۔
دوسال بیت چکے ہیں ملک اورقوم کے لیے بھی وہ ابھی تک کوئی کارنامہ دکھا نہیں پائے ہیں۔اُن کے دور میں لوگوں کو راحت اور سکون کیانصیب ہوتا بلکہ اُن کے لیے مصائب و مشکلات کے پہاڑ کھڑے کر دیے گئے ہیں۔روپے کی ویلیوجس قدر اِن کے دور میں گری ہے کسی اور دور میں نہیں گری۔اِس کے باوجود GDPکی شرح نمود منفی درجوں میں جاگری ہے۔
زرمبادلہ کے ذخائر بیرونی امداد اورقرضوں کے باوجود ختم ہوتے جارہے ہیں، کوئی ترقیاتی کام نہیں ہورہا۔جتنے منصوبے پہلے سے جاری تھے انھیں بھی یا تو روک دیا گیا ہے یا پھرسست روی کاشکار بنادیاگیا ہے۔ پانچ سال ہوگئے ایک پشاور میٹر و مکمل نہیں ہوپائی ہے۔ہرسال بجٹ میں ایک نئی رقم اِ س کے لیے مختص کی جاتی ہے لیکن پھر بھی یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوپارہا۔ اِن سب ناکامیوں کے باوجود وہ اگر اب بھی برسراقتدار ہیں توشاید اُسی اطاعت اور تابعداری کی بدولت جوانھوں نے اب تک اپنائی ہوئی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کو ہم اِس لیے خصوصی داد دیتے ہیں کہ اُس نے کبھی بھی اقتدار میں آنے اور اُسے بچانے کی غرض سے ایک حد سے آگے جانے کا مظاہرہ نہیں کیا جیسے ہمارے مذکورہ بالا لیڈران کرتے آئے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو بلاشبہ ایوب خان کی کابینہ میں شامل تھے لیکن وزیراعظم بننے کے لیے انھوں نے بھی یہ آسان راستہ منتخب نہیں کیا۔بلکہ ایوب خان کی کابینہ سے استعفیٰ دیکرخالصتاً عوام کی حمایت اور پذیرائی سے برسراقتدارآئے۔وہ چاہتے تو ایسا کرسکتے تھے لیکن انھیں اپنی اہلیت اورقابلیت پرکامل بھروسہ اوریقین تھا۔اُن کی جانشیں محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی یہی طرزسیاست اپنایااورکبھی بھی چور دروازے سے حکومت حاصل نہیں کی۔
یہ خصلت بلاول بھٹومیں بھی موجود ہے اور وہ کسی کے مرہون منت اقتدار میں آنے نہیں چاہتے۔ میاں نوازشریف کے ہٹائے جانے کے بعداُن کے لیے یہ آسان اورسازگار راستہ کھلا ہواتھا، لیکن انھوں نے بھی سازش کرکے اقتدارلینا پسند نہیں کیا۔انھوں نے اگلے پانچ برس اپوزیشن میں رہنے کوترجیح دی مگراُصولوں پرکوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ اِس لیے بلاول بھٹو کا قد شاید آج خان صاحب سے زیادہ بڑا اورعظمت والانظر آتاہے۔وہ جب بھی برسراقتدار آئیں گے عوام کی تائیدوحمایت ہی سے آئیں گے۔ سیاست کی یہ سوجھ بوجھ کسی کسی کو حاصل ہوتی ہے ہرایک کو نصیب نہیں ہوتی۔