ماں اور بیٹے کا مدفن چنیوٹ کا عمر حیات محل
اندرون اوربیرون ملک سے ہزاروں سیاح چنیوٹ کے تاج محل کو دیکھنے آتے ہیں
پاکستان میں کئی ایسی شاندار اور قدیم عمارتیں ہیں جن سے متعلق اچھی اور بری کہانیاں منسوب ہیں اور وہ ویران پڑی ہیں، چنیوٹ میں واقع عمرحیات محل کو مقامی لوگ منحوس محل سمجھتے ہیں تاہم یہاں قائم لائبریری میں علم وآگہی کے لئے آنیوالے ان روایات اور کہانیوں پریقین نہیں رکھتے ہیں۔
پاکستان کے شہر چنیوٹ کے مرکز میں واقع لکڑی کی بنی ایک اعلی قسم کی عمارت ہے۔ جسے چنیوٹ کا تاج محل بھی کہا جاتا ہے، اس عمارت کا نام عمرحیات محل ہے جبکہ اسے گلزارمنزل بھی کہا جاتا ہے۔14 مرلہ رقبہ پرمشتمل یہ شاندارعمارت تہہ خانہ اورپانچ منزلوں پرمشتمل تھی تاہم اب دوبالائی منزلیں خستہ حالی کی وجہ سے ختم ہوچکی ہیں، یہ محل 1935 میں دس سے بارہ سال کے عرصہ میں مکمل ہواتھا۔
محل کی تعمیر برصغیر کے مشہور کاریگر اور ماہر تعمیر استاد الہی بخش پرجھا نے کی جن کی اس دورمیں بہت زیادہ شہرت تھی۔ داخلی دروازے کے ساتھ لگائی گئیں دو میں سے ایک تختی پر استاد الہی بخش پرجھا سمیت ساتھی مستریوں اور کاریگروں کے نام درج ہیں جبکہ دوسری تختی پر ان لوگوں کے نام کندہ ہیں جنہوں نے مرمت کے ذریعے اسے تباہی سے بچایاہے،خم دار لکڑی سے بنے دروازوں، کھڑکیوں اور جھروکوں کی ایک منفرد ہی دلکشی ہے۔ بالکونی، چھتیں، ٹیرس اور سیڑھیوں پر لکڑی کے کام نے اسے وہ خوبصورتی بخشی ہے جو شاید ہی کسی اور فن تعمیر میں نظرنہیں آتی ہے۔ اس محل کی تعمیرپراس دورمیں تقریبا چارلاکھ روپے خرچ ہوئے تھے۔یہ محل کولکتہ کے ایک معروف تاجرشیخ عمرحیات نے اپنے خاندان کے لئے تعمیرکروایاتھا۔
1935 میں جب یہ شاندارمحل اپنی تعمیرکے اخری مرحلے میں تھا اورشیخ عمرحیات نے یہاں منتقل ہونا تھا تواسی سال ان کی ناگہانی موت واقع ہوگئی ،شیخ عمرحیات کی وفات کے بعد یہ محل تومکمل ہوگیا مگر اس غمگین صورت حال کی وجہ سے عمر حیات کی بیوہ فاطمہ اپنے بیٹے گلزار اوربیٹی حسینہ کے ساتھ اس محل میں منتقل نہ ہوئیں اور محل بند پڑا رہا۔ اسی عرصے میں ان کی بیٹی حسینہ کا تپدق کی بیماری سے انتقال ہوگیا۔کچھ عرصہ گزرنے کے بعد فاطمہ نے اس محل کو آباد کرنے کا فیصلہ کیا اور 1937 میں اپنے بیٹے گلزار کی شادی کی ،لیکن شادی کے اگلے ہی روز گلزارکی پراسرارموت ہوگئی ، بیوہ ماں نے بیٹے کا جنازہ نہ اٹھنے دیا اوراسے محل کے برآمدےمیں ہی دفن کردیا گیا۔ بیٹے کی اچانک موت سے فاطمہ کا ذہنی توازن بھی بگڑگیا اورایک سال بعد وہ بھی فوت ہوگئیں، انہیں ان کی وصیت کے مطابق انکے بیٹے کے قریب دفن کردیا گیا۔ یہ شاندارمحل اب ماں بیٹے کا مدفن ہے۔
شیخ خاندان کے باقی لوگ یہ سوچ کر یہاں سے چلےگئے کہ یہ شیخ خاندان کے لیے ایک منحوس جگہ ہے۔اس کے بعد شیخ خاندان کے ملازمین تقریبا دوسال یہاں قیام پذیر رہے بعدازاں وہ بھی اس محل کو چھوڑگئے اوریہاں مقامی لوگوں نے یتیم خانہ بنادیا، عمارت کی خستہ حالی کی وجہ سے بالاخریتیم خانہ بھی یہاں سے دوسری جگہ منتقل کردیا گیا اور 1989 میں اس عمارت کو قومی ورثہ قراردیتے ہوئے وقت کے جھنگ کے ڈپٹی کمشنرمحمد اطہر طاہر نے اس عمارت کو اپنی حفاظت میں لیتے یہاں سے ناجائز قبضہ ختم کیا اور ازسرنو تعمیر کے لیے 17لاکھ روپےخرچ کیے گئے ، محل کے ایک کمرے میں میوزیم بھی قائم کیا گیا ہے جہاں عمر حیات اور ان کے اہل خانہ کے استعمال میں آنے والی چیزیں رکھی گئی ہیں۔ 7 جون 1990ء میں اسے عام لوگوں کے دیکھنے کے لیے کھول دیاگیا تھا۔
مقامی لوگ اس شاندارمحل کومنحوس کیوں سمجھتے ہیں،اس سوال کے جوا ب میں چنیوٹ کے ایک بزرگ شیخ محمدرفیع نے بتایا جس محل کے تعمیرہوتے ہی اس کا مالک چل بسے، پھراس کے بعدجوان بیٹاشادی کے اگلے ہی روزاللہ کوپیاراہوجائے اورگھرکی مالکن اپنے شوہراوربیٹے کی جدائی میں پاگل ہوجائے اس جگہ کومنحوس نہ کہیں توکیا کہیں۔
پنجاب آرکیالوجی کے سابق ڈائریکٹرافضل خان نے بتایا کہ یہ محل مقامی ضلعی انتطامیہ کی زیرانتطام ہے۔چندسال قبل جب وہ ڈپٹی دائریکٹرتھے اس وقت چندماہرین اورکاریگردیئے تھے جنہوں نے وہاں بحالی کا کچھ کام کیاتھا۔ افضل خان نےبتایا کہ شیخ عمرحیات کے بیٹے گلزارکی پراسرارموت کی وجہ کاربن مونوآکسائیڈ گیس تھی۔محل میں بنے حمام میں سردیوں میں پانی گرم کرنے کے لئے جو سسٹم بنایاگیاتھااس میں خرابی کی وجہ سے حمام کے اندرگیس جمع ہوئی اورگلزارنہاتے ہوئے دم گھٹنے سے مرگیا۔
یہاں موجود لائبریری میں 10 ہزارسے زائد مختلف موضوعات پرکتابیں موجودہیں، یہاں درجنوں طلبا وطالبات اورعلم کے متقاشی اپنی پیاس بجھانے آتے ہیں مگر اس لائبریری کی حالت بھی خستہ حال ہے، گزشتہ تین دہائیوں سے محل کے نگران اور لائبریری انچارج مشتاق احمد کہتے ہیں حکومت اگر اس محل کے لیے کم از کم دس لاکھ کی سالانہ گرانٹ فراہم کرتی رہے تو اس ثقافتی ورثے کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کیا جا سکتا ہے اور یہ مُلکی اور غیر مُلکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن سکتا ہے۔
ڈپٹی کمشنرچنیوٹ محمدریاض نے بتایا کہ اس محل کی آرائش وتذئین اوربحالی کے لئے ان کے پاس فنڈز نہیں ہیں، یہاں قائم لائبریری کو میونسپل کارپوریشن کے تحت چلایاجارہا ہے ، یہاں کے ملازمین کی تنخواہیں، بجلی اورخبارات کا بل سٹیشنری کا خرچہ وغیرہ ہم اداکرتے ہیں جو ماہانہ ڈیڑھ ،دولاکھ روپے بنتے ہیں، اس سے زیادہ کے ہمارے پاس وسائل ہیں اورنہ بجٹ ہے۔
پاکستان کے شہر چنیوٹ کے مرکز میں واقع لکڑی کی بنی ایک اعلی قسم کی عمارت ہے۔ جسے چنیوٹ کا تاج محل بھی کہا جاتا ہے، اس عمارت کا نام عمرحیات محل ہے جبکہ اسے گلزارمنزل بھی کہا جاتا ہے۔14 مرلہ رقبہ پرمشتمل یہ شاندارعمارت تہہ خانہ اورپانچ منزلوں پرمشتمل تھی تاہم اب دوبالائی منزلیں خستہ حالی کی وجہ سے ختم ہوچکی ہیں، یہ محل 1935 میں دس سے بارہ سال کے عرصہ میں مکمل ہواتھا۔
محل کی تعمیر برصغیر کے مشہور کاریگر اور ماہر تعمیر استاد الہی بخش پرجھا نے کی جن کی اس دورمیں بہت زیادہ شہرت تھی۔ داخلی دروازے کے ساتھ لگائی گئیں دو میں سے ایک تختی پر استاد الہی بخش پرجھا سمیت ساتھی مستریوں اور کاریگروں کے نام درج ہیں جبکہ دوسری تختی پر ان لوگوں کے نام کندہ ہیں جنہوں نے مرمت کے ذریعے اسے تباہی سے بچایاہے،خم دار لکڑی سے بنے دروازوں، کھڑکیوں اور جھروکوں کی ایک منفرد ہی دلکشی ہے۔ بالکونی، چھتیں، ٹیرس اور سیڑھیوں پر لکڑی کے کام نے اسے وہ خوبصورتی بخشی ہے جو شاید ہی کسی اور فن تعمیر میں نظرنہیں آتی ہے۔ اس محل کی تعمیرپراس دورمیں تقریبا چارلاکھ روپے خرچ ہوئے تھے۔یہ محل کولکتہ کے ایک معروف تاجرشیخ عمرحیات نے اپنے خاندان کے لئے تعمیرکروایاتھا۔
1935 میں جب یہ شاندارمحل اپنی تعمیرکے اخری مرحلے میں تھا اورشیخ عمرحیات نے یہاں منتقل ہونا تھا تواسی سال ان کی ناگہانی موت واقع ہوگئی ،شیخ عمرحیات کی وفات کے بعد یہ محل تومکمل ہوگیا مگر اس غمگین صورت حال کی وجہ سے عمر حیات کی بیوہ فاطمہ اپنے بیٹے گلزار اوربیٹی حسینہ کے ساتھ اس محل میں منتقل نہ ہوئیں اور محل بند پڑا رہا۔ اسی عرصے میں ان کی بیٹی حسینہ کا تپدق کی بیماری سے انتقال ہوگیا۔کچھ عرصہ گزرنے کے بعد فاطمہ نے اس محل کو آباد کرنے کا فیصلہ کیا اور 1937 میں اپنے بیٹے گلزار کی شادی کی ،لیکن شادی کے اگلے ہی روز گلزارکی پراسرارموت ہوگئی ، بیوہ ماں نے بیٹے کا جنازہ نہ اٹھنے دیا اوراسے محل کے برآمدےمیں ہی دفن کردیا گیا۔ بیٹے کی اچانک موت سے فاطمہ کا ذہنی توازن بھی بگڑگیا اورایک سال بعد وہ بھی فوت ہوگئیں، انہیں ان کی وصیت کے مطابق انکے بیٹے کے قریب دفن کردیا گیا۔ یہ شاندارمحل اب ماں بیٹے کا مدفن ہے۔
شیخ خاندان کے باقی لوگ یہ سوچ کر یہاں سے چلےگئے کہ یہ شیخ خاندان کے لیے ایک منحوس جگہ ہے۔اس کے بعد شیخ خاندان کے ملازمین تقریبا دوسال یہاں قیام پذیر رہے بعدازاں وہ بھی اس محل کو چھوڑگئے اوریہاں مقامی لوگوں نے یتیم خانہ بنادیا، عمارت کی خستہ حالی کی وجہ سے بالاخریتیم خانہ بھی یہاں سے دوسری جگہ منتقل کردیا گیا اور 1989 میں اس عمارت کو قومی ورثہ قراردیتے ہوئے وقت کے جھنگ کے ڈپٹی کمشنرمحمد اطہر طاہر نے اس عمارت کو اپنی حفاظت میں لیتے یہاں سے ناجائز قبضہ ختم کیا اور ازسرنو تعمیر کے لیے 17لاکھ روپےخرچ کیے گئے ، محل کے ایک کمرے میں میوزیم بھی قائم کیا گیا ہے جہاں عمر حیات اور ان کے اہل خانہ کے استعمال میں آنے والی چیزیں رکھی گئی ہیں۔ 7 جون 1990ء میں اسے عام لوگوں کے دیکھنے کے لیے کھول دیاگیا تھا۔
مقامی لوگ اس شاندارمحل کومنحوس کیوں سمجھتے ہیں،اس سوال کے جوا ب میں چنیوٹ کے ایک بزرگ شیخ محمدرفیع نے بتایا جس محل کے تعمیرہوتے ہی اس کا مالک چل بسے، پھراس کے بعدجوان بیٹاشادی کے اگلے ہی روزاللہ کوپیاراہوجائے اورگھرکی مالکن اپنے شوہراوربیٹے کی جدائی میں پاگل ہوجائے اس جگہ کومنحوس نہ کہیں توکیا کہیں۔
پنجاب آرکیالوجی کے سابق ڈائریکٹرافضل خان نے بتایا کہ یہ محل مقامی ضلعی انتطامیہ کی زیرانتطام ہے۔چندسال قبل جب وہ ڈپٹی دائریکٹرتھے اس وقت چندماہرین اورکاریگردیئے تھے جنہوں نے وہاں بحالی کا کچھ کام کیاتھا۔ افضل خان نےبتایا کہ شیخ عمرحیات کے بیٹے گلزارکی پراسرارموت کی وجہ کاربن مونوآکسائیڈ گیس تھی۔محل میں بنے حمام میں سردیوں میں پانی گرم کرنے کے لئے جو سسٹم بنایاگیاتھااس میں خرابی کی وجہ سے حمام کے اندرگیس جمع ہوئی اورگلزارنہاتے ہوئے دم گھٹنے سے مرگیا۔
یہاں موجود لائبریری میں 10 ہزارسے زائد مختلف موضوعات پرکتابیں موجودہیں، یہاں درجنوں طلبا وطالبات اورعلم کے متقاشی اپنی پیاس بجھانے آتے ہیں مگر اس لائبریری کی حالت بھی خستہ حال ہے، گزشتہ تین دہائیوں سے محل کے نگران اور لائبریری انچارج مشتاق احمد کہتے ہیں حکومت اگر اس محل کے لیے کم از کم دس لاکھ کی سالانہ گرانٹ فراہم کرتی رہے تو اس ثقافتی ورثے کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کیا جا سکتا ہے اور یہ مُلکی اور غیر مُلکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن سکتا ہے۔
ڈپٹی کمشنرچنیوٹ محمدریاض نے بتایا کہ اس محل کی آرائش وتذئین اوربحالی کے لئے ان کے پاس فنڈز نہیں ہیں، یہاں قائم لائبریری کو میونسپل کارپوریشن کے تحت چلایاجارہا ہے ، یہاں کے ملازمین کی تنخواہیں، بجلی اورخبارات کا بل سٹیشنری کا خرچہ وغیرہ ہم اداکرتے ہیں جو ماہانہ ڈیڑھ ،دولاکھ روپے بنتے ہیں، اس سے زیادہ کے ہمارے پاس وسائل ہیں اورنہ بجٹ ہے۔