جعلی ڈگریاں اور کرپشن، تبدیلی کیسے آئے گی؟

ایڈیٹوریل  جمعـء 26 جون 2020
پائلٹس کے جعلی لائسنس پرکارروائی کا آغازکردیا گیا ہے، بعض ہوا بازوں کے امتحانات کے دن بھی مشکوک ہیں۔
 (فوٹو : فائل)

پائلٹس کے جعلی لائسنس پرکارروائی کا آغازکردیا گیا ہے، بعض ہوا بازوں کے امتحانات کے دن بھی مشکوک ہیں۔ (فوٹو : فائل)

کراچی طیارہ حادثہ رپورٹ وفاقی وزیر ہوا بازی نے قومی اسمبلی میں پیش کردی ہے، ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق پائلٹ اور اے ٹی سی نے مروجہ طریقہ کارکو اختیار نہیں کیا، جوحادثے کا سبب بنا۔

بلاشبہ اس رپورٹ کا پوری قوم کوشدت سے انتظار تھا، یہ ایک مستحسن اقدام ہے کہ حادثے کی رپورٹ ایک ماہ بعد منظر عام پر لائی گئی ہے اور اسے قوم کے سامنے پیش بھی کردیا گیا ہے۔اس رپورٹ کی روشنی میں حکومت یقینا قومی ایئر لائن میں پائی جانیوالی خامیوں کی اصلاح کے لیے عملی اقدامات اٹھائے گی تاکہ آیندہ اس طرح کے افسوسناک واقعات رونما نہ ہوسکیں۔

یہ خبر بھی خوش آیند ہے کہ طیارے حادثے کی عبوری رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد پی آئی اے نے فلائٹ ڈیٹا کی مانیٹرنگ کا فیصلہ کر لیا ہے، مانیٹرنگ ایک سینئر ترین پائلٹ کریں گے جوکسی بھی ایوی ایشن سے منسلک نہیں ہوں گے۔

وفاقی وزیرکے مطابق پائلٹس کے جعلی لائسنس پرکارروائی کا آغازکردیا گیا ہے، بعض ہوا بازوں کے امتحانات کے دن بھی مشکوک ہیں اور بعض کی ڈگریاں اوراسناد بھی جعلی ہیں۔ وفاقی وزیر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے دورمیں ایک بھی بھرتی پی آئی میں نہیں ہوئی ہے، تاہم یہ بھرتیاں سابقہ ادوارکی ہیں۔

قومی ایئرلائن ہمارا ملکی اثاثہ ہے، جودنیا بھر میں پاکستان کی پہچان بنی، لیکن المیہ یہ ہے کہ ملک میں اقربا پروری کا جو چلن سیاسی جماعتوں نے پروان چڑھایا اس سے ہمارے پورے قومی نظام کو دیمک لگ گئی۔ سرکاری ادارے ہوں یا نجی ادارے سب ہی زبوں حالی کا شکار ہوتے چلے گئے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک میں سرے سے کوئی نظام ہی موجود نہیں ، کسی کی کہی یہ بات سچ معلوم ہوتی ہے کہ بس اللہ کے سہارے پر چل رہا ہے یہ ملک۔ دنیا بھر میں فضائی حادثات کی شرح انتہائی کم ہے لیکن ہمارے یہاں کچھ عرصے سے اس کے ایک غیرمحفوظ سفر ہونے کا تاثر ابھرنا صورتحال کی سنگینی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

درحقیقت جعلی ڈگریاں، اقربا پروری اورسیاسی سفارش کے کلچر نے ہمارے قومی نظام کو تباہ وبربادکرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ یادش بخیر ! بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی نے کہا تھا کہ ’’ڈگری، ڈگری ہوتی ہے، اصلی ہو یا نقلی‘‘ تو سنجیدہ قومی حلقوں میںاس پر بہت لے دے ہوئی تھی۔

آج بھی پاکستانی ڈگریوں کی چھان پھٹک کی جائے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ یہ ڈگریاں یا تو جعلی ہیں یا پھر سفارش اور رشوت کی بنیاد پر حاصل کی گئی ہیں، ان میں اقربا پروری ملوث ہے یا یہ نقالی کا نتیجہ ہیں۔ چاہے وہ ڈاکٹر ہوں، انجینئر ہوں ، وکلاء ہوں یا ایم بی اے ، ایم فل، پی ایچ ڈی ہوں۔ایک بڑی تعداد میں ڈگریاں سفارش ، رشوت، اقربا پروری اورنقل سے حاصل کی گئی ہوتی ہیں۔

ہمارا سب سے بڑا قومی المیہ یہ بھی ہے کہ قوم کی ’’قیادت‘‘ کرنے والے بڑے بڑے سیاستدانوں اور ان کی اولادوں نے قومی وصوبائی اسمبلیوں میں براجمان ہونے کے لیے بغیر پڑھے لکھے ’’ڈگریاں‘‘ حاصل کرلیں۔ سابق آمر جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں بی اے کی ڈگری ہونا ضروری تھا۔

سیاسی زوال کی انتہا یہ ہے کہ سیاستدانوں نے واقعی ڈگری یافتہ ’’ہونے‘‘ کو اہمیت اور فوقیت دی، گریجویٹ ہونے کو نہیں اور نہ ہی علم حاصل کرنے کے عمل کو مقدم جانا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان علمی سطح سمیت ہر شعبے میں پستی اور زوال کا شکار ہوچکا ہے، اگر ہم اپنی اصلاح چاہتے ہیں تو ہمیں اس بات کی کھوج کرنا ہوگی کہ یہاں جعلی ڈگریوں کا چلن عام کیسے ہوا، اور اس کا خاتمہ کیونکر ممکن ہے۔

ایک نظر ڈالیں تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ملک میں رائج کئی اقسام کے تعلیمی نظام سے قوم میں واضح طبقاتی تقسیم پیدا کر دی گئی ہے۔ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے لیے جامعات بھی دو طرح کی ہیں۔ ایک سرکاری جہاں صرف اپنے اپنے بندے تعینات کیے جاتے ہیں۔ اگرچہ اشتہار دیا جاتا ہے لیکن پہلے سے مخصوص لوگ منتخب کر لیے جاتے ہیں۔

دوسری جانب ملک بھر میں پرائیویٹ یونیورسٹیوں کا ایک جال بچھا ہوا ہے جہاں کسی بھی اعلیٰ ڈگری کے لیے پانچ چھ لاکھ روپے سے چالیس پچاس لاکھ روپے تک ادا کرنے ہوتے ہیں۔ پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں جی پی اے آسمانوں سے باتیں کرتا ہے اور عموماً ایک بھی طالبعلم ایسا نہیں ہوتا جسے اعلیٰ ڈگری عطا نہ کی جاتی ہو۔ غورطلب بات ہے کہ کیا سارے طالب علم افلاطون یا ارسطو ہوتے ہیں۔

کیا سارے ہی اتنے لائق قابل ہوتے ہیں کہ ڈگری لے کر نکلیں۔ ظاہر ہے کہ یونیورسٹی فیس کے نام پر جو بڑی رقمیں وصول کرتی ہے اْس پر ڈگری دینا بھی لازم ہوتا ہے۔ آپ اس ڈگری کے معیارکا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یونیورسٹیوں کے ریسرچ پیپرز میں گھِسی پٹی اور نقل شدہ چیزیں شامل ہوتی ہیں، کسی ایک یونیورسٹی کے جریدے میں ایک بھی حقیقی ریسرچ آرٹیکل نظر نہیں آتا۔

یہی حال انجینئرنگ، طب ، قانون اور دیگر شعبوں کا ہے۔ روز چھتیں اور عمارتیں پلازے پْل گرتے ہیں۔ ہر روزاسپتالوں اور پرائیویٹ کلینک میں لوگ سیکڑوں کی تعداد میں غیر طبعی موت مرتے ہیںکیونکہ یہاں علاج پر متعین عملے نے دو نمبر طریقے سے ڈگریاں حاصل کی ہوتی ہیں۔

یہ بھی ہماری تاریخ کا سیاہ باب ہے کہ افغانوں کو سیاسی عمل میں داخل کرنے اور ان سے ووٹ کے حصول کے لیے انھیں قومی شناختی کارڈ بنا کردیے گئے۔ سوشیالوجی اور کرمنالوجی کے طالبعلم اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ جن علاقوں میں ایسی ہجرتیں بغیر کسی ضابطہ اخلاق کے ہوں وہاں پر ایسے اثرات کا پایا جانا فطرت سے بعید ہرگز نہیں۔ دنیا میں ایسے بے شمار خطے ہیں جہاں پر لوگ مائیگریشن کرتے ہیں لیکن وہاں پر قانون کی بالادستی کے باعث ایسے اثرات کم ہیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہمارا قابل اورذہین ترین نوجوان اپنے ملک سے دور بھاگنے کی کوشش کیوںکرتا ہے؟ آج ہماری نوجوان نسل بیرون ملک جانے کے خواب آنکھوں میں کیوں سجاتی ہے۔ مصور پاکستان علامہ اقبال اور قائد اعظم کو اس ملک کے نوجوانوں سے بہت سی توقعات وابستہ تھی، قائداعظم چاہتے تھے کہ نوجوان سیاست میں شامل ہوکر ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کریں لیکن افسوس قیام پاکستان کے بعد ہماری وڈیرہ شاہی اورہماری اشرافیہ نے نوجوان نسل کو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر تعلیمی اداروں میں بھی خوب استعمال کیا، نوجوان نسل کو ایسے مشغلے ایسا نصاب اور ایساکلچر دیا گیا کہ وہ قیام پاکستان کا مقصد ہی بھول گئے۔

آج کا نوجوان اس ملک کے حالات کو دیکھ کر صرف کڑھ سکتا ہے وہ اعلیٰ ڈگریاں لینے کے بعد سڑکوں پر رلتا ہے، حالانکہ اسی ملک میں جعلی ڈگریوں والے اونچی اونچی کرسیوں پر فائز ہیں۔ ایک جانب ملک کی وہ نوجوان نسل جو اپنے ہاتھوں میں ڈگریاں پکڑے تحریک انصاف کی حکومت سے روزگارکے لیے امید اور آس لگائے بیٹھی تھی اب ان میں مایوسی پھیلتی جا رہی ہے۔

موجودہ حکومت کی گورننس کاجائزہ لیا جائے توکہا جا سکتا ہے کہ اتنا اپوزیشن نے حکومت کو نقصان نہیں پہنچایا جتنا وزراء کی جانب سے اختیارکیے جانے والے طرز عمل کے باعث حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ نئی نسل کو تحریک انصاف کی قیادت سے یہ توقع تھی کہ وہ برسر اقتدار آکر ملک میں ایسی سیاسی تبدیلی کو یقینی بنائے گی کہ لوٹ کھسوٹ کے بازار بند ہوں گے، اداروں کی بالادستی قائم ہوگی۔

لیکن کچھ بھی نہیں بدلا، اسے پاکستان کی سیاسی بد قسمتی ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ تاحال سیاسی زوال کے ساتھ ساتھ جعلی ڈگریوں، سفارش اور اقربا پروری کی روش قائم ہے۔ ہم یہ بات من وعن تسلیم کرتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان اب بھی ملک میں حقیقی معنوں میں سیاسی تبدیلی چاہتے ہیں۔ میرٹ کی بالادستی کا عزم رکھتے ہیں اور واقعتاً اداروں کی بالادستی کے خواہاں ہیں لیکن عوام بیانات کی حد تک نہیں حقیقی معنوں میں تبدیلی چاہتے ہیں۔

قومی سچ تو یہ ہے کہ ہم ہر معاملے میں شارٹ کٹس کے راستے پرچل رہے ہیں۔کھیل ہو یا سیاست کامیدان ہم ہر جگہ کوشش کرتے ہیں کہ رشوت ،سفارش اور اقربا پروری کے ذریعے اعلیٰ مقام بنائیں۔ میرٹ والے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں اور سفارشی اور پرچی مافیا والے میدان مار لیتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم مرد میدان بننے سے محروم ہیں۔ ہر شعبے میں جو زوال نظر آرہا ہے اس کی وجہ یہی ہے، کرپشن ، رشوت اور سفارش ہمارے معاشرے کے ایسے ناسور بن چکے ہیں، جب تک انھیں جسم سے علیحدہ نہیں کیا جائے گا،اس وقت تک ہماری ترقی ایک خواب رہے گی۔

حرف آخر طیارہ حادثہ کے جو بھی ذمے داران ہیں انھیں قرار واقعی سزا دلوائی جائے تاکہ آیندہ ایسے افسوسناک سانحات جنم نہ لے سکیں۔بلاشبہ یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ پائلٹس کی بھرتیوں میں اگرقواعد وضوابط کو نظر اندازکیا گیا ہے تو ان کے خلاف بھی فوری اورموثرکارروائی ہونی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔