جبری گمشدگیاں روکنے کیلیے قانونی سازی کی جائے ٹاسک فورس متعلقین کا دھرنا جاری
کمیشن کوصوبوں تک توسیع دی جائے،انٹیلی جنس اداروں کے سربراہوںکوتعاون کاپابندکیاجائے، ملزمان کی90 روز تک حراست کی سفارش
ROSEAU:
لاپتہ افراد کے معاملے پر قائم وفاقی ٹاسک فورس نے اپنی سفارشات مکمل کرلیں جو حتمی منظوری کیلئے وزیراعظم کو پیش کی جائیں گی۔
ذرائع کے مطابق ٹاسک فورس نے اپنی سفارشات میں کہا کہ لوگوں کی جبری گمشدگی کی روک تھام کیلیے قانون سازی کی جائے اور اس کیلیے مختلف ممالک کے قوانین سے استفادہ کیا جائے، انٹیلی جنس اداروں کے سربراہوں کو کمیشن کے ساتھ تعاون اور احکام ماننے کا پابند کیا جائے۔ ٹاسک فورس نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے کمیشن کو اختیارات دینے اور صوبائی سطح پر کمیشن قائم کرنے کے ساتھ ساتھ انٹیلی جنس اداروں کو دہشت گردی، انتہا پسندی، ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث کسی بھی مشتبہ شخص کو گرفتار کرنے اور انھیں 90 روز تک حراست میں رکھنے کا اختیار دینے کی بھی سفارش کی ہے تاہم کسی بھی شخص کی گرفتاری سے قبل متعلقہ پولیس اسٹیشن اور اہل خانہ کو آگاہ کرنا ضروری ہوگا۔
دوسری جانب پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے ڈی چوک پر لاپتہ افراد کے متعلقین کا احتجاج اتوار کو تیسرے روز بھی ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی قیادت میں جاری رہا۔ سخت سردی کے باعث احتجاجی کیمپ میں شامل کئی خواتین کو طبیعت خراب ہونے پر اسپتال منتقل کردیا گیا جبکہ 3 بزرگ افراد بھی بیمار ہوگئے۔ دھرنے کے شرکا نے اتوارکو بچوں کیلیے ٹینٹ لگانے کی کوشش کی جس پر اسلام آباد انتظامیہ اور مظاہرین میں تلخ کلامی ہوئی۔اس موقع پر سماجی رہنما آمنہ مسعود نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کی تعداد تو ہزاروں میں ہے لیکن سپریم کورٹ میں صرف 7افراد کو پیش کیا گیا اور جن کی شناخت ہوئی انھیں بھی اہل خانہ سے ملنے نہیں دیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں پورا یقین ہے کہ سپریم کورٹ ہمارے کیس کا جلد فیصلہ کرے گی۔
لاپتہ افراد کے معاملے پر قائم وفاقی ٹاسک فورس نے اپنی سفارشات مکمل کرلیں جو حتمی منظوری کیلئے وزیراعظم کو پیش کی جائیں گی۔
ذرائع کے مطابق ٹاسک فورس نے اپنی سفارشات میں کہا کہ لوگوں کی جبری گمشدگی کی روک تھام کیلیے قانون سازی کی جائے اور اس کیلیے مختلف ممالک کے قوانین سے استفادہ کیا جائے، انٹیلی جنس اداروں کے سربراہوں کو کمیشن کے ساتھ تعاون اور احکام ماننے کا پابند کیا جائے۔ ٹاسک فورس نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے کمیشن کو اختیارات دینے اور صوبائی سطح پر کمیشن قائم کرنے کے ساتھ ساتھ انٹیلی جنس اداروں کو دہشت گردی، انتہا پسندی، ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث کسی بھی مشتبہ شخص کو گرفتار کرنے اور انھیں 90 روز تک حراست میں رکھنے کا اختیار دینے کی بھی سفارش کی ہے تاہم کسی بھی شخص کی گرفتاری سے قبل متعلقہ پولیس اسٹیشن اور اہل خانہ کو آگاہ کرنا ضروری ہوگا۔
دوسری جانب پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے ڈی چوک پر لاپتہ افراد کے متعلقین کا احتجاج اتوار کو تیسرے روز بھی ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی قیادت میں جاری رہا۔ سخت سردی کے باعث احتجاجی کیمپ میں شامل کئی خواتین کو طبیعت خراب ہونے پر اسپتال منتقل کردیا گیا جبکہ 3 بزرگ افراد بھی بیمار ہوگئے۔ دھرنے کے شرکا نے اتوارکو بچوں کیلیے ٹینٹ لگانے کی کوشش کی جس پر اسلام آباد انتظامیہ اور مظاہرین میں تلخ کلامی ہوئی۔اس موقع پر سماجی رہنما آمنہ مسعود نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کی تعداد تو ہزاروں میں ہے لیکن سپریم کورٹ میں صرف 7افراد کو پیش کیا گیا اور جن کی شناخت ہوئی انھیں بھی اہل خانہ سے ملنے نہیں دیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں پورا یقین ہے کہ سپریم کورٹ ہمارے کیس کا جلد فیصلہ کرے گی۔