احسان

شرپسند اندرون سندھ اکثر بم دھماکے کرتے رہتے ہیں

usmandamohi@yahoo.com

شرپسند اندرون سندھ اکثر بم دھماکے کرتے رہتے ہیں کبھی کبھی تو وہ مسافروں سے بھری ریل گاڑیوں کو حادثات سے دوچار کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے اور ریل کی پٹریوں پر بم نصب کر دیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں گھوٹکی میں رینجرز کی گاڑی پر بم دھماکا کیا گیا جس میں رینجرز کے دو اہلکار اور دو شہری شہید ہو گئے تھے۔

لوگ اسے علیحدگی پسندوں کی ہی کارروائی سمجھتے تھے مگر جب اگلے دن کراچی کے علاقے لیاقت آباد کی سپر مارکیٹ کے قریب رینجرز کی گاڑی پر دستی بم کا دھماکا کیا گیا تو کراچی کے عوام کا ذہن فوراً بانی متحدہ کی دہشت گردی کی جانب مبذول ہو گیا کیونکہ وہی کراچی میں برسوں بم دھماکے اور دہشت گردانہ کارروائیاں کرواتے رہے تھے۔ گزشتہ اتوار کو پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بانی متحدہ کراچی کے مہاجر نوجوانوں سے مایوس ہو کر اب سندھی نوجوانوں کو تخریب کاری کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور یوں اب وہ بابائے سندھو دیش بننا چاہ رہے ہیں۔

وہ اس وقت لندن میں ''را'' کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے نہ صرف سندھ بلکہ بلوچستان اور پختونستان کی علیحدگی کے لیے کام کرنیوالے دہشتگردوں کے انچارج کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ دراصل کراچی اور حیدرآباد میں ان کی دہشت گردی کا قلع قمع ہونے کے بعد ''را'' کی نظر میں ان کی کوئی وقعت نہیں رہ گئی تھی اس لیے کہ وہ ان کے کام کے نہیں رہے تھے مگر ان کی روزی روٹی کو جاری رکھنے نیز ان کی پرانی خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے تمام صوبوں میں دہشتگردی کی تحاریک کو فعال کرنے کا ٹاسک انھیں سونپ دیا گیا ہے۔ بانی متحدہ نے اپنی آسائشوں کو جاری رکھنے کے لیے ''را'' کے اس حکم کو مان لیا ہے۔

کراچی اور گھوٹکی کے بم دھماکے واضح طور پر ڈاکٹر عمران فاروق کے مقدمے کے فیصلے کے جواب میں کروائے گئے ہیں اس لیے کہ اس فیصلے میں بانی متحدہ کو عمران فاروق کے قتل کا اصل مجرم قرار دیا گیا ہے۔ اس عدالتی فیصلے کے بعد لندن میں ایک پریس کانفرنس منعقد کی گئی جس میں پاکستان کے عدالتی نظام پر رکیک حملے کیے گئے اور فیصلے کو ناانصافی پر مبنی قرار دیا گیا۔ مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ بانی متحدہ کے ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں ملوث ہونے کے ثبوت خود اسکاٹ لینڈ یارڈ نے پاکستانی عدلیہ کو فراہم کیے ہیں۔ اگر یہ فیصلہ صرف پاکستانی ثبوتوں پر کیا گیا ہوتا تو یقینا لوگ اس میں شک و شبہ کرسکتے تھے مگر قتل کے ثبوت تو خود لندن پولیس نے فراہم کیے ہیں جو ناقابل تردید ہیں۔

ان ثبوتوں کو پاکستان کے حوالے کرنے میں پہلے تو برطانوی حکومت ہچکچاہٹ محسوس کر رہی تھی کہ ملزمان کو پاکستانی قانون کے مطابق پھانسی کی سزا دے دی جائے گی۔ چنانچہ پھانسی کی سزا نہ دینے کی یقین دہانی پر یہ ثبوت فراہم کیے گئے تھے۔ بعض پاکستانی تجزیہ کاروں کا اس برطانوی شرط پر کہنا ہے کہ برطانوی حکومت اس لیے یہ شرط رکھ رہی تھی کہ پاکستان میں دہشتگردوں کو قرار واقعی سزا نہ مل سکے اور اس طرح پاکستان مسلسل دہشتگردی کا شکار بنا رہے۔


ان کیمطابق اگر برطانوی حکومت پھانسی کی سزا کے اتنے ہی خلاف ہے اور انسانی زندگیوں سے اسے اتنا ہی پیار ہے تو پھر وہ بھارت میں پھانسیوں کو کیوں بند نہیں کراتی۔ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے بعد سے ہی بانی متحدہ کا زوال شروع ہوچکا تھا مگر ان کے اقتدار کے تابوت میں آخری کیل مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی نے ٹھوکی تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر یہ دونوں نوجوان ان کے اقتدار کے خونی محل کو نہ ڈھاتے تو کراچی کے عوام آج بھی دہشت گردی کو بھگت رہے ہوتے اور اس شہر مہاجرین کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ہوتی۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق عمران فاروق کا قتل بانی متحدہ کو اپنا اقتدار بچانے کے لیے اہم ہو گیا تھا۔ بانی متحدہ پارٹی کے نظریات سے ہٹ چکے تھے۔

وہ پاکستان دشمنی اور بھارت سے دوستی میں حد سے گزر چکے تھے جب کہ ڈاکٹر عمران فاروق ایم کیو ایم کو اس کے منشور کے تحت چلانا چاہتے تھے،وہ مہاجروں کی خدمت کو اولیت دیتے تھے ساتھ ہی پارٹی کے کسی غیر ملکی طاقت کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بننے کے سخت خلاف تھے۔ بانی متحدہ نے انھیں اپنے راستے پر چلانے کے لیے بہت جتن کیے مگر وہ اپنے اصولوں سے ہٹنے والے آدمی نہیں تھے۔ قتل کرانے سے پہلے ان کی چھوڑی ہوئی کنوینر شپ انھیں واپس لینے کے لیے مجبور کیا گیا۔

ان کی بیوی اور کئی نامی گرامی ہستیوں کے ذریعے انھیں منانے کی بھرپور کوشش کی گئی مگر جب وہ کسی طرح بھی اپنے اصولوں سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہ ہوئے تو ناچار کراچی سے دو دہشت گردوں کو طلب کرکے انھیں قتل کرا دیا گیا مگر قتل کرانے کا یہ طریقہ خود بانی متحدہ کی نظر میں غلط تھا اس لیے کہ اس طرح قتل کا براہ راست الزام ان پر ہی لگنا تھا وہ اس سے بچنے کے لیے کسی طرح انھیں پارٹی کا پھر سے کنوینر بنا کر ان کا قتل کرانا چاہتے تھے۔

اس طرح پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ان کا قاتل قرار دیا جاسکتا تھا اور لوگ یہ بات مان بھی لیتے اس لیے کہ بانی متحدہ پاکستانی ایجنسیوں کے خلاف پہلے ہی عوام کو گمراہ کرچکے تھے اور کراچی کے عوام بانی متحدہ کی ہر بات کو آسمانی فرمان سمجھ کر قبول کرلیتے تھے۔ اس پریس کانفرنس میں مصطفیٰ کمال نے پارٹی کے صدر انیس قائم خانی اور کئی اہم عہدیداروں کی موجودگی میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اگرچہ ان کی پارٹی نے بانی متحدہ کا پاکستان سے صفایا کردیا تھا مگر اب بھی رابطہ برقرار رکھ کر بانی متحدہ کو پھر سے زندہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ان تمام پارٹیوں کو اس بات پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ کیا وہ کراچی کو پھر سے دہشتگردی کے حوالے کرنا چاہتے ہیں؟ بانی متحدہ کے دست راست محمد انور بھی اب ان سے علیحدگی اختیار کرچکے ہیں انھوں نے ایک انٹرویو میں بانی متحدہ پر بھارت سے فنڈز لینے اور ''را'' سے گہرے تعلقات رکھنے کی تصدیق کی پھر انھوں نے کہا کہ وہ خود بھارتی سفارت خانے سے رقم لا کر بانی متحدہ کو دیا کرتے تھے۔ محمد انور کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاک فوج کا یہ احسان مہاجر کبھی نہیں بھول سکتے کہ اس نے انھیں تباہی سے بچا لیا۔
Load Next Story