پائیداراقتصادی ترقی معیشت کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ناگزیر
قومی بچتوں میں اضافہ ،معاشی پیداواری صلاحیت بڑھا کر اقتصادی نمو حاصل ہوسکتی ہے
مالی سال 2019-20 میں معیشت کی کارکردگی زوال پذیر رہی ہے۔ رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں معاشی شرح نمو منفی 0.4 فیصد رہی۔ قبل ازیں مالی سال 2018-19 میں بھی معاشی شرح نمو محض 1.9 فیصد رہی تھی۔ معاشی شرح نمو میں مسلسل کمی ملکی معیشت اور حکومت کے لیے کوئی مثبت علامت نہیں ہے۔ بہرحال رواں مالی سال میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ گذشتہ دو سال کی نسبت کم ہوکر جی ڈی پی کے 1.1فیصد پر آگیا ہے۔
مالی سال 2009سے 2013 تک پاکستان پیپلزپارٹی کے دورحکومت میں اوسط شرح نمو 2.8 فیصد اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کا 2.2 فیصد رہا۔ پی پی پی کی حکومت نے آئی ایم ایف سے 7.6 بلین ڈالر کا قرضہ پروگرام لیا۔ بعدازاں 2013 میں حکومت سنبھالنے والی پاکستان مسلم لیگ ن نے بھی آئی ایم ایف سے قرض لیا مگر اس نے مالیاتی پالیسیوں پر توجہ دی اور مارکیٹ میں ڈالرز کی منتقلی کے ذریعے شرح مبادلہ مستحکم رکھی۔
اس کے نتیجے میں شرح نمو میں اضافہ ہوا تاہم کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی بڑھ گیا اسی طرح موجودہ حکومت نے بھی اقتدار سنبھالنے کے کچھ ہی عرصے بعد آئی ایم ایف سے رجوع کرلیا۔ دیگر دونوں سیاسی جماعتوں کی طرح پی ٹی آئی نے بھی نمو بڑھانے سے پہلے استحکام لانے کا انتخاب کیا چنانچہ مالی سال 2018-19 میں شرح نمو 1.9 فیصد پھر رواں مالی سال میں منفی 0.4 فیصد پر آگئی۔
تاہم کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں بھی کمی آئی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ شرح مبادلہ مارکیٹ فورسز پر چھوڑ دی گئی تھی جس کے نتیجے میں دو سال کے دوران روپے کی قدر تیزی سے گراوٹ کا شکار ہوئی۔ تمام اقدامات کے باوجود رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ کے دوران مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 4فیصد رہا جوسال کے اختتام تک متوقع طور پر 9.1 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔ پائیدار اقتصادی ترقی کے لیے قومی بچتوں کو بڑھانا اور معیشت کی پیداوار صلاحیت میں اضافہ ناگزیر ہے، بصورت دیگر ہر حکومت نمو اور استحکام میں سے کسی ایک کے انتخاب پر مجبور ہوگی اور اس کا نتیجہ گزرے برسوں سے مختلف نہیں ہوگا۔
مالی سال 2009سے 2013 تک پاکستان پیپلزپارٹی کے دورحکومت میں اوسط شرح نمو 2.8 فیصد اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کا 2.2 فیصد رہا۔ پی پی پی کی حکومت نے آئی ایم ایف سے 7.6 بلین ڈالر کا قرضہ پروگرام لیا۔ بعدازاں 2013 میں حکومت سنبھالنے والی پاکستان مسلم لیگ ن نے بھی آئی ایم ایف سے قرض لیا مگر اس نے مالیاتی پالیسیوں پر توجہ دی اور مارکیٹ میں ڈالرز کی منتقلی کے ذریعے شرح مبادلہ مستحکم رکھی۔
اس کے نتیجے میں شرح نمو میں اضافہ ہوا تاہم کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی بڑھ گیا اسی طرح موجودہ حکومت نے بھی اقتدار سنبھالنے کے کچھ ہی عرصے بعد آئی ایم ایف سے رجوع کرلیا۔ دیگر دونوں سیاسی جماعتوں کی طرح پی ٹی آئی نے بھی نمو بڑھانے سے پہلے استحکام لانے کا انتخاب کیا چنانچہ مالی سال 2018-19 میں شرح نمو 1.9 فیصد پھر رواں مالی سال میں منفی 0.4 فیصد پر آگئی۔
تاہم کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں بھی کمی آئی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ شرح مبادلہ مارکیٹ فورسز پر چھوڑ دی گئی تھی جس کے نتیجے میں دو سال کے دوران روپے کی قدر تیزی سے گراوٹ کا شکار ہوئی۔ تمام اقدامات کے باوجود رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ کے دوران مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 4فیصد رہا جوسال کے اختتام تک متوقع طور پر 9.1 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔ پائیدار اقتصادی ترقی کے لیے قومی بچتوں کو بڑھانا اور معیشت کی پیداوار صلاحیت میں اضافہ ناگزیر ہے، بصورت دیگر ہر حکومت نمو اور استحکام میں سے کسی ایک کے انتخاب پر مجبور ہوگی اور اس کا نتیجہ گزرے برسوں سے مختلف نہیں ہوگا۔