آہ طارق عزیز
عہد ساز شخصیت، جسے وطن سے لازوال محبت نے امر کر دیا
KARACHI:
عظمت...وہ انسانی خواہش ہے، جس کے حصول کی خاطر وہ اپنی جان کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتا، لیکن یہ اعزاز پھر بھی نصیب والوں کے ہی حصے میں آتا ہے، ایسے عظیم لوگوں کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ کبھی عظمت کے پیچھے نہیں بھاگتے، وہ تو بس اپنے حقیقی جذبے کی پیروی کرتے ہیں، جس کی وجہ سے عظمت خود چل کر ان کے پاس آتی ہے۔ یہ لوگ صرف زندگی میں ہی عظیم نہیں ہوتے بلکہ موت کے بعد بھی ان کی عظمت کا چرچارہتا ہے، دارِفانی سے کوچ کرنے کے بعد بھی ان کی محبتیں، یادیں اور خلوص صدیوں تک لوگوں کے دِلوں میں نقش رہتے ہیں۔
یہ ایسی شمع روشن کر جاتے ہیں، جس کی روشنی میں کئی نسلیں پروان چڑھتی ہیں۔ ایسے ہی لوگوں میں ایک نام طارق عزیز کا ہے۔ اخلاص اور وطن سے محبت کے جذبوں میں گوندھی ہوئی گونج دار آواز، بہترین تلفظ، شاندار لب و لہجہ اور بارعب مگر سحرانگیز شخصیت کے حامل طارق عزیز کا شمار اس فہرست میں شائد سب سے اوپر ہے، جنہیں بچپن سے پچپن تک کے سب لوگ جانتے اور پہچانتے ہیں، جن کا اندازِ بیان اور آواز ہر عمر کے مرد و خواتین کے کانوں میں رس گھول دیتی ہے۔
''ابتداء ہے رب جلیل کے بابرکت نام سے، جو دلوں کے بھید خوب جانتا ہے، دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام پہنچے'' یہ وہ الفاظ ہیں، جنہیں سنتے سنتے بچے بڑے اور بڑے بوڑھے ہو کر شائد زمین کی گود میں سو گئے، لیکن ان الفاظ سے انسیت ختم ہوئی نہ انہیں سننے کا اشتیاق۔ طارق عزیز کی آواز کے سحر نے اک جہاں کو اپنا گرویدہ بنائے رکھا۔ علم و ادب اور فنِ اداکاری و صداکاری کی عہد ساز شخصیت کے سفر زیست کا مختصراً احاطہ کیا جائے تو لیجنڈ طارق عزیز 28 اپریل 1936ء کو بھارتی پنجاب کے شہر جالندھرمیں پیدا ہوئے۔
والد میاں عبد العزیز پاکستانی 1947ء میں پاکستان ہجرت کر آئے، جن کی پاکستان سے والہانہ محبت اور لگاؤ کا یہ عالم تھا کہ وہ پاکستان بننے سے پہلے ہی اپنے نام کے ساتھ پاکستانی لکھتے تھے، پاکستان آ کر میاں عبدالعزیز نے ساہیوال (اس وقت کا منٹگمری) میں سکونت اختیار کی اور وہیں سے اپنا ایک اخبار نکالا، جہاں منیر نیازی اور مجید امجد سمیت کئی بڑے شعراء کا آنا جانا ہوتا اور اسی توسط سے طارق عزیز بھی ان سے خاصا شغف رکھنے لگے۔ طارق عزیز کا بچپن ساہیوال میں گزارا اور وہیں سے انہوں نے ابتدائی تعلیم بھی حاصل کی۔
بعدازاں شعرو ادب اور ابلاغ سے جبلی لگاؤ مستقبل کے لیجنڈ کو لاہور کھینچ لایا، جہاں انہوں نے ریڈیو پاکستان سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا، کچھ ہی عرصہ میں ان کی صداکاری کی ہر طرف دھوم مچ گئی، جس کی ایک واضح مثال پاکستان ٹیلی ویژن کے پہلے مرد اناؤنسر کا اعزاز بھی ہے۔ 26نومبر 1964ء کو جب پاکستان ٹیلی ویژن نے اپنے نشریات کا آغاز کیا تو یہ طارق عزیز ہی تھے، جنہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کے جنم کا اعلان کیا۔ تاہم 1975ء میں شروع کئے جانے والے ان کے اسٹیج شو ''نیلام گھر'' نے ان کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ یہ پروگرام کئی سال تک جاری رہا، جسے بعدازاں طارق عزیز شو اور بزمِ طارق کا نام دے دیا گیا۔طارق عزیز ہمہ جہت شخصیت کے حامل اور صاحب کمال تھے۔
انہوں نے ریڈیو اور ٹی وی کے پروگراموں کے علاوہ فلموں میں بھی اداکاری کی۔ ان کی سب سے پہلی فلم انسانیت (1967) تھی، جس میں انہوں نے چاکلیٹ ہیرو وحید مراد اور زیبا کے ساتھ کام کیا۔ ان کی دیگر مشہور فلموں میں سالگرہ، قسم اس وقت کی، کٹاری، چراغ کہاں روشنی کہاں، ہار گیا انسان قابل ذکر ہیں۔ سالگرہ طارق عزیز کی وہ کامیاب ترین فلم تھی، جسے 1969ء میں نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔
انہیں ان کی فنی خدمات پر بہت سے ایوارڈز مل چکے ہیں جبکہ 1992ء میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے انہیں حسن کارکردگی کے صدارتی تمغے سے بھی نوازا گیا۔ طارق عزیز علم و ادب اور کتاب سے محبت کرنے والے انسان تھے۔ ان کے کالموں کا مجموعہ ''داستان'' اور پنجابی شاعری کا مجموعہ کلام ''ہمزاد دا دکھ'' کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ انہوں نے نہ صرف اردو بلکہ اپنی مادری زبان پنجابی میں بھی شاعری کی۔ ان کے علاوہ ''اقبال شناسی'' اور ''فٹ پاتھ سے پالیمنٹ تک'' کے مصنف بھی یہی عہد ساز صداکار تھے۔
شعروشاعری اور میڈیا کی چکا چوند کے علاوہ سابق رکن قومی اسمبلی سیاست میں بھی گہری دلچسپی رکھتے تھے، انہوں نے پاکستانی سیاست کے سب سے بحرانی دور میں باقاعدہ طور پر سیاست میں حصہ لیا، جس کی وجہ سے جہاں کئی بار انہیں اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے وہاں سپریم کورٹ پر حملہ جیسے کیسز کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ بائیں بازو کے نظریات کی وجہ سے پاکستانی پیپلزپارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو سے ان کی قربت بڑھی اور 1970ء میں انہوں نے عملی طور پر سیاست میں ایک فعال کردار ادا کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد طارق عزیز نے پیپلزپارٹی سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور جنرل ضیاء نے ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا۔
وقت گزرا تو طارق عزیز میاں نواز شریف کے قریب ہو گئے اور 1977ء میں وہ نواز لیگ کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوگئے، یہ رکنیت جنرل مشرف کے ایمرجنسی لگانے تک برقرار رہی۔ طارق عزیز کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ 1977ء کے عام انتخابات میں انہوں نے آج کے وزیراعظم عمران خان کو لاہور میں 45ہزار سے زائد ووٹوں کی لیڈ سے ہرایا۔ سپریم کورٹ حملہ کیس میں ان پر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کی پابندی عائد ہوگئی، تاہم بعدازاں 2002ء میں پاکستان مسلم لیگ ق کی طرف ان کا رجوع ہوا اور اسی برس ہونے والے عام انتخابات میں ان کی اہلیہ ڈاکٹر حاجرہ مخصوصی کوٹہ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہو گئیں۔
طارق عزیز کو قدرت نے ایک بیٹا دے کر واپس لے لیا، جس کے باعث ایک بار وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے، لیکن اپنے وطن اور قومی ثقافت سے ان کی لازوال محبت نے انہیں کبھی کمزور نہیں پڑنے دیا۔ انہوں نے ایک وصیت کی کہ مرنے کے بعد ان کا جو کچھ ہے وہ ریاست پاکستان کو دے دیا جائے اور 17 جون 2020ء وہ دن ہے، جب ان کی وصیت پر عملدرآمد طے پایا، کیوں کہ لاکھوں دلوں کو علم و ادب، ثقافت اور وطن سے محبت کی روشنی سے منور کرنے والا یہ دیا بجھ گیا۔ لیجنڈ طارق عزیز آج ہم میں نہیں رہے کہ ''ہر زندگی نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے'' لیکن ان کی آواز کی گونج ماضی، حال کے سنتے کانوں کے ذریعے آئندہ آنے والی نسل کی سماعت میں بھی رس گھولتی رہے گی۔
طارق عزیز پاکستانی ثقافت سے محبت کی بہترین مثال تھے:سہیل احمد
اردو ادب پر کمال حاصل تھا: ڈاکٹر مہدی حسن، فرد نہیں ادارہ تھے: وسیم عباس
ملک کے مایہ ناز اداکار سہیل احمد نے ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے لیجنڈ طارق عزیز کو کچھ اس انداز میں خراج تحسین پیش کیا کہ '' طارق عزیز صاحب میں ثقافت کا ہر رنگ موجود تھا، کیوں کہ وہ ایک بہترین اداکار، صداکار، شاعر اور کمپیئر تھے، ان کے پاس الفاظ کا جو ذخیرہ تھا، وہ بہت کم لوگوں کے پاس ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ میں نے انہیں رستم ثقافت کا خطاب دیا ہے، وہ پاکستان ٹیلی ویژن کی پہلی آواز اور سکرین تھے، میں سمجھتا ہوں آج ہمارے ہاں میڈیا کا جتنا پھیلاؤ اور اس پر جو فن دکھایا جا رہا ہے، یہ ان کی وجہ سے ہے۔
ہندوپاک میں جتنے بھی پروگرام ہو رہے ہیں، وہ ان کے شو کی اولاد ہیں۔ دیکھیں! ہمارے ہاں آج جو لوگ ثقافت کے علمبردار بنے ہوئے ہیں، بدقسمتی سے ان میں ثقافت سے مطلوبہ محبت نہیں پائی جاتی لیکن طارق عزیز پاکستانی ثقافت سے محبت کی بہترین مثال تھے۔ ان کے شو کے آخری نعرے''پاکستان زندہ باد'' میں اتنی محبت، خلوص اور جذبہ ہوتا تھا کہ یوں محسوس ہوتا جیسے پاکستان خود اپنا نعرہ لگا رہا ہو۔ رہی بات حکومتی سطح پر ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کی تو میں حکومت سے انہیں نشان امتیاز دلا کر رہوں گا یہ حکومت نہیں دے گی تو میں اگلی حکومت سے یہی مطالبہ کروں گا'' معروف دانش ور ڈاکٹر مہدی حسن کا لیجنڈ طارق عزیز سے زمانہِ سکول سے تعلق ہے۔
مرحوم کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ '' طارق عزیز پاکستان کا کامیاب ترین اور بہترین براڈ کاسٹر تھا، بحیثیت براڈ کاسٹر انہیں جو عزت ملی وہ شائد کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔ زمانہ سکول سے ہی ان کی انگریزی کمزور تھی، جس کی وجہ سے وہ بہت زیادہ تعلیم حاصل نہ کر سکے لیکن اپنی اس خامی کو انہوں نے اردو ادب پر عبور حاصل کرکے پورا کیا، بلاشبہ انہیں اردو شاعری پر کمال حاصل تھا۔ مرحوم کے شو کی 20ویں سالگرہ پر انہوں نے اشفاق احمد کے ساتھ مجھے مدعو کیا تو میں نے وہاں کہا کہ طارق عزیز ٹیچر بننا چاہتے تھے لیکن تعلیم کی کمی کی وجہ سے وہ بن نہ سکے، جس کا مجھے بڑا افسوس ہے کیوں کہ اگر وہ ٹیچر بنتے تو ایک بہترین ٹیچر ہوتے، تاہم انہوں نے اپنے شو کے ذریعے اپنی اس خواہش کو پورا کیا اور بہت خوب پورا کیا۔
رہی بات حکومتی سطح پر ان کی خدمات کو سرہانے کی تو پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں اعزازات مرنے کے بعد دیئے جاتے ہیں، ہم زندہ لوگوں کی خدمات کا اعتراف نہیں کرتے۔ دوسرا یہ اعزازات سیاسی ہوتے ہیں، حکومتی پارٹی سے وابستگی پر آپ کو اعزازات مل جاتے ہیں اور طارق کا رجحان چوں کہ ن لیگ کی طرف تھا تو اس لئے حکومت سے توقع نہیں کی جا سکتی، تاہم میرے خیال میں حکومتی اعزازات کی کوئی اہمیت نہیں، اصل اعزاز لوگوں کے دلوں پر راج کرنا ہے، لوگوں کی محبت کا ملنا ہے اور یہ سب کچھ طارق عزیز کو بہت ملا'' ٹی وی ڈرامہ اور فلم کی جانی پہچانی شخصیت وسیم عباس کہتے ہیں کہ '' طارق عزیز ایک ایسے عظیم انسان تھے۔
جنہیں ایک فرد نہیں کہا جا سکتا بلکہ وہ اپنی ذات کے اندر ایک ادارہ تھے، جس سے آج تک دنیا فیض یاب ہو رہی ہے، وہ کامیاب ترین اداکار، سیاست دان، شاعر، کمپیئر اور صداکار تھے لیکن افسوس ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کی قدر نہیں، حالاں کہ طارق عزیز وہ شخصیت ہیں، جن کے بارے میں نوجوان نسل کو پڑھایا جا سکتا ہے کہ ایک کامیاب پاکستانی کیسا ہوتا ہے۔ رہی بات حکومت کی طرف سے ان کی خدمات کو سراہنے کی تو یہ حکومت زندہ لوگوں کے لئے کچھ نہیں کرتی وہ مرے ہوؤں کے لئے کیا کرے گی؟''
عظمت...وہ انسانی خواہش ہے، جس کے حصول کی خاطر وہ اپنی جان کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتا، لیکن یہ اعزاز پھر بھی نصیب والوں کے ہی حصے میں آتا ہے، ایسے عظیم لوگوں کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ کبھی عظمت کے پیچھے نہیں بھاگتے، وہ تو بس اپنے حقیقی جذبے کی پیروی کرتے ہیں، جس کی وجہ سے عظمت خود چل کر ان کے پاس آتی ہے۔ یہ لوگ صرف زندگی میں ہی عظیم نہیں ہوتے بلکہ موت کے بعد بھی ان کی عظمت کا چرچارہتا ہے، دارِفانی سے کوچ کرنے کے بعد بھی ان کی محبتیں، یادیں اور خلوص صدیوں تک لوگوں کے دِلوں میں نقش رہتے ہیں۔
یہ ایسی شمع روشن کر جاتے ہیں، جس کی روشنی میں کئی نسلیں پروان چڑھتی ہیں۔ ایسے ہی لوگوں میں ایک نام طارق عزیز کا ہے۔ اخلاص اور وطن سے محبت کے جذبوں میں گوندھی ہوئی گونج دار آواز، بہترین تلفظ، شاندار لب و لہجہ اور بارعب مگر سحرانگیز شخصیت کے حامل طارق عزیز کا شمار اس فہرست میں شائد سب سے اوپر ہے، جنہیں بچپن سے پچپن تک کے سب لوگ جانتے اور پہچانتے ہیں، جن کا اندازِ بیان اور آواز ہر عمر کے مرد و خواتین کے کانوں میں رس گھول دیتی ہے۔
''ابتداء ہے رب جلیل کے بابرکت نام سے، جو دلوں کے بھید خوب جانتا ہے، دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام پہنچے'' یہ وہ الفاظ ہیں، جنہیں سنتے سنتے بچے بڑے اور بڑے بوڑھے ہو کر شائد زمین کی گود میں سو گئے، لیکن ان الفاظ سے انسیت ختم ہوئی نہ انہیں سننے کا اشتیاق۔ طارق عزیز کی آواز کے سحر نے اک جہاں کو اپنا گرویدہ بنائے رکھا۔ علم و ادب اور فنِ اداکاری و صداکاری کی عہد ساز شخصیت کے سفر زیست کا مختصراً احاطہ کیا جائے تو لیجنڈ طارق عزیز 28 اپریل 1936ء کو بھارتی پنجاب کے شہر جالندھرمیں پیدا ہوئے۔
والد میاں عبد العزیز پاکستانی 1947ء میں پاکستان ہجرت کر آئے، جن کی پاکستان سے والہانہ محبت اور لگاؤ کا یہ عالم تھا کہ وہ پاکستان بننے سے پہلے ہی اپنے نام کے ساتھ پاکستانی لکھتے تھے، پاکستان آ کر میاں عبدالعزیز نے ساہیوال (اس وقت کا منٹگمری) میں سکونت اختیار کی اور وہیں سے اپنا ایک اخبار نکالا، جہاں منیر نیازی اور مجید امجد سمیت کئی بڑے شعراء کا آنا جانا ہوتا اور اسی توسط سے طارق عزیز بھی ان سے خاصا شغف رکھنے لگے۔ طارق عزیز کا بچپن ساہیوال میں گزارا اور وہیں سے انہوں نے ابتدائی تعلیم بھی حاصل کی۔
بعدازاں شعرو ادب اور ابلاغ سے جبلی لگاؤ مستقبل کے لیجنڈ کو لاہور کھینچ لایا، جہاں انہوں نے ریڈیو پاکستان سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا، کچھ ہی عرصہ میں ان کی صداکاری کی ہر طرف دھوم مچ گئی، جس کی ایک واضح مثال پاکستان ٹیلی ویژن کے پہلے مرد اناؤنسر کا اعزاز بھی ہے۔ 26نومبر 1964ء کو جب پاکستان ٹیلی ویژن نے اپنے نشریات کا آغاز کیا تو یہ طارق عزیز ہی تھے، جنہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن کے جنم کا اعلان کیا۔ تاہم 1975ء میں شروع کئے جانے والے ان کے اسٹیج شو ''نیلام گھر'' نے ان کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ یہ پروگرام کئی سال تک جاری رہا، جسے بعدازاں طارق عزیز شو اور بزمِ طارق کا نام دے دیا گیا۔طارق عزیز ہمہ جہت شخصیت کے حامل اور صاحب کمال تھے۔
انہوں نے ریڈیو اور ٹی وی کے پروگراموں کے علاوہ فلموں میں بھی اداکاری کی۔ ان کی سب سے پہلی فلم انسانیت (1967) تھی، جس میں انہوں نے چاکلیٹ ہیرو وحید مراد اور زیبا کے ساتھ کام کیا۔ ان کی دیگر مشہور فلموں میں سالگرہ، قسم اس وقت کی، کٹاری، چراغ کہاں روشنی کہاں، ہار گیا انسان قابل ذکر ہیں۔ سالگرہ طارق عزیز کی وہ کامیاب ترین فلم تھی، جسے 1969ء میں نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔
انہیں ان کی فنی خدمات پر بہت سے ایوارڈز مل چکے ہیں جبکہ 1992ء میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے انہیں حسن کارکردگی کے صدارتی تمغے سے بھی نوازا گیا۔ طارق عزیز علم و ادب اور کتاب سے محبت کرنے والے انسان تھے۔ ان کے کالموں کا مجموعہ ''داستان'' اور پنجابی شاعری کا مجموعہ کلام ''ہمزاد دا دکھ'' کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ انہوں نے نہ صرف اردو بلکہ اپنی مادری زبان پنجابی میں بھی شاعری کی۔ ان کے علاوہ ''اقبال شناسی'' اور ''فٹ پاتھ سے پالیمنٹ تک'' کے مصنف بھی یہی عہد ساز صداکار تھے۔
شعروشاعری اور میڈیا کی چکا چوند کے علاوہ سابق رکن قومی اسمبلی سیاست میں بھی گہری دلچسپی رکھتے تھے، انہوں نے پاکستانی سیاست کے سب سے بحرانی دور میں باقاعدہ طور پر سیاست میں حصہ لیا، جس کی وجہ سے جہاں کئی بار انہیں اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے وہاں سپریم کورٹ پر حملہ جیسے کیسز کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ بائیں بازو کے نظریات کی وجہ سے پاکستانی پیپلزپارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو سے ان کی قربت بڑھی اور 1970ء میں انہوں نے عملی طور پر سیاست میں ایک فعال کردار ادا کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد طارق عزیز نے پیپلزپارٹی سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور جنرل ضیاء نے ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا۔
وقت گزرا تو طارق عزیز میاں نواز شریف کے قریب ہو گئے اور 1977ء میں وہ نواز لیگ کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوگئے، یہ رکنیت جنرل مشرف کے ایمرجنسی لگانے تک برقرار رہی۔ طارق عزیز کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ 1977ء کے عام انتخابات میں انہوں نے آج کے وزیراعظم عمران خان کو لاہور میں 45ہزار سے زائد ووٹوں کی لیڈ سے ہرایا۔ سپریم کورٹ حملہ کیس میں ان پر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کی پابندی عائد ہوگئی، تاہم بعدازاں 2002ء میں پاکستان مسلم لیگ ق کی طرف ان کا رجوع ہوا اور اسی برس ہونے والے عام انتخابات میں ان کی اہلیہ ڈاکٹر حاجرہ مخصوصی کوٹہ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہو گئیں۔
طارق عزیز کو قدرت نے ایک بیٹا دے کر واپس لے لیا، جس کے باعث ایک بار وہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے، لیکن اپنے وطن اور قومی ثقافت سے ان کی لازوال محبت نے انہیں کبھی کمزور نہیں پڑنے دیا۔ انہوں نے ایک وصیت کی کہ مرنے کے بعد ان کا جو کچھ ہے وہ ریاست پاکستان کو دے دیا جائے اور 17 جون 2020ء وہ دن ہے، جب ان کی وصیت پر عملدرآمد طے پایا، کیوں کہ لاکھوں دلوں کو علم و ادب، ثقافت اور وطن سے محبت کی روشنی سے منور کرنے والا یہ دیا بجھ گیا۔ لیجنڈ طارق عزیز آج ہم میں نہیں رہے کہ ''ہر زندگی نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے'' لیکن ان کی آواز کی گونج ماضی، حال کے سنتے کانوں کے ذریعے آئندہ آنے والی نسل کی سماعت میں بھی رس گھولتی رہے گی۔
طارق عزیز پاکستانی ثقافت سے محبت کی بہترین مثال تھے:سہیل احمد
اردو ادب پر کمال حاصل تھا: ڈاکٹر مہدی حسن، فرد نہیں ادارہ تھے: وسیم عباس
ملک کے مایہ ناز اداکار سہیل احمد نے ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے لیجنڈ طارق عزیز کو کچھ اس انداز میں خراج تحسین پیش کیا کہ '' طارق عزیز صاحب میں ثقافت کا ہر رنگ موجود تھا، کیوں کہ وہ ایک بہترین اداکار، صداکار، شاعر اور کمپیئر تھے، ان کے پاس الفاظ کا جو ذخیرہ تھا، وہ بہت کم لوگوں کے پاس ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ میں نے انہیں رستم ثقافت کا خطاب دیا ہے، وہ پاکستان ٹیلی ویژن کی پہلی آواز اور سکرین تھے، میں سمجھتا ہوں آج ہمارے ہاں میڈیا کا جتنا پھیلاؤ اور اس پر جو فن دکھایا جا رہا ہے، یہ ان کی وجہ سے ہے۔
ہندوپاک میں جتنے بھی پروگرام ہو رہے ہیں، وہ ان کے شو کی اولاد ہیں۔ دیکھیں! ہمارے ہاں آج جو لوگ ثقافت کے علمبردار بنے ہوئے ہیں، بدقسمتی سے ان میں ثقافت سے مطلوبہ محبت نہیں پائی جاتی لیکن طارق عزیز پاکستانی ثقافت سے محبت کی بہترین مثال تھے۔ ان کے شو کے آخری نعرے''پاکستان زندہ باد'' میں اتنی محبت، خلوص اور جذبہ ہوتا تھا کہ یوں محسوس ہوتا جیسے پاکستان خود اپنا نعرہ لگا رہا ہو۔ رہی بات حکومتی سطح پر ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کی تو میں حکومت سے انہیں نشان امتیاز دلا کر رہوں گا یہ حکومت نہیں دے گی تو میں اگلی حکومت سے یہی مطالبہ کروں گا'' معروف دانش ور ڈاکٹر مہدی حسن کا لیجنڈ طارق عزیز سے زمانہِ سکول سے تعلق ہے۔
مرحوم کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ '' طارق عزیز پاکستان کا کامیاب ترین اور بہترین براڈ کاسٹر تھا، بحیثیت براڈ کاسٹر انہیں جو عزت ملی وہ شائد کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔ زمانہ سکول سے ہی ان کی انگریزی کمزور تھی، جس کی وجہ سے وہ بہت زیادہ تعلیم حاصل نہ کر سکے لیکن اپنی اس خامی کو انہوں نے اردو ادب پر عبور حاصل کرکے پورا کیا، بلاشبہ انہیں اردو شاعری پر کمال حاصل تھا۔ مرحوم کے شو کی 20ویں سالگرہ پر انہوں نے اشفاق احمد کے ساتھ مجھے مدعو کیا تو میں نے وہاں کہا کہ طارق عزیز ٹیچر بننا چاہتے تھے لیکن تعلیم کی کمی کی وجہ سے وہ بن نہ سکے، جس کا مجھے بڑا افسوس ہے کیوں کہ اگر وہ ٹیچر بنتے تو ایک بہترین ٹیچر ہوتے، تاہم انہوں نے اپنے شو کے ذریعے اپنی اس خواہش کو پورا کیا اور بہت خوب پورا کیا۔
رہی بات حکومتی سطح پر ان کی خدمات کو سرہانے کی تو پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں اعزازات مرنے کے بعد دیئے جاتے ہیں، ہم زندہ لوگوں کی خدمات کا اعتراف نہیں کرتے۔ دوسرا یہ اعزازات سیاسی ہوتے ہیں، حکومتی پارٹی سے وابستگی پر آپ کو اعزازات مل جاتے ہیں اور طارق کا رجحان چوں کہ ن لیگ کی طرف تھا تو اس لئے حکومت سے توقع نہیں کی جا سکتی، تاہم میرے خیال میں حکومتی اعزازات کی کوئی اہمیت نہیں، اصل اعزاز لوگوں کے دلوں پر راج کرنا ہے، لوگوں کی محبت کا ملنا ہے اور یہ سب کچھ طارق عزیز کو بہت ملا'' ٹی وی ڈرامہ اور فلم کی جانی پہچانی شخصیت وسیم عباس کہتے ہیں کہ '' طارق عزیز ایک ایسے عظیم انسان تھے۔
جنہیں ایک فرد نہیں کہا جا سکتا بلکہ وہ اپنی ذات کے اندر ایک ادارہ تھے، جس سے آج تک دنیا فیض یاب ہو رہی ہے، وہ کامیاب ترین اداکار، سیاست دان، شاعر، کمپیئر اور صداکار تھے لیکن افسوس ہمارے ملک میں ایسے لوگوں کی قدر نہیں، حالاں کہ طارق عزیز وہ شخصیت ہیں، جن کے بارے میں نوجوان نسل کو پڑھایا جا سکتا ہے کہ ایک کامیاب پاکستانی کیسا ہوتا ہے۔ رہی بات حکومت کی طرف سے ان کی خدمات کو سراہنے کی تو یہ حکومت زندہ لوگوں کے لئے کچھ نہیں کرتی وہ مرے ہوؤں کے لئے کیا کرے گی؟''