لاہورکے دھوبی گھاٹ ماضی کا حصہ بن گئے

دھوبی گھاٹوں کے ویران ہونے کی ایک وجہ کپڑے دھونے کے سامان کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور انہیں کم ملنے والا معاوضہ بھی ہے

لاہور میں مغلپورہ اور باغبانپورہ کے علاقے میں دو بڑے دھوبی گھاٹ تھے، فوٹو: فائل

ترقی کے تیز رفتار پہیے نے بہت کچھ بدل دیا ہے ، لاہور کے دھوبی گھاٹ پرکبھی چھواچھو کی آوازیں سنائی دیتی اورہاتھ سے کپڑے دھونے والوں کی رونقیں نظرآتی تھیں اب ان دھوبی گھاٹوں کی جگہ مشینوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں لیکن یہ علاقے برسوں بعد بھی دھوبی گھاٹ کے نام سے ہی مشہورہیں۔

ہاتھوں سے کپڑے دھونے کی آوازیں کبھی لاہور کے مختلف علاقوں میں بنے دھوبی گھاٹوں میں سنائی دیتی تھیں لیکن اب یہ سب ماضی کا حصہ بن چکا ہے، بہت سے دھوبی گھاٹ ختم ہوچکے جو چند ایک باقی ہیں وہاں اکا دکا دھوبی کپڑے دھوتے نظرآتے ہیں۔
محمد یاسین پچھلے 45 برسوں سے مغلپورہ کے ایک دھوبی گھاٹ پر کپڑے دھوتے آرہے ہیں لیکن اب وہ ہاتھ کی بجائے مشینوں کی مدد لیتے ہیں۔ ان کے بیٹے بھی ان کا ساتھ دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ گزرے وقت کو بہتر مانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اب جدید دورآگیا ہے ، پرانے وقتوں میں ایک آدمی کام کرتا تودس بیٹھ کر کھاتے تھے ، اب مشینیں آگئی ہیں ، دس لوگ بھی کام کریں تو گزارامشکل سے ہوتا ہے۔



خودکار طریقے سے کپڑے دھونے کی ان مشینوں نے جہاں بہت سے لوگوں کی جگہ لی ہے وہیں ان دھوبی گھاٹوں کی رونقیں بھی ماند پڑتی گئیں۔ مشینوں پر کام کرنے والوں کو آج بھی ہاتھوں سے کپڑے دھونے والے ساتھی یاد آتے ہیں، ایک دھوبی محمد سعید کا کہنا ہے ان کے ساتھ کام کرنیوالے کئی ساتھی اللہ کو پیارے ہوگئے ، کچھ بہت زیادہ ضعیف ہوچکے ہیں، کئی ایسے ہیں جنہوں نے خود کے کارخانے لگالئے ۔آج بھی جب کام کرتے ہیں توان کی یادآتی ہے۔




لاہور میں صدر کے قریب بنے دھوبی گھاٹ پربھی سینکڑوں لوگ کام کرتے تھے۔ یہاں اب بھی دھوبی ہاتھ سے کپڑے دھوتے ہیں لیکن ان کی تعداد کم ہوگئی ہے، یہاں کام کرنیوالے محمد نصیر نے بتایا کہ یہ جوچندلوگ رہ گئے ہیں انہیں کوئی وسائل نظرنہیں آرہے ،وسائل ملیں گے تو یہ بھی یہ کام چھوڑ دیں گے۔



ایک شہری ریاض احمد کہتے ہیں لوگ اب دھوبی گھاٹ پرکپڑے اس لئے بھی نہیں دھلواتے کیونکہ وہاں کپڑوں کو پٹک کردھوتے تھے اس سے کپڑے کمزورہوجاتے جبکہ پھٹ بھی جاتے ہیں ، اب چونکہ کپڑے خاصے نفیس اورمہنگے ہوتے ہیں اس لئے لوگ یہ رسک نہیں لیتے ہیں۔ ایک خاتون فاطمہ کا کہنا ہے اب چونکہ گھروں میں جدید واشنگ اورڈرائرمشینیں ہیں تواس وجہ سے باہرسے کپڑے دھلوانے کا رحجان کم ہے ، صرف وہ کپڑے لانڈری میں بھیجے جاتے ہیں جن کو کلف لگانا ہو یا پھرگھرمیں انہیں دھونے سے خراب ہونے کاخدشہ ہو، ڈرائی کی وجہ سے بھی کپڑے لانڈری پربھیج دیتے ہیں۔



لاہور میں مغلپورہ اور باغبانپورہ کے علاقے میں دو بڑے دھوبی گھاٹ تھے، باغبانپورہ دھوبی گھاٹ تومکمل طورپرختم ہوچکا ہے لیکن مغلپورہ دھوبی گھاٹ کی باقیات ابھی موجود ہیں۔ ان دھوبی گھاٹوں کے ویران ہونے کی ایک وجہ کپڑے دھونے کے سامان کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور انہیں بہت ہی کم ملنے والا معاوضہ بھی ہے، یہاں زیادہ تر اب مختلف فیکٹروں کا کپڑا ،ٹینٹ والوں کی گندی دریاں اورچادریں دھوئی جاتی ہیں جبکہ کپڑے اب لوگ جدیدلانڈری میں ہی دھلواتے ہیں۔
Load Next Story