ادبی لائبریریوں کے لیے گورنر توجہ دیں
پچھلے چند برسوں سے ملک میں ادبی سرگرمیوں کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے، وہ بڑا حوصلہ افزا ہے۔ کراچی اور لاہور۔۔۔
پچھلے چند برسوں سے ملک میں ادبی سرگرمیوں کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے، وہ بڑا حوصلہ افزا ہے۔ کراچی اور لاہور ادبی سرگرمیوں کے مرکز ہیں۔کراچی اور لاہور کی آرٹس کونسلیں ادبی کانفرنسیں اور ادبی میلوں کا اہتمام بڑی پابندی سے کر رہی ہیں ۔کراچی میں ادبی کانفرنس کی ٹائمنگ انتہائی موزوں اور بامعنی ہوتی ہے۔ یہ کانفرنس عموماً آرٹس کونسل کے سالانہ انتخابات سے ذرا پہلے منعقد ہوتی ہے جس کا ایک باالواسطہ مقصد یہ یاد دلانا ہوتا ہے کہ الیکشن سر پر ہیں۔ اسے ہم کراچی کی خوش قسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ اس شہر میں ہزاروں کی تعداد میں ادیب اور شاعر موجود ہیں۔
ادیبوں شاعروں کی تعداد کا ذکر تو ہم نے برسبیل تذکرہ کیا، اصل میں ہم ادبی سرگرمیوں کی افادیت، اہمیت اور ان کے اثرات کا جائزہ لینا چاہتے تھے۔ بڑھتی پھلتی پھولتی ادبی سرگرمیوں کی وجہ سال میں دو چار بلکہ اس سے زیادہ ادبی میلے لگ رہے ہیں اور میڈیا کی مہربانی سے عام لوگ بھی ادب اور ادیبوں سے واقف ہو رہے ہیں لیکن ان حوالوں سے ایک سوال بہرحال ذہن میں آتا ہے کہ ان ادبی میلوں ٹھیلوں کا مقصد کیا ہے؟ اگر ان تقریبات کا مقصد پاکستان اور دوسرے ملکوں کے ادیبوں شاعروں کا مل بیٹھنا اور گپ شپ کرنا اور آب و ہوا کی تبدیلی وغیرہ ہے تو بلاشبہ یہ کانفرنسیں یہ ادبی میلے 101 فیصد کامیاب جا رہی ہیں اور اگر ان دعوتوں کا مقصد ادب کا فروغ ہے تو ہم انتہائی معذرت کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ یہ کانفرنسیں یہ میلے ٹھیلے اس مقصد میںکسی حد تک ناکام نظر آتی ہیں۔ان میںعام آدمی کی شرکت ابھی بھی کم ہے۔ پھر اس قسم کی کانفرنسیں اور میلے دو چار دنوں پر مشتمل ہوتے ہیں اور یہ پر رونق دو چار دن گزر جاتے ہیں تو ان کی حیثیت رات گئی بات گئی جیسی ہو جاتی ہے۔
متحدہ ہندوستان میں بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں سجاد ظہیر اور ان کے ساتھیوں نے جس ادبی جدوجہد کا آغاز کیا تھا غالباً اس کا مقصد ادب برائے زندگی کے کلچر کا فروغ کے ساتھ ساتھ برصغیر کے بھوکے پیاسے، غربت و افلاس کے مارے عوام میں یہ شعور پیدا کرنا تھا کہ وہ جن معاشی عذابوں میں صدیوں سے گھرے ہوئے ہیں وہ نہ تقدیر کا لکھا ہے نہ خدا کی مرضی بلکہ یہ عذاب سرمایہ دارانہ اور جاگیر دارانہ نظاموں کے مسلط کردہ ہیں اورنظام بدلنا عوام کی ذمے داری ہی نہیں بلکہ ان کا حق بھی ہے، اس کے ساتھ ساتھ اس ادب کا ایک بڑا مقصد انسانوں کے درمیان بلاامتیاز مذہب و ملت محبت اور بھائی چارے کا فروغ بھی تھا اور اس دور کے ادیبوں نے اپنا یہ ادبی فرض پوری ادبی دیانت کے ساتھ ادا کیا جس کی پذیرائی پورے ملک میں کی گئی ۔
تقسیم سے پہلے اور تقسیم کے بعد کے معاشرتی حالات میں بڑا فرق تھا ۔ادب کو زندگی کی تصویر کہا جاتا ہے تقسیم سے پہلے کا ادب تو زندگی کی تصویر و تفسیر تھا لیکن تقسیم کے بعد کا ادب ایسا تقسیم ہوا کہ خود تصویر عبرت بن گیا۔ پاکستان میں تو ادب اور ادیب صوبائی اور مرکزی محکمہ اطلاعات کی تحویل میں چلے گئے۔ خیر اس وقت ہم اس بحث میں اس لیے نہیں پڑنا چاہتے کہ ادیب بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور معاشرہ جو رنگ اختیار کرتا ہے ادب اور ادیب بھی اس سے بچ نہیں سکتے لیکن چونکہ عشروں بعد ادبی سرگرمیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں تو ہم جیسے 1935 کی پیداوار کو یہ خیال بہرحال ستا رہا ہے کہ ادب کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے کیا اس کا تعلق عوام، عوام کی زندگی اور ادب کے فروغ سے ہے؟
ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہ انسانوں کا معاشرہ اس لیے نہیں کہلایا جاسکتا کہ انسانی معاشرے پر حیوانوں اور درندوں نے قبضہ کرلیا ہے، جنگل کے حیوان تو اپنی پیٹ کی بھوک مٹانے کی مجبوری کے لیے جنگلی جانوروں کا شکار کرتے ہیں لیکن ملک بھر کے شہروں میں جو دہشت گرد گھس آئے ہیں، وہ اپنے پیٹ کی نہیں اپنی بے شناخت بے سمت نظریاتی بھوک مٹانے کے لیے انسانوں کا شکار کر رہے ہیں، 18 کروڑ غریب عوام اپنی غربت کو بھول کر اپنی اور اپنے بچوں کی جان بچانے کی فکر میں مبتلا ہوگئے ہیں، ملک کا کوئی شہر اور شہر کا کوئی شہری ان درندوں کی پہنچ سے باہر نہیں، انسانی جانیں کیڑے مکوڑوں سے زیادہ سستی ہوگئی ہیں، عوام کی غیر محفوظ زندگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری محترم عدالت عظمیٰ کے معزز جج عوام کو یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ جب گھروں سے باہر نکلیں تو اپنے بازوؤں پر امام ضامن باندھ کر نکلیں۔ حکومت ان سے نمٹنے کے بجائے ان سے مذاکرات کی ناکام کوشش کر رہی ہے، پولیس، رینجرز اور فوج اس عفریت کے خاتمے کے لیے کوشش کر رہی ہے اور اپنی جانیں بھی دے رہی ہے۔لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والا معاملہ ہے، ہر طرف ایک دہشت اور مایوسی کی کیفیت ہے۔ 1947 میں ہندو مسلمانوں کو اور مسلمان ہندوؤں کو قتل کر رہے تھے، آج مسلمان مسلمان کو انتہائی سفاکی سے قتل کر رہا ہے ،پاکستانی معاشرہ شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی، سندھی، پنجابی، مہاجر، پٹھان اور بلوچ میں بٹ گیا ہے اور بے دردی سے مسلمان مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں۔
ایسے خوفزدہ معاشرے میں ادبی اور ثقافتی پروگراموں کا انعقاد یقیناً ایک جرأت مندانہ اور حوصلہ افزا کوشش تو کہی جاسکتی ہے لیکن اصل مسئلہ وحشت و بربریت کی انتہا پر پہنچے ہوئے معاشرے میں فکری تبدیلی لانے کا ہے۔ حکومتیں انتظامی اداروں کے ذریعے اس وحشت کو روکنے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن یہ کوششیں یا تو بے اثر نظر آرہی ہیں یا مختصر مدتی۔ معاشرے میں ایک مثبت فکری تبدیلی کی ضرورت ہے اور یہ تبدیلی ادب برائے زندگی ہی سے لائی جاسکتی ہے۔ ملک تباہی کے جس دہانے پر پہنچ گیا ہے اس کا تقاضہ یہ ہے کہ ادبی کانفرنسوں ادبی میلوں کے ساتھ ساتھ ادبی کتابوں کو عوام تک پہنچانے کا راستہ تلاش کیا جائے متحدہ ہندوستان میں جو ادب تخلیق کیا گیا تھا وہ تقسیم کے المیوں کی عکاسی کرتا تھا اس ادب نے انسانوں کے درمیان محبت اور بھائی چارہ پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان میں بھی ان حوالوں سے اچھا افسانہ لکھا گیا ہے لیکن تقسیم اور عوام تک رسائی کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے یہ ادب ادیبوں کے اسٹوروں میں پڑا سڑ رہا ہے۔ تقسیم کے بعد کراچی کے چپے چپے پر کیبن لائبریریاں قائم کی گئی تھیں جہاں معروف ادیبوں کی کتابیں فروخت بھی ہوتی تھیں کرایے پر بھی دستیاب ہوتی تھیں چونکہ یہ اہم کام ادبی انجمنیں انجام نہیں دے پا رہی ہیں لہٰذا ہم سندھ کے گورنر اور وزیر اعلیٰ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ایسی ادبی لائبریریاں قائم کرنے کے لیے بے کار نوجوانوں کو چھوٹے قرض دیں اور شہر بھر میں کیبن لائبریریوں کا جال بچھا دیں یہ قرض قابل واپس بھی ہوگا اور ادب کے فروغ کا موثر ذریعہ بھی بنے گا جو معاشرے کو سدھارنے میں بہترین کردار ادا کرسکتا ہے۔
ادیبوں شاعروں کی تعداد کا ذکر تو ہم نے برسبیل تذکرہ کیا، اصل میں ہم ادبی سرگرمیوں کی افادیت، اہمیت اور ان کے اثرات کا جائزہ لینا چاہتے تھے۔ بڑھتی پھلتی پھولتی ادبی سرگرمیوں کی وجہ سال میں دو چار بلکہ اس سے زیادہ ادبی میلے لگ رہے ہیں اور میڈیا کی مہربانی سے عام لوگ بھی ادب اور ادیبوں سے واقف ہو رہے ہیں لیکن ان حوالوں سے ایک سوال بہرحال ذہن میں آتا ہے کہ ان ادبی میلوں ٹھیلوں کا مقصد کیا ہے؟ اگر ان تقریبات کا مقصد پاکستان اور دوسرے ملکوں کے ادیبوں شاعروں کا مل بیٹھنا اور گپ شپ کرنا اور آب و ہوا کی تبدیلی وغیرہ ہے تو بلاشبہ یہ کانفرنسیں یہ ادبی میلے 101 فیصد کامیاب جا رہی ہیں اور اگر ان دعوتوں کا مقصد ادب کا فروغ ہے تو ہم انتہائی معذرت کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ یہ کانفرنسیں یہ میلے ٹھیلے اس مقصد میںکسی حد تک ناکام نظر آتی ہیں۔ان میںعام آدمی کی شرکت ابھی بھی کم ہے۔ پھر اس قسم کی کانفرنسیں اور میلے دو چار دنوں پر مشتمل ہوتے ہیں اور یہ پر رونق دو چار دن گزر جاتے ہیں تو ان کی حیثیت رات گئی بات گئی جیسی ہو جاتی ہے۔
متحدہ ہندوستان میں بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں سجاد ظہیر اور ان کے ساتھیوں نے جس ادبی جدوجہد کا آغاز کیا تھا غالباً اس کا مقصد ادب برائے زندگی کے کلچر کا فروغ کے ساتھ ساتھ برصغیر کے بھوکے پیاسے، غربت و افلاس کے مارے عوام میں یہ شعور پیدا کرنا تھا کہ وہ جن معاشی عذابوں میں صدیوں سے گھرے ہوئے ہیں وہ نہ تقدیر کا لکھا ہے نہ خدا کی مرضی بلکہ یہ عذاب سرمایہ دارانہ اور جاگیر دارانہ نظاموں کے مسلط کردہ ہیں اورنظام بدلنا عوام کی ذمے داری ہی نہیں بلکہ ان کا حق بھی ہے، اس کے ساتھ ساتھ اس ادب کا ایک بڑا مقصد انسانوں کے درمیان بلاامتیاز مذہب و ملت محبت اور بھائی چارے کا فروغ بھی تھا اور اس دور کے ادیبوں نے اپنا یہ ادبی فرض پوری ادبی دیانت کے ساتھ ادا کیا جس کی پذیرائی پورے ملک میں کی گئی ۔
تقسیم سے پہلے اور تقسیم کے بعد کے معاشرتی حالات میں بڑا فرق تھا ۔ادب کو زندگی کی تصویر کہا جاتا ہے تقسیم سے پہلے کا ادب تو زندگی کی تصویر و تفسیر تھا لیکن تقسیم کے بعد کا ادب ایسا تقسیم ہوا کہ خود تصویر عبرت بن گیا۔ پاکستان میں تو ادب اور ادیب صوبائی اور مرکزی محکمہ اطلاعات کی تحویل میں چلے گئے۔ خیر اس وقت ہم اس بحث میں اس لیے نہیں پڑنا چاہتے کہ ادیب بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور معاشرہ جو رنگ اختیار کرتا ہے ادب اور ادیب بھی اس سے بچ نہیں سکتے لیکن چونکہ عشروں بعد ادبی سرگرمیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں تو ہم جیسے 1935 کی پیداوار کو یہ خیال بہرحال ستا رہا ہے کہ ادب کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے کیا اس کا تعلق عوام، عوام کی زندگی اور ادب کے فروغ سے ہے؟
ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہ انسانوں کا معاشرہ اس لیے نہیں کہلایا جاسکتا کہ انسانی معاشرے پر حیوانوں اور درندوں نے قبضہ کرلیا ہے، جنگل کے حیوان تو اپنی پیٹ کی بھوک مٹانے کی مجبوری کے لیے جنگلی جانوروں کا شکار کرتے ہیں لیکن ملک بھر کے شہروں میں جو دہشت گرد گھس آئے ہیں، وہ اپنے پیٹ کی نہیں اپنی بے شناخت بے سمت نظریاتی بھوک مٹانے کے لیے انسانوں کا شکار کر رہے ہیں، 18 کروڑ غریب عوام اپنی غربت کو بھول کر اپنی اور اپنے بچوں کی جان بچانے کی فکر میں مبتلا ہوگئے ہیں، ملک کا کوئی شہر اور شہر کا کوئی شہری ان درندوں کی پہنچ سے باہر نہیں، انسانی جانیں کیڑے مکوڑوں سے زیادہ سستی ہوگئی ہیں، عوام کی غیر محفوظ زندگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری محترم عدالت عظمیٰ کے معزز جج عوام کو یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ جب گھروں سے باہر نکلیں تو اپنے بازوؤں پر امام ضامن باندھ کر نکلیں۔ حکومت ان سے نمٹنے کے بجائے ان سے مذاکرات کی ناکام کوشش کر رہی ہے، پولیس، رینجرز اور فوج اس عفریت کے خاتمے کے لیے کوشش کر رہی ہے اور اپنی جانیں بھی دے رہی ہے۔لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی والا معاملہ ہے، ہر طرف ایک دہشت اور مایوسی کی کیفیت ہے۔ 1947 میں ہندو مسلمانوں کو اور مسلمان ہندوؤں کو قتل کر رہے تھے، آج مسلمان مسلمان کو انتہائی سفاکی سے قتل کر رہا ہے ،پاکستانی معاشرہ شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی، سندھی، پنجابی، مہاجر، پٹھان اور بلوچ میں بٹ گیا ہے اور بے دردی سے مسلمان مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں۔
ایسے خوفزدہ معاشرے میں ادبی اور ثقافتی پروگراموں کا انعقاد یقیناً ایک جرأت مندانہ اور حوصلہ افزا کوشش تو کہی جاسکتی ہے لیکن اصل مسئلہ وحشت و بربریت کی انتہا پر پہنچے ہوئے معاشرے میں فکری تبدیلی لانے کا ہے۔ حکومتیں انتظامی اداروں کے ذریعے اس وحشت کو روکنے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن یہ کوششیں یا تو بے اثر نظر آرہی ہیں یا مختصر مدتی۔ معاشرے میں ایک مثبت فکری تبدیلی کی ضرورت ہے اور یہ تبدیلی ادب برائے زندگی ہی سے لائی جاسکتی ہے۔ ملک تباہی کے جس دہانے پر پہنچ گیا ہے اس کا تقاضہ یہ ہے کہ ادبی کانفرنسوں ادبی میلوں کے ساتھ ساتھ ادبی کتابوں کو عوام تک پہنچانے کا راستہ تلاش کیا جائے متحدہ ہندوستان میں جو ادب تخلیق کیا گیا تھا وہ تقسیم کے المیوں کی عکاسی کرتا تھا اس ادب نے انسانوں کے درمیان محبت اور بھائی چارہ پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان میں بھی ان حوالوں سے اچھا افسانہ لکھا گیا ہے لیکن تقسیم اور عوام تک رسائی کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے یہ ادب ادیبوں کے اسٹوروں میں پڑا سڑ رہا ہے۔ تقسیم کے بعد کراچی کے چپے چپے پر کیبن لائبریریاں قائم کی گئی تھیں جہاں معروف ادیبوں کی کتابیں فروخت بھی ہوتی تھیں کرایے پر بھی دستیاب ہوتی تھیں چونکہ یہ اہم کام ادبی انجمنیں انجام نہیں دے پا رہی ہیں لہٰذا ہم سندھ کے گورنر اور وزیر اعلیٰ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ایسی ادبی لائبریریاں قائم کرنے کے لیے بے کار نوجوانوں کو چھوٹے قرض دیں اور شہر بھر میں کیبن لائبریریوں کا جال بچھا دیں یہ قرض قابل واپس بھی ہوگا اور ادب کے فروغ کا موثر ذریعہ بھی بنے گا جو معاشرے کو سدھارنے میں بہترین کردار ادا کرسکتا ہے۔