رواداری کے دورکا خاتمہ 

مذہب کے تابع حقیقی جمہوری ریاست قائم ہوسکتی ہے لیکن منور حسن مزاحمتی سیاست کے حوالے سے یاد رکھے جائیں گے۔

tauceeph@gmail.com

حسین نقی کا رات گئے فون آیا۔ انھوں نے کہا ''تمہارے لیے اچھی خبر ہے'' میں نے پوچھا ''کیا خبر ہے؟'' فرمایا ''میری اہلیہ کا کہنا ہے کہ اس ملک میں سوشل ازم نافذ نہیں ہوسکتا'' پھر سید منور حسن کی اہلیہ نے حسین نقی کی اہلیہ کو جماعت اسلامی کے مرکزی دفتر کے دورہ کی دعوت دی۔ نقی صاحب کی اہلیہ نے سارا دن جماعت اسلامی کے مرکز میں گزارا۔ پھر رات گئے نقی صاحب کا ٹیلی فون آیا ۔

نقی نے زور سے کہا '' سید تمہارے لیے بری خبر ہے۔ میری اہلیہ کا تجزیہ ہے کہ اس ملک میں اسلامی نظام بھی نافذ نہیں ہوسکتا۔'' یہ تھے منور حسن۔ منور حسن نے اپنے تعلیمی دور کا پہلا سال بائیں بازو کی طلبہ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں گزارا۔ پھر مولانا مودودی کے فلسفہ سے متاثر ہوئے، اسلامی جمعیت میں متحرک رہے۔ طالب علمی کے دور سے فارغ ہوئے تو جماعت اسلامی میں شامل ہوئے۔ وہ جماعت اسلامی میں مختلف عہدوں پر رہے، پھر امیر کے عہدہ پر فائز ہوئے مگر اگلی مدت کے لیے جماعت اسلامی کے صالحین نے انھیں مسترد کردیا۔

ان کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو ایک طرف وہ اپنے نظریات پر مستحکم نظر آتے ہیں اور بعض اوقات انتہاپسند کہلاتے ہیں مگر دوسرا پہلو یہ تھا کہ اپنے دورکے بائیں بازو کے رہنماؤں حسین نقی، معراج محمد خان، جوہر حسین اور نفیس صدیقی وغیرہ ان کے ذاتی دوستوں میں شامل تھے۔ منور حسن کے قریبی ساتھی پروفیسر سعید عثمانی کا کہنا ہے کہ ''منور حسن نے اپنی عملی زندگی کے آغاز کے ساتھ ہی خود کو عوام سے منسلک کرنے کی جستجو کی۔

جب یونیورسٹی سے فارغ ہوئے تو جماعت کے اکابرین نے پیشکش کی کہ وہ برطانیہ چلے جائیں اور لیسٹر میں قائم اسلامک فاؤنڈیشن میں اسکالرکی حیثیت سے کام کریں مگر منور حسن نے اس پیشکش کو خوش دلی سے مسترد کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان میں رہ کر کام کرنا چاہتے ہیں۔ یوں وہ کراچی میں قائم اسلامک ریسرچ اکیڈمی سے منسلک ہوگئے۔کچھ صاحب ثروت افراد نے ان کو پیشکش کی کہ وہ ان کے کاروبار میں بغیر سرمایہ کے حصہ دار (Sleeping Partner) بن جائیں۔ یہ لوگ ان کا نام استعمال کرنا چاہتے تھے اور اس کے عوض خطیر رقم ادا کرتے۔ انھوں نے ان لوگوں کو جواب دیا کہ وہ کاروبار کرنے پر یقین نہیں رکھتے۔

بتایا جاتا ہے کہ 1970ء کے انتخابات میں منور حسن کراچی جماعت اسلامی کی مہم کے انچارج تھے۔ 1970ء میں اچانک جمعیت علمائے پاکستان منظم ہوگئی تھی۔ مولانا شاہ احمد نورانی جے یو پی کے رہنما تھے۔ منور حسن نے جے یو پی سے اتحادکی کوشش کی اور غلام مصطفی الازہری کی نشست پر تنازعہ ہوگیا۔ اس زمانہ میں جماعت اسلامی نے پورے ملک میں یوم شوکت اسلام دھوم دھام سے منایا تھا۔

جماعت اسلامی کی قیادت اس خوش فہمی کا شکار ہوگئی تھی کہ جماعت ملک میں اکثریتی جماعت کی حیثیت سے کامیاب ہوگی۔ اس بناء پر جماعت کے اہم رہنماؤں نے منور حسن کی بات کو اہمیت نہ دی اور جے یو پی سے اتحاد نہ ہوسکا۔ جماعت اسلامی پورے ملک میں صرف چار نشستوں پر کامیاب ہوئی۔ منور حسن ان لوگو ںمیں شامل تھے جنھوں نے 1970ء کے انتخابات میں شکست کے بعد یہ کہنا شروع کیا کہ بوڑھی قیادت کو مستعفی ہوجانا چاہیے اور نوجوانوں کو جماعت کی قیادت سنبھالنی چاہیے۔

جب 20 دسمبر 1971ء کو پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے تو جماعت اسلامی میں پروفیسر غفور احمد اور منور حسن نے یہ خیال پیش کیا کہ پیپلز پارٹی جلد ازجلد آئین بنائے اور مارشل لاء ختم ہو۔ یہی وجہ تھی کہ حزب اختلاف کی مذاکراتی ٹیم جس میں پروفیسر غفور شامل تھے، نے بھٹو صاحب پر زور دیا تو عبوری آئین بنا اور مارشل لاء ختم ہوا۔ اس وقت جماعت اسلامی کے چار اراکین قومی اسمبلی میں تھے۔ جماعت کے حمایت یافتہ ایک رکن مولانا ظفر احمد انصاری آزاد حیثیت رکھتے تھے۔


ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی ڈاکٹر نذیر اور دیر سے پیر صفی اﷲ کامیاب ہونے والے بنیادی طور پرکارکن تھے۔ دانشورانہ صلاحیتیں پروفیسر غفور اور محمود اعظم فاروقی میں تھیں، منور حسن پروفیسر غفورکی معاونت کرتے تھے۔ پروفیسر غفور اور منور حسن کا خیال تھا کہ ہر صورت میں ایک آئین تیار ہونا چاہیے تاکہ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت رک سکے۔

1973ء میں آئین کی تشکیل میں پروفیسر غفور اور منور حسن نے یہی مؤقف اختیارکیا۔ یہی وجہ تھی کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف 1977ء میں پی این اے کی تحریک میں جب حکومت سے مذاکرات ہوئے تو جماعت اسلامی میں دو مکتبہ فکر موجود تھے۔کراچی سے تعلق رکھنے والے پروفیسر غفور احمد، محمد اعظم فاروق اور منور حسن اس بات پر زور دے رہے تھے کہ حزب اختلاف اور حکومت کو کچھ نشستوں پر ضمنی انتخابات پر اتفاق رائے کرنا چاہیے تاکہ غیر جمہوری قوتوں کی مداخلت نہ ہوسکے مگر پی این اے میں موجود انتہاپسندوں نے ان کی کوششوں کو ناکام بنادیا۔

جب سوویت یونین نے افغانستان میں اپنی فوجیں بھیجیں تو جنرل ضیاء الحق نے امریکی صدر ریگن کی ایماء پر جہاد شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ پروفیسر سعید عثمانی کا کہنا ہے کہ منور حسن افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت کے سخت خلاف تھے مگر انھوں نے کارکنوں کو جہاد کے لیے دیگر ممالک بھیجنے کے خیال کی مخالفت کی۔

منور حسن کا کہنا تھا کہ اس جہاد میں شرکت سے سرمایہ آئے گا جس سے ہمارے ساتھی متاثر ہونگے، جو لوگ جہاد کے لیے جائیں گے وہ کسی کنٹرول میں نہیں رہیں گے اور انھیں اسٹیبلشمنٹ اپنے منفی مقاصد کے لیے استعمال کرسکے گی۔ جب 80ء کی دھائی میں حزب اختلاف کی جماعتیں تحریک بحالی جمہوریت اور ایم آر ڈی میں منظم ہوئیں تو منور حسن اور پروفیسر غفور احمد کی کوشش تھی کہ جماعت اسلامی اور ایم آر ڈی میں کوئی ہم آہنگی ہوجائے مگر ایسا نہ ہو سکا۔

1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں منور حسن نے کراچی میں پی ای سی ایچ ایس اور شاہ فیصل کالونی کی نشست سے قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا۔ ان کے مقابلہ میں ایک کمزور امیدوارکنور قطب الدین جس کا تعلق مسلم لیگ پگارا سے تھا کامیاب ہوئے۔ بعض باخبر لوگوں کا کہنا ہے کہ منور حسن کو اسٹیبلشمنٹ نے ان کے خیالات کی بناء پر سزا دی تھی۔

90ء کی دہائی کا آغاز کراچی میں امن و امان کی بد ترین صورتحال سے ہوا تھا۔ ایم کیو ایم کی طلبہ تنظیم آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے جنگجوؤں نے اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں پر حملے تیز کردیے تھے اور کئی کارکن جاں بحق ہوئے تھے۔ سید منور حسن کی ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سے ملاقات ہوئی اور ایم کیو ایم کے قائد نے کہا کہ آپ لوگوں کا زمانہ گزرگیا اور کام بندکردیں۔

منور حسن نے جواب دیا کہ ''ہم لوگوں نے ہر دور میں کام کیا ہے لہٰذا ہم کام جاری رکھیں گے'' مگر پھر جب صورتحال زیادہ خراب ہوئی تو جماعت اسلامی کی قیادت نے منور حسن کو لاہور بلالیا ۔ جب منور حسن جماعت اسلامی کے امیر بنے تو نئے مسائل جنم لے چکے تھے۔ جماعت اسلامی 1973ء کے آئین کے تحت قانونی جدوجہد کا عزم کررہی تھی۔ دیگر جہادی تنظیمیں نوجوانوں کو افغانستان اور کشمیر بھیج رہی تھیں۔ منور حسن جماعت اسلامی کے پہلے امیر تھے جنھیں دوسری مدت کے لیے منتخب نہیں کیا گیا۔

مارکسٹ بلوچ صحافی عزیر سنگور نے لکھا ہے کہ منورحسن ابتدائی دور میں ترقی پسند سوچ سے متاثر ہوئے، اگرچہ انھوں نے ترقی پسند نظریہ کو مسترد کیا مگر لاشعوری طور پر مزاحمتی سیاست کو اپنالیا اور ساری زندگی مزاحمتی سیاست کے امین رہے۔ وہ اسلامی اصولوں کے تحت جمہوری ریاست کے قیام کے خواہاں تھے۔ یہ مستقبل کا مؤرخ فیصلہ کرے گا کہ مذہب کے تابع حقیقی جمہوری ریاست قائم ہوسکتی ہے لیکن منور حسن مزاحمتی سیاست کے حوالے سے یاد رکھے جائیں گے۔
Load Next Story