ہم تب بھی دہائی دے رہے ہوں گے
اگر یہی رفتار بلا روک ٹوک رہی تو اگلے دس برس میں کشمیر کا شمار بھی ان علاقوں میں ہوگا جہاں آج مسلمان اقلیت میں ہیں۔
اگلے ماہ کی چار تاریخ کو مقبوضہ کشمیر کی نیم خودمختاری کے خاتمے کو ایک برس مکمل ہو جائے گا۔
مجھے یاد ہے جب گزشتہ پانچ اگست کو بھارتی وزیرِ داخلہ امیت شا نے ریاست جموں و کشمیر کی نیم خودمختارانہ حیثیت برقرار رکھنے والے بھارتی آئین کے آرٹیکل تین سو ستر اور پینتیس اے کو پارلیمنٹ کے ذریعے ناکارہ بنا کر ریاست کو دو حصوں میں بانٹ کر براہ راست مرکز کی نگرانی میں دینے کا اعلان کیا اور وہاں آہنی لاک ڈاؤن نافذ کر کے ریاست کا رابطہ بین الاقوامی دنیا سے منقطع کر دیا تو وزیرِ اعظم عمران خان اور وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے متعدد بار کہا کہ ایک بار لاک ڈاؤن اٹھنے کی دیر ہے کشمیریوں کا سیلاب سڑکوں اور گلیوں میں امڈ پڑے گا اور بھارتی قبضے کو بہا لے جائے گا۔
پچھلے ایک برس کے دوران بھارت نے اس ''ممکنہ انسانی سیلاب'' کو روکنے کے لیے متعدد ایسے کمر توڑ اقدامات کیے جن کے نتیجے میں کشمیری روزمرہ بنیادی حقوق اور معیشت کی چکی میں پس جائیں۔بس یوں سمجھیے جس طرح ایک گورے امریکی پولیس والے نے ایک سیاہ فام جارج فلائیڈ کی گردن پر مسلسل گھٹنا رکھ کے اس کی سانس روک دی۔بھارت یہی کام کشمیر کے ساتھ پچھلے گیارہ ماہ سے کر رہا ہے۔مگر کشمیر جارج فلائیڈ سے زیادہ سخت جان ثابت ہو رہا ہے۔
فروری سے بظاہر انٹر نیٹ بحال ہے مگر ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ عام شہری کی دسترس سے باہر ہے۔ بھارت نواز قیادت میں سے نیشنل کانفرنس کا عبداللہ خاندان گزشتہ تین ماہ سے آزاد ہے مگر سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہیں جب کہ محبوبہ مفتی مسلسل نظربند ہیں۔علیحدگی پسند حریت کانفرنس کے نوے سالہ رہنما سید علی گیلانی نے ضعیف العمری کے سبب قیادت سے باضابطہ علیحدگی اختیار کر لی ہے۔جب کہ یاسین ملک سمیت دیگر علیحدگی پسند رہنماؤں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ وہ ریاست کی کسی جیل میں ہیں یا بھارت کے کسی دور دراز عقوبت خانے میں کس طرح کے انسانی و طبی حالات میں ہیں۔
کچھ شہریوں کو بھارتی سپریم کورٹ سے امید تھی کہ وہ غیر انسانی لاک ڈاؤن کا نوٹس لے گی اور آرٹیکل تین سو ستر کی منسوخی کا آئین کی روشنی میں جائزہ لے کر اس اقدام کے جائز ناجائز ہونے پر کوئی رولنگ دے گی۔مگر آج گیارہ ماہ بعد بھی اس طرح کی ہر پٹیشن سپریم کورٹ تشریف تلے دبا کر بیٹھی ہے۔
مودی حکومت کو توقع تھی کہ کشمیر کی انتظامی شناخت کا تیا پانچا کر کے اور ہر گلی کے نکڑ پر دو دو سپاہی کھڑے کر کے، ہر پانچ سو گز پر چیک پوسٹ لگا کے ، ہر پندرہ پندرہ منٹ کے وقفے سے ہر بڑی شاہراہ سے فوج یا نیم فوجی سینٹرل ریزرو پولیس یا بارڈر سیکیورٹی فورس کا کوئی گشتی قافلہ گزار کے کشمیری بچوں کو کسی مہم جوئی میں پڑنے سے پہلے دس بار سوچنے کی عادت پڑ جائے گی۔
مگر خود ریاستی پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری سے اب تک کے چھ ماہ کے دوران ایک سو چالیس کے لگ بھگ '' انتہا پسند '' نوجوان فوج اور نیم فوجی دستوں سے مقابلے یا ٹارگٹڈ آپریشنز میں مارے جا چکے ہیں اور جتنے مارے جا رہے ہیں اتنے ہی اور بچے گھروں سے بھاگ رہے ہیں۔
زیادہ تر وہی بچے مارے جا رہے ہیں جن میں غصہ تو ہے اور کہیں سے ہتھیار بھی مل گیا ہے مگر اسلحے کے استعمال اور خود کو روپوش رکھنے کی بنیادی یا نامکمل تربیت کے سبب سرکاری جاسوسوںکے جال میں پھنس کر گھر سے فرار ہونے کے چند ہفتے یا مہینے بعد ہی موت کے سپرد ہو جاتے ہیں۔ان نوجوانوں میں بے روزگار بھی شامل ہیں، ٹھیلے والے بھی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ پروفیشنلز بھی۔بلکہ ایک کیس میں تو پی ایچ ڈی کا ایک طالبِ علم بھی پچھلے دو ماہ سے غائب ہے اور اس کے گھر والوں کو یقین ہے کہ اب وہ زندہ نہیں لوٹے گا۔
مقبوضہ انتظامیہ نے لوگوں کو کنٹرول کرنے کے لیے یہ طریقہ بھی اپنایا ہے کہ اب وہ کسی نوجوان کی لاش ورثا کے حوالے نہیں کرتے تاکہ کشمیریوں کو جلوسِ جنازہ کے بہانے ہزاروں کی تعداد میں اکٹھا ہونے اور ہنگامہ آرائی کا موقع نہ مل سکے۔
کسی بھی دن کسی بھی کشمیری نوجوان کے باپ یا بھائی وغیرہ کو فون آتا ہے کہ فلاں چیک پوسٹ یا چھاؤنی میں آ کر اپنے فلاں بچے سے ملاقات کر لیں۔اس کا مطلب ہے کہ لاش کا آخری دیدار کر لیں۔چنانچہ اس دیدار کے بعد لاش ورثا کے حوالے کرنے کے بجائے کسی نامعلوم مقام پر دفن کر دی جاتی ہے۔
ایک نیا رجحان یہ بھی شروع ہوا ہے کہ ریاستی انتظامیہ جموں کے ہندو اکثریتی علاقوں کی طرح وادی کے مسلم اکثریتی علاقوں میں بھی شراب کی فروخت کے کاروبار کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے اور منشیات کا حصول پہلے سے زیادہ آسان ہوتا جا رہا ہے۔ مقصد شاید یہ ہے کہ طویل لاک ڈاؤن کی شکار غصے سے بھری بے روزگار نسل کو نشے کے راستے پر دھکیل کے بے ضرر بنا دیا جائے۔
ایسے وقت جب باقی دنیا کی توجہ کا مرکز کورونا سے نپٹنا اور اس کے اقتصادی تھپیڑوں سے خود کو بچانا ہے۔بھارت نے موقع غنیمت جان کر کشمیر کی شہریت کے پرانے قانون آرٹیکل پینتیس اے کی منسوخی کے بعد اب ریاست کی شہریت غیر کشمیری بھارتیوں کے لیے کھول دی ہے۔گویا کشمیر کے دردِ سر کا مستقل حل کشمیریوں کو اپنی ہی ریاست میں اقلیت میں بدل کر نافذ کرنے کا آغاز ہو چکا ہے۔
ہر وہ بھارتی شہری جو ریاست میں کسی ملازمت، کاروبار یا تعلیمی مقاصد کی خاطر پندرہ برس گذار چکا ہے یا کشمیر میں رہتے ہوئے ریاستی تعلیمی بورڈ کے تحت میٹرک یا انٹرمیڈیٹ کا امتحان دے چکا ہے وہ اور اس کے بچے کشمیر میں رہنے، جائیداد خریدنے، تعلیمی اسکالر شپس یا ملازمتی کوٹے میں حصے دار تصور ہوں گے۔نیز پارٹیشن کے بعد پاکستان کے مختلف علاقوں سے ہجرت کر کے مقبوضہ کشمیر میں بسنے والے لاکھوں غیر مسلم مہاجرین اور ان کی آل اولاد بھی کشمیری شہریت کی حق دار ہے۔
جون کے آخر تک تینتیس ہزار درخواست گزاروں میں سے پچیس ہزار کو ڈومیسائل جاری ہو چکا ہے۔ڈومیسائل درخواست دیے جانے کے چودہ دن کے اندر ہی جاری ہو جاتا ہے۔ اگر متعلقہ سرکاری اہل کار ڈومیسائل کے اجرا میں بغیر کسی ٹھوس جواز کے تاخیر کرے تواسے پچاس ہزار روپے جرمانے کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔جب کہ بھارت کی ایک اور ریاست آسام جہاں بے جے پی کی حکومت ہے۔وہاں کسی بھی درخواست گذار کو ڈومیسائل جاری کرنے کی اوسط مدت دو برس ہے اور کوئی بھی مقامی شہری کسی بھی درخواست پر اعتراض کر دے تو اس اعتراض کو دور کرنا لازمی ہے۔مگر کشمیر میں ڈومیسائل کی رعایتی سیل لگ چکی ہے۔درخواست گذار کے کوائف کی سرسری سی چھان بین ہوتی ہے اور سرٹیفکیٹ جاری ہو جاتا ہے۔ پہلے آئیے پہلے پائیے جلدی آئیے جلدی پائیے۔
اگر یہی رفتار بلا روک ٹوک رہی تو اگلے دس برس میں کشمیر کا شمار بھی ان علاقوں میں ہوگا جہاں آج مسلمان اقلیت میں ہیں۔ویسے مودی حکومت نے آیندہ ڈیڑھ دو برس میں لداخ اور جموں و کشمیر نام کی دو نئی ریاستوں کی تشکیل کے منصوبے پر کام تیز کر رکھا ہے۔نئی حلقہ بندیوں کے تحت جو بھی ریاستی اسمبلی تشکیل پائے گی اس میں جموں کی نشستیں وادی کی نشستوں سے زیادہ ہوں گی۔یعنی آیندہ نئی ریاست کا جو بھی وزیر اعلیٰ ہوگا وہ جموں سے ہو گا اور ننانوے فیصد امکان ہے کہ غیر مسلم ہو گا۔
ہم شاید تب بھی اقوامِ متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہوں گے یا پھر عالمی برادری کے آگے جھولی پھیلائے دہائی دے رہے ہوں گے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
مجھے یاد ہے جب گزشتہ پانچ اگست کو بھارتی وزیرِ داخلہ امیت شا نے ریاست جموں و کشمیر کی نیم خودمختارانہ حیثیت برقرار رکھنے والے بھارتی آئین کے آرٹیکل تین سو ستر اور پینتیس اے کو پارلیمنٹ کے ذریعے ناکارہ بنا کر ریاست کو دو حصوں میں بانٹ کر براہ راست مرکز کی نگرانی میں دینے کا اعلان کیا اور وہاں آہنی لاک ڈاؤن نافذ کر کے ریاست کا رابطہ بین الاقوامی دنیا سے منقطع کر دیا تو وزیرِ اعظم عمران خان اور وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے متعدد بار کہا کہ ایک بار لاک ڈاؤن اٹھنے کی دیر ہے کشمیریوں کا سیلاب سڑکوں اور گلیوں میں امڈ پڑے گا اور بھارتی قبضے کو بہا لے جائے گا۔
پچھلے ایک برس کے دوران بھارت نے اس ''ممکنہ انسانی سیلاب'' کو روکنے کے لیے متعدد ایسے کمر توڑ اقدامات کیے جن کے نتیجے میں کشمیری روزمرہ بنیادی حقوق اور معیشت کی چکی میں پس جائیں۔بس یوں سمجھیے جس طرح ایک گورے امریکی پولیس والے نے ایک سیاہ فام جارج فلائیڈ کی گردن پر مسلسل گھٹنا رکھ کے اس کی سانس روک دی۔بھارت یہی کام کشمیر کے ساتھ پچھلے گیارہ ماہ سے کر رہا ہے۔مگر کشمیر جارج فلائیڈ سے زیادہ سخت جان ثابت ہو رہا ہے۔
فروری سے بظاہر انٹر نیٹ بحال ہے مگر ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ عام شہری کی دسترس سے باہر ہے۔ بھارت نواز قیادت میں سے نیشنل کانفرنس کا عبداللہ خاندان گزشتہ تین ماہ سے آزاد ہے مگر سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہیں جب کہ محبوبہ مفتی مسلسل نظربند ہیں۔علیحدگی پسند حریت کانفرنس کے نوے سالہ رہنما سید علی گیلانی نے ضعیف العمری کے سبب قیادت سے باضابطہ علیحدگی اختیار کر لی ہے۔جب کہ یاسین ملک سمیت دیگر علیحدگی پسند رہنماؤں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ وہ ریاست کی کسی جیل میں ہیں یا بھارت کے کسی دور دراز عقوبت خانے میں کس طرح کے انسانی و طبی حالات میں ہیں۔
کچھ شہریوں کو بھارتی سپریم کورٹ سے امید تھی کہ وہ غیر انسانی لاک ڈاؤن کا نوٹس لے گی اور آرٹیکل تین سو ستر کی منسوخی کا آئین کی روشنی میں جائزہ لے کر اس اقدام کے جائز ناجائز ہونے پر کوئی رولنگ دے گی۔مگر آج گیارہ ماہ بعد بھی اس طرح کی ہر پٹیشن سپریم کورٹ تشریف تلے دبا کر بیٹھی ہے۔
مودی حکومت کو توقع تھی کہ کشمیر کی انتظامی شناخت کا تیا پانچا کر کے اور ہر گلی کے نکڑ پر دو دو سپاہی کھڑے کر کے، ہر پانچ سو گز پر چیک پوسٹ لگا کے ، ہر پندرہ پندرہ منٹ کے وقفے سے ہر بڑی شاہراہ سے فوج یا نیم فوجی سینٹرل ریزرو پولیس یا بارڈر سیکیورٹی فورس کا کوئی گشتی قافلہ گزار کے کشمیری بچوں کو کسی مہم جوئی میں پڑنے سے پہلے دس بار سوچنے کی عادت پڑ جائے گی۔
مگر خود ریاستی پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری سے اب تک کے چھ ماہ کے دوران ایک سو چالیس کے لگ بھگ '' انتہا پسند '' نوجوان فوج اور نیم فوجی دستوں سے مقابلے یا ٹارگٹڈ آپریشنز میں مارے جا چکے ہیں اور جتنے مارے جا رہے ہیں اتنے ہی اور بچے گھروں سے بھاگ رہے ہیں۔
زیادہ تر وہی بچے مارے جا رہے ہیں جن میں غصہ تو ہے اور کہیں سے ہتھیار بھی مل گیا ہے مگر اسلحے کے استعمال اور خود کو روپوش رکھنے کی بنیادی یا نامکمل تربیت کے سبب سرکاری جاسوسوںکے جال میں پھنس کر گھر سے فرار ہونے کے چند ہفتے یا مہینے بعد ہی موت کے سپرد ہو جاتے ہیں۔ان نوجوانوں میں بے روزگار بھی شامل ہیں، ٹھیلے والے بھی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ پروفیشنلز بھی۔بلکہ ایک کیس میں تو پی ایچ ڈی کا ایک طالبِ علم بھی پچھلے دو ماہ سے غائب ہے اور اس کے گھر والوں کو یقین ہے کہ اب وہ زندہ نہیں لوٹے گا۔
مقبوضہ انتظامیہ نے لوگوں کو کنٹرول کرنے کے لیے یہ طریقہ بھی اپنایا ہے کہ اب وہ کسی نوجوان کی لاش ورثا کے حوالے نہیں کرتے تاکہ کشمیریوں کو جلوسِ جنازہ کے بہانے ہزاروں کی تعداد میں اکٹھا ہونے اور ہنگامہ آرائی کا موقع نہ مل سکے۔
کسی بھی دن کسی بھی کشمیری نوجوان کے باپ یا بھائی وغیرہ کو فون آتا ہے کہ فلاں چیک پوسٹ یا چھاؤنی میں آ کر اپنے فلاں بچے سے ملاقات کر لیں۔اس کا مطلب ہے کہ لاش کا آخری دیدار کر لیں۔چنانچہ اس دیدار کے بعد لاش ورثا کے حوالے کرنے کے بجائے کسی نامعلوم مقام پر دفن کر دی جاتی ہے۔
ایک نیا رجحان یہ بھی شروع ہوا ہے کہ ریاستی انتظامیہ جموں کے ہندو اکثریتی علاقوں کی طرح وادی کے مسلم اکثریتی علاقوں میں بھی شراب کی فروخت کے کاروبار کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے اور منشیات کا حصول پہلے سے زیادہ آسان ہوتا جا رہا ہے۔ مقصد شاید یہ ہے کہ طویل لاک ڈاؤن کی شکار غصے سے بھری بے روزگار نسل کو نشے کے راستے پر دھکیل کے بے ضرر بنا دیا جائے۔
ایسے وقت جب باقی دنیا کی توجہ کا مرکز کورونا سے نپٹنا اور اس کے اقتصادی تھپیڑوں سے خود کو بچانا ہے۔بھارت نے موقع غنیمت جان کر کشمیر کی شہریت کے پرانے قانون آرٹیکل پینتیس اے کی منسوخی کے بعد اب ریاست کی شہریت غیر کشمیری بھارتیوں کے لیے کھول دی ہے۔گویا کشمیر کے دردِ سر کا مستقل حل کشمیریوں کو اپنی ہی ریاست میں اقلیت میں بدل کر نافذ کرنے کا آغاز ہو چکا ہے۔
ہر وہ بھارتی شہری جو ریاست میں کسی ملازمت، کاروبار یا تعلیمی مقاصد کی خاطر پندرہ برس گذار چکا ہے یا کشمیر میں رہتے ہوئے ریاستی تعلیمی بورڈ کے تحت میٹرک یا انٹرمیڈیٹ کا امتحان دے چکا ہے وہ اور اس کے بچے کشمیر میں رہنے، جائیداد خریدنے، تعلیمی اسکالر شپس یا ملازمتی کوٹے میں حصے دار تصور ہوں گے۔نیز پارٹیشن کے بعد پاکستان کے مختلف علاقوں سے ہجرت کر کے مقبوضہ کشمیر میں بسنے والے لاکھوں غیر مسلم مہاجرین اور ان کی آل اولاد بھی کشمیری شہریت کی حق دار ہے۔
جون کے آخر تک تینتیس ہزار درخواست گزاروں میں سے پچیس ہزار کو ڈومیسائل جاری ہو چکا ہے۔ڈومیسائل درخواست دیے جانے کے چودہ دن کے اندر ہی جاری ہو جاتا ہے۔ اگر متعلقہ سرکاری اہل کار ڈومیسائل کے اجرا میں بغیر کسی ٹھوس جواز کے تاخیر کرے تواسے پچاس ہزار روپے جرمانے کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔جب کہ بھارت کی ایک اور ریاست آسام جہاں بے جے پی کی حکومت ہے۔وہاں کسی بھی درخواست گذار کو ڈومیسائل جاری کرنے کی اوسط مدت دو برس ہے اور کوئی بھی مقامی شہری کسی بھی درخواست پر اعتراض کر دے تو اس اعتراض کو دور کرنا لازمی ہے۔مگر کشمیر میں ڈومیسائل کی رعایتی سیل لگ چکی ہے۔درخواست گذار کے کوائف کی سرسری سی چھان بین ہوتی ہے اور سرٹیفکیٹ جاری ہو جاتا ہے۔ پہلے آئیے پہلے پائیے جلدی آئیے جلدی پائیے۔
اگر یہی رفتار بلا روک ٹوک رہی تو اگلے دس برس میں کشمیر کا شمار بھی ان علاقوں میں ہوگا جہاں آج مسلمان اقلیت میں ہیں۔ویسے مودی حکومت نے آیندہ ڈیڑھ دو برس میں لداخ اور جموں و کشمیر نام کی دو نئی ریاستوں کی تشکیل کے منصوبے پر کام تیز کر رکھا ہے۔نئی حلقہ بندیوں کے تحت جو بھی ریاستی اسمبلی تشکیل پائے گی اس میں جموں کی نشستیں وادی کی نشستوں سے زیادہ ہوں گی۔یعنی آیندہ نئی ریاست کا جو بھی وزیر اعلیٰ ہوگا وہ جموں سے ہو گا اور ننانوے فیصد امکان ہے کہ غیر مسلم ہو گا۔
ہم شاید تب بھی اقوامِ متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہوں گے یا پھر عالمی برادری کے آگے جھولی پھیلائے دہائی دے رہے ہوں گے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)