الٹی گنگا
بچپن کا زمانہ بڑی نایاب اور انمول شے ہے۔ یہ دور انسان کی وہ قیمتی متاع ہے، جس کے کھوجانے کا غم انسان کو ۔۔۔
ایک صاحب روزانہ آفس جاتے ہوئے ایک ایسے فقیر کے پاس سے گزرتے ، جس کے ایک ہاتھ میں ماچس کا بنڈل ہوتا اور دوسرا ہاتھ بھیک کے لیے پھیلا ہوا ہوتا ۔اس قسم کے فقیروں کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے، جو یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ وہ محنت مزدوری کرنے نکلے ہیں،لیکن '' دھندہ '' نہ ہونے کے باعث بھیک بھی مجبوراً قبول کر لیتے ہیں ۔ ویسے ان کا اصل مقصد،اکثر و بیشتر پولیس کی جانب سے گدا گروں کے خلاف چلائی جانے والی مہم کے دوران پکڑ دھکڑ سے بچنا ہوتا ہے ۔وہ صاحب روزانہ اس فقیر کو ایک روپیہ دیتے مگر ماچس نہیں لیتے تھے ۔
برسوں سے ان کا یہی معمول تھا ۔ ایک دن روپیہ لینے کے بعد فقیر نے ان صاحب کو روکا اور برا سا منہ بنا کر بولا '' صاحب ماچس اب دو روپے کی ہو گئی ہے ۔ میں کافی عرصے سے پرانی جان پہچان کے باعث مروتاً آپ سے ایک روپیہ لیتا رہا ہوں ، لیکن مہنگائی اتنی زیادہ ہوچکی ہے کہ اب ایک روپیہ سے کام نہیں چلے گا ۔ اس لیے کل سے ماچس کی پوری قیمت لیا کروں گا ۔ آپ نے دو روپے کی ماچس لینی ہے تو ٹھیک ہے ، ورنہ جہاں سے بھی آپ کو ایک روپے کی ماچس ملے ، وہاں سے لے لیا کیجیے۔ '' '' لیکن میں نے آج تک ماچس تو کبھی لی ہی نہیں '' وہ صاحب حیران ہو کر بولے ۔ فقیر نے ناگواری سے جواب دیا '' میں بہرحال آج کے بعد ایک روپے میں اپنی ماچس فروخت نہیں کروں گا ۔ آپ کا دل چاہے تو لیجیے اور دل نہ چاہے تو نہ لیجیے ۔''
ان صاحب کا منہ حیرت سے کھلا اور غصے کی زیادتی کے باعث فوراً ہی بند ہوگیا ۔ پھر وہ بڑ بڑاتے ہوئے آگے بڑھ گئے ۔ اگر یہ صاحب اخبارات پڑھنے یا پھر نیوز چینلز پر خبریں دیکھنے کے عادی ہوتے تو فقیر کی بات سننے کے بعد نہ تو حیرت میں مبتلا ہوتے اور نہ ہی انھیں غصہ آتا ۔ کیونکہ اگر وہ اخبار پڑھنے کے شوقین ہوتے تو ہمارے وزرائے اعظم اور وزرائے خزانہ کا یہ بیان ضرور ان کی نظروں سے گزرتا کہ '' اپنی شرائط پر ، قرضہ یا امداد یعنی بھیک لیں گے '' ہمارے حکمران بین الاقوامی مہاجنوں سے جب قرض اور امداد لینے کے لیے گفت و شنید کا ڈول ڈالتے ہیں تو اکثر اس جملے کی تکرار سننے میں آتی ہے کہ '' اپنی شرائط پر قرضہ لیں گے '' یہ بین الاقوامی مہاجن ادارے جن کا نام عالمی بینک ، آئی ایم ایف اور ایشیائی ترقیاتی بینک وغیرہ وغیرہ ہے ۔
بڑے سمجھدار ہیں اور اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ معاملہ بالکل برعکس ہے ۔ اس ملک کے حکمران عوام کی تسلی اور ان کی خودی کو بلند رکھنے کی خاطر یہ گھسا پٹا ڈائیلاگ کہ '' ہم اپنی شرائط پر قرض لیں گے '' حسب معمول بول رہے ہیں ۔ جب کہ قرضہ دینے سے قبل یہ سود خور مہاجن دراصل اپنی شرائط منوانے پر مصر ہوتے ہیں اور ہمیشہ اس میں کامیاب بھی رہتے ہیں ۔ معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد ہمارے حکمران بالکل اسی طرح گردن اکڑا کر ، جیسے وہ ماچس فروخت کرنے والا فقیر رعونت کے ساتھ ایک روپے میں ماچس دینے سے انکار کر کے اکڑتا ہے ، امداد میں ملنے والی رقم کو زر مبادلہ کی رقم میں شامل کر کے فخر سے اعلان کرتے ہیں کہ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر اتنے ارب ڈالر ہوچکے ہیں ۔ پھر رفتہ رفتہ یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے ان سود خور اداروں کی کن کن ذلت آمیز شرائط پر دستخط کر کے عوام کی خود داری اور غیرت کا سودا کر لیا تھا ۔
مثلاً جیسے اب معلوم ہوا ہے کہ ہمارے حکمران قومی ائیر لائن یعنی پی آئی اے کی نجکاری اور اس کے ملازمین کے لیے گولڈن شیک ہینڈ اسکیم متعارف کروانے کے لیے معاہدے پر آئی ایم ایف کے ساتھ دستخط کر چکے ہیں اور اگلے ماہ سے ہی اس پر عمل درآمد شروع کیے جانے کا امکان ہے ۔ صرف پی آئی اے ہی نہیں بلکہ پاکستان اسٹیل ملز اور دیگر وہ قومی ادارے جو کبھی بھاری منافع قومی خزانے میں ڈالا کرتے تھے اسی قسم کے معاہدوں کی نذر ہونے والے ہیں ۔ وہ پی آئی اے جس کی سروس کبھی لاجواب ہوا کرتی تھی اور جس کے ذریعے با کمال لوگ سفر کیا کرتے تھے ، اور ایسا اس لیے ہوتا تھا کہ اس ادارے کو باکمال لوگ چلایا کرتے تھے ۔ اب اس کا حال ایسا نہیں رہا۔ یہ وہی پی آئی اے ہے ، جو امارت ائر لائینز اور دیگر کئی کامیاب ائر لائینز کی مدر ائیر لائن کہلاتی تھی اور پی آئی اے کے ماہرین کی خدمات یہ ائر لائینز مستعار لیا کرتی تھیں یہی حال پاکستان اسٹیل ملز کا ہے ۔ منافعے میں چلنے والا یہ ادارہ رفتہ رفتہ نقصان کی طرف کیسے گامزن ہوگیا ؟ اس کی وجوہات سے موجودہ اور سابق دونوں حکمران واقف ہیں ۔
مرض جانتے ہیں لیکن علاج سے گریزاں ہیں ۔ کیا یہ ناممکن ہے کہ منافعے میں چلنے والاکوئی ادارہ اگر نا اہل ہاتھوں میں جا کر خسارے کا شکار ہوجائے تو اہل افراد کے ہاتھوں میں اس ادارے کو دوبارہ سونپ کر منافعے میں کیوں نہیں لایا جاسکتا ؟ ہمارے حکمران طبقے کو کاروبار چلانے اور کاروبار سے منافع کمانے کا تجربہ ہے ۔ یہ کبھی سننے میں نہیں آیا کہ ان کا کوئی بھی کاروبار کبھی نقصان کی وجہ سے بند ہوگیا ہو ۔ کوئی شوگر ملز ، کوئی ٹیکسٹائل ملز یا کوئی فاؤنڈری خسارے میں چل رہی ہو ۔ حتیٰ کہ ان کے وہ کاروبار جنھیں یہاں صنعت کا درجہ حاصل ہوچکا ہے ، جب کہ مہذب ریاستوں میں اسے عوام کا بنیادی حق سمجھا جاتا ہے اور یہ ریاستیں انھیں عوام کو مفت فراہم کرنا اپنی ذمے داری سمجھتی ہیں ۔ یعنی تعلیم اور صحت ،یہ اس سے بھی منافع کما رہے ہیں ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک سابق مرکزی وزیر مہنگے اسکولوں کی ایک کامیاب چین قائم کر کے آج بھی کروڑوں کا منافع سمیٹ رہے ہیں جب کہ ایک دوسرے سابق مرکزی وزیر کئی اسپتالوں کی ملکیت رکھتے ہوئے انھیں منافعے میں چلاتے رہے ہیں اورانکی وزارت خسارے میں چلتی رہی تھی۔ کیا یہ حیرت انگیز اتفاق نہیں ہے کہ ذاتی کاروبار تو منافعے میں چلتا ہے اورسرکاری ادارے ہمیشہ خسارے کا شکار رہتے ہیں ؟ان کی وزارت کے ماتحت اداروں کو ان کی خدمات چوبیس گھنٹے حاصل رہتی ہیں جب کہ ذاتی اداروں میں یہ ایسا کامیاب نظام قائم کر لیتے ہیں کہ ان کی موجودگی بھی ضروری نہیں ہوتی ہے ۔ اپنے ذاتی کاروباری اداروں کے لیے انھیں ایسے ماہرین با آسانی دستیاب ہوجاتے ہیں ، جو ان کے اداروں کو دن دگنی اور رات چوگنی ترقی دیکر ایک سے دو اور دوسے تین انڈسٹریاں کھڑی کردیتے ہیں ۔
لیکن جیسے ہی کوئی سرکاری ادارہ ان کے حوالے کیا جائے نہ جانے وہ ادارہ منافع میں چلتے چلتے ، نقصان کا شکار کیوں ہوجاتا ہے ؟ پی آئی اے اور اسٹیل ملز سے قبل کے ای ایس سی اور پی ٹی سی ایل کے ملازمین کو بھی گولڈن شیک ہینڈ کے نام پر سبز باغ دکھا کر بے روزگار کیا جاچکا ہے ۔ اور ان سے جو وعدے کیے گئے تھے وہ آج تک پورے نہیں ہوئے۔ یہ غریب ملازمین سڑکوں پر مظاہرے کر کے اور پولیس کے ڈنڈے کھا کھا کر مایوسی ، بے روزگاری اور غربت کی دلدل میں غرق ہوچکے ہیں اور اب پی آئی اے کے ملازمین کے ساتھ بھی یہی کھیل کھیلنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔
دنیا کی تمام ریاستیں اپنے عوام کو روزگار نہ ملنے کی صورت میں بے روزگاری الاؤنس مہیا کرتی ہیں ، لیکن یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے ۔ یہاں گولڈن شیک ہینڈ کے نام کا الاؤنس دیکر عوام سے روزگار چھین لیا جاتا ہے ۔
برسوں سے ان کا یہی معمول تھا ۔ ایک دن روپیہ لینے کے بعد فقیر نے ان صاحب کو روکا اور برا سا منہ بنا کر بولا '' صاحب ماچس اب دو روپے کی ہو گئی ہے ۔ میں کافی عرصے سے پرانی جان پہچان کے باعث مروتاً آپ سے ایک روپیہ لیتا رہا ہوں ، لیکن مہنگائی اتنی زیادہ ہوچکی ہے کہ اب ایک روپیہ سے کام نہیں چلے گا ۔ اس لیے کل سے ماچس کی پوری قیمت لیا کروں گا ۔ آپ نے دو روپے کی ماچس لینی ہے تو ٹھیک ہے ، ورنہ جہاں سے بھی آپ کو ایک روپے کی ماچس ملے ، وہاں سے لے لیا کیجیے۔ '' '' لیکن میں نے آج تک ماچس تو کبھی لی ہی نہیں '' وہ صاحب حیران ہو کر بولے ۔ فقیر نے ناگواری سے جواب دیا '' میں بہرحال آج کے بعد ایک روپے میں اپنی ماچس فروخت نہیں کروں گا ۔ آپ کا دل چاہے تو لیجیے اور دل نہ چاہے تو نہ لیجیے ۔''
ان صاحب کا منہ حیرت سے کھلا اور غصے کی زیادتی کے باعث فوراً ہی بند ہوگیا ۔ پھر وہ بڑ بڑاتے ہوئے آگے بڑھ گئے ۔ اگر یہ صاحب اخبارات پڑھنے یا پھر نیوز چینلز پر خبریں دیکھنے کے عادی ہوتے تو فقیر کی بات سننے کے بعد نہ تو حیرت میں مبتلا ہوتے اور نہ ہی انھیں غصہ آتا ۔ کیونکہ اگر وہ اخبار پڑھنے کے شوقین ہوتے تو ہمارے وزرائے اعظم اور وزرائے خزانہ کا یہ بیان ضرور ان کی نظروں سے گزرتا کہ '' اپنی شرائط پر ، قرضہ یا امداد یعنی بھیک لیں گے '' ہمارے حکمران بین الاقوامی مہاجنوں سے جب قرض اور امداد لینے کے لیے گفت و شنید کا ڈول ڈالتے ہیں تو اکثر اس جملے کی تکرار سننے میں آتی ہے کہ '' اپنی شرائط پر قرضہ لیں گے '' یہ بین الاقوامی مہاجن ادارے جن کا نام عالمی بینک ، آئی ایم ایف اور ایشیائی ترقیاتی بینک وغیرہ وغیرہ ہے ۔
بڑے سمجھدار ہیں اور اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ معاملہ بالکل برعکس ہے ۔ اس ملک کے حکمران عوام کی تسلی اور ان کی خودی کو بلند رکھنے کی خاطر یہ گھسا پٹا ڈائیلاگ کہ '' ہم اپنی شرائط پر قرض لیں گے '' حسب معمول بول رہے ہیں ۔ جب کہ قرضہ دینے سے قبل یہ سود خور مہاجن دراصل اپنی شرائط منوانے پر مصر ہوتے ہیں اور ہمیشہ اس میں کامیاب بھی رہتے ہیں ۔ معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد ہمارے حکمران بالکل اسی طرح گردن اکڑا کر ، جیسے وہ ماچس فروخت کرنے والا فقیر رعونت کے ساتھ ایک روپے میں ماچس دینے سے انکار کر کے اکڑتا ہے ، امداد میں ملنے والی رقم کو زر مبادلہ کی رقم میں شامل کر کے فخر سے اعلان کرتے ہیں کہ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر اتنے ارب ڈالر ہوچکے ہیں ۔ پھر رفتہ رفتہ یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے ان سود خور اداروں کی کن کن ذلت آمیز شرائط پر دستخط کر کے عوام کی خود داری اور غیرت کا سودا کر لیا تھا ۔
مثلاً جیسے اب معلوم ہوا ہے کہ ہمارے حکمران قومی ائیر لائن یعنی پی آئی اے کی نجکاری اور اس کے ملازمین کے لیے گولڈن شیک ہینڈ اسکیم متعارف کروانے کے لیے معاہدے پر آئی ایم ایف کے ساتھ دستخط کر چکے ہیں اور اگلے ماہ سے ہی اس پر عمل درآمد شروع کیے جانے کا امکان ہے ۔ صرف پی آئی اے ہی نہیں بلکہ پاکستان اسٹیل ملز اور دیگر وہ قومی ادارے جو کبھی بھاری منافع قومی خزانے میں ڈالا کرتے تھے اسی قسم کے معاہدوں کی نذر ہونے والے ہیں ۔ وہ پی آئی اے جس کی سروس کبھی لاجواب ہوا کرتی تھی اور جس کے ذریعے با کمال لوگ سفر کیا کرتے تھے ، اور ایسا اس لیے ہوتا تھا کہ اس ادارے کو باکمال لوگ چلایا کرتے تھے ۔ اب اس کا حال ایسا نہیں رہا۔ یہ وہی پی آئی اے ہے ، جو امارت ائر لائینز اور دیگر کئی کامیاب ائر لائینز کی مدر ائیر لائن کہلاتی تھی اور پی آئی اے کے ماہرین کی خدمات یہ ائر لائینز مستعار لیا کرتی تھیں یہی حال پاکستان اسٹیل ملز کا ہے ۔ منافعے میں چلنے والا یہ ادارہ رفتہ رفتہ نقصان کی طرف کیسے گامزن ہوگیا ؟ اس کی وجوہات سے موجودہ اور سابق دونوں حکمران واقف ہیں ۔
مرض جانتے ہیں لیکن علاج سے گریزاں ہیں ۔ کیا یہ ناممکن ہے کہ منافعے میں چلنے والاکوئی ادارہ اگر نا اہل ہاتھوں میں جا کر خسارے کا شکار ہوجائے تو اہل افراد کے ہاتھوں میں اس ادارے کو دوبارہ سونپ کر منافعے میں کیوں نہیں لایا جاسکتا ؟ ہمارے حکمران طبقے کو کاروبار چلانے اور کاروبار سے منافع کمانے کا تجربہ ہے ۔ یہ کبھی سننے میں نہیں آیا کہ ان کا کوئی بھی کاروبار کبھی نقصان کی وجہ سے بند ہوگیا ہو ۔ کوئی شوگر ملز ، کوئی ٹیکسٹائل ملز یا کوئی فاؤنڈری خسارے میں چل رہی ہو ۔ حتیٰ کہ ان کے وہ کاروبار جنھیں یہاں صنعت کا درجہ حاصل ہوچکا ہے ، جب کہ مہذب ریاستوں میں اسے عوام کا بنیادی حق سمجھا جاتا ہے اور یہ ریاستیں انھیں عوام کو مفت فراہم کرنا اپنی ذمے داری سمجھتی ہیں ۔ یعنی تعلیم اور صحت ،یہ اس سے بھی منافع کما رہے ہیں ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک سابق مرکزی وزیر مہنگے اسکولوں کی ایک کامیاب چین قائم کر کے آج بھی کروڑوں کا منافع سمیٹ رہے ہیں جب کہ ایک دوسرے سابق مرکزی وزیر کئی اسپتالوں کی ملکیت رکھتے ہوئے انھیں منافعے میں چلاتے رہے ہیں اورانکی وزارت خسارے میں چلتی رہی تھی۔ کیا یہ حیرت انگیز اتفاق نہیں ہے کہ ذاتی کاروبار تو منافعے میں چلتا ہے اورسرکاری ادارے ہمیشہ خسارے کا شکار رہتے ہیں ؟ان کی وزارت کے ماتحت اداروں کو ان کی خدمات چوبیس گھنٹے حاصل رہتی ہیں جب کہ ذاتی اداروں میں یہ ایسا کامیاب نظام قائم کر لیتے ہیں کہ ان کی موجودگی بھی ضروری نہیں ہوتی ہے ۔ اپنے ذاتی کاروباری اداروں کے لیے انھیں ایسے ماہرین با آسانی دستیاب ہوجاتے ہیں ، جو ان کے اداروں کو دن دگنی اور رات چوگنی ترقی دیکر ایک سے دو اور دوسے تین انڈسٹریاں کھڑی کردیتے ہیں ۔
لیکن جیسے ہی کوئی سرکاری ادارہ ان کے حوالے کیا جائے نہ جانے وہ ادارہ منافع میں چلتے چلتے ، نقصان کا شکار کیوں ہوجاتا ہے ؟ پی آئی اے اور اسٹیل ملز سے قبل کے ای ایس سی اور پی ٹی سی ایل کے ملازمین کو بھی گولڈن شیک ہینڈ کے نام پر سبز باغ دکھا کر بے روزگار کیا جاچکا ہے ۔ اور ان سے جو وعدے کیے گئے تھے وہ آج تک پورے نہیں ہوئے۔ یہ غریب ملازمین سڑکوں پر مظاہرے کر کے اور پولیس کے ڈنڈے کھا کھا کر مایوسی ، بے روزگاری اور غربت کی دلدل میں غرق ہوچکے ہیں اور اب پی آئی اے کے ملازمین کے ساتھ بھی یہی کھیل کھیلنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔
دنیا کی تمام ریاستیں اپنے عوام کو روزگار نہ ملنے کی صورت میں بے روزگاری الاؤنس مہیا کرتی ہیں ، لیکن یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے ۔ یہاں گولڈن شیک ہینڈ کے نام کا الاؤنس دیکر عوام سے روزگار چھین لیا جاتا ہے ۔