فکری و تہذیبی ارتقاء میں کتابوں کا کردار

بچپن ہی سے یہ خیال بچوں کے اذہان میں راسخ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کتاب انسان کی بہترین۔۔۔

بچپن ہی سے یہ خیال بچوں کے اذہان میں راسخ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کتاب انسان کی بہترین دوست ہوتی ہے مگر معمولی غوروفکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچنا مشکل نہیں رہتا کہ یہ خیال مکمل سچ کی نمایندگی نہیں کرتا۔ کتابیں صرف عالم ہی پیدا نہیں کرتیں، بلکہ جہالت کے فروغ کا باعث بھی بنتی ہیں۔

وہ تمام لوگ جو کتابوں کا تنقیدی تجزیہ کیے بغیرہی ان میں مضمر خیالات کو قبول کرلیتے ہیں، وہ جہالت ہی کے زمرے میں آتے ہیں۔ہر کتاب اعلیٰ ہوتی ہے ، یہ خیال مکمل طور پر درست نہیں ہے، اس خیال کے اندر ہی ہمیں اس کی نفی کا تصور بھی ملتا ہے، یعنی یہ خیال صحیح بھی ہے اور غلط بھی! کتاب انسان کی بہترین دوست ہوتی بھی ہے اور نہیں بھی! جدلیات واضح کرتی ہے کہ کسی بھی خیال کے اندر اس کی نفی کا تصور بھی ملتا ہے۔ یہ ایک ایسا آفاقی اصول ہے کہ جس کے اندر ہی آفاقیت کی نفی کا تصور بھی ملتا ہے۔

جدلیات اس حقیقت کو عیاں کرتی ہے کہ ہر نوع کی سچائی بالآخر اپنی نفی کرتی ہے اور اس طرح ایک عہد کاسچ کسی دوسرے عہد میں جھوٹ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔اس طرح کتاب کی اہمیت سماجی ارتقاء کے حوالوں سے نہیں بلکہ تاریخی دستاویز کے طور پر باقی رہتی ہے۔ جب کسی خیال کی''نفی'' کی جاتی ہے تو اس خیال کو تخالف کا سامنا ہوتا ہے کتاب انسان کی دوست ہوتی ہے کا تخالف یہ ہے کہ کتاب انسان کی دشمن بھی ہوتی ہے!

کتابوں کو بہترین دوست اور بدترین دشمن میں تقسیم کرنے کے بعد ہمیں ان تصورات کو بھی تشکیل دینا پڑتا ہے کہ جن کی بنیاد پر ہم کتابوں سے متعلق ان معیارات کو قائم کرتے ہیں۔ اس حقیقت پر کم و بیش تمام اقوام ہی متفق ہیں کہ اعلیٰ خیالات وہی ہوتے ہیں جو سماج کو ارتقاء کی جانب مائل کریں۔ ایسے خیالات جن میں فطرت اور سماجی سائنسوں کی تفہیم و تشریح کا ایک اعلیٰ طریقۂ کار متعارف کرایا جائے، اور اس طریقے کے اطلاق سے انسانی فطرت اور سماج کے پیچیدہ قوانین انسانوں پر عیاں ہوتے جائیں۔ چونکہ روشن خیالی کی تحریک کے بعد نظریہ ارتقاء سے دست بردار ہونا ممکن نہیں رہا، اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ تمام کتابیں جو علمیاتی، ثقافتی، اخلاقی، سماجی اور سیاسی ارتقاء میں معاون ہوتی ہیں اور جو کتابیں لوگوں کی ذہنی اور فکری نشوونما اس انداز میں کرتی ہیں کہ لوگ ارتقاء کے تصور سے ہم آہنگ ہونے والے خیالات کے قائل ہونے لگیں، انھیں بہترین کتابیں کہا جاسکتا ہے۔

جدلیات کے اصول جہاں حرکت و تغیر سے ہم آہنگ ہونے پر اصرار کرتے ہیں اور ہر قسم کے ''حتمی سچ'' کے اندر ہی اس کی نفی کے تصور کو دیکھتے ہیں تو دوسری جانب رسمی منطق (Formal Logic ) جیسا مابعد الطبیعاتی طریقۂ کار بھی موجود ہے، جو حرکت و تغیر سے ہم آہنگ ہونے کی بجائے'' مقدس'' جامد اصولوں سے ہم آہنگ ہونے کا درس دیتا ہے۔ اس طرح یہ طریقۂ کار سماجی ارتقاء کے تصور سے براہِ راست متصادم ہوتا ہے۔


وہ کتابیں جو ذہنی و فکری اور تہذیبی حوالوں سے آگے لے جانے کی بجائے انسانوں کو انحطاط کی جانب دھکیلیں، جن کی بنیاد ہی تصورِارتقاء کی نفی پر استوار ہو،جو لوگوں کے اذہان کو اذعانی عقائدونظریات کا پابند کرکے انھیں مسلسل فکری و تہذیبی جمود کا شکار کرتی رہیں،جو قدامت پسند پہلوؤں سے جڑے رہنے کا درس محض اس لیے دیں کہ ان نظریات کے محافظوں کو ذہنی تسکین میسر آسکے، جن میں اس پہلو پر زور ہی نہ دیا گیا ہو کہ قدامت اور جدت کے درمیان مستقل کشمکش روئے زمین پر انسانیت کے وجود کو ہی ناپید کرسکتی ہے، ایسی کتابوں کو انسان کی بدترین دشمن کہا جاسکتا ہے اور یہی وہ کتابیں ہیں جو اس خیال کی نفی کرتی ہیں کہ کتاب انسان کی بہترین دوست ہوتی ہے۔

کتابوں کے بہترین اور بدترین ہونے کے تصور کو ماورائے حواس و عقل کسی اصول کے تحت نہیں سمجھا جاسکتا، بلکہ ان کی اہمیت کو سماجی تشکیلات کی روشنی میں ہی واضح کیا جاسکتا ہے۔ کسی بھی سماج میں قدامت پرست اور رجعتی قوتیں موجود ہوتی ہیں، جو سماج کو ماضی کی جانب لے جانا چاہتی ہیں۔ یہی وہ قوتیں ہیں جو متروک خیالات کا سہارا لیتی ہیں، نئے خیالات سے کیونکہ یہ ہم آہنگ نہیں ہوپاتیں اس لیے نئے خیالات کے ارتقاء میں انھیں اپنی نفی کا تصور واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔

انقلابِ فرانس کے دوران میں قدامت پرست مسیحیت جو جاگیرداروں کو فکری و نظریاتی جواز فراہم کررہی تھی، ابھرتی ہوئی بورژوازی نے فلسفیانہ خیالات کے ذریعے اس کو ناقص ثابت کرتے ہوئے نظریاتی جنگ میں بھی فتح حاصل کی۔ اس کشمکش کے نتیجے میں فلسفیانہ اور سیاسی حوالوں سے جہاں پرانے خیالات کی نفی ہوئی تو وہاں نئے خیالات بھی سامنے آئے۔ علمیات، اخلاقیات، جمالیات، علم البشریات، فطری اور سماجی سائنسوں سے متعلق ایسی کئی کتابیں وجود میں آئیں کہ جن میں موجود خیالات نے انسانوں کو یک رخی مابعد الطبیعاتی سوچ سے نکال کر اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی کائنات کے بارے میں مختلف زاویوں سے سوچنے کی جانب گامزن کیا۔

علمیات کے شعبے میں تجربیت، عقلیت، تشکیک ، مادی جدلیات اور تاریخی مادیت جیسے انقلابی طریقہ کارکی تشکیل کی گئی، جنھیں فطرت سمیت انسانی سماج کے مختلف شعبہ ہائے فکر میں بروئے کار لاکر تفہیم کے عمل کو بھی آسان بنایا گیا۔ عہد جدید میں تجربیت ایک ایسا ہی طریقۂ کار تھا جس نے مسیحی الٰہیات کے جامد اصولوں کو ایک مشکل چیلنج سے دوچار کرتے ہوئے فطرت اور سماجی سائنسوں سے متعلق انسانوں کی سوچ کے زاویوں کو تبدیل کردیا۔ تجربیت ماورائے عقل ہر اصول کی نفی کرتی تھی اور تمام علم کی بنیاد حسی تجربے کو گردانتی تھی، تجربیت کے فروغ سے ماورائے حواس علم کے اس تصور کی نفی ہوئی جو مسیحی مابعدالطبیعات سے وابستہ تھا اور انسان کے فکری و تہذیبی ارتقا میں مانع ثابت ہوا۔ تجربی طریقۂ کار سے انسانی علوم میں حیرت انگیز انقلاب برپا ہوا،کیونکہ تناظر کی اہمیت کے پیشِ نظر مسیحی الٰہیات کی نفی اس کا سچ تھی، مگر جوں جوں سماجی تشکیلات میں انقلاب برپا ہوتا گیا ، انسانی ذہن و فکر کے ارتقا سے تجربیت کے نقائص فلسفۂ تشکیک میں ظاہر ہونے لگے۔ تشکیک پسندی نے حسیات کے حد سے بڑھے ہوئے کردار کی نفی کی اور فہم کے ان مقولات کی طرف توجہ مبذول کرائی جو حسیات میں موجود نہ تھے۔اسی طرح عقلیت نے حواس کی نفی کی اور براہِ راست خارجی دنیا تک رسائی کا تصور پیش کیا۔

تشکیک پسندی سے عقلی اور تجربی فلسفوں کی نفی کا تصور ابھرا۔ بعد ازاں خارجی دنیا اور شعور کے درمیان حتمی خلیج کا انکار کردیا گیا، انسانی فکر چند قدم اور آگے بڑھی اور جدلیات کے ان قوانین تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی، جو انسانی سماج اور فطرت میں یکساں کارفرما تھے۔

مابعد جدیدیت سرمایہ داری نظام کے وسط میں موجود ایک ایسا بحران ہے کہ جس نے اسے ہر نوع کی معنیاتی وحدت کو قائم کرنے سے روک رکھا ہے۔ انسان کے فکری و تہذیبی ارتقا کی تاریخ میں یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ تمام خیالات جو بہترین کتابوں میں پائے جاتے ہیں، تاریخ کے ایک خاص مقام پر پہنچ کر وہ سماج کے ارتقائی قوانین سے متصادم دکھائی دیتے ہیں۔ اس طرح وہ تمام کتابیں جو ایک وقت میں بہترین کتابیں ہوتی ہیں، ان پر پختہ ایمان ان کتابوں کی نفی کا باعث بنتا ہے۔ اگر تو نئے خیالات کی تشکیل و ارتقا کا سلسلہ چلتا رہے، یعنی سماجی تشکیلات سے ہم آہنگ ہونے والے خیالات کتابوں میں مجتمع ہوتے رہیں تو ان کتابوں کی اہمیت و افادیت برقرار رہتی ہے، بصورتِ دیگر یہی کتابیں انسانی فکر کی بدترین دشمن واقع ہوتی ہیں۔
Load Next Story