سماء یا سماں

ان دنوں مصنوعی وباء کرونا کا ہر طرف چرچا ہے تو ایسے میں بے چارے ذرائع ابلاغ کی بڑی شامت آئی ہوئی ہے

ان دنوں مصنوعی وباء کرونا کا ہر طرف چرچا ہے تو ایسے میں بے چارے ذرائع ابلاغ کی بڑی شامت آئی ہوئی ہے: فوٹو : فائل

زباں فہمی نمبر 56

معروف گلوکار عالمگیر اِس عمر میں بھی بہت سوں سے زیادہ جواں عزم دکھائی دیتے ہیں اور بیماری سے مسلسل نبردآزما ہیں۔ یہ مضمون براہ ِراست کمپیوٹر پر رقم کررہا ہوں تو ایسے میں ٹیلی وژن کے پردہِ زرنگار پر خبروں، اشتہارات اور اطلاعات کی شکل میں نیا نویلا مواد بھی سامنے آرہا ہے۔

ابھی کچھ دیر پہلے ''ہم ٹی وی'' نے اعلان کیا :''البیلا راہی.........آرہا ہے .....سماء سجانے کو۔'' انھوں نے تو خاکسار کی زباں دانی کو بڑے امتحان میں ڈال دیا۔ ہمارے یہاں اکثر لوگ سماں اور سماء کا فرق بھی نہیں جانتے، لہٰذا یہ بتانا مشکل ہے کہ سماء سجانے سے مراد سماء ٹی وی سجانا ہے، سماء بمعنی آسمان سجانا ہے (آسمان کو سجانا غلط ہے) یا اس سے مراد، اِن فاضل Copywriterنے سماں یعنی منظر سجانے سے لی ہے۔

راقم بہت پہلے عرض کرچکا ہے کہ ہمارے کئی ٹیلی وژن نیوز چینلز کے نام غیرممالک سے مستعار ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ انھیں کبھی یہ خیال ہی نہیں آیا کہ کسی ہنرمند، تجربہ کار اور شعبے سے منسلک شخصیت سے نام تجویز کرنے کے لیے مشورہ کرلیا جائے۔ ضمناً دو نکات آپ کے گوش گزار کردوں۔

پہلی بات تو یہ کہ گلوکار عالمگیر کا ہِسپانوی (Spanish)دُھن پر گایا ہوا یہ گانا، پاکستان ٹیلی وژن کے پروگرام 'سنڈے کے سنڈے' میں پہلی بار پیش کیا گیا تھا۔ یہ بات ہے 27 جنوری 1974ء کی، شاعر تھے ہمارے بزرگ معاصر عبدالرزاق شاعرؔ صدیقی، اس کی دھن بنائی تھی مشہور مُوسیِقار کریم شہاب الدین نے، جب کہ اس کے پیشکار (Producer)تھے، جناب ظہیر خان۔ اس وقت اس نغمے کے گلوکار، شاعر اور پیشکار سب ماشاء اللہ بقیدِحیات ہیں۔

شاعرؔ صدیقی صاحب سے ملاقات کو کئی سال ہوگئے، مگر ابھی کچھ عرصہ قبل اُن سے موبائل فون پر چند ایک بار گفتگو ہوئی تھی، جبکہ ظہیرخان صاحب بارہ فروری سن دو ہزار بیس کو ہمارے بزرگ دوست، ممتاز شاعر اور پی ٹی وی کے سابق سینئر پروڈیوسر محترم اقبال حیدر (مرحوم) کے اعزاز میں منعقد ہونے والی ادبی تقریب میں کیفے گُل رنگ، آرٹس کونسل تشریف لائے تھے۔

تقریب کی ابتداء سے پہلے اُن سے دل چسپ گفتگو ہوئی اور پھر انھوں نے تقریب میں سامعین سے خطاب بھی کیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ نغمات سے مقبول ہونے والے شاعرؔ صدیقی کسی بھی دوسرے مستند سخنور کی طرح اپنی اس شاعری کو عوام کی طرح اہمیت نہیں دیتے۔ اُن کا کہنا ہے:''اپنی فلمی اور ٹیلی وژن نغمات کی شاعری کے بارے میں ایک وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوںکہ اِن تمام نغمات کی دُھنیں پہلے بنائی گئیں اور بعد میں اِن دھنوں اور مُوسِیقی کی رِدم(Rhytm)پر الفاظ لکھے گئے۔ میں اِسے مکینیکل شاعری کہتا ہوں۔'' (یہ لفظ رِدَھم نہیں ہے، جیسا کہ ہمارے پاکستانی انگریز بلا تفریق کہتے دکھائی دیتے ہیں)۔ ]مجموعہ کلام 'آنکھوں میں سمندر' مطبوعہ جنوری [2004۔


ان دنوں مصنوعی وباء کرونا کا ہر طرف چرچا ہے تو ایسے میں بے چارے ذرائع ابلاغ کی بڑی شامت آئی ہوئی ہے۔ دیگر مسائل کے علاوہ انھیں اس وباء سے متعلق چند مخصوص جملوں، فقروں اور اصطلاحات کا ترجمہ بھی کرنا پڑا ہے۔ پاکستان ٹیلی وژن کے کسی بقراط نے انگریزی عبارت Stay home-Stay safeکا ترجمہ فرمایا: ''گھر رہیں، محفوظ رہیں۔'' (درست ہے: گھر پر رہیں، محفوظ رہیں)۔ بس چونکہ مستند ہے سرکار کا فرمایا ہوا تو سب ٹی وی چینلز اور اخبارات ورسائل پر بھی (ازخود) واجب ہوگیا کہ یہی کہہ کہہ کر 'ڈراوا' مہم شدّومدّ سے چلائیں۔

اسی پر بس نہیں، ہمارے اردو اہل قلم بھی بغیر سوچے سمجھے یہی نعرہ لگا رہے ہیں۔ خیر جہاں تک اردو اُدَباء وشُعَراء کا تعلق ہے تو خاکسار نے اپنی تحریر اور ٹیلی وژن انٹرویو میں یہ بات ایک سے زائد بار کہی ہے کہ ہمارے اہل ِقلم (خصوصاً شاعر) پڑھتے کم، لکھتے زیادہ ہیں، اور بولتے...اس سے بھی زیادہ ہیں۔ جب یہ حال اہلِ زبان کا ہے تو غیروں سے گِلہ چہ معنی دارد۔ ایسی ہی غلط زبان کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں: ۱۔ مجھے کام جانا ہے (بجائے ''کام سے جانا ہے'' کے)۔۲۔ وہ چھٹّی گئے ہوئے ہیں (بجائے ''چھٹی پر گئے ہوئے ہیں'' کے)۔ ۳۔ میں نے لاہور جانا ہے (بجائے ''مجھے لاہور جانا ہے'' کے)۔۴۔ میرا نہیں خیال کہ وہ واپس آئے گی (بجائے ''میں سمجھتا ہوں کہ وہ واپس نہیں آئے گی'' کے)۔ ]یہ ویسے انگریزی کے فقرےI don't think کا چالو، مگر بھونڈا ترجمہ ہے

[۔ یہ تمام مثالیں پنجابی میں قابل ِ قبول ہیں، مگر یہ اردو نہیں اور جو اہلِ زبان ان کی صحت پر اصرار کرتے ہیں، انھیں چاہیے کہ اہلِ زبان سرائیکی، پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی، براہوی، حتّیٰ کہ میمنی (بولی) غلط بول کر دکھائیں اور پھر یہ بھی کرکے دکھائیں کہ ان علاقائی زبانوں سمیت کسی بھی زبان سے متعلق، کوئی اہلِ زبان، بَروَقت اُنھیں ٹوکنے کی بجائے کہہ دے: او کوئی بات نہیں....چلتا ہے....اپنی زبان ہے، جیسے چاہے بولو! اس بابت زباں فہمی کے ایک پرانے کالم میں بھی یہی مؤقف پیش کیا گیا تھا کہ ڈنکے کی چوٹ پر، غلط اردو بولنا اور پھر یہ کہنا کہ کوئی بات نہیں، بات سمجھ میں آگئی ناں؟؟ اور یہ اصرارکرنا کہ اردو تو ہے ہی لشکری زبان (لہٰذا جیسے چاہے بیڑہ غرق کرو)۔ ہر زبان کی تحریروتقریر میں صحتِ تلفظ اور صحتِ قواعد کا خیال رکھنا ازبَس ضروری ہے۔ اگر آپ ''فادری'' زبان (انگریزی) غلط بولیں تو آپ کسی بھی محفل میں ہدف ِتنقیدوتنقیص بن سکتے ہیں، عربی زبان میں اگر دینی اصطلاحات کی بات ہو تو یقیناً معاملہ گناہ وثواب تک جاپہنچتا ہے، مگر ویسے بھی کوئی اہلِ زبان عرب یا عربی داں، عربی کی شان میں ذرا سی گستاخی برداشت نہیں کرتا، تو پھر کیا سبب ہے کہ ہم اردو کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک رَوا رکھیں؟؟

حیدرآباد، سندھ میں مقیم، ہمارے ایک بزرگ معاصرمحترم عتیق احمد جیلانی شاعری میں تو اپنے جوہر دکھاتے ہی رہتے ہیں، کل شام انھوں نے ایک منثور (یعنی نثر سے بنا ہوا یا نثر سے متعلق) پیام بذریعہ موبائل فون یوں ارسال فرمایا:''جس نے کبھی کسی کی نہیں مانی، وہ بھی کہتا ہے، 'میرا ماننا ہے۔' نادان یہ نہیں کہتا کہ میرا کہنا ہے۔'' مزے کی بات ہے کہ یہ طرزِگفتگو اِن دنوں محض ٹیلی وژن تک محدود نہیں، ہمارے تو شاعر وادیب بھی یہی زبان لکھ اور بول رہے ہیں۔یہ وہ غلط زبان ہے جو ہمارے یہاں، ماضی قریب میں ہندوستانی ٹی وی چینلز کی 'برسات' کے طفیل دَر آئی ہے۔ (یلغار پرانا لفظ ہوگیا ناں)۔ اس کی سب سے مشہور مثال ہے: ''فُلاں میرا فون نہیں اُٹھارہا'' (بجائے اس کے کہ میری کال نہیں سن رہا/میری کال وصول نہیں کررہا)۔ یہ باتیں اس قدر تواتر سے ہوتی رہتی ہیں کہ خاکسار کو بھی کالم میں دُہرانی پڑتی ہیں۔ گویا ''بنتی نہیں ہے بات، مکرر کہے بغیر۔'' زبان کی اصلاح کے ضمن میں روزانہ ایسی بہت سی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں، جب یہ سمجھنا دشوار ہوتا ہے کہ اس بات پر ہنسیں، روئیں یا غصہ کریں۔

میٹرو وَن ٹی وی نے اپنی خبروں میں یہ بھی بتایا کہ ''گلیوں کو قناعتیں لگاکر Sealکردیا گیا''۔ ہاہاہا۔ یہ ہے صحیح معنوں میں چالو زبان کہ جس طرح کسی چلتے پھرتے مجہول شخص نے عادتاً یہ لفظ ادا کیا، بعینہ اُسی طرح لکھ دیا گیا۔ نیوز وَن ٹی وی پر لکھا دکھائی دے رہا تھا:''قمرزمان (قمرالزمان) کائرہ عدالت میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے متعلق درخواست دیں گے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ایکٹ پارلیمنٹ سے وجود میں آیا تھا۔'' بول نیوز ٹی وی کے خبر رساں کہنے کو تو بہت کچھ کہہ رہے تھے، مگر فی الحال فقط ایک مثال:''ایک پرسنٹ'' بجائے ایک فی صد کے۔ چونکہ ذرایع ابلاغ اس وقت 'وقت کم ہے، مقابلہ سخت' کی ہمہ وقت عملی تصویر بنے رہتے ہیں، خصوصاً ٹی وی چینلز، اس لیے ہماری تحریر کی تان اکثروبیشتر اُنھی پر آکے ٹوٹتی ہے، ورنہ زبان کا بگاڑ تو ہمارے تمام شعبوں میں یکساں اور صاف گوئی سے کام لیں تو ''بام عروج'' پر ہے یا انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔

شعبہ تعلیم کی بات کریں تو ہمارے اساتذہ ہی نہیں، بلکہ اُن کے اساتذہ گویا استاذالاساتذہ (نا کہ استادالاساتذہ) بھی اس سے مُبَرّا نہیں، جنھیں عرف ِعام میں Master Trainer کہا جاتا ہے۔ شعبہ تشہیر کا تو بہت بُرا حال ہے، مگر شعبہ نشریات بھی اس لسانی زوال سے ہرگز محفوظ نہیں۔ اگر زبان کی اصلاح کی بات کی جائے تو بخدا پاکستان میں ''انگریزی زباں فہمی'' کی بھی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے، مگر فی الحال خاکسار اردو اخبار کے لیے خامہ فرسائی کررہا ہے ، سو اِس بارے میں فقط ''دل پشوری'' کی حد تک ہی بات ہوسکتی ہے۔

بربِنائے تجربہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر کبھی انگریزی کے کسی مؤقر اخبار یا جریدے کے لیے ایسی کاوش کرنے میں پہل کروں تو پہلے اُنھیں اس کے جواز اور قارئین کی دل چسپی کی بابت قائل کرنا ہوگا۔ مدت پہلے (1990ء تا 1995ء)، ایک انگریزی روزنامے میں خاکسار کی، بطور آزادہ رَو (Freelance) صحافی، متنوع موضوعات (بشمول عالمی سیاست، کھیل، تاریخ، معلومات عامہ، ادب، ٹی وی کالم)، پر تحقیق و تحریر کا سلسلہ جاری تھا کہ ایک مرتبہ (کسی اندرونی خلفشار کی وجہ سے)، مدیراعلیٰ صاحب (مرحوم) نے اس خاکسار کو بلا بھیجا.......تفصیل سے قطع نظر، خاکسار نے اُن کے اس بُودے اعتراض پر کہ آپ جو لکھتے ہیں، وہ پڑھتا کون ہے، ترکی بہ ترکی جواب دیا تھا کہ بصد معذرت! آپ جو یہ فلمی گپ شپ چھاپتے ہیں، وہ کون پڑھتا ہے..... کوئی سنجیدہ آدمی تو پڑھنا پسند نہیں کرتا۔ وہ لاجواب ہوگئے تھے۔ بہرحال جہاں ضرورت اصلاح کی ہو تو ہمیں اپنا فریضہ ادا کرتے رہنا چاہیے۔
Load Next Story