مودی سچ کہتا ہے
اگر مودی امریکی سازشی جال سے باہر نہ نکلا تو بھارت کا چین کے ہاتھوں تباہ ہونا یقینی ہے
NEW YORK:
مودی سچ ہی کہتا ہے کہ نہ بھارت کی زمین پر قبضہ ہوا ہے اور نہ ہی کسی بھارتی چوکی کو کوئی نقصان پہنچا ہے مگر بھارتی عوام کی اکثریت مودی کی اس بات کو ماننے کو تیار نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لداخ کی گلوان وادی سمیت کئی علاقوں پر چین قابض ہو گیا ہے۔ اس نے وہاں پختہ دفاعی تعمیرات کرلی ہیں، اپنی فوج کے لیے مستقل رہائشی انتظامات کر لیے ہیں ساتھ ہی بڑی تعداد میں فوجی ساز و سامان وہاں پہنچا دیا ہے۔ عوام کامزید استدلال ہے کہ اگر چین نے بھارت کے کسی علاقے پر قبضہ نہیں کیا ہے تو پھر بھارت کے بیس فوجی کیوں ہلاک کروائے گئے۔
عوام کے اس سوال کا مودی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ ادھر بھارت کی اپوزیشن پارٹیاں بھی مودی کے سر پر سوار ہوگئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بھارتی زمین کو چین کے چنگل سے آزاد کرانے سے کیوں پہلو تہی کر رہے ہیں۔ اس وقت مودی ایک بڑی مشکل میں پھنس گیا ہے مگر ہر طرف سے اس پر ہونے والی لعن طعن کے باوجود چین کے خلاف منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکال رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ حقیقت احوال سے واقف ہے۔
لداخ کے جس علاقے میں چینی افواج داخل ہوئی ہیں وہ دراصل چین کا ہی علاقہ ہے۔ لداخ کا علاقہ ہمالیہ کی ترائی میں واقع ہے جہاں سال بھر برف جمی رہتی ہے یہاں سرحدوں کا تعین کرنا مشکل ہے مگر 1962 کی جنگ کے بعد چین نے اپنے علاقے میں کچھ کھمبے نصب کر دیے تھے وقت کے ساتھ وہ باقی نہیں رہے۔ پہلے چینی فوجی پوری گلوان وادی اور ملحقہ علاقوں میں گشت کرتے رہتے تھے۔
بعد میں بھارت کے ساتھ امن و سلامتی کے کئی معاہدوں کے بعد چینی فوجیوں نے ایسے علاقے میں گشت کرنا بھی بند کردیا تھا جس کا بھارت نے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور اس کے فوجی چینی علاقے میں گشت کرنے لگے اور پھر اسے اپنا ہونے کا دعویٰ کرنے لگے۔ پھر آہستہ آہستہ وہاں فوجی تعمیرات شروع کردیں اور دیکھتے ہی دیکھتے سڑکوں کا جال بچھا دیا۔ چین نے اعتماد شکنی اور دراندازی پر بھارت کوکئی بار متنبہ کیا کہ وہ اس کے علاقے میں ناجائز فوجی تعمیرات اور سڑکیں بنانے سے باز رہے مگر بھارت اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہ آیا۔
کانگریس کے دور میں یہ ناجائز تعمیرات کم تھیں مگر مودی کے حکومت سنبھالنے کے بعد جنگی بنیادوں پر اس چینی علاقے میں سڑکوں کی تعمیر اور ہوائی اڈے بھی بنانا شروع کردیے ایک پرانا راستہ جسے دولت بیگ اولڈی کا نام دیا جاتا ہے وہ لداخ سے شاہراہ قراقرم تک جاتا ہے۔ پہلے کسی بھارتی حکومت نے اسے بہتر بنانے کی کوشش نہیں کی تھی مگر مودی نے اسے جدید طرز پر تعمیر کرلیا ساتھ ہی اس کے نزدیک ایک بڑا اور اہم فوجی اڈہ بھی تعمیر کرلیا۔ دولت بیگ اولڈی سڑک مودی کے لیے اس لیے اہم ہے کہ اس کے ذریعے وہ شاہراہ قراقرم کو تباہ کرکے سی پیک منصوبے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔
دراصل مودی کے دل میں پاکستان کی نفرت کا طوفان امڈ رہا ہے، وہ پاکستان کو تباہ کرنے کے آر ایس ایس کے مذموم منصوبے پر کاربند ہے۔ چین نے اپنے ہی علاقے میں بھارت کی جانب سے ناجائز طور پر فوجی اعتبار سے اہم سڑکوں، پلوں اور ہوائی اڈوں کی تعمیر اور مودی کی سی پیک منصوبے کو تباہ کرنے کی دھمکیوں کا نوٹس لیتے ہوئے گلوان وادی سے یشوک ندی تک کے پورے علاقے کو بھارتی فوجیوں سے چند گھنٹے کی مڈبھیڑ کے بعد ہی خالی کرا لیا ہے۔
بھارت اسے بڑی ڈھٹائی سے چین کی دراندازی سے تعبیر کر رہا ہے۔ چین کے بھی کچھ مزید علاقے بھارتی قبضے میں ہیں جنھیں خالی کرنے کے لیے اس نے بھارت کو وارننگ دے رکھی ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اگر اس کے باقی علاقے خالی نہیں کیے گئے تو 1962 کی کارروائی دہرائی جاسکتی ہے۔ جس سے بھارت کو پھر اپنے ہی کچھ علاقوں سے ہاتھ دھونا پڑسکتے ہیں۔
بھارت کا المیہ یہ ہے کہ اس کی ہر حکومت شروع سے ہی اکھنڈ بھارت کے نظریے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوشاں ہے۔ وہ افغانستان سے برما تک پورے علاقے پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں۔ وہ اسی نظریے کے تحت کشمیر، حیدرآباد دکن، جونا گڑھ، مناودر،گوا اور سکم پر پہلے ہی قبضہ کرچکی ہیں۔ وہ اسی فارمولے کے تحت لداخ میں چینی علاقے پر بھی قابض ہوگئی تھیں اورکشمیر کی طرح اسے بھی اپنا اٹوٹ انگ قرار دے دیا تھا مگر اب چین کی طاقت سے خوف کھا کر اس کے علاقے مودی کو واپس کرنا پڑے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ مودی اصلی بات اپنے عوام کو کیسے بتائے کہ بھارتی فوج نے جن چینی علاقوں سے پسپائی کی ہے وہ بھارت کے نہیں چین کے ہی تھے۔
عوام کی لعن طعن پر 15 جون کو مودی حکومت نے اپنے تین سو کمانڈوز چینی علاقے میں داخل کرکے کچھ علاقے کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی مگر وہ کارروائی مودی کو بہت مہنگی پڑی۔ اس میں چینی مارشل آرٹ کی ماہر فوج نے بھارت کے بیس فوجی ہلاک درجنوں زخمی اور دس کو پکڑ لیا تھا جنھیں بھارت کی منت سماجت کے بعد رہا کردیا گیا ہے۔
دراصل بھارت نے ٹرمپ کی شے پرگلگت بلتستان پر قبضہ کرکے سی پیک منصوبے اور بھاشا ڈیم کو نقصان پہنچانے کا پلان بنایا تھا مگر جب چین نے گلگت بلتستان پر بھارتی کارروائی سے پہلے ہی لداخ میں وادی گلوان اور دیگر اہم علاقوں کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے تو ٹرمپ نے چپ سادھ لی تھی۔ اب مودی کے رونے دھونے پر امریکی سیکریٹری خارجہ پومپیو نے یورپ سے کچھ فوج نکال کر بھارت بھیجنے کا اعلان کیا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہیں مشتعل چین امریکی فوجوں کے بھارت پہنچنے سے پہلے ہی بھارت کے اہم شمال مغربی اور مشرقی علاقوں پر قبضہ نہ کرلے۔ آسام اور بنگال کو ملانے والی چکن لیک چین کے نشانے پر ہے اگر چین نے اس پر قبضہ کرلیا تو بھارت مشرق میں واقع اپنی سات ریاستوں سے محروم ہو سکتا ہے۔
بعض بھارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی نے بھارت کی روایتی غیر جانبدارانہ پالیسی چھوڑ کر اور امریکا کی گود میں بیٹھ کر بھارت کے پرانے دوست روس کو ناراض کر لیا ہے ۔ روس پہلے ہمیشہ ہر مشکل وقت میں بھارت کی مدد کرتا رہا ہے مگر اب وہ مودی کی مغرب نواز پالیسی سے سخت نالاں ہے اور اس لیے اس نے راج ناتھ کو اپنے ہاں سے خالی ہاتھ واپس بھیج دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ امریکا ایک دھوکے باز ملک ہے وہ کسی بھی ملک سے اپنے مفاد میں دوستی کرتا ہے وہ اپنے مفاد کے لیے بھارت کو چین سے لڑانا چاہتا ہے، اگر مودی امریکی سازشی جال سے باہر نہ نکلا تو بھارت کا چین کے ہاتھوں تباہ ہونا یقینی ہے اور امریکا صرف تماشا دیکھتا رہے گا۔
مودی سچ ہی کہتا ہے کہ نہ بھارت کی زمین پر قبضہ ہوا ہے اور نہ ہی کسی بھارتی چوکی کو کوئی نقصان پہنچا ہے مگر بھارتی عوام کی اکثریت مودی کی اس بات کو ماننے کو تیار نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لداخ کی گلوان وادی سمیت کئی علاقوں پر چین قابض ہو گیا ہے۔ اس نے وہاں پختہ دفاعی تعمیرات کرلی ہیں، اپنی فوج کے لیے مستقل رہائشی انتظامات کر لیے ہیں ساتھ ہی بڑی تعداد میں فوجی ساز و سامان وہاں پہنچا دیا ہے۔ عوام کامزید استدلال ہے کہ اگر چین نے بھارت کے کسی علاقے پر قبضہ نہیں کیا ہے تو پھر بھارت کے بیس فوجی کیوں ہلاک کروائے گئے۔
عوام کے اس سوال کا مودی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ ادھر بھارت کی اپوزیشن پارٹیاں بھی مودی کے سر پر سوار ہوگئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بھارتی زمین کو چین کے چنگل سے آزاد کرانے سے کیوں پہلو تہی کر رہے ہیں۔ اس وقت مودی ایک بڑی مشکل میں پھنس گیا ہے مگر ہر طرف سے اس پر ہونے والی لعن طعن کے باوجود چین کے خلاف منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکال رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ حقیقت احوال سے واقف ہے۔
لداخ کے جس علاقے میں چینی افواج داخل ہوئی ہیں وہ دراصل چین کا ہی علاقہ ہے۔ لداخ کا علاقہ ہمالیہ کی ترائی میں واقع ہے جہاں سال بھر برف جمی رہتی ہے یہاں سرحدوں کا تعین کرنا مشکل ہے مگر 1962 کی جنگ کے بعد چین نے اپنے علاقے میں کچھ کھمبے نصب کر دیے تھے وقت کے ساتھ وہ باقی نہیں رہے۔ پہلے چینی فوجی پوری گلوان وادی اور ملحقہ علاقوں میں گشت کرتے رہتے تھے۔
بعد میں بھارت کے ساتھ امن و سلامتی کے کئی معاہدوں کے بعد چینی فوجیوں نے ایسے علاقے میں گشت کرنا بھی بند کردیا تھا جس کا بھارت نے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور اس کے فوجی چینی علاقے میں گشت کرنے لگے اور پھر اسے اپنا ہونے کا دعویٰ کرنے لگے۔ پھر آہستہ آہستہ وہاں فوجی تعمیرات شروع کردیں اور دیکھتے ہی دیکھتے سڑکوں کا جال بچھا دیا۔ چین نے اعتماد شکنی اور دراندازی پر بھارت کوکئی بار متنبہ کیا کہ وہ اس کے علاقے میں ناجائز فوجی تعمیرات اور سڑکیں بنانے سے باز رہے مگر بھارت اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہ آیا۔
کانگریس کے دور میں یہ ناجائز تعمیرات کم تھیں مگر مودی کے حکومت سنبھالنے کے بعد جنگی بنیادوں پر اس چینی علاقے میں سڑکوں کی تعمیر اور ہوائی اڈے بھی بنانا شروع کردیے ایک پرانا راستہ جسے دولت بیگ اولڈی کا نام دیا جاتا ہے وہ لداخ سے شاہراہ قراقرم تک جاتا ہے۔ پہلے کسی بھارتی حکومت نے اسے بہتر بنانے کی کوشش نہیں کی تھی مگر مودی نے اسے جدید طرز پر تعمیر کرلیا ساتھ ہی اس کے نزدیک ایک بڑا اور اہم فوجی اڈہ بھی تعمیر کرلیا۔ دولت بیگ اولڈی سڑک مودی کے لیے اس لیے اہم ہے کہ اس کے ذریعے وہ شاہراہ قراقرم کو تباہ کرکے سی پیک منصوبے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔
دراصل مودی کے دل میں پاکستان کی نفرت کا طوفان امڈ رہا ہے، وہ پاکستان کو تباہ کرنے کے آر ایس ایس کے مذموم منصوبے پر کاربند ہے۔ چین نے اپنے ہی علاقے میں بھارت کی جانب سے ناجائز طور پر فوجی اعتبار سے اہم سڑکوں، پلوں اور ہوائی اڈوں کی تعمیر اور مودی کی سی پیک منصوبے کو تباہ کرنے کی دھمکیوں کا نوٹس لیتے ہوئے گلوان وادی سے یشوک ندی تک کے پورے علاقے کو بھارتی فوجیوں سے چند گھنٹے کی مڈبھیڑ کے بعد ہی خالی کرا لیا ہے۔
بھارت اسے بڑی ڈھٹائی سے چین کی دراندازی سے تعبیر کر رہا ہے۔ چین کے بھی کچھ مزید علاقے بھارتی قبضے میں ہیں جنھیں خالی کرنے کے لیے اس نے بھارت کو وارننگ دے رکھی ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اگر اس کے باقی علاقے خالی نہیں کیے گئے تو 1962 کی کارروائی دہرائی جاسکتی ہے۔ جس سے بھارت کو پھر اپنے ہی کچھ علاقوں سے ہاتھ دھونا پڑسکتے ہیں۔
بھارت کا المیہ یہ ہے کہ اس کی ہر حکومت شروع سے ہی اکھنڈ بھارت کے نظریے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوشاں ہے۔ وہ افغانستان سے برما تک پورے علاقے پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں۔ وہ اسی نظریے کے تحت کشمیر، حیدرآباد دکن، جونا گڑھ، مناودر،گوا اور سکم پر پہلے ہی قبضہ کرچکی ہیں۔ وہ اسی فارمولے کے تحت لداخ میں چینی علاقے پر بھی قابض ہوگئی تھیں اورکشمیر کی طرح اسے بھی اپنا اٹوٹ انگ قرار دے دیا تھا مگر اب چین کی طاقت سے خوف کھا کر اس کے علاقے مودی کو واپس کرنا پڑے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ مودی اصلی بات اپنے عوام کو کیسے بتائے کہ بھارتی فوج نے جن چینی علاقوں سے پسپائی کی ہے وہ بھارت کے نہیں چین کے ہی تھے۔
عوام کی لعن طعن پر 15 جون کو مودی حکومت نے اپنے تین سو کمانڈوز چینی علاقے میں داخل کرکے کچھ علاقے کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی مگر وہ کارروائی مودی کو بہت مہنگی پڑی۔ اس میں چینی مارشل آرٹ کی ماہر فوج نے بھارت کے بیس فوجی ہلاک درجنوں زخمی اور دس کو پکڑ لیا تھا جنھیں بھارت کی منت سماجت کے بعد رہا کردیا گیا ہے۔
دراصل بھارت نے ٹرمپ کی شے پرگلگت بلتستان پر قبضہ کرکے سی پیک منصوبے اور بھاشا ڈیم کو نقصان پہنچانے کا پلان بنایا تھا مگر جب چین نے گلگت بلتستان پر بھارتی کارروائی سے پہلے ہی لداخ میں وادی گلوان اور دیگر اہم علاقوں کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے تو ٹرمپ نے چپ سادھ لی تھی۔ اب مودی کے رونے دھونے پر امریکی سیکریٹری خارجہ پومپیو نے یورپ سے کچھ فوج نکال کر بھارت بھیجنے کا اعلان کیا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہیں مشتعل چین امریکی فوجوں کے بھارت پہنچنے سے پہلے ہی بھارت کے اہم شمال مغربی اور مشرقی علاقوں پر قبضہ نہ کرلے۔ آسام اور بنگال کو ملانے والی چکن لیک چین کے نشانے پر ہے اگر چین نے اس پر قبضہ کرلیا تو بھارت مشرق میں واقع اپنی سات ریاستوں سے محروم ہو سکتا ہے۔
بعض بھارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی نے بھارت کی روایتی غیر جانبدارانہ پالیسی چھوڑ کر اور امریکا کی گود میں بیٹھ کر بھارت کے پرانے دوست روس کو ناراض کر لیا ہے ۔ روس پہلے ہمیشہ ہر مشکل وقت میں بھارت کی مدد کرتا رہا ہے مگر اب وہ مودی کی مغرب نواز پالیسی سے سخت نالاں ہے اور اس لیے اس نے راج ناتھ کو اپنے ہاں سے خالی ہاتھ واپس بھیج دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ امریکا ایک دھوکے باز ملک ہے وہ کسی بھی ملک سے اپنے مفاد میں دوستی کرتا ہے وہ اپنے مفاد کے لیے بھارت کو چین سے لڑانا چاہتا ہے، اگر مودی امریکی سازشی جال سے باہر نہ نکلا تو بھارت کا چین کے ہاتھوں تباہ ہونا یقینی ہے اور امریکا صرف تماشا دیکھتا رہے گا۔