گندم بحران ٹل گیا غذائی تحفظ وزیراعظم کی پہلی ترجیح
وزیر اعظم عمران خان نے عبدالعلیم خان کو یقین دلایا ہے کہ وفاقی حکومت گندم امپورٹ کر کے پنجاب کی قلت دور کرے گی۔
وزیر اعظم عمران خان کے لئے ویسے تو ان گنت مسائل ہیں لیکن ایک بڑا مسئلہ پنجاب حکومت کی کارکردگی اور مسائل کے حوالے سے ہے جہاں انہیں بہت سی حکومتی و انتظامی غلطیوں کو سدھارنے کیلئے خود میدان میںآنا پڑتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ پنجاب کے انتظامی سربراہوں کی تبدیلی بہت جلدی ہوجاتی ہے۔
گزشتہ دو برس میں وزیر اعظم کی سب سے زیادہ توجہ اور پریشانی کا مرکز گندم چینی آٹا بحران دکھائی دیتا ہے کیونکہ عوام معاشی زوال، مہنگائی سمیت کورونا کی ''مس ہینڈلنگ'' تو برداشت کیئے جا رہے ہیں لیکن بات جب روٹی پر آجائے تو انسان کی برداشت جواب دے جاتی ہے۔ تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کے اراکین اسمبلی کی ایک نمایاں تعداد کاشتکار ہے لیکن اس کے باوجود غذائی بحران پیدا ہونے کا ایک بڑا سبب ان اراکین کی آراء اور تجاویز کو یکسر نظر انداز کر کے خود کو عقل کل سمجھتے ہوئے کئے جانے والے فیصلے ہیں ۔
موجودہ اور مستقبل کے چیلنجز کا تجزیہ کرنے سے قبل ایک بار ماضی کے بحران کا جائزہ لینا اشد ضروری ہے۔گزشتہ برس اکتوبر میں جنم لینے والا ملک گیر آٹا بحران کی وجہ گندم کی قلت نہیں بلکہ انتظامی غفلت اور مس ہینڈلنگ تھی۔ سندھ، کے پی کے اور بلوچستان کے پاس وافر گندم موجود نہ تھی۔ پنجاب میں اس کی صوبائی ضروریات کے مطابق وافر گندم موجود تھی لیکن ستمبر میں سرکاری گندم کے اجراء کا آغاز کرنے کے بجائے اسے گھسیٹتے ہوئے نومبر تک لایا گیا۔
وزیر اعظم نے میجر(ر) اعظم سلیمان کی سربراہی میں نئی انتظامی ٹیم کو میدان میں اتارا تو چیف سیکرٹری اعظم سلیمان نے بھی کارکردگی دکھانے کی نیت سے نئے سیکرٹری فوڈ وقاص علی محمود کو آٹے کی قیمت کم کروانے کا ٹاسک دیا، جنہوں نے صرف تین روپے کم کروانے کی خاطر مزید 22 دن ضائع کر دیئے اور اس عرصہ میں ملک بھر میں آٹا بحران کا شور مچ گیا جسے سنبھالتے ہوئے حکومت کو تین ماہ لگ گئے ۔ ایف آئی اے، اینٹی کرپشن اور آئی بی پر مشتمل ٹیم نے اپنی رپورٹ میں حکومت بالخصوص بیوروکریسی کی غفلت کو بحران کا مرکزی سبب قرار دیا ۔
رواں برس گندم خریداری کا سیزن آیا تو ایک مرتبہ پھر پنجاب کی بیوروکریسی نے اپنی کارکردگی دکھانے کیلئے 45 لاکھ ٹن خریداری کا ہدف مکمل کرنے کے لئے پورے پنجاب کو 'نو گو ایریا' بنا ڈالا ،محکمہ خوراک کے انتظامی حکام بھی ''ایک پیج'' پر نہ تھے، ہر کوئی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنانے کی کوشش کر رہا تھا ۔اس تمام صورتحال پر وزیر اعلی عثمان بزدار اور سینئر وزیر خوراک عبدالعلیم خان بھی پریشان تھے کہ انکی ہدایات اور حکمت عملی پر بیوروکریسی مکمل عملدرآمد کیوں نہیں کر رہی۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ ضلعی افسر ایوان وزیر اعلیٰ کی بجائے چیف سیکرٹری آفس کو 'بالادست' مانتے ہیں۔
فلور ملز ماضی میں 18 سے20 لاکھ ٹن گندم خرید کر مئی تا ستمبر تک سرکاری گندم حاصل کئے بغیر آٹا کی طلب پوری کرتی تھیں جس کی بدولت محکمہ خوراک پر دباو نہیں ہوتا تھا لیکن اس مرتبہ انہیں سٹوریج کے لیے گندم خریدنے نہیں دی گئی۔ سخت ترین صوبہ بندی اور بد انتظامی کے باوجود خریداری ہدف مکمل نہیں کیا جا سکا۔ یہی وجہ ہے کہ فلورملز کے گودام خالی ہیں، اوپن مارکیٹ میں گندم 1950 روپے فی من میں فروخت ہو رہی ہے اور وفاقی حکومت کی ہدایت پر پنجاب کو تاریخ میں پہلی بار قبل از وقت گندم کا اجرا کرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن ایک نیا چیلنج بدستور قائم ہے کہ اگرحکومت نے خود یا نجی امپورٹرز نے اکتوبر ،نومبر تک 10 سے15 لاکھ ٹن گندم امپورٹ نہیں کی تو ایک مرتبہ پھر ملک بھر میں آٹے کی شدید قلت اور بلند ترین قیمتوں کا سنگین بحران پیدا ہوجائے گا۔
سیکرٹری فوڈ وقاص علی محمود کو تبدیل کر کے افسر بکار خاص بنا دیا گیا ہے اور گریڈ 21 کے اسد رحمن گیلانی کو نیا سیکرٹری فوڈ تعینات کر دیا گیا ہے ۔ جس بحران کو ایک ماہ سے سابق سیکرٹری فوڈ قابو نہیں کر پا رہے تھے اس کو اسد گیلانی نے سینئر وزیر عبدالعلیم خان اور چیف سیکرٹری جواد رفیق ملک کی سربراہی میں 48 گھنٹے میں ڈی فیوز تو کر دیا ہے لیکن بحران ابھی مکمل ختم نہیں ہوا بلکہ دو ماہ کیلئے ٹل گیا ہے۔
سب سے پہلے تو حکومت کو فیصلہ سازی کی سمت اور رفتار درست کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ بحران کی تمام کی ذمہ داری سابق سیکرٹری فوڈ پر عائد کردی گئی ہے لیکن در حقیقت کچھ دیگر افسر بھی شریک گناہ ہیں۔ پنجاب کابینہ نے آٹا تھیلا 860 روپے میں فروخت کرنے کی منظوری دی ہے لیکن حکومت صرف 17 ہزار ٹن سرکاری گندم دیکر اس قیمت پر وافر دستیابی کو یقینی نہیں بنا سکتی ۔موجودہ سٹاکس اور صورتحال کے تناظر میں طلب اور رسد میں 50 فیصد تک قلت رہے گی۔اوپن مارکیٹ میں گندم کی قیمت پھر سے دو ہزار روپے کی سطح کو چھو رہی ہے ۔
وزیر اعظم عمران خان نے عبدالعلیم خان کو یقین دلایا ہے کہ وفاقی حکومت گندم امپورٹ کر کے پنجاب کی قلت دور کرے گی لیکن صرف یقین دہانی سے بات نہیں بنے گی۔وفاقی حکومت کو فوری اقدامات کرنا ہوں گے کیونکہ گندم کی عالمی منڈی میں صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے اور حکومت کو یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ گندم کتنی مدت میں پاکستان پہنچ سکتی ہے اس میں کورونا کی وجہ سے عالمی صورتحال اور سمندری موسم کے رسک کو بھی شامل کرنا ہوگا۔
محکمہ خوراک پنجاب نے گزشتہ روز گندم کا اجراء شروع کردیا ہے لیکن چیف سیکرٹری آفس کے سٹاف کی غلطی سے بعض فعال ملز کو بھی غیر فعال کر کے چند بڑے شہروں بشمول لاہور میں ایک نیا تنازعہ پیدا کردیا گیا جسے چیف سیکرٹری نے دور کرنے کی ہدایت کردی ہے۔سینئر وزیر عبدالعلیم خان نے وزیر اعظم کو پنجاب میں گندم آٹے کی تمام صورتحال سے بہت تفصیل سے آگاہ کیا ہے جس پر وزیر اعظم امپورٹ کے حوالے سے سنجیدہ ہوئے ہیں ورنہ وفاقی وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی کے اعلی حکام نے تو ایک بین الصوبائی اجلاس میں گندم امپورٹ کی ذمہ داری پنجاب پر ڈال دی تھی۔
محکمہ خوراک کے بارے عمومی تاثر ایک کرپٹ محکمہ کا ہے لیکن اس مرتبہ یہ محکمہ حقیقی معنوں میں مظلوم ہے کیونکہ اسے بیوروکریسی اور کابینہ نے فٹ بال بنا ڈالا ہے۔عبدالعلیم خان ،نئے سیکرٹری فوڈ کے حوالے سے مطمئن ہیں کہ وہ بہتری لائیں گے ،اسی لیئے انہوں نے کہا ہے کہ انسان کو سب کچھ سکھایا جا سکتا ہے لیکن ایمانداری نہیں سکھائی جاسکتی،یہ تو انسان میں بائی ڈیفالٹ ہوتی ہے اور میرا نیا سیکرٹری ایماندار شخص ہے۔وزیر اعلی، سینئر وزیر، چیف سیکرٹری اور سیکرٹری فوڈ کو دو ماہ بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا تخمینہ لگا کر فیصلہ سازی کرنا ہوگی ورنہ پنجاب کے عوام سڑکوں پر احتجاج کرتے دکھائی دیں گے۔
گزشتہ دو برس میں وزیر اعظم کی سب سے زیادہ توجہ اور پریشانی کا مرکز گندم چینی آٹا بحران دکھائی دیتا ہے کیونکہ عوام معاشی زوال، مہنگائی سمیت کورونا کی ''مس ہینڈلنگ'' تو برداشت کیئے جا رہے ہیں لیکن بات جب روٹی پر آجائے تو انسان کی برداشت جواب دے جاتی ہے۔ تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کے اراکین اسمبلی کی ایک نمایاں تعداد کاشتکار ہے لیکن اس کے باوجود غذائی بحران پیدا ہونے کا ایک بڑا سبب ان اراکین کی آراء اور تجاویز کو یکسر نظر انداز کر کے خود کو عقل کل سمجھتے ہوئے کئے جانے والے فیصلے ہیں ۔
موجودہ اور مستقبل کے چیلنجز کا تجزیہ کرنے سے قبل ایک بار ماضی کے بحران کا جائزہ لینا اشد ضروری ہے۔گزشتہ برس اکتوبر میں جنم لینے والا ملک گیر آٹا بحران کی وجہ گندم کی قلت نہیں بلکہ انتظامی غفلت اور مس ہینڈلنگ تھی۔ سندھ، کے پی کے اور بلوچستان کے پاس وافر گندم موجود نہ تھی۔ پنجاب میں اس کی صوبائی ضروریات کے مطابق وافر گندم موجود تھی لیکن ستمبر میں سرکاری گندم کے اجراء کا آغاز کرنے کے بجائے اسے گھسیٹتے ہوئے نومبر تک لایا گیا۔
وزیر اعظم نے میجر(ر) اعظم سلیمان کی سربراہی میں نئی انتظامی ٹیم کو میدان میں اتارا تو چیف سیکرٹری اعظم سلیمان نے بھی کارکردگی دکھانے کی نیت سے نئے سیکرٹری فوڈ وقاص علی محمود کو آٹے کی قیمت کم کروانے کا ٹاسک دیا، جنہوں نے صرف تین روپے کم کروانے کی خاطر مزید 22 دن ضائع کر دیئے اور اس عرصہ میں ملک بھر میں آٹا بحران کا شور مچ گیا جسے سنبھالتے ہوئے حکومت کو تین ماہ لگ گئے ۔ ایف آئی اے، اینٹی کرپشن اور آئی بی پر مشتمل ٹیم نے اپنی رپورٹ میں حکومت بالخصوص بیوروکریسی کی غفلت کو بحران کا مرکزی سبب قرار دیا ۔
رواں برس گندم خریداری کا سیزن آیا تو ایک مرتبہ پھر پنجاب کی بیوروکریسی نے اپنی کارکردگی دکھانے کیلئے 45 لاکھ ٹن خریداری کا ہدف مکمل کرنے کے لئے پورے پنجاب کو 'نو گو ایریا' بنا ڈالا ،محکمہ خوراک کے انتظامی حکام بھی ''ایک پیج'' پر نہ تھے، ہر کوئی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنانے کی کوشش کر رہا تھا ۔اس تمام صورتحال پر وزیر اعلی عثمان بزدار اور سینئر وزیر خوراک عبدالعلیم خان بھی پریشان تھے کہ انکی ہدایات اور حکمت عملی پر بیوروکریسی مکمل عملدرآمد کیوں نہیں کر رہی۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ ضلعی افسر ایوان وزیر اعلیٰ کی بجائے چیف سیکرٹری آفس کو 'بالادست' مانتے ہیں۔
فلور ملز ماضی میں 18 سے20 لاکھ ٹن گندم خرید کر مئی تا ستمبر تک سرکاری گندم حاصل کئے بغیر آٹا کی طلب پوری کرتی تھیں جس کی بدولت محکمہ خوراک پر دباو نہیں ہوتا تھا لیکن اس مرتبہ انہیں سٹوریج کے لیے گندم خریدنے نہیں دی گئی۔ سخت ترین صوبہ بندی اور بد انتظامی کے باوجود خریداری ہدف مکمل نہیں کیا جا سکا۔ یہی وجہ ہے کہ فلورملز کے گودام خالی ہیں، اوپن مارکیٹ میں گندم 1950 روپے فی من میں فروخت ہو رہی ہے اور وفاقی حکومت کی ہدایت پر پنجاب کو تاریخ میں پہلی بار قبل از وقت گندم کا اجرا کرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن ایک نیا چیلنج بدستور قائم ہے کہ اگرحکومت نے خود یا نجی امپورٹرز نے اکتوبر ،نومبر تک 10 سے15 لاکھ ٹن گندم امپورٹ نہیں کی تو ایک مرتبہ پھر ملک بھر میں آٹے کی شدید قلت اور بلند ترین قیمتوں کا سنگین بحران پیدا ہوجائے گا۔
سیکرٹری فوڈ وقاص علی محمود کو تبدیل کر کے افسر بکار خاص بنا دیا گیا ہے اور گریڈ 21 کے اسد رحمن گیلانی کو نیا سیکرٹری فوڈ تعینات کر دیا گیا ہے ۔ جس بحران کو ایک ماہ سے سابق سیکرٹری فوڈ قابو نہیں کر پا رہے تھے اس کو اسد گیلانی نے سینئر وزیر عبدالعلیم خان اور چیف سیکرٹری جواد رفیق ملک کی سربراہی میں 48 گھنٹے میں ڈی فیوز تو کر دیا ہے لیکن بحران ابھی مکمل ختم نہیں ہوا بلکہ دو ماہ کیلئے ٹل گیا ہے۔
سب سے پہلے تو حکومت کو فیصلہ سازی کی سمت اور رفتار درست کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ بحران کی تمام کی ذمہ داری سابق سیکرٹری فوڈ پر عائد کردی گئی ہے لیکن در حقیقت کچھ دیگر افسر بھی شریک گناہ ہیں۔ پنجاب کابینہ نے آٹا تھیلا 860 روپے میں فروخت کرنے کی منظوری دی ہے لیکن حکومت صرف 17 ہزار ٹن سرکاری گندم دیکر اس قیمت پر وافر دستیابی کو یقینی نہیں بنا سکتی ۔موجودہ سٹاکس اور صورتحال کے تناظر میں طلب اور رسد میں 50 فیصد تک قلت رہے گی۔اوپن مارکیٹ میں گندم کی قیمت پھر سے دو ہزار روپے کی سطح کو چھو رہی ہے ۔
وزیر اعظم عمران خان نے عبدالعلیم خان کو یقین دلایا ہے کہ وفاقی حکومت گندم امپورٹ کر کے پنجاب کی قلت دور کرے گی لیکن صرف یقین دہانی سے بات نہیں بنے گی۔وفاقی حکومت کو فوری اقدامات کرنا ہوں گے کیونکہ گندم کی عالمی منڈی میں صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے اور حکومت کو یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ گندم کتنی مدت میں پاکستان پہنچ سکتی ہے اس میں کورونا کی وجہ سے عالمی صورتحال اور سمندری موسم کے رسک کو بھی شامل کرنا ہوگا۔
محکمہ خوراک پنجاب نے گزشتہ روز گندم کا اجراء شروع کردیا ہے لیکن چیف سیکرٹری آفس کے سٹاف کی غلطی سے بعض فعال ملز کو بھی غیر فعال کر کے چند بڑے شہروں بشمول لاہور میں ایک نیا تنازعہ پیدا کردیا گیا جسے چیف سیکرٹری نے دور کرنے کی ہدایت کردی ہے۔سینئر وزیر عبدالعلیم خان نے وزیر اعظم کو پنجاب میں گندم آٹے کی تمام صورتحال سے بہت تفصیل سے آگاہ کیا ہے جس پر وزیر اعظم امپورٹ کے حوالے سے سنجیدہ ہوئے ہیں ورنہ وفاقی وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی کے اعلی حکام نے تو ایک بین الصوبائی اجلاس میں گندم امپورٹ کی ذمہ داری پنجاب پر ڈال دی تھی۔
محکمہ خوراک کے بارے عمومی تاثر ایک کرپٹ محکمہ کا ہے لیکن اس مرتبہ یہ محکمہ حقیقی معنوں میں مظلوم ہے کیونکہ اسے بیوروکریسی اور کابینہ نے فٹ بال بنا ڈالا ہے۔عبدالعلیم خان ،نئے سیکرٹری فوڈ کے حوالے سے مطمئن ہیں کہ وہ بہتری لائیں گے ،اسی لیئے انہوں نے کہا ہے کہ انسان کو سب کچھ سکھایا جا سکتا ہے لیکن ایمانداری نہیں سکھائی جاسکتی،یہ تو انسان میں بائی ڈیفالٹ ہوتی ہے اور میرا نیا سیکرٹری ایماندار شخص ہے۔وزیر اعلی، سینئر وزیر، چیف سیکرٹری اور سیکرٹری فوڈ کو دو ماہ بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا تخمینہ لگا کر فیصلہ سازی کرنا ہوگی ورنہ پنجاب کے عوام سڑکوں پر احتجاج کرتے دکھائی دیں گے۔