کیا حکومت کیا اپوزیشن کے الیکٹرک سے سبھی نالاں ہیں
کے الیکٹرک کی نااہلی کے باعث گزشتہ مون سون کے سیزن میں بھی کراچی میں متعدد افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں سخت گرمی کے دوران ہونے والی بدترین لوڈ شیدنگ نے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز کر دیا ہے۔
شہر کو بجلی سپلائی کرنے والی کمپنی کی جانب سے مختلف تیکنیکی فالٹس،فرنس آئل کی کمی اور دیگر کو جواز بنا کر اب ان علاقوں میں بھی لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے جن کو پہلے بجلی کی بندش سے استثنیٰ دے دیا گیا تھا جبکہ دیگر علاقوں میں 12سے 15گھنٹے کی بدترین لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وفاق میں حکمران تحریک انصاف ہو یا صوبائی حکمران جماعت پیپلزپارٹی سب ہی کے الیکٹر ک کی کارکردگی سے نالاں ہیں، لیکن اس کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرنے سے قاصر ہیں۔ایک جانب سے وفاقی حکومت نے کے الیکٹر ک کو بجلی کی قیمتیں بڑھانے کی اجاز ت دے دی ہے تو دوسری جانب حکمراں جماعت کی سندھ قیادت نے کے الیکٹرک کے دفتر کے باہر احتجاجی دھرنہ دے دیا، جبکہ کمپنی کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا بھی اعلان کیا ہے۔
تحریک انصاف کے رہنماؤں کا ایک پریس کانفرنس میں کہنا تھاکہ ہماری اسلام آباد میں وفاقی وزیر عمر ایوب سے 24جون کوملاقات ہوئی تھی جس میں وہاں موجود ایم ڈی کے الیکٹرک نے وعدہ کیا تھا کہ 28جون کو لوڈشیڈنگ ختم ہوجائے گی۔ 28جون کو جب میں نے ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔وفاق کی جانب سے فرنس آئل کی فراہمی کے بعد بھی لوڈشیڈنگ کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
تحریک انصاف کے علاوہ ایم کیو ایم پاکستان،جماعت اسلامی،مسلم لیگ (ق)،مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتیں بھی کے الیکٹر ک کے خلاف یک زبان ہیں۔ کے الیکٹر ک کی جانب سے ہونے والی اووربلنگ سے شہری پہلے ہی پریشان تھے کہ اب طویل لوڈشیڈنگ بھی ان کے مقدر میں لکھ دی گئی ہے۔
حکومت سندھ کی جانب سے لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ،سانحہ بلدیہ فیکٹری اورفشرمین کوآپریٹوسوسائٹی کے سابق چیئرمین نثار مورائی کی جوائنٹ انویسٹی گیشن رپورٹس (جے آئی ٹیز) پبلک کردی گئی ہیں جو محکمہ داخلہ سندھ کی ویب سائٹ پر دستیاب ہیں۔ان جے آئی ٹیز میں جن ملزمان سے تفتیش کی گئی ہے انہوں نے سنگین انکشافات کیے ہیں۔ان رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کراچی کے حالات خراب کرنے میں مبینہ طور پر کئی سیاسی جماعتیں اور رہنماء ملوث ہیں۔
ترجمان حکومت سندھ بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے کچھ روز قبل پریس کانفرنس میں جے آئی ٹیز پبلک کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ عزیربلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ میں فریال تالپوراورآصف علی زرداری یا پیپلزپارٹی قیادت کا کوئی ذکر نہیں۔ واضح رہے کہ وفاقی وزیر علی زیدی ان رپورٹس کو پبلک کرنے کے حوالے سے سندھ ہائی کورٹ گئے تھے،جہاں عدالت عالیہ نے جے آئی ٹی رپورٹس پبلک کرنے کے احکامات دیئے تھے۔
معروف قانون دان حسان صابر ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے،اس سے تحقیقات میں مدد ملتی ہے۔کوئی بھی کیس عدالت میں جے آئی ٹی نہیں بلکہ چالان اور ثبوتوں کی بنیاد پر چلتا ہے،ان رپورٹس کے پبلک ہونے سے اس سے متعلق کیسوں کی عدالتی کارروائی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
کراچی میں مون سون کی بارش کے آغاز کے ساتھ ہی شہر کے بلدیاتی اداروں کی کارکردگی کا پول کھول دیا ہے۔بارش کے بعد ہی شہرقائدکے کئی علاقے دریا کا منظر پیش کرنے لگے ہیں۔ بارشوں کا سلسلہ مزید جاری رہنے کا امکان ہے۔ بارشوں سے قبل محکمہ بلدیات،بلدیہ عظمیٰ کراچی،ڈی ایم سیز اور دیگر متعلقہ اداروں کی جانب سے دعوے تو بڑے کیے جاتے ہیں لیکن بارش کی پہلی بوند کے بعد ہی ان کے دعووں کی قلعی کھل جاتی ہے۔بارشوں میں کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ کرنٹ لگنے سے اموات ہیں۔
کے الیکٹرک کی نااہلی کے باعث گزشتہ مون سون کے سیزن میں بھی کراچی میں متعدد افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔اس مرتبہ بھی شہری خوفزدہ ہیں کہ اگر بارشوں کا سلسلہ دراز ہوگیا تو انہیں مزید نقصانات کا خدشہ ہے۔ادھر وزیربلدیات ناصر شاہ کا دعویٰ ہے کہ تمام متعلقہ بلدیاتی ادارے بشمول کے ایم سی، ڈی ایم سیز، ڈی ایچ اے، کنٹونمنٹ بورڈ ایک پیج پر ہیں اور مشترکہ مربوط حکمت عملی کے تحت اقدامات میں مصروف ہیں لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔
مختلف مکاتب فکر کے علما نے آن لائن قربانی کو مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قربانی عبادت مقصودہ ہے، اس کا متبادل مالی صدقہ نہیں ہوسکتا، اور حالات کو بنیاد بناکر قربانی کے بجائے مالی صدقے کی بات قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ مفتی منیب الرحمن کا پریس کانفرنس میں یہ بھی کہنا تھاکہ سندھ کی حکومت کے صوبائی وزرا سید ناصر حسین شاہ، سعید غنی سے مذاکرات میں کئی امور طے ہوئے ہیں اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ مویشی منڈی آبادی سے باہر ہو یا کسی چار دیواری میں، اجتماعی قربانی کا اہتمام کیا جائے اور حفاظتی تدابیر اختیار کی جائیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ علماء کرام کورونا ایس او پیز کے حوالے سے حکومت سے بھرپور تعاون کررہے ہیں۔
جمعیت علما اسلام(ف) صوبہ سندھ کے زیر اہتمام کراچی میں 9 جولائی جمعرات کو مرکزی امیر مولانا فضل الرحمن کی صدارت میں منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کی تیاریاں حتمی مرحلے میں داخل ہوگئی ہیں۔اس ضمن میں تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین اور ذمہ داران کو دعوت نامے پہنچا دیئے گئے ہیں۔جمعیت علماء اسلام کی اے پی سی این ایف سی ایوارڈ سمیت ملک کے اہم مسائل پر گفتگو کی جائے گی۔
شہر کو بجلی سپلائی کرنے والی کمپنی کی جانب سے مختلف تیکنیکی فالٹس،فرنس آئل کی کمی اور دیگر کو جواز بنا کر اب ان علاقوں میں بھی لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے جن کو پہلے بجلی کی بندش سے استثنیٰ دے دیا گیا تھا جبکہ دیگر علاقوں میں 12سے 15گھنٹے کی بدترین لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وفاق میں حکمران تحریک انصاف ہو یا صوبائی حکمران جماعت پیپلزپارٹی سب ہی کے الیکٹر ک کی کارکردگی سے نالاں ہیں، لیکن اس کے خلاف کوئی بھی کارروائی کرنے سے قاصر ہیں۔ایک جانب سے وفاقی حکومت نے کے الیکٹر ک کو بجلی کی قیمتیں بڑھانے کی اجاز ت دے دی ہے تو دوسری جانب حکمراں جماعت کی سندھ قیادت نے کے الیکٹرک کے دفتر کے باہر احتجاجی دھرنہ دے دیا، جبکہ کمپنی کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا بھی اعلان کیا ہے۔
تحریک انصاف کے رہنماؤں کا ایک پریس کانفرنس میں کہنا تھاکہ ہماری اسلام آباد میں وفاقی وزیر عمر ایوب سے 24جون کوملاقات ہوئی تھی جس میں وہاں موجود ایم ڈی کے الیکٹرک نے وعدہ کیا تھا کہ 28جون کو لوڈشیڈنگ ختم ہوجائے گی۔ 28جون کو جب میں نے ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔وفاق کی جانب سے فرنس آئل کی فراہمی کے بعد بھی لوڈشیڈنگ کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
تحریک انصاف کے علاوہ ایم کیو ایم پاکستان،جماعت اسلامی،مسلم لیگ (ق)،مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتیں بھی کے الیکٹر ک کے خلاف یک زبان ہیں۔ کے الیکٹر ک کی جانب سے ہونے والی اووربلنگ سے شہری پہلے ہی پریشان تھے کہ اب طویل لوڈشیڈنگ بھی ان کے مقدر میں لکھ دی گئی ہے۔
حکومت سندھ کی جانب سے لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ،سانحہ بلدیہ فیکٹری اورفشرمین کوآپریٹوسوسائٹی کے سابق چیئرمین نثار مورائی کی جوائنٹ انویسٹی گیشن رپورٹس (جے آئی ٹیز) پبلک کردی گئی ہیں جو محکمہ داخلہ سندھ کی ویب سائٹ پر دستیاب ہیں۔ان جے آئی ٹیز میں جن ملزمان سے تفتیش کی گئی ہے انہوں نے سنگین انکشافات کیے ہیں۔ان رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کراچی کے حالات خراب کرنے میں مبینہ طور پر کئی سیاسی جماعتیں اور رہنماء ملوث ہیں۔
ترجمان حکومت سندھ بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے کچھ روز قبل پریس کانفرنس میں جے آئی ٹیز پبلک کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ عزیربلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ میں فریال تالپوراورآصف علی زرداری یا پیپلزپارٹی قیادت کا کوئی ذکر نہیں۔ واضح رہے کہ وفاقی وزیر علی زیدی ان رپورٹس کو پبلک کرنے کے حوالے سے سندھ ہائی کورٹ گئے تھے،جہاں عدالت عالیہ نے جے آئی ٹی رپورٹس پبلک کرنے کے احکامات دیئے تھے۔
معروف قانون دان حسان صابر ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے،اس سے تحقیقات میں مدد ملتی ہے۔کوئی بھی کیس عدالت میں جے آئی ٹی نہیں بلکہ چالان اور ثبوتوں کی بنیاد پر چلتا ہے،ان رپورٹس کے پبلک ہونے سے اس سے متعلق کیسوں کی عدالتی کارروائی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
کراچی میں مون سون کی بارش کے آغاز کے ساتھ ہی شہر کے بلدیاتی اداروں کی کارکردگی کا پول کھول دیا ہے۔بارش کے بعد ہی شہرقائدکے کئی علاقے دریا کا منظر پیش کرنے لگے ہیں۔ بارشوں کا سلسلہ مزید جاری رہنے کا امکان ہے۔ بارشوں سے قبل محکمہ بلدیات،بلدیہ عظمیٰ کراچی،ڈی ایم سیز اور دیگر متعلقہ اداروں کی جانب سے دعوے تو بڑے کیے جاتے ہیں لیکن بارش کی پہلی بوند کے بعد ہی ان کے دعووں کی قلعی کھل جاتی ہے۔بارشوں میں کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ کرنٹ لگنے سے اموات ہیں۔
کے الیکٹرک کی نااہلی کے باعث گزشتہ مون سون کے سیزن میں بھی کراچی میں متعدد افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔اس مرتبہ بھی شہری خوفزدہ ہیں کہ اگر بارشوں کا سلسلہ دراز ہوگیا تو انہیں مزید نقصانات کا خدشہ ہے۔ادھر وزیربلدیات ناصر شاہ کا دعویٰ ہے کہ تمام متعلقہ بلدیاتی ادارے بشمول کے ایم سی، ڈی ایم سیز، ڈی ایچ اے، کنٹونمنٹ بورڈ ایک پیج پر ہیں اور مشترکہ مربوط حکمت عملی کے تحت اقدامات میں مصروف ہیں لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔
مختلف مکاتب فکر کے علما نے آن لائن قربانی کو مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قربانی عبادت مقصودہ ہے، اس کا متبادل مالی صدقہ نہیں ہوسکتا، اور حالات کو بنیاد بناکر قربانی کے بجائے مالی صدقے کی بات قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ مفتی منیب الرحمن کا پریس کانفرنس میں یہ بھی کہنا تھاکہ سندھ کی حکومت کے صوبائی وزرا سید ناصر حسین شاہ، سعید غنی سے مذاکرات میں کئی امور طے ہوئے ہیں اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ مویشی منڈی آبادی سے باہر ہو یا کسی چار دیواری میں، اجتماعی قربانی کا اہتمام کیا جائے اور حفاظتی تدابیر اختیار کی جائیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ علماء کرام کورونا ایس او پیز کے حوالے سے حکومت سے بھرپور تعاون کررہے ہیں۔
جمعیت علما اسلام(ف) صوبہ سندھ کے زیر اہتمام کراچی میں 9 جولائی جمعرات کو مرکزی امیر مولانا فضل الرحمن کی صدارت میں منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کی تیاریاں حتمی مرحلے میں داخل ہوگئی ہیں۔اس ضمن میں تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین اور ذمہ داران کو دعوت نامے پہنچا دیئے گئے ہیں۔جمعیت علماء اسلام کی اے پی سی این ایف سی ایوارڈ سمیت ملک کے اہم مسائل پر گفتگو کی جائے گی۔