مستحکم اقتصادی نظام کی ضرورت
اب بھی حکومت بینکوں، دوست ملکوں اور جی20 سے قرضوں میں ریلیف کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔
پاکستان اور چین کے گیزوبا گروپ کے مابین پیر آزاد پتن ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی تعمیر کے معاہدہ پر دستخط ہوئے۔ ڈیڑھ ارب روپے کی لاگت سے یہ منصوبہ سی پیک کے تحت مکمل کیا جارہا ہے۔ اس کی تکمیل سے پاکستان کو 700 میگاواٹ کی سستی بجلی اور تین ہزار افراد کو ملازمت کے مواقع ملیں گے۔
معاہدے پر دستخطوں کی تقریب میں وزیر اعظم عمران خان نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ سی پیک پاکستان کا مستقبل ہے، اس سے ملک ترقی کریگا۔ آزاد پتن ہائیڈرو پاور پراجیکٹ سی پیک کا حصہ ہے، خوشی ہے کہ یہ منصوبہ سرمایہ کاری ہے، قرضہ لے کر نہیں بنایا جارہا، ان منصوبوں سے ہمارے کلین اور گرین پاکستان کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوگا۔ سی پیک پاکستان اور چین کی لازوال دوستی کی مثال ہے، سی پیک مرحلہ وار آگے بڑھ رہا ہے، اس سے پاکستانی عوام کی امیدیں وابستہ ہیں۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا یہ پاکستان کے لیے اہم سنگ میل ہے، پوری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے، ملک میں بہترین صلاحیتوں کے مالک ماہرین موجود ہیں جو نئی ٹیکنالوجی سے متعلق ایجادات دے سکتے ہیں، ہماری حکومت اس سلسلے میں نوجوانوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے ہر ممکنہ معاونت کرے گی۔ وزیر اعظم نے پہلی بار اندرون ملک وینٹی لیٹر بنانے کے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی اور این آر ٹی سی کے اقدام کو سراہا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ وینٹی لیٹر کی تیاری پاکستان کے لیے ایک اہم کامیابی ہے، نئی تکنیکی جدت کے ذریعے خود انحصاری کی طرف جانا ہو گا، کورونا وبا کے رسپانس اور معیشت کو مد نظر رکھتے ہوئے اسمارٹ لاک ڈاؤن کے ہمارے اقدامات کو سراہا گیا ہے۔ ہماری توجہ اب جامع ہیلتھ اصلاحات پر مرکوز ہے۔ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری، وزیر توانائی عمر ایوب خان، وزیر اعظم کے کووڈ19کے حوالے سے فوکل پرسن ڈاکٹر فیصل سلطان، چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل اور اعلیٰ حکام بھی اس موقع پر موجود تھے۔
وزیر اعظم عمران خان نے پیر کا دن انتہائی مصروف گزارا، یہ خوش آیند پیش رفت ہے کہ ملک میں وینٹی لیٹرز کی تیاری، فروخت اور اسپتالوں میں استعمال کی سہولتیں بھی ملیں گی، کورونا نے پوری دنیا کو ایک غیر متوقع اور ہیجانی صورتحال میں مبتلا کیا ہے لیکن ماہرین اور فہمیدہ لوگوں کا کہنا ہے کہ جن ممالک میں فوری اقدامات کی صلاحیت رکھنے والی حکومتیں ہیں وہ اس چیلنج سے نمٹنے میں خاصی کامیاب رہی ہیں، لیکن جن ممالک میں بے جان قیادت تھی یا ابھی ہے وہاں اس مصیبت سے نمٹنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے، مگر جو بات کسی دانشور نے معاصر اخبار میں کہی وہ فکر انگیز ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جس حکومت کے پاس ایک سے بڑھ کر ایک منہ پھٹ وزیر ہو تو اسے دشمن کی ضرورت نہیں، لہٰذا اب جب کہ مریضوں کی امداد اور معاونت کے لیے حکومت نے وینٹی لیٹرز بنائے ہیں تو دنیا کو بتا دیا جائے کہ پاکستان صحت کے شعبے میں سنجیدہ کوششیں کر رہا ہے، مریضوں کو وینٹی لیٹرز کے لیے موت کا انتظار نہیں کرنا پڑیگا۔ کورونا نے بلاشبہ انسانی ضمیر کو بھی جھنجھوڑ دیا ہے۔
معروف فٹبالر کرسٹیانو رونالڈو نے ایک ٹویٹ میں کورونا وبا سے دوچار دکھی انسانیت کے نام اپنے پیغام میں کہا ہے کہ اس نازک وقت میں ہمیں ساتھ مل کر انسانیت کی خدمت کے لیے آگے آنا چاہیے، ان کے حوالہ سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنے ایک ہوٹل کو اسپتال میں تبدیل کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔دوسری جانب ملک کو کئی چیلنجز درپیش ہیں، بیشمار مسائل ابھی بازیچہ اطفال میں ہیں، جنھیں ہمارے ارباب اختیار اپنی ناتدبیریوں کے باعث چیلنجز کی شکل دے سکتے ہیں مگر مہنگائی اور بیروزگاری تو کسی بھی حکومت کے اعصاب کے لیے تازیانہ ہے، جمہوریت تو نام ہی شہریوں کو سکھ پہنچانا ہے، عوام آسودہ حال ہونگے تو کسے کو کیا پڑی ہے کہ وہ ارباب اختیار کے معیار حکمرانی کو چیلنج کرے۔
آج معیشت قرضوں میں جکڑی ہوئی ہے اور اب بھی حکومت بینکوں، دوست ملکوں اور جی20 سے قرضوں میں ریلیف کے حصول کے لیے کوشاں ہے، ملک کو ''مفت کی پیتے تھے مئے'' کے گھناؤنے چکر سے نکلنا چاہیے۔ وزیر اعظم کی زیر صدارت گزشتہ زور ملک میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کمی لانے کے اقدامات کے حوالے سے بھی ایک جائزہ اجلاس ہوا۔
صوبائی چیف سیکریٹریز نے بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی لانے کے لیے اقدامات اور ان اقدامات کے نتائج کا تقابلی جائزہ پیش کیا۔ کورونا وائرس کی صورتحال کے تناظر میں صوبوں میں ضروری ادویات اور آکسیجن کی سپلائی کو بلا تعطل ممکن بنانے کے حوالے سے بھی شرکاء کو تفصیلی طور پر آگاہ کیا گیا۔
چیف سیکریٹری پنجاب نے چینی اور آٹے کی ذخیرہ اندوزی کے خلاف کریک ڈاؤن کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اب تک 716 ٹن آٹا اور ایک ارب سے زائد مالیت کی 16008.5ٹن چینی بڑے ذخیرہ اندوزوں اور ڈیلروں سے تحویل میں لی گئی ہے۔
کہتے ہیں کہ صوبہ پنجاب میں چینی کی قیمت سب سے کم ہے۔یہ حکومت کا ایک بروقت اقدام ہے جس کے تحت پنجاب بھر میں ذخیرہ اندوزوں کے خلاف زبردست کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے، بتایا جاتا ہے کہ716 ٹن آٹا، ایک ارب سے زائد مالیت کی 16 ہزار ٹن چینی اور2 ہزار ٹن چاول برآمد کیا گیا، روٹی مہنگی ہوگئی ہے، چینی، گوشت، دودھ، دہی، ادرک لہسن، ٹماٹر، چائے اور دیگر ضروری اشیائے خور ونوش کے دام آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔
ذخیرہ اندوزوں یا اسمگلروں اور مافیاز کے خلاف کارروائی ایک مربوط نظام اور ملکی معیشت کو درپیش مسائل کے مد نظر عوامی آسودگی کے لیے ہونی چاہیے، اب تک جتنے کام ہوئے ہیں وہ ایک مثالی اقتصادی اور سماجی نظام کے قیام کی نوید نہیں دیتے، الل ٹپ اقدامات کا کوئی دیرپا نتیجہ نہیں نکلتا کیونکہ حکومت جب تک چیک اینڈ بیلنس، رسد وطلب اور پرائس کنٹرولنگ میکنزم وضع نہیں کرے گی مارکیٹنگ عوامل کو قابو کرنا اس کے بس میں نہیں ہوگا۔
ایک طرف حکومت چین سے ڈیڑھ ارب ڈالر کے بجلی منصوبے کی تکمیل کررہی ہے، دوسری طرف حکومت نے بجلی 14 فیصد مہنگی کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس میں سبسڈی ختم کرنے پر بھی اسٹینڈ لیا گیا ہے، ایک رپورٹ کے مطابق 300 یونٹ رکھنے والے صارفین سے سبسڈیز کم کرکے اسے صرف 50 یونٹ تک محدود کیا جائے گا، واضح رہے وزیر اعظم عمران خان نے سبسڈیز کے حوالہ سے میکنزم حتمی کرنے کی پہلے ہی ہدایت جاری کردی ہے۔
ذرایع کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ضروریات کے متعلق سماجی و اقتصادی سروے کے بغیر کیا گیا ہے جس کے لیے ابھی تک وفاقی کابینہ کی منظوری یا قانون سازی کی جانی تھی وہ نہیں ہوئی، ادھر ماہرین نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ آگے جاکر قانونی کارروائیوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔ غالباً ماہرین معاشی پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت کو باور کرتے آئے ہیں کہ معیشت کے اونٹ کی کوئی بھی کل سیدھی نہیں ہوگی جبتک سائنسی اور دانشمندانہ حکمت عملی کو بروئے کار نہیں لایا جائے گا۔ بجلی ہی کے بحران پر وزیر اعظم اور مشیر خزانہ قوم کو ایک بڑی تباہی سے خبردار کرچکے ہیں۔
عوام لوڈ شیڈنگ سے عاجز آ گئے ہیں، انھیں توانائی بحران کی کچھ خبر نہیں، وہ دو وقت کی روٹی کے چکر میں الجھے ہوئے ہیں، یہی وقت ہے کہ حکمراں قوم کو مسائل کے بھنور سے نکالیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے جے آئی ٹی کی رپورٹ کے تناظر میں چینی کی ذخیرہ اندوزی کے خلاف مزید موثر کارروائی کی ہدایت کی اور کہا کہ ملاوٹ کے خلاف بھی زیرو ٹالرینس پالیسی اختیار کی جائے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ماضی میں ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری میں ملوث عناصر نے نہ صرف کسان کو ان کے جائز منافع سے محروم کیا بلکہ عام آدمی کو زائد قیمت پر آٹا خریدنے پر مجبور کیا۔ دریں اثناء وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ روز عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل سے ویڈیو کانفرنس کی۔ ڈی جی ڈبلیو ایچ او نے کورونا وباء پر قابو پانے کے حوالے سے پاکستان کے اقدامات کو سراہا۔
وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان سمیت عالمی برادری کے لیے ڈبلیو ایچ او کے تعاون کی تعریف کی اور صحت کے شعبے کی بہتری کے لیے پاکستان کے اقدامات سے متعلق انھیں آگاہ کیا۔ دریں اثناء وزیر اعظم نے نیشنل ریڈیو و ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن (این ٹی آر سی) ہری پور کے دورہ کے دوران پاکستان میں پہلی بار وینٹی لیٹرز کی پیداواری سہولت کا بھی افتتاح کیا۔
انھیں این ٹی آر سی کی خدمات، پیداوار، تحقیق و ترقی اور تاریخ کے بارے میں بریفنگ دی گئی اور بتایا گیا کہ این آر ٹی سی کمیونیکیشن آلات، ای پولیسنگ، الیکٹرو میڈیکل آلات اور ہارڈ و سافٹ ویئر سمیت دیگر خدمات فراہم کر رہی ہے۔ این آر ٹی سی پاکستان کا پہلا ادارہ ہے جو مقامی سطح پر وینٹی لیٹرز بنا رہا ہے، یہ وینٹی لیٹرز آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیے جا سکتے ہیں اور انھیں سیف ایونٹ ایس پی 100کا نام دیا گیا ہے، اس پیداواری یونٹ میں ہر ماہ ڈھائی سو سے 300 تک وینٹی لیٹرز تیار کرنے کی صلاحیت ہے۔
جنوری میں وزارت دفاعی پیداوار نے وینٹی لیٹرز کی تیاری کا ٹاسک دیا تھا، ترک کمپنی کے ڈیزائن پر وینٹی لیٹرز تیار کیے جا رہے ہیں۔ ایک ہفتے میں 75سے 180وینٹی لیٹرز تیار ہوسکتے ہیں۔ انجینئرنگ کونسل نے وینٹی لیٹر کو عالمی معیار کے مطابق قرار دیا ہے۔ وزیر اعظم نے پاکستانی وینٹی لیٹرز کے 15 یونٹس این ڈی ایم اے کے حوالے کیے۔
بہر حال ارباب اختیار کو ایک سیدھی سادی حقیقت مون سون کی بارش اور آندھی نے بتا دی، صرف ایک گھنٹے کی موسلا دھار بارش اور تیز ہوا نے ملک کے سب سے بڑے شہر کو تالاب بنا دیا، رین ایمرجنسی کے سارے دعوے پانی میں بہہ گئے، بجلی کے تار ٹوٹ گئے، بجلی کا نظام معطل ہوا، ہلاکتیں ہوئیں، برساتی نالے بہہ نکلے، ٹریفک جام کے باعث شہری پیدل سفر کرنے پر مجبور ہوئے، رات گئے اپنی منزلوں تک پہنچے۔ لیکن عوام کو تین جے آئی ٹیز کی ہوشربا اور سنسنی خیز داستانیں سنائی جارہی ہیں، حکمراں آخر سیاست کو میلوڈرامیٹک بلندیوں پر کیوں لے جانا چاہتے ہیں، اس انتشار، بے یقینی، بے سمتی اور افراتفری کا خاتمہ کیوں نہیں کیا جاتا جسے جمہوری عمل کا ثمر کہا جاتا ہے۔
معاہدے پر دستخطوں کی تقریب میں وزیر اعظم عمران خان نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ سی پیک پاکستان کا مستقبل ہے، اس سے ملک ترقی کریگا۔ آزاد پتن ہائیڈرو پاور پراجیکٹ سی پیک کا حصہ ہے، خوشی ہے کہ یہ منصوبہ سرمایہ کاری ہے، قرضہ لے کر نہیں بنایا جارہا، ان منصوبوں سے ہمارے کلین اور گرین پاکستان کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوگا۔ سی پیک پاکستان اور چین کی لازوال دوستی کی مثال ہے، سی پیک مرحلہ وار آگے بڑھ رہا ہے، اس سے پاکستانی عوام کی امیدیں وابستہ ہیں۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا یہ پاکستان کے لیے اہم سنگ میل ہے، پوری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے، ملک میں بہترین صلاحیتوں کے مالک ماہرین موجود ہیں جو نئی ٹیکنالوجی سے متعلق ایجادات دے سکتے ہیں، ہماری حکومت اس سلسلے میں نوجوانوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے ہر ممکنہ معاونت کرے گی۔ وزیر اعظم نے پہلی بار اندرون ملک وینٹی لیٹر بنانے کے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی اور این آر ٹی سی کے اقدام کو سراہا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ وینٹی لیٹر کی تیاری پاکستان کے لیے ایک اہم کامیابی ہے، نئی تکنیکی جدت کے ذریعے خود انحصاری کی طرف جانا ہو گا، کورونا وبا کے رسپانس اور معیشت کو مد نظر رکھتے ہوئے اسمارٹ لاک ڈاؤن کے ہمارے اقدامات کو سراہا گیا ہے۔ ہماری توجہ اب جامع ہیلتھ اصلاحات پر مرکوز ہے۔ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری، وزیر توانائی عمر ایوب خان، وزیر اعظم کے کووڈ19کے حوالے سے فوکل پرسن ڈاکٹر فیصل سلطان، چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل اور اعلیٰ حکام بھی اس موقع پر موجود تھے۔
وزیر اعظم عمران خان نے پیر کا دن انتہائی مصروف گزارا، یہ خوش آیند پیش رفت ہے کہ ملک میں وینٹی لیٹرز کی تیاری، فروخت اور اسپتالوں میں استعمال کی سہولتیں بھی ملیں گی، کورونا نے پوری دنیا کو ایک غیر متوقع اور ہیجانی صورتحال میں مبتلا کیا ہے لیکن ماہرین اور فہمیدہ لوگوں کا کہنا ہے کہ جن ممالک میں فوری اقدامات کی صلاحیت رکھنے والی حکومتیں ہیں وہ اس چیلنج سے نمٹنے میں خاصی کامیاب رہی ہیں، لیکن جن ممالک میں بے جان قیادت تھی یا ابھی ہے وہاں اس مصیبت سے نمٹنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے، مگر جو بات کسی دانشور نے معاصر اخبار میں کہی وہ فکر انگیز ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جس حکومت کے پاس ایک سے بڑھ کر ایک منہ پھٹ وزیر ہو تو اسے دشمن کی ضرورت نہیں، لہٰذا اب جب کہ مریضوں کی امداد اور معاونت کے لیے حکومت نے وینٹی لیٹرز بنائے ہیں تو دنیا کو بتا دیا جائے کہ پاکستان صحت کے شعبے میں سنجیدہ کوششیں کر رہا ہے، مریضوں کو وینٹی لیٹرز کے لیے موت کا انتظار نہیں کرنا پڑیگا۔ کورونا نے بلاشبہ انسانی ضمیر کو بھی جھنجھوڑ دیا ہے۔
معروف فٹبالر کرسٹیانو رونالڈو نے ایک ٹویٹ میں کورونا وبا سے دوچار دکھی انسانیت کے نام اپنے پیغام میں کہا ہے کہ اس نازک وقت میں ہمیں ساتھ مل کر انسانیت کی خدمت کے لیے آگے آنا چاہیے، ان کے حوالہ سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنے ایک ہوٹل کو اسپتال میں تبدیل کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔دوسری جانب ملک کو کئی چیلنجز درپیش ہیں، بیشمار مسائل ابھی بازیچہ اطفال میں ہیں، جنھیں ہمارے ارباب اختیار اپنی ناتدبیریوں کے باعث چیلنجز کی شکل دے سکتے ہیں مگر مہنگائی اور بیروزگاری تو کسی بھی حکومت کے اعصاب کے لیے تازیانہ ہے، جمہوریت تو نام ہی شہریوں کو سکھ پہنچانا ہے، عوام آسودہ حال ہونگے تو کسے کو کیا پڑی ہے کہ وہ ارباب اختیار کے معیار حکمرانی کو چیلنج کرے۔
آج معیشت قرضوں میں جکڑی ہوئی ہے اور اب بھی حکومت بینکوں، دوست ملکوں اور جی20 سے قرضوں میں ریلیف کے حصول کے لیے کوشاں ہے، ملک کو ''مفت کی پیتے تھے مئے'' کے گھناؤنے چکر سے نکلنا چاہیے۔ وزیر اعظم کی زیر صدارت گزشتہ زور ملک میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کمی لانے کے اقدامات کے حوالے سے بھی ایک جائزہ اجلاس ہوا۔
صوبائی چیف سیکریٹریز نے بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی لانے کے لیے اقدامات اور ان اقدامات کے نتائج کا تقابلی جائزہ پیش کیا۔ کورونا وائرس کی صورتحال کے تناظر میں صوبوں میں ضروری ادویات اور آکسیجن کی سپلائی کو بلا تعطل ممکن بنانے کے حوالے سے بھی شرکاء کو تفصیلی طور پر آگاہ کیا گیا۔
چیف سیکریٹری پنجاب نے چینی اور آٹے کی ذخیرہ اندوزی کے خلاف کریک ڈاؤن کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اب تک 716 ٹن آٹا اور ایک ارب سے زائد مالیت کی 16008.5ٹن چینی بڑے ذخیرہ اندوزوں اور ڈیلروں سے تحویل میں لی گئی ہے۔
کہتے ہیں کہ صوبہ پنجاب میں چینی کی قیمت سب سے کم ہے۔یہ حکومت کا ایک بروقت اقدام ہے جس کے تحت پنجاب بھر میں ذخیرہ اندوزوں کے خلاف زبردست کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے، بتایا جاتا ہے کہ716 ٹن آٹا، ایک ارب سے زائد مالیت کی 16 ہزار ٹن چینی اور2 ہزار ٹن چاول برآمد کیا گیا، روٹی مہنگی ہوگئی ہے، چینی، گوشت، دودھ، دہی، ادرک لہسن، ٹماٹر، چائے اور دیگر ضروری اشیائے خور ونوش کے دام آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔
ذخیرہ اندوزوں یا اسمگلروں اور مافیاز کے خلاف کارروائی ایک مربوط نظام اور ملکی معیشت کو درپیش مسائل کے مد نظر عوامی آسودگی کے لیے ہونی چاہیے، اب تک جتنے کام ہوئے ہیں وہ ایک مثالی اقتصادی اور سماجی نظام کے قیام کی نوید نہیں دیتے، الل ٹپ اقدامات کا کوئی دیرپا نتیجہ نہیں نکلتا کیونکہ حکومت جب تک چیک اینڈ بیلنس، رسد وطلب اور پرائس کنٹرولنگ میکنزم وضع نہیں کرے گی مارکیٹنگ عوامل کو قابو کرنا اس کے بس میں نہیں ہوگا۔
ایک طرف حکومت چین سے ڈیڑھ ارب ڈالر کے بجلی منصوبے کی تکمیل کررہی ہے، دوسری طرف حکومت نے بجلی 14 فیصد مہنگی کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس میں سبسڈی ختم کرنے پر بھی اسٹینڈ لیا گیا ہے، ایک رپورٹ کے مطابق 300 یونٹ رکھنے والے صارفین سے سبسڈیز کم کرکے اسے صرف 50 یونٹ تک محدود کیا جائے گا، واضح رہے وزیر اعظم عمران خان نے سبسڈیز کے حوالہ سے میکنزم حتمی کرنے کی پہلے ہی ہدایت جاری کردی ہے۔
ذرایع کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ضروریات کے متعلق سماجی و اقتصادی سروے کے بغیر کیا گیا ہے جس کے لیے ابھی تک وفاقی کابینہ کی منظوری یا قانون سازی کی جانی تھی وہ نہیں ہوئی، ادھر ماہرین نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ آگے جاکر قانونی کارروائیوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔ غالباً ماہرین معاشی پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت کو باور کرتے آئے ہیں کہ معیشت کے اونٹ کی کوئی بھی کل سیدھی نہیں ہوگی جبتک سائنسی اور دانشمندانہ حکمت عملی کو بروئے کار نہیں لایا جائے گا۔ بجلی ہی کے بحران پر وزیر اعظم اور مشیر خزانہ قوم کو ایک بڑی تباہی سے خبردار کرچکے ہیں۔
عوام لوڈ شیڈنگ سے عاجز آ گئے ہیں، انھیں توانائی بحران کی کچھ خبر نہیں، وہ دو وقت کی روٹی کے چکر میں الجھے ہوئے ہیں، یہی وقت ہے کہ حکمراں قوم کو مسائل کے بھنور سے نکالیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے جے آئی ٹی کی رپورٹ کے تناظر میں چینی کی ذخیرہ اندوزی کے خلاف مزید موثر کارروائی کی ہدایت کی اور کہا کہ ملاوٹ کے خلاف بھی زیرو ٹالرینس پالیسی اختیار کی جائے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ماضی میں ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری میں ملوث عناصر نے نہ صرف کسان کو ان کے جائز منافع سے محروم کیا بلکہ عام آدمی کو زائد قیمت پر آٹا خریدنے پر مجبور کیا۔ دریں اثناء وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ روز عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل سے ویڈیو کانفرنس کی۔ ڈی جی ڈبلیو ایچ او نے کورونا وباء پر قابو پانے کے حوالے سے پاکستان کے اقدامات کو سراہا۔
وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان سمیت عالمی برادری کے لیے ڈبلیو ایچ او کے تعاون کی تعریف کی اور صحت کے شعبے کی بہتری کے لیے پاکستان کے اقدامات سے متعلق انھیں آگاہ کیا۔ دریں اثناء وزیر اعظم نے نیشنل ریڈیو و ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن (این ٹی آر سی) ہری پور کے دورہ کے دوران پاکستان میں پہلی بار وینٹی لیٹرز کی پیداواری سہولت کا بھی افتتاح کیا۔
انھیں این ٹی آر سی کی خدمات، پیداوار، تحقیق و ترقی اور تاریخ کے بارے میں بریفنگ دی گئی اور بتایا گیا کہ این آر ٹی سی کمیونیکیشن آلات، ای پولیسنگ، الیکٹرو میڈیکل آلات اور ہارڈ و سافٹ ویئر سمیت دیگر خدمات فراہم کر رہی ہے۔ این آر ٹی سی پاکستان کا پہلا ادارہ ہے جو مقامی سطح پر وینٹی لیٹرز بنا رہا ہے، یہ وینٹی لیٹرز آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیے جا سکتے ہیں اور انھیں سیف ایونٹ ایس پی 100کا نام دیا گیا ہے، اس پیداواری یونٹ میں ہر ماہ ڈھائی سو سے 300 تک وینٹی لیٹرز تیار کرنے کی صلاحیت ہے۔
جنوری میں وزارت دفاعی پیداوار نے وینٹی لیٹرز کی تیاری کا ٹاسک دیا تھا، ترک کمپنی کے ڈیزائن پر وینٹی لیٹرز تیار کیے جا رہے ہیں۔ ایک ہفتے میں 75سے 180وینٹی لیٹرز تیار ہوسکتے ہیں۔ انجینئرنگ کونسل نے وینٹی لیٹر کو عالمی معیار کے مطابق قرار دیا ہے۔ وزیر اعظم نے پاکستانی وینٹی لیٹرز کے 15 یونٹس این ڈی ایم اے کے حوالے کیے۔
بہر حال ارباب اختیار کو ایک سیدھی سادی حقیقت مون سون کی بارش اور آندھی نے بتا دی، صرف ایک گھنٹے کی موسلا دھار بارش اور تیز ہوا نے ملک کے سب سے بڑے شہر کو تالاب بنا دیا، رین ایمرجنسی کے سارے دعوے پانی میں بہہ گئے، بجلی کے تار ٹوٹ گئے، بجلی کا نظام معطل ہوا، ہلاکتیں ہوئیں، برساتی نالے بہہ نکلے، ٹریفک جام کے باعث شہری پیدل سفر کرنے پر مجبور ہوئے، رات گئے اپنی منزلوں تک پہنچے۔ لیکن عوام کو تین جے آئی ٹیز کی ہوشربا اور سنسنی خیز داستانیں سنائی جارہی ہیں، حکمراں آخر سیاست کو میلوڈرامیٹک بلندیوں پر کیوں لے جانا چاہتے ہیں، اس انتشار، بے یقینی، بے سمتی اور افراتفری کا خاتمہ کیوں نہیں کیا جاتا جسے جمہوری عمل کا ثمر کہا جاتا ہے۔