لگتاہے نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومت ہے
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایوان وزیراعظم میں بیٹھاایک شخص دوسال سے صرف نام کاوزیراعظم ہے۔
تقریباً دو سال ہونے کو آئے ہیں پی ٹی آئی کی حکومت بنے لیکن ایک روز کے لیے بھی حکمرانوں نے عوام میں یہ تاثر پیدا ہونے ہی نہیںدیاکہ تبدیلی آچکی ہے اور خوشحالی کا سفر شروع ہوچکا ہے۔
وہ اپنی عقل و فہم کے مطابق جو کچھ بھی کرتے ہیں اوراُس کااگر اُلٹا اثر ہوجاتا ہے تو فوراً حکومت کے اکابرین ، وزراء اور مشیران سبھی یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ یہ سب کچھ پچھلوں کاکیادھرا ہے۔آتے ہی مہنگائی اور گرانی کا جو طوفان برپا کیااورکرنسی کی ویلیوچالیس فیصد تک گرادی تو کہاگیا کہ کیاکریں ہمیں معیشت ہی ایسی ملی ہے۔
سابقہ حکومتوں نے جو قرض لے رکھے تھے انھیں واپس کرنے کے لیے ہمیں یہ مہنگائی برداشت کرنا پڑے گی۔ لارے لپے دیے گئے کہ چند مہینوں میں حالات بہتر ہوجائیں گے اور عوام تبدیلی کی نئی فضا میںسانس لینے لگیں گے۔رفتہ رفتہ ضروریات زندگی کی ہر شہ مہنگی کردی گئی اورغریب عوام کاجینا دو بھر کردیاگیا۔پھر کہاگیا کہ ہمیں ناچاہتے ہوئے بھی بیرون ملک سے قرضے لینا پڑرہے ہیں اِس لیے عوام کو یہ بوجھ کچھ دنوں کے لیے اُٹھانا ہی پڑے گا۔
دوست ممالک سے جتنا ممکن ہوسکا قرض لے لیاگیا۔ پھر بھی گھر کا بجٹ نہیں چل پارہا تو آئی ایم ایف کے پاس بھی چلے گئے۔وہاں سے اپنی نہیں بلکہ قرض دینے والوں کی شرائط پر 6ارب ڈالرکا معاہدہ کرلیا۔ لوگوں نے خودکشی کرنے اورخودی اورخوداری کے بڑے بڑے دعوے یاد لائے تو بھی کوئی شرم و عار محسوس نہیں کی ۔اُلٹا بڑی دھٹائی سے عوام سے بھی کبھی ڈیم فنڈ کے لیے اورکبھی کورونا کی وباسے نمٹنے کے لیے چندہ اور خیرات مانگ لی۔
بیرون ملک پاکستانی تاریک وطن کو بھی نہیں بخشااورملک اوروطن کی محبت کاواسطہ دیکراپناکشکول آگے رکھدیا۔اپنی ہر ناکامی اور ہر برائی کو اپوزیشن کے کھاتے میں ڈالنے کاسلسلہ تھمنے کے بجائے بڑھتا ہی چلا گیا۔آٹے اور چینی کابحران آیاتو تحقیقات کا کریڈٹ تو خود لے لیالیکن کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔جب دیکھا کہ اِس میں تواپنے ہی دوست ملوث ہیں تو 2008سے دی جانے والی سبسڈی کو ایشو بناکے سارامعاملہ ہی اتنا الجھادیا کہ کوئی نتیجہ ہی نہ نکل پائے ،پھر پی آئی اے کے کراچی میں ہونے والے حادثے پر تحقیقات سے ایک نیا بحران ازخود پیداکردیااوردنیا بھر میں اپنے ہی پائلٹوں کو اتنا بدنام اوررسواکردیا کہ پہلے سے خسارے میں چلنے والی اِس ائیرلائن کابھٹاہی بٹھا دیا۔
گرین پاسپورٹ کی اتنی عزت وتوقیرکرائی کہ سب سے پہلے اسلامی دوست ممالک نے ہی قومی ایئرلائن پر پابندیاں لگادیں ۔ جب الزام اپنے نالائق وزیروں پر آنے لگاتو پائلٹوں کی بھرتیوں کو سابقہ حکومتوں کے دور سے منسلک کرکے اِسے بھی اپوزیشن کے کھاتے میں ڈال دیا۔ایسا لگتاہے کہ موجودہ حکومت نے اپنے اِن دوسالوں میں کوئی کام ہی نہیں کیا جوکچھ بھی کیا وہ سب کچھ پچھلی حکومتوں کاشاخسانہ تھا۔
آج دیکھاجائے تو حالات کہاں پہنچ گئے ہیں۔ دنیابھرسے امداد اورقرض لینے کے باوجود زرمبادلہ کے ذخائر میں کوئی بہتری نمایاں نہیںہوپائی ہے۔آج کوئی بھی میگاپروجیکٹ حکومت کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہے۔ ملک بھر میں کوئی ترقیاتی کام بھی نہیں ہو رہے لیکن نجانے قرضوں اورامداد کے علاوہ ٹیکسوں کی صورت میں عوام کی جیبوں سے حاصل کیاجانے والا سارا پیسہ کہاں خرچ ہورہا ہے۔ عوام 53روپے والی چینی 85اور90روپے فی کلو خریدنے پر مجبورہیں۔ اِسی طرح ایک لٹر پیٹرول پروہ 25روپے زائد ادا کر رہے ہیں۔
سوچاجائے توایک کلوچینی پر 30روپے اورایک لٹر پیڑول پر25روپے ناجائز حاصل کی جانے والی رقم اربوں اورکھربوںمیںبنتی ہے وہ ساری رقم کہاں جارہی ہے۔حکومت کوئی جواب دینے کی روادار نہیں ہے ۔ کچھ بھی پوچھاجائے توجواب ملتاہے یہ سب کچھ سابقہ حکومتوں کاکیادھراہے۔اِسی لیے عوام یہ سمجھنے پرمجبور ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت توابھی معرض وجودمیں آئی ہی نہیں ہے۔ ملک میںجوکچھ بھی ہورہاہے وہ سابقہ حکومتوں ہی کے دور کاسلسلہ ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایوان وزیراعظم میں بیٹھاایک شخص دوسال سے صرف نام کاوزیراعظم ہے۔ اُس کا کوئی حکم چلتاہی نہیں ہے ،جس کی جو مرضی میں آتاہے، ہوکیے جاتاہے۔ چینی مافیا اور پیٹرول مافیاسے پہلے آٹامافیااورفارماسیٹکل مافیا سب کے سب اس قدرپاور فل اورمضبوط ہیں کہ حکومت اُن کے خلاف کچھ کرہی نہیں پاتی۔الیکشن سے پہلے قوم سے کہاگیاکہ ہمارے پاس 200انمول ہیروں اور قابل افراد کی ایک زبردست ٹیم ہے۔ اقتدار میں آتے ہی سب ٹھیک کردے گی۔ یہ عقدہ تو بعد میں کھلا کہ یہ دوسو قابل افراددراصل مغل بادشاہ کوخوش کرنے اوراُسے اپنی غیرسنجیدہ حرکتوں سے محظوظ کرنے والے آج کے زمانے کے بیربل اور ملا دو پیازہ ہی تھے۔
یہی وجہ ہے کہ خان کی حکومت ابھی تک کوئی کارکردگی نہیںدکھاپائی ہے۔پہلے سال کورونا کی وباکے آئے بناء ہی ملک کی شرح نمود یعنی جی ڈی پی5.5سے گھٹ کر1.7پر اوردوسرے سال منفی درجوں میں پہنچ چکی ہے اورخدشہ ہے ناقص کارکردگی کاسلسلہ اِسی طرح جاری وساری رہتا ہے توہم بہت جلد افریقہ کی پسماندہ ترین قوموں کو بھی پیچھے چھوڑدینگے۔ہماراوجود اور ہماری سالمیت اسٹیک پر لگی ہوئی ہے۔سیاسی دشمنی اپنی جگہ لیکن ملک اورقوم کو اِس کا خمیازہ نہیں بھگتنے دینا چاہیے۔ آج ہم سب ایسی ہی کسی دشمنی کا خراج ادا کررہے ہیں۔
وہ اپنی عقل و فہم کے مطابق جو کچھ بھی کرتے ہیں اوراُس کااگر اُلٹا اثر ہوجاتا ہے تو فوراً حکومت کے اکابرین ، وزراء اور مشیران سبھی یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ یہ سب کچھ پچھلوں کاکیادھرا ہے۔آتے ہی مہنگائی اور گرانی کا جو طوفان برپا کیااورکرنسی کی ویلیوچالیس فیصد تک گرادی تو کہاگیا کہ کیاکریں ہمیں معیشت ہی ایسی ملی ہے۔
سابقہ حکومتوں نے جو قرض لے رکھے تھے انھیں واپس کرنے کے لیے ہمیں یہ مہنگائی برداشت کرنا پڑے گی۔ لارے لپے دیے گئے کہ چند مہینوں میں حالات بہتر ہوجائیں گے اور عوام تبدیلی کی نئی فضا میںسانس لینے لگیں گے۔رفتہ رفتہ ضروریات زندگی کی ہر شہ مہنگی کردی گئی اورغریب عوام کاجینا دو بھر کردیاگیا۔پھر کہاگیا کہ ہمیں ناچاہتے ہوئے بھی بیرون ملک سے قرضے لینا پڑرہے ہیں اِس لیے عوام کو یہ بوجھ کچھ دنوں کے لیے اُٹھانا ہی پڑے گا۔
دوست ممالک سے جتنا ممکن ہوسکا قرض لے لیاگیا۔ پھر بھی گھر کا بجٹ نہیں چل پارہا تو آئی ایم ایف کے پاس بھی چلے گئے۔وہاں سے اپنی نہیں بلکہ قرض دینے والوں کی شرائط پر 6ارب ڈالرکا معاہدہ کرلیا۔ لوگوں نے خودکشی کرنے اورخودی اورخوداری کے بڑے بڑے دعوے یاد لائے تو بھی کوئی شرم و عار محسوس نہیں کی ۔اُلٹا بڑی دھٹائی سے عوام سے بھی کبھی ڈیم فنڈ کے لیے اورکبھی کورونا کی وباسے نمٹنے کے لیے چندہ اور خیرات مانگ لی۔
بیرون ملک پاکستانی تاریک وطن کو بھی نہیں بخشااورملک اوروطن کی محبت کاواسطہ دیکراپناکشکول آگے رکھدیا۔اپنی ہر ناکامی اور ہر برائی کو اپوزیشن کے کھاتے میں ڈالنے کاسلسلہ تھمنے کے بجائے بڑھتا ہی چلا گیا۔آٹے اور چینی کابحران آیاتو تحقیقات کا کریڈٹ تو خود لے لیالیکن کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔جب دیکھا کہ اِس میں تواپنے ہی دوست ملوث ہیں تو 2008سے دی جانے والی سبسڈی کو ایشو بناکے سارامعاملہ ہی اتنا الجھادیا کہ کوئی نتیجہ ہی نہ نکل پائے ،پھر پی آئی اے کے کراچی میں ہونے والے حادثے پر تحقیقات سے ایک نیا بحران ازخود پیداکردیااوردنیا بھر میں اپنے ہی پائلٹوں کو اتنا بدنام اوررسواکردیا کہ پہلے سے خسارے میں چلنے والی اِس ائیرلائن کابھٹاہی بٹھا دیا۔
گرین پاسپورٹ کی اتنی عزت وتوقیرکرائی کہ سب سے پہلے اسلامی دوست ممالک نے ہی قومی ایئرلائن پر پابندیاں لگادیں ۔ جب الزام اپنے نالائق وزیروں پر آنے لگاتو پائلٹوں کی بھرتیوں کو سابقہ حکومتوں کے دور سے منسلک کرکے اِسے بھی اپوزیشن کے کھاتے میں ڈال دیا۔ایسا لگتاہے کہ موجودہ حکومت نے اپنے اِن دوسالوں میں کوئی کام ہی نہیں کیا جوکچھ بھی کیا وہ سب کچھ پچھلی حکومتوں کاشاخسانہ تھا۔
آج دیکھاجائے تو حالات کہاں پہنچ گئے ہیں۔ دنیابھرسے امداد اورقرض لینے کے باوجود زرمبادلہ کے ذخائر میں کوئی بہتری نمایاں نہیںہوپائی ہے۔آج کوئی بھی میگاپروجیکٹ حکومت کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہے۔ ملک بھر میں کوئی ترقیاتی کام بھی نہیں ہو رہے لیکن نجانے قرضوں اورامداد کے علاوہ ٹیکسوں کی صورت میں عوام کی جیبوں سے حاصل کیاجانے والا سارا پیسہ کہاں خرچ ہورہا ہے۔ عوام 53روپے والی چینی 85اور90روپے فی کلو خریدنے پر مجبورہیں۔ اِسی طرح ایک لٹر پیٹرول پروہ 25روپے زائد ادا کر رہے ہیں۔
سوچاجائے توایک کلوچینی پر 30روپے اورایک لٹر پیڑول پر25روپے ناجائز حاصل کی جانے والی رقم اربوں اورکھربوںمیںبنتی ہے وہ ساری رقم کہاں جارہی ہے۔حکومت کوئی جواب دینے کی روادار نہیں ہے ۔ کچھ بھی پوچھاجائے توجواب ملتاہے یہ سب کچھ سابقہ حکومتوں کاکیادھراہے۔اِسی لیے عوام یہ سمجھنے پرمجبور ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت توابھی معرض وجودمیں آئی ہی نہیں ہے۔ ملک میںجوکچھ بھی ہورہاہے وہ سابقہ حکومتوں ہی کے دور کاسلسلہ ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایوان وزیراعظم میں بیٹھاایک شخص دوسال سے صرف نام کاوزیراعظم ہے۔ اُس کا کوئی حکم چلتاہی نہیں ہے ،جس کی جو مرضی میں آتاہے، ہوکیے جاتاہے۔ چینی مافیا اور پیٹرول مافیاسے پہلے آٹامافیااورفارماسیٹکل مافیا سب کے سب اس قدرپاور فل اورمضبوط ہیں کہ حکومت اُن کے خلاف کچھ کرہی نہیں پاتی۔الیکشن سے پہلے قوم سے کہاگیاکہ ہمارے پاس 200انمول ہیروں اور قابل افراد کی ایک زبردست ٹیم ہے۔ اقتدار میں آتے ہی سب ٹھیک کردے گی۔ یہ عقدہ تو بعد میں کھلا کہ یہ دوسو قابل افراددراصل مغل بادشاہ کوخوش کرنے اوراُسے اپنی غیرسنجیدہ حرکتوں سے محظوظ کرنے والے آج کے زمانے کے بیربل اور ملا دو پیازہ ہی تھے۔
یہی وجہ ہے کہ خان کی حکومت ابھی تک کوئی کارکردگی نہیںدکھاپائی ہے۔پہلے سال کورونا کی وباکے آئے بناء ہی ملک کی شرح نمود یعنی جی ڈی پی5.5سے گھٹ کر1.7پر اوردوسرے سال منفی درجوں میں پہنچ چکی ہے اورخدشہ ہے ناقص کارکردگی کاسلسلہ اِسی طرح جاری وساری رہتا ہے توہم بہت جلد افریقہ کی پسماندہ ترین قوموں کو بھی پیچھے چھوڑدینگے۔ہماراوجود اور ہماری سالمیت اسٹیک پر لگی ہوئی ہے۔سیاسی دشمنی اپنی جگہ لیکن ملک اورقوم کو اِس کا خمیازہ نہیں بھگتنے دینا چاہیے۔ آج ہم سب ایسی ہی کسی دشمنی کا خراج ادا کررہے ہیں۔