لاپتہ افراد کیس میرے جانے سے ختم نہیں ہوگا چیف جسٹس
قیدی پیش نہ کرنے پراظہار برہمی، وزیراعظم چاہیں تومعاملہ24گھنٹے میں حل ہوسکتا ہے،عدالت
سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی ہے کہ لاپتہ افراد کے متعلق فوری قانون سازی کے لیے متعلقہ اتھارٹی سے رابطہ کیا جائے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حیرت ہے معاملہ وزیرِاعظم کے نوٹس میں ہے لیکن کچھ نہیں ہوا۔
وزیرِاعظم چاہیں تو24گھنٹے میں حل ہو سکتا ہے، چیف جسٹس کی سربراہی میں3رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی،کارروائی شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے وزیر دفاع سے کہا کہ ہمارے حکم پرعمل نہیں ہوا، یہ بات ثابت ہے کہ سب لوگ فوج کے پاس ہیں،وزارت دفاع نے3 متضاد بیان دیے،عدالت کے سامنے غلط بیانی کی، انھیں جرات کیسے ہوئی، حکومت کو بھی سب پتہ ہے، لوگوں کوسالہا سال تک زیرحراست رکھنا انسانی آزادیوں اورآئین کی شق10کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ وزیر اعظم کے علم میں ہونے کے باوجود آرٹیکل 10کی خلاف ورزی ہورہی ہے،خواجہ آصف نے یقین دلایا کہ مزید2افرادآج پیش کردیے جائیں گے۔ ایکسپریس نیوزکے مطابق اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مرنے والے2 افراد کے لواحقین کو ان کیمرہ پیش کیاجا سکتا ہے۔
جسٹس جواد نے کہا کمیشن پہلے بھی بنا تھا لیکن نتیجہ صفر ہے۔ اس موقع پر سیکریٹری دفاع نے موقف تبدیل کرتے ہوئے کہا کہ سول حکومت کے ساتھ معاونت کے قانون مجریہ 2011نے سیکیورٹی اہلکاروں کو گرفتاریوں کا اختیار دیا، شورش زدہ علاقوں میں فوج خیبر پختونخوا حکومت کی درخواست اور وفاقی حکومت کی ہدایت پر گئی ، 5افراد میں سے2کو تلاش کر لیا گیا ہے۔
عدالت نے اس موقف پرحیرانگی کا اظہار کیا، اٹارنی جنرل نے کہا گرفتاریوں کا قانون تو موجود ہے غلط ہے یا درست اس کا جائزہ لینا عدالت کا اختیار ہے۔ بی بی سی کے مطابق اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحفظ پاکستان آرڈیننس پرکچھ کام ہوا ہے لیکن اس کو قانون کادرجہ نہیں ملا۔ جنگ زدہ علاقوں میں فوج جرائم کی سماعت کرسکتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ یہ معاملہ فوج کے اندرونی معاملات کے لیے ہے عام شہریوں کے لیے نہیں۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے کہا کہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں لاپتہ افراد سے متعلق قانون سازی کریں گے،اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ 6 ماہ گزر چکے ہیں، حکومت خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہوئے وقت ضائع کررہی ہے۔ وردی کا احترام رہنے دیں، اگر کوئی سمجھتا ہے کہ چیف جسٹس ریٹائرڈ ہو جائے گا اورکیس ختم تو وہ غلط ہے، سپریم کورٹ احکام پرعمل کرائے گی، میرے پاس اب بھی60 گھنٹے ہیں اور کام کرنا ہو تویہ 60 سال پر بھی بھاری ہوتے ہیں۔ بندے آپ کے پاس ہیں پیش کردیں، اس پر سیکریٹری دفاع نے کہا جب مجھے یہ کہا جاتا ہے توشرمندگی ہوتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سے مطلب وہ ہے جن کا آپ تحفظ کررہے ہیں، بی بی سی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت انھیں نہیں بلکہ ان وردی والوں کو مخاطب کر رہی ہے جن سے عدالت نے خاصی رعایت برتی ہے۔
وزیرِاعظم چاہیں تو24گھنٹے میں حل ہو سکتا ہے، چیف جسٹس کی سربراہی میں3رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی،کارروائی شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے وزیر دفاع سے کہا کہ ہمارے حکم پرعمل نہیں ہوا، یہ بات ثابت ہے کہ سب لوگ فوج کے پاس ہیں،وزارت دفاع نے3 متضاد بیان دیے،عدالت کے سامنے غلط بیانی کی، انھیں جرات کیسے ہوئی، حکومت کو بھی سب پتہ ہے، لوگوں کوسالہا سال تک زیرحراست رکھنا انسانی آزادیوں اورآئین کی شق10کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ وزیر اعظم کے علم میں ہونے کے باوجود آرٹیکل 10کی خلاف ورزی ہورہی ہے،خواجہ آصف نے یقین دلایا کہ مزید2افرادآج پیش کردیے جائیں گے۔ ایکسپریس نیوزکے مطابق اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مرنے والے2 افراد کے لواحقین کو ان کیمرہ پیش کیاجا سکتا ہے۔
جسٹس جواد نے کہا کمیشن پہلے بھی بنا تھا لیکن نتیجہ صفر ہے۔ اس موقع پر سیکریٹری دفاع نے موقف تبدیل کرتے ہوئے کہا کہ سول حکومت کے ساتھ معاونت کے قانون مجریہ 2011نے سیکیورٹی اہلکاروں کو گرفتاریوں کا اختیار دیا، شورش زدہ علاقوں میں فوج خیبر پختونخوا حکومت کی درخواست اور وفاقی حکومت کی ہدایت پر گئی ، 5افراد میں سے2کو تلاش کر لیا گیا ہے۔
عدالت نے اس موقف پرحیرانگی کا اظہار کیا، اٹارنی جنرل نے کہا گرفتاریوں کا قانون تو موجود ہے غلط ہے یا درست اس کا جائزہ لینا عدالت کا اختیار ہے۔ بی بی سی کے مطابق اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحفظ پاکستان آرڈیننس پرکچھ کام ہوا ہے لیکن اس کو قانون کادرجہ نہیں ملا۔ جنگ زدہ علاقوں میں فوج جرائم کی سماعت کرسکتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ یہ معاملہ فوج کے اندرونی معاملات کے لیے ہے عام شہریوں کے لیے نہیں۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے کہا کہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں لاپتہ افراد سے متعلق قانون سازی کریں گے،اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ 6 ماہ گزر چکے ہیں، حکومت خود کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہوئے وقت ضائع کررہی ہے۔ وردی کا احترام رہنے دیں، اگر کوئی سمجھتا ہے کہ چیف جسٹس ریٹائرڈ ہو جائے گا اورکیس ختم تو وہ غلط ہے، سپریم کورٹ احکام پرعمل کرائے گی، میرے پاس اب بھی60 گھنٹے ہیں اور کام کرنا ہو تویہ 60 سال پر بھی بھاری ہوتے ہیں۔ بندے آپ کے پاس ہیں پیش کردیں، اس پر سیکریٹری دفاع نے کہا جب مجھے یہ کہا جاتا ہے توشرمندگی ہوتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سے مطلب وہ ہے جن کا آپ تحفظ کررہے ہیں، بی بی سی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت انھیں نہیں بلکہ ان وردی والوں کو مخاطب کر رہی ہے جن سے عدالت نے خاصی رعایت برتی ہے۔