بالآخر پروفیسر وارث میر کی خدمات کا اعتراف

وارث میر مارشل لا اور اس کے حواریوں کے ساتھ قلمی اور علمی محاذ پر برسر پیکار رہے

latifch910@yahoo.com

جون 2020 میں ممتاز دانشور اور صحافی پروفیسر وارث میر کی وفات کے 33 برس بعد پنجاب اور سندھ اسمبلی کی ان کی گرانقدر قومی خدمات کے اعتراف میں منظور ہونے والی متفقہ قراردادوں نے ان کو غدار قرار دینے والے عناصر کے منہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیے۔

جنرل ایوب کے مارشل لا دور میں عملی صحافت کا آغاز کرنے والے وارث میر نے جنرل یحییٰ کا دور بھی دیکھا اور جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء بھی۔ لیکن ''وارث میر کی تحریروں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں ہر دور میں عوام کی فکری رہنمائی کی۔جمہوریت کے لیے آواز اٹھائی اور مارشل لائی قوتوں کی مخالفت کی۔ یہی وجہ تھی کہ 1987 میں وارث میر کی اچانک وفات کے بعد جہاں ریاست پاکستان نے انھیں ملک کے اعلی ترین سول اعزاز ہلال امتیاز سے نوازا وہیں کچھ عناصر ایسے بھی تھے جو انھیں مشرقی پاکستان میں 1971 میں کیے گے فوجی آپریشن کی مخالفت کرنے پر غدار قرار دیتے تھے۔ اس الزام میں تب شدت آ گئی جب 2012 میں بنگلہ دیش کی حکومت نے فیض احمد فیضؔ، حبیب جالبؔ اور پروفیسر وارث میر کو مشرقی پاکستان میں آپریشن کی مخالفت کرنے پر فرینڈز آف بنگلہ دیش بعد از مرگ کے ایوارڈ سے نوازا۔

پروفیسر وارث میر کو یہ ایوارڈ ان کی وفات کے 26 برس بعد عطا کیا گیا۔ تاہم ان کے نظریاتی مخالفین کے منہ تب بند ہو گئے جب 9 جون 2020 کو پنجاب اسمبلی نے متفقہ طور پر پروفیسر وارث میر کی قومی خدمات کے اعتراف میں انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کی قرارداد منظور کر لی۔ قرارداد میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس لاہور میں موجود وارث میر انڈر پاس کا نام دوبارہ سے بحال کیا جائے۔

یہ قرارداد اپوزیشن کی جانب سے سابق وزیر برائے اقلیتی امور خلیل طاہر سندھو نے پیش کی جسے پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور ن لیگ کے ممبران پنجاب اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کیا۔ اس قرارداد کی منظوری کے ایک ہفتے بعد 15 جون 2020 کو سندھ اسمبلی نے بھی پروفیسر وارث میر کی خدمات کے اعتراف میں انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی۔ قرارداد میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ وارث میر انڈر پاس کا پرانا نام بحال کیا جائے۔ یہ قرارداد پیپلز پارٹی کے صوبائی وزیر ناصر علی شاہ نے پیش کی، ایم کیو ایم اور تحریک انصاف نے تائید کی۔ سندھ اسمبلی نے اپنی قرارداد میں پروفیسر وارث میر پر غداری کا الزام لگانیوالوں کی مذمت کی اور زور دیا کہ قومی ہیروز کو غدار قرار دینے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔

سچ تو یہ ہے کہ وارث میرکی وفات کوکئی عشرے بیت گے مگر آج بھی ان کی فکر انگیز تحریروں کا مطالعہ کریں تو ان میں ہمیشگی کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔ انھوں نے جن موضوعات پر بھی لکھا وہ آج بھی تازہ لگتے ہیں حالانکہ ان کے دور میں ذرائع ابلاغ محدود تھے، کیبل تھی، نہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا، فیس بک تھی نہ یو ٹیوب ، موبائل فون تھا نہ گوگل کا نام و نشان، بس چند ایک اخبارات تھے یا پھر ہر وقت حکومتی مدح سرائی کرتا ہوا سرکاری ٹیلی وژن اور ریڈیو۔ اس دور میں اخبارات پر سخت ترین سنسر شپ عائد تھی کیونکہ ایک آمر جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قابض تھا۔ سیاسی کارکنوں کو قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی تھیں ،آئین معطل تھا، جمہوری سرگرمیوں پر پابندی تھی، اور سچ لکھنے والے صحافیوں کے لیے تازیانے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ بے ضمیر اور قلم فروشوں کو پالنے کا عمل بھی جاری تھا۔


ایک سچا دانشور اپنے عہد سے جڑا ہوتا ہے۔ وہ عوام کی فکری رہنمائی کرتا ہے، وہ مستقبل میں جھانک لیتا ہے اور آنے والے کل کی خبر دیتا ہے ، وارث میر نے ضیاالحق اور ان کے پروردہ مذہبی حلقوں کی پھیلائی ہوئی تنگ نظری کو موضوع بنایا اور بتایا کہ یہ ایک جدید اور صحتمند معاشرے کے لیے کس قدر خطرناک ہے، ان کی لکھی گئی باتیں درست ثابت ہوئیں۔

وارث میر مارشل لا اور اس کے حواریوں کے ساتھ قلمی اور علمی محاذ پر برسر پیکار رہے۔ سر سید احمد خان کی طرح وارث میر بھی مسلمانوں کو جدید سائنسی علوم حاصل کرنے اور سائنسی اور عقلی انداز فکر اپنانے پر زور دیتے ، ان کا کہنا تھا کہ سوچنا، سوال کرنا، شک کرنا اور انکار کرنا علم ومعرفت کی پہلی سیڑھی ہے۔ وارث میر ایک استاد، صحافی، اعلی پائے کے دانشور اور بلا کے مقرر تھے، وہ اپنے نظریات کی عملی شکل تھے، ان کی اچانک اور پراسرار موت پر ایک زمانہ ملول تھا۔ وارث میرکی جنگ جہل ، ظلمت، تنگ نظری، انتہا پسندی اور آمریت کے خلاف تھی، وہ عمر بھر اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے حریت فکر کے چراغ جلاتے رہے، اپنے نظریات کا پرچار ان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتا اور ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ جسے وہ صحیح اور درست سمجھتے ہوں اسے زبان پر یا ضبط تحریر میں نہ لائیں۔

چنانچہ جب 2020 میں ایک حکومتی وزیر کی جانب سے پروفیسر وارث میر پر غداری کا ''فتوی'' لگایا گیا تو ملکی سطح پر اس کی بھر پور مذمت کی گئی۔ ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان، پاکستان بار کونسل، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز نے وارث میر پر بہتان تراشی کو ان کے خاندان کے خلاف نفرت پھیلانے کی سازش قرار دیا۔ ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان کے سیکریٹری حارث خلیق، پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین عابد ساقی، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سیکریٹری جنرل ناصر زیدی اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز کے صدر عارف نظامی سمیت صحافیوں، ادیبوں اور شاعروں کی بڑی تعداد نے ان پر لگائے گئے غداری کے الزام کی سختی سے نفی کرتے ہوئے انھیں ایک محب وطن اور کمیٹڈ صحافی قرار دیا ۔

یہ سوال بھی اٹھا کہ اگر وارث میر غدار وطن تھے تو ریاست پاکستان نے انھیں ملک کے اعلی ترین سول اعزاز ہلال امتیاز سے کیسے نوازا۔ یاد رہے کہ وارث میر 1971 میں پنجاب یونیورسٹی میں استاد تھے اور حکومت کی منظوری سے منتخب اسٹوڈنٹس یونین کا ایک وفد لے کر ڈھاکہ گئے تھے تا کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے عوام کے درمیان پل کا کردار ادا کیا جا سکے۔

وارث میرکی کوششوں کی تحریری گواہی 1971 میں ان کے ساتھ مشرقی پاکستان جانے والے طلبہ کے وفد میں شامل حفیظ خان اور جاوید ہاشمی پہلے ہی دے چکے ہیں اور بنگلہ دیش کی حکومت نے بھی انکو اپنا اعلیٰ ترین اعزاز دیتے ہوئے وارث میر کی انھیں کوششوں کا اعتراف کیا تھا۔ بنگلہ دیش کی حکومت نے یہ ایوارڈ وارث میر کے علاوہ فیض احمد فیض، حبیب جالب، ملک غلام جیلانی، غوث بخش بزنجو اور دیگر پاکستانی دانشوروں کو بھی عطا کیا تاہم غداری کا فتویٰ صرف وارث میر کے خلاف دیا گیا کیونکہ انھوں نے سانحہ مشرقی پاکستان اور سقوط ڈھاکہ پر قلم آزمائی کی تھی۔

جہاں تک وارث میر کی جانب سے مشرقی پاکستان میں ہونیوالے فوجی آپریشن پر تنقید کا تعلق ہے تو حقیقت تو یہ ہے کہ اسوقت ایسٹرن کمانڈ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب علی خان نے بھی اس آپریشن کی مخالفت کی تھی جو بعدازاں پاکستان کے وزیر خارجہ بنے۔ ویسے بھی کسی فوجی آپریشن پر تنقید سے کوئی غدار نہیں بن جاتا۔ 1971 کے آپریشن کے بارے میں ایسی تنقید موجودہ وزیراعظم عمران خان بھی اپنے ٹی وی انٹرویوز میں خود بھی کر چکے ہیں تاہم کسی حکومتی وزیر نے ان میں سے کسی کو غدار وطن قرار نہیں دیا اور نہ ہی ان میں سے کسی کے نام پر رکھے گئے انڈر پاس یا سڑک کا نام تبدیل کیا۔ صرف وارث میر انڈر پاس کا نام ہی بدلا گیا تاہم سندھ اور پنجاب اسمبلی کی متفقہ قراردادوں نے پروفیسر وارث میر پر لگنے والے غداری کے الزام کو ہمیشہ کے لیے دھو دیا۔
Load Next Story