خزاں رسیدہ ’’بہارِ عرب‘‘ کی پسِ پردہ کہانی

پورا مشرق وسطیٰ ایک ان دیکھی آگ میں جل رہا ہے جس میں خانہ جنگی سے اب تک 16 لاکھ سے زائد انسان قتل ہوچکے ہیں

پورا مشرق وسطیٰ ایک ان دیکھی آگ میں جل رہا ہے جس میں خانہ جنگی سے اب تک 16 لاکھ سے زائد انسان قتل ہوچکے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

18 دسمبر 2010 کو تیونس کے شہر میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان محمد ابوعزیزی نے میرٹ پر ہونے کے باوجود معقول سفارش نہ ہونے کے باعث سرکاری ملازمت حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد فاقہ کشی سے تنگ آکر ریڑھی لگا لی۔ پولیس نے نوجوان کو بھتہ دیئے بغیر ریڑھی لگانے سے نہ صرف روکا بلکہ اُس پر تشدد بھی کیا۔ نوجوان، حالات سے اس قدر دل برداشتہ ہوا کہ سڑک پر خود پر پیٹرول ڈال کرخودسوزی کرلی۔

یہ خبر عام ہوتے ہی مشتعل عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ پولیس نے واقعے کو معمولی جانتے ہوئے اُنہیں منتشر کرنے کےلیے طاقت کا استعمال کیا۔ ردعمل میں عوام مزید مشتعل ہوئے، یوں چنگاری شعلہ بن گئی۔ الجزائر اور لیبیا کے درمیان بحیرہ روم کے کنارے واقع اس خوبصورت ملک تیونس کے ایک سرے سے دوسرے تک آگ لگ گئی۔ قصہ مختصر علی زین العابدین کی آمرانہ حکومت عوام کی طاقت کے سامنے نہ ٹھہر سکی صدر علی نے بھاگ کر سعودی عرب میں پناہ لے لی۔ یوں تیونس سے شروع ہونے والے احتجاج نے آہستہ آہستہ تقریباً پورے مشرق وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

دیکھا جائے تو یہ احتجاجی مظاہرے خالصتاً عوامی ردعمل کا نتیجہ تھے جو عشروں سے جاری بادشاہت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ لیکن اس کے پس پردہ اور بہت سے عوامل اور قوتیں تھیں جنہوں نے عوامی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مقاصد تک رسائی کےلیے ایک بہت مضبوط اور بہترین حکمت عملی سے تیار کردہ منصوبے کو آگے بڑھانا شروع کیا۔ اس منصوبے کا سب سے اہم ملک شام تھا جو جغرافیائی لحاظ سے ایک ایسے مقام پر واقع ہے کہ گویا یہ بالکل ایسا ہے کہ جو بھی اس ملک پر اپنا تسلط جمانے یا اپنی کٹھ پتلی حکومت لانے میں کامیاب ہوگیا، گویا اس نے پورے مشرقی وسطیٰ پر اپنی مضبوط گرفت کرلی۔

تیونس سے شروع ہونے والے ان احتجاجی مظاہروں نے سرزمینِ عرب کے دیگر ممالک تک رسائی حاصل کی اور اسے ''بہارِ عرب'' (عرب اسپرنگ) یعنی عرب دنیا میں شروع ہونے والی ایک انقلابی لہر کا نام دیا گیا جس نے کئی عرب ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور کئی دہائیوں پر محیط بادشاہتوں کا تختہ الٹ دیا۔

احتجاجی مظاہر ہوئے؛ یمن، لیبیا، عراق اور ملک شام میں خانہ جنگی شروع ہوئی؛ لیبیا کے حکمران معمر القذافی کوعوام نے مار ڈالا؛ تیونس، مصر، یمن اور لیبیا میں حکمرانوں کے خلاف احتجاجی تحریکیں شروع ہوئیں اور یکے بعد دیگر کامیاب بھی ہوگئیں... اور موروثی بادشاہتوں اور فوجی آمریتوں کے تسلط سے آزادی ملنے لگی تو بین الاقوامی سطح پر اسے جمہوریت کی فتح قرار دیا جانے لگا۔ 15 مارچ 2011 کو سیکڑوں شامی شہریوں نے بڑے شہروں میں حکومت مخالف مظاہروں کا انعقاد کیا تھا اور اس دن کو انہوں نے 'ڈے آف ریج' (یوم الغضب) قرار دیا تھا۔ ان کے مطالبوں میں سرِفہرست ملک میں جمہوری اصلاحات لانا تھا۔

عالمی طاقتوں نے دانستہ شام میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں پر بشار الاسد کی جانب سے طاقت کے بدترین استعمال کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا۔ بشار الاسد کے پاس مزاحمتی تحریک کو کچلنے کی حکمت عملی پر عملدرآمد کےلیے پورا وقت تھا، اور انہوں نے شروع سے ہی فوجی طاقت کے ذریعے انقلاب کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔

جغرافیائی اعتبار سے بہترین ملک ہونے کے باعث یہاں عالمی طاقتوں نے اپنا تسلط جمانے کی بھرپور کوشش کی جن میں روس، ترکی، سعودی عرب، امریکا اور اسرائیل سرفہرست ہیں؛ اور یوں تیل کی دولت سے مالا مال ملک شام کے وسائل کو اپنی دسترس میں لینے کی جنگ میں پانچ لاکھ سے زائد شہری قتل ہوئے جن میں 2 لاکھ بچے ہیں جن کی عمریں 18 سال یا اس سے کم ہیں۔ شام میں ہونے والے احتجامی مظاہروں میں شامی صدر بشار الاسد سے، جو 2000 میں اپنے والد حافظ الاسد کے انتقال کے بعد اقتدار میں آئے تھے، استعفے کا مطالبہ کیا جانے لگا جو پرتشدد ہونے لگا۔ حکومت نے اسے کچلنے کےلیے مہلک طاقت کا استعمال کیا جس کے بعد ملک بھر میں احتجاج ہونے لگا جسے دبانے کےلیے حکومت نے طاقت کا بدترین استعمال کیا۔

یہی وہ وقت تھا جس کا انتظار بیرونی طاقتیں شدت سے کررہی تھیں، اور پھر حزبِ مخالف کے حامیوں کو بھرپور سپورٹ کے ساتھ ساتھ ہر طرح کا اسلحہ دیا گیا اور انہیں اپنے دفاع اور بعد میں سیکیورٹی فورسز سے لڑنے کےلیے تیار کیا گیا۔

یہ ہے عرب بہار کی وہ مختصر داستان جسے ایک تیار اور بہترین منصوبے کے تحت عملی جامہ پہناتے ہوئے عالمی طاقتوں نے، سوائے فلسطین پر قابض ریاست اسرائیل کے، پورے مشرق وسطیٰ کو خانہ جنگی میں جھونک کر اس کے بے پناہ وسائل پر قبضے کی تگ و دو شروع کردی۔

یہاں ایک بات بہت اہم ہے کہ پورے مشرق وسطیٰ کے جن ممالک میں حکومتوں کے خلاف بغاوت شروع ہوئی، ان میں کسی بھی ملک میں مغربی ممالک یا امریکا کے خلاف کوئی لفظ بھی سننےمیں نہیں آیا۔ ورنہ یہ عام فہم بات ہے کہ مسلمانوں کو جب بھی کوئی اذیت پہنچتی ہے تو اس کے اصل اسباب سے پہلے اس کا الزام یہود و نصاریٰ پر لگا کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں جن میں اکثر وہ عالم دین بھی شامل ہیں جو حکومتوں کے پے رول پر ہوتے ہیں اور کم علم عوام کو دین کے نام پر اپنے مفادات کے تحفظ کےلیے استعمال کرنے سے ہرگز بھی گریز نہیں کرتے۔

لیکن اس تمام صورتحال میں کسی ایک مقام سے بھی امریکا مخالف کوئی احتجاج تو دور، کوئی گفتگو بھی دیکھنے اور سننے کو نہیں ملی۔ یہ واقعی ایک تعجب کی بات ہے کہ اچانک یہ انقلاب کی لہر کیسے جاری ہوئی جبکہ ان ممالک میں بادشاہت اور ڈکٹیٹر شپ برسوں، بلکہ عشروں سے جاری تھی۔

بعض ماہرین کی رائے ہے کہ جو کچھ ہوا وہ ان کے راستے یا مرحلے کے اس موڑ پر صرف سوچا سمجھا اقدام نہیں تھا بلکہ طویل عرصے کے جبر و قہر اور ظلم و استبداد کا فطری نتیجہ بھی تھا۔ لیکن یہاں میری رائے مختلف ہے اور اس کی وجہ مصر کے التحریر اسکوائر پر ہونے والے طویل احتجاج کے بعد ہونے والی تبدیلی اور پھر اس کے بعد فوجی جنرل عبدالفتح السیسی کا جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضے پر خاموش رہنے والی مصری قوم ہے کہ جس نے طویل احتجاج کے بعد مصر میں انقلاب برپا کیا اور پھر اس انقلاب کے نتیجے میں ایک فوجی ڈکٹیٹر کے اقتدار پر قبضے پر بالکل خاموش رہی۔ اس سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔

مشرق وسطیٰ کے انقلابات کے حوالے سے امریکی حکومتوں کے جو بیانات آتے رہے تھے ان سے تو بظاہر محسوس ہوتا تھا کہ امریکا عرب ممالک میں ہونے والی غیر معمولی تبدیلیوں سے بالکل بھی آگاہ نہیں تھا جبکہ عربوں کا عام تاثر ہے کہ عرب ممالک کے بارے میں امریکا خود عرب حکام سے زیادہ جانتا ہے اور اس کی سفارتیں ان ممالک کی ہر چھوٹی بڑی چیز کی خبر رکھتی ہیں۔ لیکن تیونس و مصر کے انقلابات میں امریکی رد عمل سے ظاہر ہوا کہ امریکا کو عرب انقلابات کی آہٹ تک محسوس نہ ہوئی اور نہ ہی اس کے اربابِ حل و عقد نے اس طرح کے حالات سے نمٹنے کےلیے کوئی حکمت عملی تیار کی۔ یہ بات عقل میں نہیں آتی، جبکہ اسرائیل عرب کے قلب میں بیٹھا ہے اور امریکا کی پالیسیز واشنگٹن کے بجائے تل ابیب میں تیار ہوتی ہیں۔


عرب بغاوت میں امریکا نے پہلے تو تیونس و مصر میں اپنے اتحادیوں کی مدد اور لیبیا میں قذافی کے ساتھ مل کر اپنے مفادات کی حفاظت کی کوشش کی، پھر احتجاج و مظاہرے جتنے بڑھے، اتنی ہی ان قدیم حلیفوں کے خلاف واشنگٹن کے لہجے میں حدت آتی گئی۔ تاہم وقت کی مناسبت سے حالات کو ڈیل کیا گیا۔ ہر ملک کی طرح امریکا کو بھی اپنے مفادات کی تلاش کا حق ہے، لیکن موجودہ حالات میں یہ تردد و تذبذب سابق امریکی صدر اوباما انتظامیہ کی اخلاقی گراوٹ کا ثبوت تھے جس نے اپنے عہدِ صدارت کی ابتداء پوری دنیا اور خاص طور سے عرب اسلامی دنیا میں جمہوریت و آزادی کی اقدار کو تقویت اور پرامن تبدیلی کی مدد کی باتوں سے کی تھی۔ لیکن جب درحقیقت آزمانے کا وقت آیا تو وہی انتظامیہ آمرانہ نظام ہائے حکومت کی طرف داری کرنے لگی جنہیں اس نے استحکام کی حفاظت اور اسلام پسندوں کو حکومت پر قبضہ سے باز رکھنے کے دعوے پر تقویت بخشی تھی۔

یہا یہ نکتہ سمجھنا ضروری ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکا کی دلچسپی کتنی کیوں اور کہاں تک ہے؟ جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں، امریکی پالیسیوں پر امریکا میں مقیم طاقتور یہودیوں کا اثر و رسوخ غیر معمولی ہے جس کا اظہار امریکی قومی سلامتی کے اہم عہدیدار کرچکے ہیں۔ مارچ 2010 میں اس وقت کے امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ امریکا کو درپیش ''سلامتی کے چیلنجز'' میں سے ایک بڑا چیلنج اسرائیل ہے جو امریکا کی سلامتی کےلیے خطرہ بنتا جارہا ہے۔ ایسا ہی ایک اعتراف سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے بھی کیا تھا کہ واشنگٹن پر دباؤ ڈالنے والے اسرائیلی ''پریشر گروپ'' امریکا میں سب سے زیادہ اثر و رسوخ کی حامل جماعتیں بن چکے ہیں جو امریکی قومی سلامتی کی پالیسیوں پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔

امریکا میں یہودیوں کی تعداد 60 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ امریکا میں یہودی مختلف ناموں کے ذریعے سرگرم رہتے ہیں۔ لابی، پریشر گروپ، انٹرسٹ گروپ اور تھرڈ ہاؤس جیسے ناموں کے تحت یہودی امریکا کے تمام اداروں میں اپنی جڑیں مضبوط کرچکے ہیں۔ اس مضبوط اثر و رسوخ کا اثر امریکا کی اندرونی اور بیرونی پالیسیوں پر نمایاں نظر آتا ہے جن کی بنیاد ''پہلے اسرائیل'' کے مقولے پر استوار ہے۔

امریکا میں مقیم بیشتر یہودی بے تحاشہ امیر ہیں۔ یہودی دولت مند افراد نے بھی امریکی فیصلوں کو اسرائیل کے حق میں لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اربوں ڈالر کی مالیت رکھنے والے ان یہودیوں نے اپنے پیسوں کے ذریعے کانگریس اور امریکی ایوان زیریں کے اراکین کو ہمیشہ کےلیے خریدا، جس کے ذریعے امریکی فیصلوں پر خاصا دباؤ پڑ جاتا ہے اور یہ فیصلے اسرائیل کے حق میں ہوتے ہیں۔

شاید آپ کو یہ جان کر حیرت ہو کہ اگرچہ یہودی امریکی آبادی کاصرف 2 فیصد ہیں لیکن امریکی کانگریس میں یہودیوں کا تناسب 7 فیصد، جبکہ امریکی ایوان نمائندگان اور سینیٹ میں کل 535 قانون سازوں میں سے 36 یہودی ہیں۔ سینیٹ کی باڈی کا 9 فیصد ہیں۔ امریکی سینیٹ کے ڈیموکریٹس میں صرف دو اراکین، زیلڈن اور ڈیوڈ کوسٹف کے سوا باقی تمام اراکین یہودی ہیں۔ ان اعداد و شمار سے بہ آسانی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی سیاست میں یہودیوں کا کردار کتنا ہے۔

میڈیا کے کردار سے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔ میڈیا آج کے دور کے انتہائی مہلک اور خطرناک ہتھیاروں میں سرفہرست ہے۔ یہ عوام الناس کی ذہن سازی اس انداز سے کرتا ہے اور تصویر کا صرف وہی رخ دکھاتا ہے جو اس کے اس کے مفاد میں ہو؛ اور یہودیوں کو اس بات کا مکمل ادراک ہے۔ لہٰذا امریکا اور یورپ کے بڑے تمام بڑے اور چھوٹے ذرائع ابلاغ کے مالکان یہودی ہیں۔ نشریاتی اداروں میں اے بی سی نیوز، سی این این، فاکس نیوز، بی بی سی، سی بی سی نیوز اور این بی سی جیسے بڑے ادارے یہودیوں کی ملکیت ہیں۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: 'گریٹر اسرائیل' کی قیمت: امریکی تباہی اور عالمی بربادی

اخبارات، جرائد اور رسائل میں نیویارک ٹائمز اخبار ''آرتھر سالیزبرگ'' نامی یہودی خاندان کی ملکیت ہے، واشنگٹن پوسٹ اخبار ''کیتھرین گرایام مایر'' نامی یہودی خاندان کی ملکیت ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل امریکا میں فروخت ہونے والا سب سے بڑا اخبار ہے، وہ بھی ''پیٹر کان'' نامی یہودی خاندان کی ملکیت ہے۔ امریکی اور برطانوی نیوز چینلز کے علاوہ فرانسیسی، جرمن اور متعدد دیگر یورپی ممالک کے نیوز چینلز کے مالکان بھی یہودی ہیں۔ ان کے علاوہ دنیا کی دو اہم ترین نیوز ایجنسیاں ''روئیٹرز'' اور ''ایجنسی فرانس پریس'' (اے ایف پی) بھی یہودیوں کی ہیں۔ روئیٹرز کا بانی جولیاس پاؤل جرمن یہودی تھا، اے ایف پی کا پرانا نام ''ہاؤس'' تھا جو اس کے یہودی بانی کے نام سے منسوب تھا۔ روزناموں، ٹی وی چینلوں اور نیوز ایجنسیوں کے علاوہ امریکا میں یہودی بڑے بڑے اشاعتی اداروں کے بھی مالک ہیں۔ مثلاً ٹائم وارنر میڈیا گروپ، سائمن اینڈ شسٹر اور رینڈم ہاؤس جیسے بڑے اور نامور اشاعتی اداروں کے مالکان یہودی ہیں۔ لہٰذا امریکی اداروں میں جو فیصلے کیے جاتے ہیں اور امریکا میں میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ پر جو کچھ شائع ہوتا ہے، وہ مکمل طور پر اسرائیل کی حمایت میں ہوتا ہے۔

امریکا اور امریکی کسی بھی طرح اسرائیل اور صہیونیوں کی مخالفت نہیں کر سکتے کیونکہ انہیں اسرائیل اور صہیونی ہی چلا رہے ہیں۔

یہ وہ معلومات ہیں کہ جن سے آپ کو مشرق وسطیٰ کی خانہ جنگی اور امریکا کی اس میں دلچسپی کو بہترین انداز میں سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ مشرق وسطیٰ میں امریکا کی اتنی دلچسپی نہیں جتنی اسے زبردستی لینی پڑتی ہے؛ اور اس کے پیچھے یہ تمام محرکات موجود ہیں جن کی ڈوریں یہودیوں کے ہاتھوں میں ہیں۔

یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ اگر ذرا سی توجہ دی جائے تو حیرت انگیز بات کو سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ پورا مشرق وسطیٰ ایک ان دیکھی آگ میں جل رہا ہے۔ فلسطین، یمن، شام، لیبیا، تیونس، مصر اور اب تک مشرق وسطیٰ کی خانہ جنگی میں 16 لاکھ سے بھی زائد انسان قتل ہوچکے ہیں جن میں سے 5 لاکھ 50 ہزار سے زائد صرف شام سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن بحیرہ روم کے ساحل پر قابض ریاست اسرائیل امن و سکون کی مثال ہے۔ یہ کیسے ممکن ہوا ہے؟ ان تمام سازشوں کے پیچھے اسرائیل ہے جو امریکا کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مذموم مقاصد حاصل کررہا ہے۔

(جاری ہے)

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story