سندھ میں بااثر افراد کی منشا کے مطابق تبادلے و تقرریاں عام بات
’’بڑے‘‘ لوگوں میں سیاستدان،کاروباری شخصیات شامل،بغیررضامندی گریڈ18کے افسر کی تعیناتی پراعجازجاکھرانی کااظہارناپسندیدگی
عذیر بلوچ کی جے آئی ٹی میں یہ بات سامنے آنا ضرور حیرت کا باعث تھی کہ جرائم میں ملوث ایک شخص کہہ رہا ہے کہ ان کے کہنے پر پولیس افسروں کی تعیناتیاں ہوتی تھیں وگرنہ پولیس میں سیاسی مداخلت اور بااثر لوگوں کے کہنے پر سرکاری افسروں کے تبادلے و تعیناتیاں اس ملک میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔
صوبہ سندھ کے شہر ہوں یا دیہات یا دیگر صوبوں کے علاقے جہاں جہاں جو لوگ بااثر ہوتے ہیں ان کی منشا کے مطابق سرکاری افسروں کے تبادلے و تقرریاں ہونا ایک معمول کی بات ہے، ان بااثر لوگوں میں سیاستدان بھی ہوتے ہیں تو کاروباری شخصیات اور دیگر لوگ شامل ہوتے ہیں۔
صوبہ سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں جہاں جہاں جاگیرداری اور قبائلی نظام مضبوط ہے وہاں پر تو بااثر لوگوں کی پیشگی اجازت سے سرکاری افسران کی تعیناتیاں ہوتی ہیں اور اگر ان کی رضامندی کے بغیر کسی افسر کی تعیناتی ہوتی ہے تو اسے مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایسا ہی ایک واقعہ صوبہ سندھ کے گریڈ 18 کے ایک افسر کے ساتھ گزشتہ سال رونما ہوا، اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے ایکسپریس کو بتایا کہ گزشتہ سال جب ان کی تعیناتی جیکب آباد میں ہوئی تو وہاں کے بااثر سیاستدان اعجاز جکھرانی کے لوگوں نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا کیونکہ یہ تعیناتی ان کی مرضی سے نہیں ہوئی تھی، اپنے عہدے کا چارج لینے کے فوری بعد انہیں اعجاز جکھرانی کے قریبی لوگوں کو اعتماد میں لینا پڑا تھا۔
اسی طرح کی صورتحال کا سامنا محکمہ تعلیم کے ایک گریڈ 19 کے افسر کو بھی ہوا جس کا تعلق شکارپور سے تھا لیکن اس کا تبادلہ محض اس لیے تھر کے دور دراز علاقے اسلام کوٹ کردیا گیا کہ حکمران پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے شکارپور کے ایک بااثر سیاستدان ان کی سماجی سرگرمیوں سے ناخوش تھے۔
صوبہ سندھ میں چند مہینے قبل بھی ایک دلچسپ واقعہ رونما ہوا جب نوشہرو فیروز سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے ایک رکن سندھ اسمبلی سید ندیم شاہ نے وزیر اعلیٰ سندھ کو سفارش کی محکمہ زراعت میں ان کے ایک رشتہ دار افسر کو ایک اور اہم عہدے کا چارج بھی دیا جائے۔
مذکورہ افسر پہلے ہی بیک وقت دو اہم عہدے سنبھالے ہوئے تھے جبکہ انہیں تیسرے عہدے کی ذمہ داری دینے کی سفارش کی گئی، وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی اس کی منظوری دیدی جس کے بعد مذکورہ عہدہ خالی کرانے کے لیے اس عہدے پر تعینات افسر کا تبادلہ کردیا گیا، لیکن وہ افسر عدالت میں چلا گیا اور تقریباً ایک مہینہ قبل سروسز ٹربیونل نے مذکورہ افسر کے تبادلے کے خلاف حکم جاری کردیا جس کے باعث حکمران جماعت کے رکن اسمبلی کے رشتہ دار افسر کو تیسرے عہدے کا چارج نہ مل سکا۔
حال ہی میں کراچی کے ضلع غربی کے ڈپٹی کمشنر فیاض عالم سولنگی کو بھی ایک کاروباری شخصیت دیگر بااثر افراد کی ناراضگی کی بنا پر اپنے عہدے سے ہٹادیا گیا، و ہ مبینہ طور پر کراچی میں زمینوں کے غیرقانونی کاروبار کے حوالے سے کچھ معاملات کی تحقیقات کر رہے تھے۔
صوبہ سندھ کے شہر ہوں یا دیہات یا دیگر صوبوں کے علاقے جہاں جہاں جو لوگ بااثر ہوتے ہیں ان کی منشا کے مطابق سرکاری افسروں کے تبادلے و تقرریاں ہونا ایک معمول کی بات ہے، ان بااثر لوگوں میں سیاستدان بھی ہوتے ہیں تو کاروباری شخصیات اور دیگر لوگ شامل ہوتے ہیں۔
صوبہ سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں جہاں جہاں جاگیرداری اور قبائلی نظام مضبوط ہے وہاں پر تو بااثر لوگوں کی پیشگی اجازت سے سرکاری افسران کی تعیناتیاں ہوتی ہیں اور اگر ان کی رضامندی کے بغیر کسی افسر کی تعیناتی ہوتی ہے تو اسے مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایسا ہی ایک واقعہ صوبہ سندھ کے گریڈ 18 کے ایک افسر کے ساتھ گزشتہ سال رونما ہوا، اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے ایکسپریس کو بتایا کہ گزشتہ سال جب ان کی تعیناتی جیکب آباد میں ہوئی تو وہاں کے بااثر سیاستدان اعجاز جکھرانی کے لوگوں نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا کیونکہ یہ تعیناتی ان کی مرضی سے نہیں ہوئی تھی، اپنے عہدے کا چارج لینے کے فوری بعد انہیں اعجاز جکھرانی کے قریبی لوگوں کو اعتماد میں لینا پڑا تھا۔
اسی طرح کی صورتحال کا سامنا محکمہ تعلیم کے ایک گریڈ 19 کے افسر کو بھی ہوا جس کا تعلق شکارپور سے تھا لیکن اس کا تبادلہ محض اس لیے تھر کے دور دراز علاقے اسلام کوٹ کردیا گیا کہ حکمران پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے شکارپور کے ایک بااثر سیاستدان ان کی سماجی سرگرمیوں سے ناخوش تھے۔
صوبہ سندھ میں چند مہینے قبل بھی ایک دلچسپ واقعہ رونما ہوا جب نوشہرو فیروز سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے ایک رکن سندھ اسمبلی سید ندیم شاہ نے وزیر اعلیٰ سندھ کو سفارش کی محکمہ زراعت میں ان کے ایک رشتہ دار افسر کو ایک اور اہم عہدے کا چارج بھی دیا جائے۔
مذکورہ افسر پہلے ہی بیک وقت دو اہم عہدے سنبھالے ہوئے تھے جبکہ انہیں تیسرے عہدے کی ذمہ داری دینے کی سفارش کی گئی، وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی اس کی منظوری دیدی جس کے بعد مذکورہ عہدہ خالی کرانے کے لیے اس عہدے پر تعینات افسر کا تبادلہ کردیا گیا، لیکن وہ افسر عدالت میں چلا گیا اور تقریباً ایک مہینہ قبل سروسز ٹربیونل نے مذکورہ افسر کے تبادلے کے خلاف حکم جاری کردیا جس کے باعث حکمران جماعت کے رکن اسمبلی کے رشتہ دار افسر کو تیسرے عہدے کا چارج نہ مل سکا۔
حال ہی میں کراچی کے ضلع غربی کے ڈپٹی کمشنر فیاض عالم سولنگی کو بھی ایک کاروباری شخصیت دیگر بااثر افراد کی ناراضگی کی بنا پر اپنے عہدے سے ہٹادیا گیا، و ہ مبینہ طور پر کراچی میں زمینوں کے غیرقانونی کاروبار کے حوالے سے کچھ معاملات کی تحقیقات کر رہے تھے۔