ثابت ہوگیا مالاکنڈ حراستی مرکز سے 35 لاپتہ افراد کو فوجی لے کر گئے سپریم کورٹ
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ کیس کی سماعت کررہا ہے۔ اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے عدالت کو بتایاکہ لاپتہ افراد سے متعلق جامع قانون پارلیمنٹ کے آئندہ اجلاس میں پیش کردیا جائے گا، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ اچھی خبر ہے مگر 35لاپتہ افراد کہاں ہیں؟ جس پر قائم قائم مقام سیکریٹری دفاع عارف نذیر نے کہاکہ لاپتہ افراد کو بہت سنجیدہ سیکیورٹی مسائل کی وجہ سے پیش نہیں کر سکتے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ وزیر دفاع کے توسط سے وزیر اعظم کو بھی کیس کا پتہ ہے اس کا مطلب ہے کہ پوری حکومت جانتی ہے، چیف جسٹس نے قائم مقام سیکرٹری دفاع سے کہا کہ آسمان گرے زمین پھٹے آپ کو عدالتی حکم پر عمل کرنا ہو گا، ہم کوئی وجہ نہیں سننا چاہتے اتنی دیر میں سیاچن گلیشیئر سے لوگ آ جاتے ہیں، قائم مقام وزیر دفاع نے کہا کہ حراست میں مرنے والے دو لاپتہ افراد کے لواحقین کو ایک گھنٹہ کے نوٹس پر پیش کرنے کو تیار ہیں اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ آپ نے کیا انھیں تھانےمیں بند کر رکھا ہے، انہیں ایک گھنٹے میں کیسے لا سکتے ہیں، آپ جان بوجھ کر ایک چیز کو سنسنی خیز نہ بنائیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر وزیر دفاع کی کوئی بات نہیں سن رہا تو ہم کسی اور اعلی شخصیت کو بلا سکتے ہیں، ہم حکم جاری کریں گے اور ایگزیکٹیو اتھارٹی کو کہیں گے کہ اس پر عمل کرے، عدالت نے قائم مقام سیکرٹری دفاع کی وضاحت سننے سے انکارکر دیا۔ خواجہ آصف نے وعدہ کیا تھا 10 دسمبر کو معاملہ حل ہو جائے گا، ہمیں نام بتائیں آپ کو ان افراد کے بارے میں کون بتا رہا ہے؟ پہلے دن سے آپ کی ضد ہے کہ لوگ نہیں لانے، اور آپ اپنی ضد پر آج تک قائم ہیں۔ وزیر دفاع نے خوشخبری سنانے کا کہہ کر سماعت ملتوی کرائی مگر کوئی اطلاع نہیں دی۔
اس موقع پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے لاپتہ افراد کیس کا فیصلہ لکھواتے ہوئے کہاکہ لاپتہ افراد کیس سے متعلق سپریم کورٹ کے حکم پر عمل نہیں کیا گیا اور 35 میں سے اب تک صرف 7 افراد کو پیش کیا گیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ بات ثابت ہو گئی 35 افراد کو مالاکنڈ کے حراستی مرکز سے فوج اٹھا کر لے گئی اور اس بات کی عدالت میں پیش کئے جانے والے 7 افراد کے لواحقین اور مالاکنڈ حراستی مرکز کے سپریٹنڈنٹ سے تصدیق کرائی گئی ہے۔
عدالت نے 35 لاپتہ افراد کو حراست میں رکھنے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ بادی النظر میں یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ 35 افراد کی حراست خفیہ تھی، پولیس کے علاوہ کسی خفیہ ایجنسی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی شہری کو گرفتار کرے، عدالت نے تمام افراد کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھنے والے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنے اور لاپتہ افراد کو بازیاب کرانے کا حکم دیتےہوئے کہا کہ وزیراعظم یقینی بنائیں کہ آیندہ کوئی جبری گمشدگی نہ ہو۔