عجلت میں کشتی نہ اتاریں ۔۔۔
’کوویڈ19‘ کی ویکسین کی دوڑ اب جیتنے کی امنگ پیدا کر رہی ہے
'راستے' پختہ ہو رہے ہیں۔۔۔ عظیم لوگ باوقار ادارے 'سڑک' کی تعمیر پر مامور ہے ہیں۔۔۔ اَن تھک کوششوں نے پہاڑوں پر رستے بنائے جا چکے۔
اب سمندر کے ررمیان تیز رفتار شاہ راہوں کا قیام ناقابل عمل تصور نہیں، بلکہ تخلیقی مراحل میں ہے۔ آپ کی اور آپ کے نسلوں کی حفاظت کے لیے 'ویکسین' کی تیاری کی رفتار روشنی کی رفتار سے مقابلہ کر رہی ہے۔
جب بھی ہمارے جسم میں کوئی مشکل درپیش ہوتی ہے، چاہے یہ فطری ہو یا غیر فطری، قدرتی نعمت یعنی مدافعتی نظام ازخود کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اکثر عجلت میں یا خوف میں ہم بلا ضرورت اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں اور مہنگی ترین دوائیوں کے بدلے اپنے یا اپنے پیاروں کے لیے تسلی خریدتے ہیں، جب کہ قدرتی مدافعتی نظام کی نعمت آپ کو صحت مند کر دیتی ہے اور ہم یہ سہرا طبیب یا دوائی کے سر باندھتے ہیں۔ شکر ہے کہ قدرتی مدافعتی نظام کے سینے میں دل نہیں ہوتا، نہ اس کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے ورنہ پھول بھی آپ کی آنکھیں پہچانتے ہیں۔
ایک سنجیدہ پریشانی ہے اور وہ یہ کہ ہم جسم میں ڈالی جانے والی یا انڈیلی جانے والی ہر کیمیائی یا حیاتیاتی ادویات کو اپنا دوست گردانتے ہیں، لیکن جس طرح پیٹرول گاڑی کے لیے نعمت اور گھر کے لیے خطرہ ہوتا ہے اسی طرح ادویات کا خطرہ ہم بخوشی مول لیتے ہیں۔ ہمارا حادثہ دانش مندوں کی خود سری اور نااہلیت ہے۔ اخلاقی اور مذہبی تعلیمات سے بے بہرہ کھوکھلے اور مغرور پیشہ وروں کی بہتات کی افزائش دن دگنی رات چوگنی ترقی پر گام زَن ہے اور یہی ہمارا اصل امتحان ہے۔
سوچنے کی ہم دعوت دیتے ہیں اور دعوت سماج کے نقار خانے میں بازاری شور میں دب جاتی ہے۔ جہاں گردے خریدے جاتے ہوں، نشستیں بیچی جاتی ہوں، دوسروں کے لکھے عید کے پیغام آگے بڑھائے جاتے ہوں، پیسوں کے عوض اپنے بزرگوں کی خدمت کروائی جاتی ہو، جھوٹوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہوں، وہاں اس آلودگی میں انسانی اخلاق کی پرورش، انسانیت کا ظہور سیلاب کے آگے بند باندھنے کے مترادف ضرور ہے، مگر باندھنے کی کوشش کرنے والا تاریخ کا عظیم دوست ہے۔ ہر تاریخ پڑھی نہیں جاتی، لیکن کرہ ارض میں اس کی موجودگی اپنا نشان اور اپنا پتا رکھتی ہے۔
چلیں آج گاڑی کو تھوڑا سا موڑتے ہیں۔۔۔ 'کوویڈ 19' کی 'ویکسین' کی دوڑ اب جیتنے کی امنگ پیدا کر رہی ہے۔ سائنس تو جذبات سے عاری ہوتی ہے، لیکن تصورات جذبات کے قیدی ہوتے ہیں اور یہی تصور سائنس کی تخلیق کا باعث بنتا ہے۔ عجیب گھن چکر ہے۔ دوڑ میں کبھی کوئی حاوی ہوتا ہے اور کبھی کوئی زخمی، بہر کیف فائدہ ہو یا نقصان، سولی پر انسان اور سماج ہی رہتا ہے۔ مضبوط گواہی اور کمزور شواہد دو مختلف چیزیں ہیں، لیکن 'ویکسین' کا اثر ناپنے کے لیے ہمیں تمیز کرنا پڑے گا۔ 'ویکسین' کام کر رہی ہے یا قدرتی نظام۔۔۔؟ یہ ہمیں معلوم کرنا پڑے گا، مہلک وائرس سے رضاکاروں کا بغل گیر ہونا اثر انگیزی ناپنے کے لیے لازمی ہے۔
رضاکاروں کی منشا اور خوش دلی منشا کے بغیر مہلک وائرس سے ملاقات اخلاقی راہ میں بڑا پتھر ہے۔ خدا نخواستہ جسم میں کوئی اندوہ ناک رد عمل رونما ہو تو حفاظت کے لیے، بحالی کے لیے بھرپور تیاری سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں۔ 'ویکسین' کی تیاری میں سست روی نہ کریں، مگر جلد بازی میں سیاسی محرکات کو جگہ دینا ناقابل تلافی زخم پہنچا سکتا ہے۔ قدرتی نظام سے ہمارا مقابلہ ہے، فطری ردعمل کو ہم آج بھی سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جس جسم کو ہم مرمت کرنا چاہتے ہیں اس جسم کے خالق کو ہم نے دیکھا بھی نہیں۔ ہم خطرے مول لیتے ہیں اپنی امیدوں کے ساتھ۔
عزیزوں سیلاب کے تلاطم سے آسمان کا کچھ لینا دینا نہیں، چاند کی روشنی سے آم کے درخت کو ضرر نہیں پہنچاتی۔ رات گزر جاتی ہے، دن سمٹ جاتا ہے یہ ایک کردار ہی ہے، جو آدمی کو انسان اور انسان کو انسانیت سکھانے کے جتن کرتی ہے۔ زور ٹوٹ چکا، مٹی کی خوش بو ابھر چکی، أنے والی بہار کا نقارہ بج چکا، آؤ اب کل کے خزاں کی 'تیاری' کریں۔
اب سمندر کے ررمیان تیز رفتار شاہ راہوں کا قیام ناقابل عمل تصور نہیں، بلکہ تخلیقی مراحل میں ہے۔ آپ کی اور آپ کے نسلوں کی حفاظت کے لیے 'ویکسین' کی تیاری کی رفتار روشنی کی رفتار سے مقابلہ کر رہی ہے۔
جب بھی ہمارے جسم میں کوئی مشکل درپیش ہوتی ہے، چاہے یہ فطری ہو یا غیر فطری، قدرتی نعمت یعنی مدافعتی نظام ازخود کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اکثر عجلت میں یا خوف میں ہم بلا ضرورت اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں اور مہنگی ترین دوائیوں کے بدلے اپنے یا اپنے پیاروں کے لیے تسلی خریدتے ہیں، جب کہ قدرتی مدافعتی نظام کی نعمت آپ کو صحت مند کر دیتی ہے اور ہم یہ سہرا طبیب یا دوائی کے سر باندھتے ہیں۔ شکر ہے کہ قدرتی مدافعتی نظام کے سینے میں دل نہیں ہوتا، نہ اس کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے ورنہ پھول بھی آپ کی آنکھیں پہچانتے ہیں۔
ایک سنجیدہ پریشانی ہے اور وہ یہ کہ ہم جسم میں ڈالی جانے والی یا انڈیلی جانے والی ہر کیمیائی یا حیاتیاتی ادویات کو اپنا دوست گردانتے ہیں، لیکن جس طرح پیٹرول گاڑی کے لیے نعمت اور گھر کے لیے خطرہ ہوتا ہے اسی طرح ادویات کا خطرہ ہم بخوشی مول لیتے ہیں۔ ہمارا حادثہ دانش مندوں کی خود سری اور نااہلیت ہے۔ اخلاقی اور مذہبی تعلیمات سے بے بہرہ کھوکھلے اور مغرور پیشہ وروں کی بہتات کی افزائش دن دگنی رات چوگنی ترقی پر گام زَن ہے اور یہی ہمارا اصل امتحان ہے۔
سوچنے کی ہم دعوت دیتے ہیں اور دعوت سماج کے نقار خانے میں بازاری شور میں دب جاتی ہے۔ جہاں گردے خریدے جاتے ہوں، نشستیں بیچی جاتی ہوں، دوسروں کے لکھے عید کے پیغام آگے بڑھائے جاتے ہوں، پیسوں کے عوض اپنے بزرگوں کی خدمت کروائی جاتی ہو، جھوٹوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہوں، وہاں اس آلودگی میں انسانی اخلاق کی پرورش، انسانیت کا ظہور سیلاب کے آگے بند باندھنے کے مترادف ضرور ہے، مگر باندھنے کی کوشش کرنے والا تاریخ کا عظیم دوست ہے۔ ہر تاریخ پڑھی نہیں جاتی، لیکن کرہ ارض میں اس کی موجودگی اپنا نشان اور اپنا پتا رکھتی ہے۔
چلیں آج گاڑی کو تھوڑا سا موڑتے ہیں۔۔۔ 'کوویڈ 19' کی 'ویکسین' کی دوڑ اب جیتنے کی امنگ پیدا کر رہی ہے۔ سائنس تو جذبات سے عاری ہوتی ہے، لیکن تصورات جذبات کے قیدی ہوتے ہیں اور یہی تصور سائنس کی تخلیق کا باعث بنتا ہے۔ عجیب گھن چکر ہے۔ دوڑ میں کبھی کوئی حاوی ہوتا ہے اور کبھی کوئی زخمی، بہر کیف فائدہ ہو یا نقصان، سولی پر انسان اور سماج ہی رہتا ہے۔ مضبوط گواہی اور کمزور شواہد دو مختلف چیزیں ہیں، لیکن 'ویکسین' کا اثر ناپنے کے لیے ہمیں تمیز کرنا پڑے گا۔ 'ویکسین' کام کر رہی ہے یا قدرتی نظام۔۔۔؟ یہ ہمیں معلوم کرنا پڑے گا، مہلک وائرس سے رضاکاروں کا بغل گیر ہونا اثر انگیزی ناپنے کے لیے لازمی ہے۔
رضاکاروں کی منشا اور خوش دلی منشا کے بغیر مہلک وائرس سے ملاقات اخلاقی راہ میں بڑا پتھر ہے۔ خدا نخواستہ جسم میں کوئی اندوہ ناک رد عمل رونما ہو تو حفاظت کے لیے، بحالی کے لیے بھرپور تیاری سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں۔ 'ویکسین' کی تیاری میں سست روی نہ کریں، مگر جلد بازی میں سیاسی محرکات کو جگہ دینا ناقابل تلافی زخم پہنچا سکتا ہے۔ قدرتی نظام سے ہمارا مقابلہ ہے، فطری ردعمل کو ہم آج بھی سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جس جسم کو ہم مرمت کرنا چاہتے ہیں اس جسم کے خالق کو ہم نے دیکھا بھی نہیں۔ ہم خطرے مول لیتے ہیں اپنی امیدوں کے ساتھ۔
عزیزوں سیلاب کے تلاطم سے آسمان کا کچھ لینا دینا نہیں، چاند کی روشنی سے آم کے درخت کو ضرر نہیں پہنچاتی۔ رات گزر جاتی ہے، دن سمٹ جاتا ہے یہ ایک کردار ہی ہے، جو آدمی کو انسان اور انسان کو انسانیت سکھانے کے جتن کرتی ہے۔ زور ٹوٹ چکا، مٹی کی خوش بو ابھر چکی، أنے والی بہار کا نقارہ بج چکا، آؤ اب کل کے خزاں کی 'تیاری' کریں۔