چور مچائے شور
ماضی کی وہی حکمراں جماعتیں جن کا یہ گند جمع کیا ہوا ہے، اب شور مچانے میں پیش پیش ہیں۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒنے قیام پاکستان کی جنگ آئینی طور پر جیتی تھی لیکن یہ حقیقت بھی مسلم الثبوت اور ناقابل تردید ہے کہ برصغیرکے مسلمانوں کی بھاری، عظیم، بے دریغ،بے مثال اور ناقابل فراموش قربانیوں کے بغیر یہ پاک وطن ہرگز معرض وجود میں نہیں آسکتا تھا۔
ہمارا تعلق چونکہ اس نسل سے ہے جو ان قربانیوں کی چشم دید گواہ ہے اس لیے ہمیں نہ صرف پاکستان سے بلکہ ہر اس چیز اور ادارے سے گہری دلچسپی اور قلبی لگاؤ ہے، جس کے لفظ ''پاکستان'' جڑا ہوا ہے۔ ہمارا دل تو اسی وقت ٹوٹ گیا تھا جب پاکستان دولخت ہو گیا تھا۔ وطن عزیزکے زوال کا اصل اور بنیادی سبب مفاد پرستی اور ہوس اقتدار پر مبنی مکروہ سیاست ہے، جس کے حوالے سے شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
نِیرنگیِ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
منزل انھیں ملی جو شریک ِسفر نہ تھے
قوموں اور ملکوں کی تعمیر و ترقی کی طرح اداروں کی تعمیر وترقی کا راز بھی بے لوث ، مخلص ، محنتی اور صد فیصد اہلیت کی حامل قیادت اور اس کی نگرانی میں کام کرنے والی ٹیم کی کارکردگی میں مضمر ہو تا ہے۔ ہماری قومی ایئرلائن PIAکے حوالے سے یہ بات حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی ہے۔ اس ادارے کی سب سے بڑی خوش قسمتی یہ رہی ہے کہ اس کی بنیاد اصغر خان جیسے نابغہ روزگار نے رکھی اور اسے اپنے مبارک ہاتھوں سے پروان چڑھایا۔
دوسری خوش بختی یہ ہوئی کہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس ادارے کی باگ ڈور نور خان نے سنبھالی اور اسے ترقی کے بام ِ عروج تک پہنچایا جس کے نتیجے میں یہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کی تیسری نمبرکی قابل رشک ایئرلائن بن گئی لوگ PIAسے سفرکرنے کو نا صرف ترجیح دیتے تھے بلکہ اسے اپنے لیے باعث فخر اور اعزاز سمجھتے تھے۔ Great People to Fly withپی آئی اے کا طرہ امتیاز تھا۔ تجارتی بنیاد پر ہوا بازی (Commercial Aviation)کسی بھی ملک کی اقتصادی ترقی کا ایک اہم ذریعہ ہو اکرتا ہے۔
پی آئی اے نے اپنی شاندار کارگردگی کی بدولت بہت کم عرصے میں اس بات کو درست ثابت کردیا کہ اس کی قابل رشک کارکردگی کار از صرف ایک لفظ میں مضمر تھااور وہ تھا ''میرٹ۔'' یعنی ''اہلیت۔'' Sourceاور سفارش کا پی آئی میں تصور بھی ناممکن تھا مگر افسوس کہ اس ادارے کی بے لوث اور اہل قیادت سے محرومی کے بعد اس کا ستارہ گردش میں آگیا اور نوبت یہاں تک آگئی کہ یہ انتہائی منفعت بخش ادارہ نہ صرف ملک کی معیشت پر ایک بوجھ بن گیا ہے بلکہ اس کی شہرت بھی داغ دار ہوگئی ہے ۔
دیگر قومی اداروں کی طرح اس مثالی ادارے کو بھی بدانتظامی اور سفارش کلچر نے دیمک کی طرح چاٹ کرکھوکھلا کردیا ہے۔ رہی سہی کسرPK-8303کے حالیہ المناک حادثے نے پوری کردی ہے، جس میں نہ صرف جہازکا عملہ اپنی جان سے گیا بلکہ بہت سی قیمتی جانیں بھی ضایع ہوگئیں ۔ اس المناک حادثے نے بہت سے گھر اجاڑ دیے اور بہت سے خاندانوں کو اپنے پیاروں سے ہمیشہ کے لیے محروم کردیا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اس حادثے کے نتیجے میں قومی ایئرلائن کی شہرت بھی ناقابل تلافی نقصان کی حدتک متاثر ہوئی ہے جس کی بحالی میں نہ جانے کتنا عرصہ لگے گا؟
پی آئی اے کا حالیہ حادثہ پہلا یا اتفاقی حادثہ نہیں تھا۔ اس سے قبل بھی اسے کئی حادثے پیش آچکے ہیں اور بعض پیش آتے آتے رہ گئے ہیں۔ حادثوں کی یہ المناک کہانی برسوں پرانی ناقص کارکردگی اور بدانتظامی کا شاخسانہ ہے ۔ بقول شاعر :
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہو تا
اگرچہ کراچی میں ہونے والے المناک حادثے سے قومی ایئرلائن کی ساکھ کو بڑا زبردست دھچکا لگا ہے لیکن اس کی اصلاح کے حوالے یہ ایک صدائے بیداری ہے، یہ ایک خیر مستور ہے۔ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ اس انمول قومی ادارے کو نجکاری کے ذریعے اونے پونے فروخت کرنے کے بجائے اس کا بغور تفصیلی اور مکمل جائزہ لیا جائے اور محض اوپری لیپا پوتی کے بجائے اس کا پورا ڈھانچہ تبدیل کردیا جائے۔ یہ خرابی صرف پی آئی اے تک محدود نہیں بلکہ اس کی جڑیں پورے ادارے میں پھیلی ہوئی ہے ۔
بدقسمتی سے CAAآزاد اور بااختیار ادارہ نہیں ہے کیونکہ اس کی لگام حکومت کے ہاتھوں میں ہے۔ اسے حکومت کی ہدایات اور پالیسی کی پابندی کرنا پڑتی ہے۔ ''اتھارٹی'' کا لفظ اس کے آگے محض برائے نام لگا ہوا ہے۔ گویا '' آنکھوں سے اندھا مگر نام نین سُکھ'' ۔ بقول میر تقی میر :
نا حق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہے ہیں سو آپ کرے ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
سب سے اہم قابل غور ، توجہ طلب اور دلچسپ بات یہ ہے کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی (CAA)کے ان تمام کرتا دھرتاؤں میں سے کسی کا بھی سول ایوی ایشن کی مہارت تو کجا اس کے کام سے دور پرے کا بھی کوئی واسط نہیں ہے۔ ان حالات میں اس انتہائی اہم ادارے سے معیار ی کارکردگی کی توقع کرنا عبث ہے۔ غالب کے بقول:
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
وفاقی وزیر برائے شہری ہوا بازی غلام سرور خان نے قومی اسمبلی میں تقریرکرکے بڑا زبردست بھانڈا پھوڑ دیا جس کے سنگین نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ گویا :
بھری بزم میں رازکی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں، سزا چاہتا ہوں
اس کا سب سے بڑا نقصان پی آئی اے اوراس سے وابستہ پائلٹوں کی برسوں پرانی ساکھ کے بری طرح متاثر ہونے کی صورت میں رونما ہوا ہے۔ وزیر موصوف کے بیان سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ ہماری پروازیں تحفظ کے لحاظ سے مقررکیے گئے بین الا قوامی معیار پر پورا نہیں اترتیں۔ اس اعترافی بیان کے نتیجے میں ہمارے پائلٹوں کی اسناد مشکوک ہوگئی ہیں اور ان میں سے بہت سوں کو غیرملکی فضائی کمپنیوں نے ملازمت سے فارغ کرنا شروع کردیا ہے، جب کہ بعض ممالک نے ہماری قومی ایئرلائن کی پروازوں پر پابندی عائد کردی ہے۔ اس طرح یہ کڑوا سچ بہت مہنگا پڑا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ ماضی کی وہی حکمراں جماعتیں جن کا یہ گند جمع کیا ہوا ہے، اب شور مچانے میں پیش پیش ہیں۔ یعنی چورمچائے شور۔ افسوس کہ ماضی کے مرے ہوئے سانپ موجودہ حکومت کے گلے میں ڈال کر اوپر سے شور مچایا جا رہا ہے۔
ہمارا تعلق چونکہ اس نسل سے ہے جو ان قربانیوں کی چشم دید گواہ ہے اس لیے ہمیں نہ صرف پاکستان سے بلکہ ہر اس چیز اور ادارے سے گہری دلچسپی اور قلبی لگاؤ ہے، جس کے لفظ ''پاکستان'' جڑا ہوا ہے۔ ہمارا دل تو اسی وقت ٹوٹ گیا تھا جب پاکستان دولخت ہو گیا تھا۔ وطن عزیزکے زوال کا اصل اور بنیادی سبب مفاد پرستی اور ہوس اقتدار پر مبنی مکروہ سیاست ہے، جس کے حوالے سے شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
نِیرنگیِ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
منزل انھیں ملی جو شریک ِسفر نہ تھے
قوموں اور ملکوں کی تعمیر و ترقی کی طرح اداروں کی تعمیر وترقی کا راز بھی بے لوث ، مخلص ، محنتی اور صد فیصد اہلیت کی حامل قیادت اور اس کی نگرانی میں کام کرنے والی ٹیم کی کارکردگی میں مضمر ہو تا ہے۔ ہماری قومی ایئرلائن PIAکے حوالے سے یہ بات حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی ہے۔ اس ادارے کی سب سے بڑی خوش قسمتی یہ رہی ہے کہ اس کی بنیاد اصغر خان جیسے نابغہ روزگار نے رکھی اور اسے اپنے مبارک ہاتھوں سے پروان چڑھایا۔
دوسری خوش بختی یہ ہوئی کہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس ادارے کی باگ ڈور نور خان نے سنبھالی اور اسے ترقی کے بام ِ عروج تک پہنچایا جس کے نتیجے میں یہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کی تیسری نمبرکی قابل رشک ایئرلائن بن گئی لوگ PIAسے سفرکرنے کو نا صرف ترجیح دیتے تھے بلکہ اسے اپنے لیے باعث فخر اور اعزاز سمجھتے تھے۔ Great People to Fly withپی آئی اے کا طرہ امتیاز تھا۔ تجارتی بنیاد پر ہوا بازی (Commercial Aviation)کسی بھی ملک کی اقتصادی ترقی کا ایک اہم ذریعہ ہو اکرتا ہے۔
پی آئی اے نے اپنی شاندار کارگردگی کی بدولت بہت کم عرصے میں اس بات کو درست ثابت کردیا کہ اس کی قابل رشک کارکردگی کار از صرف ایک لفظ میں مضمر تھااور وہ تھا ''میرٹ۔'' یعنی ''اہلیت۔'' Sourceاور سفارش کا پی آئی میں تصور بھی ناممکن تھا مگر افسوس کہ اس ادارے کی بے لوث اور اہل قیادت سے محرومی کے بعد اس کا ستارہ گردش میں آگیا اور نوبت یہاں تک آگئی کہ یہ انتہائی منفعت بخش ادارہ نہ صرف ملک کی معیشت پر ایک بوجھ بن گیا ہے بلکہ اس کی شہرت بھی داغ دار ہوگئی ہے ۔
دیگر قومی اداروں کی طرح اس مثالی ادارے کو بھی بدانتظامی اور سفارش کلچر نے دیمک کی طرح چاٹ کرکھوکھلا کردیا ہے۔ رہی سہی کسرPK-8303کے حالیہ المناک حادثے نے پوری کردی ہے، جس میں نہ صرف جہازکا عملہ اپنی جان سے گیا بلکہ بہت سی قیمتی جانیں بھی ضایع ہوگئیں ۔ اس المناک حادثے نے بہت سے گھر اجاڑ دیے اور بہت سے خاندانوں کو اپنے پیاروں سے ہمیشہ کے لیے محروم کردیا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اس حادثے کے نتیجے میں قومی ایئرلائن کی شہرت بھی ناقابل تلافی نقصان کی حدتک متاثر ہوئی ہے جس کی بحالی میں نہ جانے کتنا عرصہ لگے گا؟
پی آئی اے کا حالیہ حادثہ پہلا یا اتفاقی حادثہ نہیں تھا۔ اس سے قبل بھی اسے کئی حادثے پیش آچکے ہیں اور بعض پیش آتے آتے رہ گئے ہیں۔ حادثوں کی یہ المناک کہانی برسوں پرانی ناقص کارکردگی اور بدانتظامی کا شاخسانہ ہے ۔ بقول شاعر :
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہو تا
اگرچہ کراچی میں ہونے والے المناک حادثے سے قومی ایئرلائن کی ساکھ کو بڑا زبردست دھچکا لگا ہے لیکن اس کی اصلاح کے حوالے یہ ایک صدائے بیداری ہے، یہ ایک خیر مستور ہے۔ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ اس انمول قومی ادارے کو نجکاری کے ذریعے اونے پونے فروخت کرنے کے بجائے اس کا بغور تفصیلی اور مکمل جائزہ لیا جائے اور محض اوپری لیپا پوتی کے بجائے اس کا پورا ڈھانچہ تبدیل کردیا جائے۔ یہ خرابی صرف پی آئی اے تک محدود نہیں بلکہ اس کی جڑیں پورے ادارے میں پھیلی ہوئی ہے ۔
بدقسمتی سے CAAآزاد اور بااختیار ادارہ نہیں ہے کیونکہ اس کی لگام حکومت کے ہاتھوں میں ہے۔ اسے حکومت کی ہدایات اور پالیسی کی پابندی کرنا پڑتی ہے۔ ''اتھارٹی'' کا لفظ اس کے آگے محض برائے نام لگا ہوا ہے۔ گویا '' آنکھوں سے اندھا مگر نام نین سُکھ'' ۔ بقول میر تقی میر :
نا حق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہے ہیں سو آپ کرے ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
سب سے اہم قابل غور ، توجہ طلب اور دلچسپ بات یہ ہے کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی (CAA)کے ان تمام کرتا دھرتاؤں میں سے کسی کا بھی سول ایوی ایشن کی مہارت تو کجا اس کے کام سے دور پرے کا بھی کوئی واسط نہیں ہے۔ ان حالات میں اس انتہائی اہم ادارے سے معیار ی کارکردگی کی توقع کرنا عبث ہے۔ غالب کے بقول:
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
وفاقی وزیر برائے شہری ہوا بازی غلام سرور خان نے قومی اسمبلی میں تقریرکرکے بڑا زبردست بھانڈا پھوڑ دیا جس کے سنگین نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ گویا :
بھری بزم میں رازکی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں، سزا چاہتا ہوں
اس کا سب سے بڑا نقصان پی آئی اے اوراس سے وابستہ پائلٹوں کی برسوں پرانی ساکھ کے بری طرح متاثر ہونے کی صورت میں رونما ہوا ہے۔ وزیر موصوف کے بیان سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ ہماری پروازیں تحفظ کے لحاظ سے مقررکیے گئے بین الا قوامی معیار پر پورا نہیں اترتیں۔ اس اعترافی بیان کے نتیجے میں ہمارے پائلٹوں کی اسناد مشکوک ہوگئی ہیں اور ان میں سے بہت سوں کو غیرملکی فضائی کمپنیوں نے ملازمت سے فارغ کرنا شروع کردیا ہے، جب کہ بعض ممالک نے ہماری قومی ایئرلائن کی پروازوں پر پابندی عائد کردی ہے۔ اس طرح یہ کڑوا سچ بہت مہنگا پڑا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ ماضی کی وہی حکمراں جماعتیں جن کا یہ گند جمع کیا ہوا ہے، اب شور مچانے میں پیش پیش ہیں۔ یعنی چورمچائے شور۔ افسوس کہ ماضی کے مرے ہوئے سانپ موجودہ حکومت کے گلے میں ڈال کر اوپر سے شور مچایا جا رہا ہے۔