اسلام کی فوقیت اور فضیلت ایمان کا لازمی جزو ہے خواجہ آصف
گفتگو 1973 کے آئینِ پاکستان کے تناطر میں تھی، جو تمام مذاہب کے ماننے والوں کو یکساں بنیادی آئینی حقوق دیتا بے، بیان
مسلم لیگ ن اور حزب اختلاف کے مرکزی رہنما خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں دیے گئے بیان پر ہونے والے تنازعے کے بعد وضاحتی بیان جاری کردیا ہے۔
پاکستان مسلم ن کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری کیے گئے بیان میں ان کا کہنا تھا کہ چند دنوں سے قومی اسمبلی میں میری تقریر کے بارے خصوصاً سوشل میڈیا پہ بحث چل رہی بے۔ چند گزارشات اس بارے کرنا چاہتا ہوں۔میری تمام تر گفتگو 1973 کے آئینِ پاکستان کے تناطر میں تھی، جو تمام مذاہب کے ماننے والوں کو بلا تفریق یکساں بنیادی آئینی حقوق دیتا بے اور یہ میں نے تقریر کے اختتام کے فورٖاً بعد واضح کردیا تھا.
انہوں ںے کہا کہ ہمارا دین اللہ کا آخری اور مکمل پیغام بے جو خاتم النبیین سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ بنی نوع انسان پہ نازل کیا گیا اور اس کی فوقیت اور فضیلت ھمارے ایمان کا لازمی بنیادی جزو ہے.بہت سے حضرات نے غلط فہمی یا سیاسی محرکات کی وجہ سے میری تقریر کے متن کو غلط مطلب پہناۓ ہیں جو قطعی طور پہ نامناسب ھے اور درست نہیں.
ان کا کہان تھا کہ بانی پاکستان کی اس موضوع پہ تقاریر اور فرمودات ھمارے لئے مشعل راہ بیں. مسلمان ہندوستان میں مذہبی اقلیت تھے اور خود کو مذہبی اور معاشرتی لحاظ سے غیر محفوظ محسوس کرتے تھے۔ اس احساس نے دو قومی نظریہ کو جنم دیا جو وطن عزیز کی بنیاد ہے.یہ نظریہ ہم پہ لازم کرتا ھے کہ ہم مذہبی اقلیتوں کا تخفظ کریں.
بیان میں ان کا کہان تھا کہ میں آئین میں درج شہریوں کے بنیادی حقوق کی حمایت کرتا ہوں۔ مخلوط انتخابات میں اقلیتیں بھی ھمارے ووٹر ہیں اور میرا بحیثیت منتخب نمائندہ فرض ہے کے ووٹروں کی نمائندگی کروں.میرا دین مجھے یہ حکم دیتا ھے کہ میں بلا تفریق تمام شہریوں کے حقوق کےتحفظ کو یقینی بناؤں اور بے انصافی کے خلاف آواز بلند کروں. اعلی ترین اور مکمل ضابطہ حیات پہ ایمان ھم پر یہ لازم کر دیتا ھے کے ہم حق اور انصاف کی بات بلا خوف و خطر کریں.
ان کا مزید کہنا تھا کہ میں اپنے تمام دوستوں اور ساتھیوں کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں جنہوں نے سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ پر میرے ساتھ یکجہتی کا ا ظہار کیا میرے نقطہ نظر کو سیاق وسباق کے ساتھ سمجھا اور حمایت کی. اللہ آپ کو جزا دے.
واضح رہے کہ 9 جولائی کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن رہنما خواجہ آصف کے بیان اس بیان پر پر مختلف حلقوں کی جانب سے شدید ردعمل سامانے آٰیا تھا جس میں انہوں نے تمام مذاہب کے یکساں ہونے کی بات کی تھی۔
پاکستان مسلم ن کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری کیے گئے بیان میں ان کا کہنا تھا کہ چند دنوں سے قومی اسمبلی میں میری تقریر کے بارے خصوصاً سوشل میڈیا پہ بحث چل رہی بے۔ چند گزارشات اس بارے کرنا چاہتا ہوں۔میری تمام تر گفتگو 1973 کے آئینِ پاکستان کے تناطر میں تھی، جو تمام مذاہب کے ماننے والوں کو بلا تفریق یکساں بنیادی آئینی حقوق دیتا بے اور یہ میں نے تقریر کے اختتام کے فورٖاً بعد واضح کردیا تھا.
انہوں ںے کہا کہ ہمارا دین اللہ کا آخری اور مکمل پیغام بے جو خاتم النبیین سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ بنی نوع انسان پہ نازل کیا گیا اور اس کی فوقیت اور فضیلت ھمارے ایمان کا لازمی بنیادی جزو ہے.بہت سے حضرات نے غلط فہمی یا سیاسی محرکات کی وجہ سے میری تقریر کے متن کو غلط مطلب پہناۓ ہیں جو قطعی طور پہ نامناسب ھے اور درست نہیں.
ان کا کہان تھا کہ بانی پاکستان کی اس موضوع پہ تقاریر اور فرمودات ھمارے لئے مشعل راہ بیں. مسلمان ہندوستان میں مذہبی اقلیت تھے اور خود کو مذہبی اور معاشرتی لحاظ سے غیر محفوظ محسوس کرتے تھے۔ اس احساس نے دو قومی نظریہ کو جنم دیا جو وطن عزیز کی بنیاد ہے.یہ نظریہ ہم پہ لازم کرتا ھے کہ ہم مذہبی اقلیتوں کا تخفظ کریں.
بیان میں ان کا کہان تھا کہ میں آئین میں درج شہریوں کے بنیادی حقوق کی حمایت کرتا ہوں۔ مخلوط انتخابات میں اقلیتیں بھی ھمارے ووٹر ہیں اور میرا بحیثیت منتخب نمائندہ فرض ہے کے ووٹروں کی نمائندگی کروں.میرا دین مجھے یہ حکم دیتا ھے کہ میں بلا تفریق تمام شہریوں کے حقوق کےتحفظ کو یقینی بناؤں اور بے انصافی کے خلاف آواز بلند کروں. اعلی ترین اور مکمل ضابطہ حیات پہ ایمان ھم پر یہ لازم کر دیتا ھے کے ہم حق اور انصاف کی بات بلا خوف و خطر کریں.
ان کا مزید کہنا تھا کہ میں اپنے تمام دوستوں اور ساتھیوں کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں جنہوں نے سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ پر میرے ساتھ یکجہتی کا ا ظہار کیا میرے نقطہ نظر کو سیاق وسباق کے ساتھ سمجھا اور حمایت کی. اللہ آپ کو جزا دے.
واضح رہے کہ 9 جولائی کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن رہنما خواجہ آصف کے بیان اس بیان پر پر مختلف حلقوں کی جانب سے شدید ردعمل سامانے آٰیا تھا جس میں انہوں نے تمام مذاہب کے یکساں ہونے کی بات کی تھی۔