مبارک ہم آبادی کے لحاظ سے پانچویں نمبر پر
مبارک ہو! ہم آبادی کے لحا ظ سے چھٹے سے پانچویں نمبر پر آگئے
مبارک ہو! ہم آبادی کے لحا ظ سے چھٹے سے پانچویں نمبر پر آگئے۔ ہم نے برازیل (جو پانچویں نمبر پر تھا)کوزبردست مات دے دی۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کی آبادی گیارہ جولائی 2020 میں 22 کروڑ دس لاکھ ہوگئی ہے ۔یوں مملکت خداداد آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن گیا ہے۔
اب تو یہ پیش گوئی کی جا رہی ہے کہ جس اسپیڈ سے ہم جا رہے ہیں جلد ہی انڈونیشیا(جو 27کروڑ آبادی کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے) اور امریکا (جو 33کروڑ آبادی کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے) کو بھی پچھاڑ دینگے اور پھر چین، بھارت کے بعد ہمارا دنیا میں تیسرا نمبر ہوگا۔ اس ''اعزاز'' کو ہم نے یونہی حاصل نہیں کیا بلکہ ہماری دوڑ 1971سے لگی ہوئی ہے، جب مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوا تھا بلکہ اس سے پہلے بھی ہم ریس میں شریک تھے۔
1950میں مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کی آبادی 3کروڑ 78لاکھ جب کہ مغربی پاکستان کی آبادی 3 کروڑ 75لاکھ تھی جب کہ 1971 تک معاملات ٹھیک رہے یعنی دونوں اطراف کی آبادی برابر بڑھتی رہی اور بنگلہ دیش 6.5کروڑ پر آگیا اور مغربی پاکستان 6 کروڑ پر آگیا لیکن جیسے ہی مشرقی پاکستان بنگلہ دیش میں تبدیل ہوا انھوں نے آبادی کو کنٹرول کرنا شروع کردیا، لیکن ہم نے آبادی بٖڑھانا شروع کردی۔ 1971 ،میں مغربی اور مشرقی پاکستان کی کل آبادی ساڑھے بارہ کروڑ تھی جب کہ انڈونیشیا کی آبادی ساڑھے 11کروڑ تھی جب کہ آج صرف اکیلے پاکستان کی آبادی انڈونیشیا کے برابر ہونے والی ہے۔ ایران کی آبادی 1971میں تین کروڑ تھی اور آج 8کروڑ سے زیادہ نہیں ہے ۔
خیر آج جب ہماری آبادی 22کروڑ 10لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے تو بنگلہ دیش کی آبادی ساڑھے 16کروڑ ہے۔ ہماری آبادی ایک سال میں کل آبادی کا 2فیصد بڑھ رہی ہے (اقوام متحدہ کے مطابق یہ تناسب 2.8فیصد ہے) جب کہ بنگلہ دیش کا گروتھ ریٹ 1فیصد ہے۔ انڈونیشیا اور امریکا کو پیچھے چھوڑنے کی بات میں نے اسی پیرائے میں کی کہ انڈونیشیا کا گروتھ ریٹ 1فیصد جب کہ امریکا کا 0.59فیصد ہے، اسی لیے ہم جلد ہی ان ملکوں کو پیچھے چھوڑ جائیں گے۔
تشویش کی بات یہ ہے کہ آبادی سے متعلقہ امور کے ماہرین کے مطابق یہ ''پاپولیشن بم'' پھٹنے کے لیے ٹک ٹک کر رہا ہے اور ملکی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہا ہے۔ کراچی قیام پاکستان کے بعد سے اب تک آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔ 2018 میں کراچی کی آبادی ایک کروڑ چون لاکھ ہے جو سن 2030 تک دو کروڑ بتیس لاکھ ہو جائے گی۔ اقوام متحدہ کے مطابق تب کراچی آبادی کے اعتبار سے دنیا کا تیرہواں سب سے بڑا شہر بھی ہو گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بڑھتی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کیا کر رہی ہے؟ اور کیا کرتی رہی ہے؟ 70 کی دہائی میں خاندانی منصوبہ بندی کے لاتعداد منصوبوں پر عمل کیا گیا ۔ یہ کاوشیں کافی حد تک کامیاب رہیں لیکن ضیاء الحق کی آمد کے بعد اس مہم پر کاری ضرب لگی، یعنی نام نہاد مذہبی رجحان بڑھنے سے اس مہم کو دھچکا لگااور ہنگامی بنیادوں پر اس حوالے سے کوئی کام نہ ہوسکا۔ لہٰذا حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے کہ آبادی کا بڑھتا ہوا پھیلاؤ پاکستان کی معاشی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس مسئلہ کے حل کی طرف جلد از جلد اور سنجیدہ توجہ دی جائے۔
قارئین کو یاد ہو گا کہ اس حوالے سے گزشتہ سال سپریم کورٹ کے کہنے پر حکومت کو ٹاسک فورس بنانی پڑی اور مشترکہ مفادات کونسل میں اس کی منظوری دی گئی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں بھی پورا لائحہ عمل دیا گیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ عمل درآمد کہاں ہے؟ جب پاکستان میں حکومت، انتظامیہ اور سماج سمیت کوئی بھی اس کی ذمے داری لینے کو تیار نہیں ہے تو پھر آبادی کا بم پھٹتا رہے گاا ور تباہی ہوتی رہے گی۔
پاکستان میں ترقی سے ہونے والے ثمرات کا ایک بڑا حصہ افزائش آبادی کی بلند شرح کی نذر ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے تعلیم، صحت، آمدنی اور بنیادی سہولیات کا معیار بڑھنے کی بجائے روز بروز گر رہا ہے۔ آج پاکستان میں شرح خواندگی 57 فیصد جب کہ بنگلہ دیش میں 73 فیصد ہے۔
بنگلہ دیش میں بیروزگاری کی شرح 4.19 جب کہ اس سال کے اختتام تک پاکستان میں بیروزگاری کی شرح 9.56 فیصد پہنچنے کی پیشن گوئی ہے۔ اگر اس شرح کو صرف نوجوانوں تک محدود کیا جائے تو یہ شرح اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔جس حساب سے آبادی بڑھ رہی ہے اس حساب سے جب وسائل نہیں بڑھتے تو سب سے بڑا مسئلہ بیروزگاری کے ساتھ عدم غذائیت کا آتا ہے جو بڑھتے عمر کی بچوں کی صحت کو سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے۔ 18-2017 میں پانچ سال سے کم عمر کے 38 فیصد بچے ایسے ہیں جن کے قد ان کی عمر کے مطابق نہیں بڑھ سکے۔ 1947 میں پانی کی فی کس دستیابی 5653 مکعب میٹر تھی جو اب کم ہو کر 1000 مکعب میٹر رہ گئی ہے جو آنے والے چند سالوں میں مزید نصف رہ جائے گی جو تباہ کن ہو گی۔
بنگلہ دیش نے ہم سے الگ ہوتے ہی قومی ضروریات کے مطابق پالیسی بنائی اور آج اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ مجھے معلوم ہوا کہ وزیراعظم عمران خان آبادی پر کنٹرول کی ایک موثر کمپین لانچ کرنا چاہتے تھے لیکن اسلامی نظریاتی کونسل نے روک دیا ہے کہ یہ غیر اسلامی ہے۔ اب ان حالات میں ہم آبادی میں کمی کی کیا توقع رکھ سکتے ہیں؟
بہرکیف 1950 میں آبادی کے لحاظ سے ہم دنیا میں 14 ویں نمبر پر تھے آج پانچویں پر ہیں۔ ہم یہ بنیادی نکتہ نجانے کب سمجھیں گے کہ مہنگائی، بیروزگاری، عدم تحفظ، صحت و تعلیم کی سہولتوں کا فقدان، سڑکوں اور بازاروں میں بے پناہ رش، ماحولیاتی آلودگی سمیت تمام مسائل کی وجہ آبادی میں بے ہنگم اضافہ ہے۔
اب تو یہ پیش گوئی کی جا رہی ہے کہ جس اسپیڈ سے ہم جا رہے ہیں جلد ہی انڈونیشیا(جو 27کروڑ آبادی کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے) اور امریکا (جو 33کروڑ آبادی کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے) کو بھی پچھاڑ دینگے اور پھر چین، بھارت کے بعد ہمارا دنیا میں تیسرا نمبر ہوگا۔ اس ''اعزاز'' کو ہم نے یونہی حاصل نہیں کیا بلکہ ہماری دوڑ 1971سے لگی ہوئی ہے، جب مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوا تھا بلکہ اس سے پہلے بھی ہم ریس میں شریک تھے۔
1950میں مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کی آبادی 3کروڑ 78لاکھ جب کہ مغربی پاکستان کی آبادی 3 کروڑ 75لاکھ تھی جب کہ 1971 تک معاملات ٹھیک رہے یعنی دونوں اطراف کی آبادی برابر بڑھتی رہی اور بنگلہ دیش 6.5کروڑ پر آگیا اور مغربی پاکستان 6 کروڑ پر آگیا لیکن جیسے ہی مشرقی پاکستان بنگلہ دیش میں تبدیل ہوا انھوں نے آبادی کو کنٹرول کرنا شروع کردیا، لیکن ہم نے آبادی بٖڑھانا شروع کردی۔ 1971 ،میں مغربی اور مشرقی پاکستان کی کل آبادی ساڑھے بارہ کروڑ تھی جب کہ انڈونیشیا کی آبادی ساڑھے 11کروڑ تھی جب کہ آج صرف اکیلے پاکستان کی آبادی انڈونیشیا کے برابر ہونے والی ہے۔ ایران کی آبادی 1971میں تین کروڑ تھی اور آج 8کروڑ سے زیادہ نہیں ہے ۔
خیر آج جب ہماری آبادی 22کروڑ 10لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے تو بنگلہ دیش کی آبادی ساڑھے 16کروڑ ہے۔ ہماری آبادی ایک سال میں کل آبادی کا 2فیصد بڑھ رہی ہے (اقوام متحدہ کے مطابق یہ تناسب 2.8فیصد ہے) جب کہ بنگلہ دیش کا گروتھ ریٹ 1فیصد ہے۔ انڈونیشیا اور امریکا کو پیچھے چھوڑنے کی بات میں نے اسی پیرائے میں کی کہ انڈونیشیا کا گروتھ ریٹ 1فیصد جب کہ امریکا کا 0.59فیصد ہے، اسی لیے ہم جلد ہی ان ملکوں کو پیچھے چھوڑ جائیں گے۔
تشویش کی بات یہ ہے کہ آبادی سے متعلقہ امور کے ماہرین کے مطابق یہ ''پاپولیشن بم'' پھٹنے کے لیے ٹک ٹک کر رہا ہے اور ملکی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہا ہے۔ کراچی قیام پاکستان کے بعد سے اب تک آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔ 2018 میں کراچی کی آبادی ایک کروڑ چون لاکھ ہے جو سن 2030 تک دو کروڑ بتیس لاکھ ہو جائے گی۔ اقوام متحدہ کے مطابق تب کراچی آبادی کے اعتبار سے دنیا کا تیرہواں سب سے بڑا شہر بھی ہو گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بڑھتی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کیا کر رہی ہے؟ اور کیا کرتی رہی ہے؟ 70 کی دہائی میں خاندانی منصوبہ بندی کے لاتعداد منصوبوں پر عمل کیا گیا ۔ یہ کاوشیں کافی حد تک کامیاب رہیں لیکن ضیاء الحق کی آمد کے بعد اس مہم پر کاری ضرب لگی، یعنی نام نہاد مذہبی رجحان بڑھنے سے اس مہم کو دھچکا لگااور ہنگامی بنیادوں پر اس حوالے سے کوئی کام نہ ہوسکا۔ لہٰذا حکومت کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے کہ آبادی کا بڑھتا ہوا پھیلاؤ پاکستان کی معاشی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس مسئلہ کے حل کی طرف جلد از جلد اور سنجیدہ توجہ دی جائے۔
قارئین کو یاد ہو گا کہ اس حوالے سے گزشتہ سال سپریم کورٹ کے کہنے پر حکومت کو ٹاسک فورس بنانی پڑی اور مشترکہ مفادات کونسل میں اس کی منظوری دی گئی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں بھی پورا لائحہ عمل دیا گیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ عمل درآمد کہاں ہے؟ جب پاکستان میں حکومت، انتظامیہ اور سماج سمیت کوئی بھی اس کی ذمے داری لینے کو تیار نہیں ہے تو پھر آبادی کا بم پھٹتا رہے گاا ور تباہی ہوتی رہے گی۔
پاکستان میں ترقی سے ہونے والے ثمرات کا ایک بڑا حصہ افزائش آبادی کی بلند شرح کی نذر ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے تعلیم، صحت، آمدنی اور بنیادی سہولیات کا معیار بڑھنے کی بجائے روز بروز گر رہا ہے۔ آج پاکستان میں شرح خواندگی 57 فیصد جب کہ بنگلہ دیش میں 73 فیصد ہے۔
بنگلہ دیش میں بیروزگاری کی شرح 4.19 جب کہ اس سال کے اختتام تک پاکستان میں بیروزگاری کی شرح 9.56 فیصد پہنچنے کی پیشن گوئی ہے۔ اگر اس شرح کو صرف نوجوانوں تک محدود کیا جائے تو یہ شرح اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔جس حساب سے آبادی بڑھ رہی ہے اس حساب سے جب وسائل نہیں بڑھتے تو سب سے بڑا مسئلہ بیروزگاری کے ساتھ عدم غذائیت کا آتا ہے جو بڑھتے عمر کی بچوں کی صحت کو سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے۔ 18-2017 میں پانچ سال سے کم عمر کے 38 فیصد بچے ایسے ہیں جن کے قد ان کی عمر کے مطابق نہیں بڑھ سکے۔ 1947 میں پانی کی فی کس دستیابی 5653 مکعب میٹر تھی جو اب کم ہو کر 1000 مکعب میٹر رہ گئی ہے جو آنے والے چند سالوں میں مزید نصف رہ جائے گی جو تباہ کن ہو گی۔
بنگلہ دیش نے ہم سے الگ ہوتے ہی قومی ضروریات کے مطابق پالیسی بنائی اور آج اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ مجھے معلوم ہوا کہ وزیراعظم عمران خان آبادی پر کنٹرول کی ایک موثر کمپین لانچ کرنا چاہتے تھے لیکن اسلامی نظریاتی کونسل نے روک دیا ہے کہ یہ غیر اسلامی ہے۔ اب ان حالات میں ہم آبادی میں کمی کی کیا توقع رکھ سکتے ہیں؟
بہرکیف 1950 میں آبادی کے لحاظ سے ہم دنیا میں 14 ویں نمبر پر تھے آج پانچویں پر ہیں۔ ہم یہ بنیادی نکتہ نجانے کب سمجھیں گے کہ مہنگائی، بیروزگاری، عدم تحفظ، صحت و تعلیم کی سہولتوں کا فقدان، سڑکوں اور بازاروں میں بے پناہ رش، ماحولیاتی آلودگی سمیت تمام مسائل کی وجہ آبادی میں بے ہنگم اضافہ ہے۔