وفاقی یا صوبائی سطح پر اہم تبدیلی متوقع
عمران خان پر ان کا کوئی سیاسی مخالف یہ الزام عائد نہیں کر سکتا کہ انہوں نے اپنے لئے کوئی مالی کرپشن کی ہے
ملکی سیاست میں گزشتہ ڈیڑھ دو ماہ سے ''مائنس ون'' کی خبریں گرم ہیں ،ان غیر مصدقہ اطلاعات کو خود وزیر اعظم عمران خان نے قومی اسمبلی میں اپنے مائنس ہونے کا ذکر کر کے تقویت دی۔
اس میں کوئی شک یا اختلاف نہیں کہ عمران خان نے 22 سال قبل جب سیاست میں آنے کا ارادہ کیا تواس کا مقصد کرپشن کرکے خود کو دولت مند بنانا نہیں بلکہ اس ملک و قوم کیلئے کچھ کر دکھانا تھا لیکن جس طرح سے نمک کی کان میں جا کر سب نمک ہوجاتا ہے ویسے ہی سیاست کے اسرارو رموز اور مصلحتوں نے کپتان کو مختلف معاملات میں'مفاہمت' پر مجبور کردیا ہے۔
عمران خان پر ان کا کوئی سیاسی مخالف یہ الزام عائد نہیں کر سکتا کہ انہوں نے اپنے لئے کوئی مالی کرپشن کی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ اپنے ساتھ ایک شفاف،ایماندار، ذہین اور عوام دوست ٹیم بنانے میں ناکام رہے۔
عمران خان کے لئے سب سے بھاری بوجھ ان کی خیبر پختونخواہ اورپنجاب حکومت کی غیرتسلی بخش کارکردگی کا ہے جس نے گزشتہ دوبرس میں وزیر اعظم کودفاعی پوزیشن لینے پر مجبور کیا ہوا ہے لیکن اب معلوم ہوتا ہے کہ کپتان نے بڑی تبدیلی کیلئے خود کو تیار کر لیا ہے ،دیکھنا یہ ہے کہ اگر یہ تبدیلی وقوع پذیرہوتی ہے تو آیا وفاقی سطح پر آئے گی یا دونوں صوبوں میں سے کسی ایک میں دکھائی دے گی۔
2018 ء کا الیکشن جیتنے کے بعد پنجاب کی وزارت اعلی کیلئے سردارعثمان بزدارکا انتخاب نہ صرف تحریک انصاف کیلئے ایک بڑا سرپرائز تھا بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی دھچکا لگا تھا کہ ''کنگ میکر'' کی حیثیت رکھنے والے صوبہ پنجاب کے لئے عمران خان نے ایک بالکل نیا چہرہ جوکہ''PTI FACE '' بھی نہیں ہے اس کا انتخاب کیوں کیا۔
عمران خان چند ماہ قبل تک ہر فورم پر سردار عثمان بزدار کا دفاع کرتے رہے ہیں، پارلیمانی پارٹی میں تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کے تحفظات، اعتراضات اور خدشات ہوں یا پھر پی ٹی آئی تنظیم اپنے کارکنوں کے عدم اطمینان کے بارے میں آگاہ کرتی رہے اور چاہے میڈیا اور اپوزیشن مسلسل تنقید کرتے رہیں ،عمران خان ہمیشہ سردار عثمان بزدار کا بھرپور دفاع کرتے رہے ہیں اور ان کا یہی اعلان ہوتا تھا کہ جب تک پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ہے تب تک سردار عثمان بزدار ہی وزیر اعلی ہوں گے۔
پنجاب ہمیشہ سے ایک مشکل میدان حکومت رہا ہے۔آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہونے کی حیثیت سے دیگر چھوٹے صوبے بھی اس پر زیادہ وسائل لینے کاا عتراض کرتے ہیں۔ جو لوگ سردار عثمان بزدار کا موازنہ میاں شہباز شریف کے ساتھ کرتے ہیں وہ نا انصافی کرتے ہیں اور شاید تجریاتی بے ایمانی بھی کر ڈالتے ہیں ۔
پنجاب میں سب سے زیادہ عرصہ حکومت شریف برادران نے کی ہے،میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کا بطور وزیر اعلی پنجاب مجموعی عرصہ اقتدار 18 سال سے زیادہ ہے جس میں سے تقریبا ساڑھے 14 سال میاں شہباز شریف نے پنجاب پر حکمرانی کی ہے اور وہ بھی بادشاہی اختیارات کے ساتھ۔ شریف برادران نے افسر شاہی میں اپنے وفاداروں کی ایک سروس تشکیل دی جو آج بھی ان کے ساتھ وفاداری نبھاتی ہے۔
اس کے برعکس سردار عثمان بزدار کو نہ ماضی کا کوئی تجربہ اور نہ ہی افسر شاہی کی صف بندی کا اختیار۔لیکن اس کے باوجود وہ د و سال گزار گئے یہی ان کی ہمت ہے اور شاید اتنا ہی کپتان کی برداشت ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ آج کے سردار عثمان بزدار دو سال قبل کے بزدار سے یکسر مختلف ہیں۔
انہوں نے اقتدار کی کانٹے دار راہ گذر پر چلتے اور زخم کھاتے ہوئے بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔ چند ماہ قبل وزیر اعظم نے پوری تائید اور اختیار کے ساتھ میجر(ر) اعظم سلیمان کو چیف سیکرٹری پنجاب تعینات کیا تو درحقیقت یہ پنجاب میں ایک متوازی انتظامی سیٹ اپ تھا ۔اس عرصہ میں سردار عثمان بزدار کو بالکل ہی ''کارنر'' کردیا گیا ۔ان کے قریب سمجھے جانے والے افسروں کو صرف تبدیل کرنے پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ انہیں صوبہ بدر کیا گیا لیکن پھر کچھ عرصہ بعد سردار صاحب نے''کم بیک'' کیا اور آخر کار چیف سیکرٹری تبدیل کروانے میں کامیاب ہو گئے۔
اس مقصد کیلئے انہوں نے 20 سے زائد اراکین پنجاب اسمبلی کے ''پریشر گروپ'' کا بھرپور فائدہ اٹھایا ۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ صوبہ بدر کئے جانے والے افسروں میں سے متعدد پنجاب واپس آچکے ہیں اور اہم تعیناتیاں بھی حاصل کر چکے ہیں۔ اس تمام کے باوجود پنجاب حکومت کا سب سے اہم مسئلہ'' گورننس'' اور''ڈیلیوری'' ہے ۔36رکنی پنجاب کابینہ میں سے ماسوائے 10 یا 12 وزراء کے باقی کوئی وزیر کام نہیں کر رہا ،سرکاری محکموں کی رفتار تشویش ناک حد تک سست ہے جبکہ بیوروکریٹس وزیر اعلی کے اجلاسوں اور ہدایات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔
ان عوامل کی وجہ سے حکومت کی بروقت فیصلہ سازی کی صلاحت شدید متاثر ہو چکی ہے اور اس کا براہ راست نقصان حکومت کو ہونے کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی ہو رہا ہے۔پنجاب میں تبدیلی کی باتیں تو تقریبا پونے دو سال سے ہو رہی ہیں لیکن مختلف وجوہات کی وجہ سے یہ تبدیلی لانا اتنا بھی آسان نہیں ہوگا اس کے لئے تمام اتحادیوں کا رضامند ہونا اشد ضروری ہے۔ لیکن عالم یہ ہے کہ مسلم لیگ(ق) طویل عرصہ سے شدید ناراض دکھائی دیتی ہے۔چوہدری پرویز الہی جیسا معتدل مزاج اور منجھا ہوا سیاستدان اگر ناراض ہے تو یقینی طور پر حکومت کی جانب سے کوئی خامی موجود ہے۔
چوہدری مونس الہی واضح کر چکے ہیں کہ چوہدری پرویز الہی وزیر اعلی بننے کے امیدوار نہیں ہیں۔ سینئر وزیر عبدالعلیم خان اور سردار عثمان بزدار میں اس دفعہ تعلقات بہت مضبوط ہیں اور علیم خان کوئی لابنگ نہیں کر رہے تاہم یہ الگ بات ہو گی اگر خود عمران خان اس بارے کوئی فیصلہ کر لیں۔ عبدالعلیم خان کو عمران خان کے سب سے خاص ساتھیوں میں شمار کیا جاتا ہے اور کپتان ان کی تنظیمی اور وزارتی کارکردگی سے مطمئن بھی ہے۔
چوہدری محمد سرور کسی وقت میں وزیر اعلی بننے کی دوڑ میں شامل ہوا کرتے تھے لیکن اب وہ گورنر بن کر خود کو فلاحی کاموں اور تحریک انصاف کے کارکنوں کی دلجوئی تک محدود کرچکے ہیں ۔ان کے اور وزیر اعلی کے تعلقات نشیب و فراز کا شکار رہتے ہیں۔ وزیر صنعت پنجاب میاں اسلم اقبال کا نام طویل عرصہ سے وزیر اعلی کے طور پر سنائی دیتا رہتا ہے ۔وزیر خزانہ ہاشم جواں بخت کو عمران خان بہت پسند کرتے ہیںاور ان کی کارکردگی سے مطمئن بھی ہیں اس لئے بہت سے حلقے مخدوم صاحب کا نام بھی امیدوار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
جس طرح سے عمران خان نے پہلے سرپرائز دیا اس مرتبہ بھی کپتان سرپرائز دے سکتا ہے خواہ یہ سرپرائز کوئی نیا چہرہ لانے کے بارے میں ہو یا پھر ایک مرتبہ پھر سردار عثمان بزدار پر مکمل اظہار اعتماد کی صورت میں ہو۔
اس میں کوئی شک یا اختلاف نہیں کہ عمران خان نے 22 سال قبل جب سیاست میں آنے کا ارادہ کیا تواس کا مقصد کرپشن کرکے خود کو دولت مند بنانا نہیں بلکہ اس ملک و قوم کیلئے کچھ کر دکھانا تھا لیکن جس طرح سے نمک کی کان میں جا کر سب نمک ہوجاتا ہے ویسے ہی سیاست کے اسرارو رموز اور مصلحتوں نے کپتان کو مختلف معاملات میں'مفاہمت' پر مجبور کردیا ہے۔
عمران خان پر ان کا کوئی سیاسی مخالف یہ الزام عائد نہیں کر سکتا کہ انہوں نے اپنے لئے کوئی مالی کرپشن کی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ اپنے ساتھ ایک شفاف،ایماندار، ذہین اور عوام دوست ٹیم بنانے میں ناکام رہے۔
عمران خان کے لئے سب سے بھاری بوجھ ان کی خیبر پختونخواہ اورپنجاب حکومت کی غیرتسلی بخش کارکردگی کا ہے جس نے گزشتہ دوبرس میں وزیر اعظم کودفاعی پوزیشن لینے پر مجبور کیا ہوا ہے لیکن اب معلوم ہوتا ہے کہ کپتان نے بڑی تبدیلی کیلئے خود کو تیار کر لیا ہے ،دیکھنا یہ ہے کہ اگر یہ تبدیلی وقوع پذیرہوتی ہے تو آیا وفاقی سطح پر آئے گی یا دونوں صوبوں میں سے کسی ایک میں دکھائی دے گی۔
2018 ء کا الیکشن جیتنے کے بعد پنجاب کی وزارت اعلی کیلئے سردارعثمان بزدارکا انتخاب نہ صرف تحریک انصاف کیلئے ایک بڑا سرپرائز تھا بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی دھچکا لگا تھا کہ ''کنگ میکر'' کی حیثیت رکھنے والے صوبہ پنجاب کے لئے عمران خان نے ایک بالکل نیا چہرہ جوکہ''PTI FACE '' بھی نہیں ہے اس کا انتخاب کیوں کیا۔
عمران خان چند ماہ قبل تک ہر فورم پر سردار عثمان بزدار کا دفاع کرتے رہے ہیں، پارلیمانی پارٹی میں تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کے تحفظات، اعتراضات اور خدشات ہوں یا پھر پی ٹی آئی تنظیم اپنے کارکنوں کے عدم اطمینان کے بارے میں آگاہ کرتی رہے اور چاہے میڈیا اور اپوزیشن مسلسل تنقید کرتے رہیں ،عمران خان ہمیشہ سردار عثمان بزدار کا بھرپور دفاع کرتے رہے ہیں اور ان کا یہی اعلان ہوتا تھا کہ جب تک پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ہے تب تک سردار عثمان بزدار ہی وزیر اعلی ہوں گے۔
پنجاب ہمیشہ سے ایک مشکل میدان حکومت رہا ہے۔آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہونے کی حیثیت سے دیگر چھوٹے صوبے بھی اس پر زیادہ وسائل لینے کاا عتراض کرتے ہیں۔ جو لوگ سردار عثمان بزدار کا موازنہ میاں شہباز شریف کے ساتھ کرتے ہیں وہ نا انصافی کرتے ہیں اور شاید تجریاتی بے ایمانی بھی کر ڈالتے ہیں ۔
پنجاب میں سب سے زیادہ عرصہ حکومت شریف برادران نے کی ہے،میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کا بطور وزیر اعلی پنجاب مجموعی عرصہ اقتدار 18 سال سے زیادہ ہے جس میں سے تقریبا ساڑھے 14 سال میاں شہباز شریف نے پنجاب پر حکمرانی کی ہے اور وہ بھی بادشاہی اختیارات کے ساتھ۔ شریف برادران نے افسر شاہی میں اپنے وفاداروں کی ایک سروس تشکیل دی جو آج بھی ان کے ساتھ وفاداری نبھاتی ہے۔
اس کے برعکس سردار عثمان بزدار کو نہ ماضی کا کوئی تجربہ اور نہ ہی افسر شاہی کی صف بندی کا اختیار۔لیکن اس کے باوجود وہ د و سال گزار گئے یہی ان کی ہمت ہے اور شاید اتنا ہی کپتان کی برداشت ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ آج کے سردار عثمان بزدار دو سال قبل کے بزدار سے یکسر مختلف ہیں۔
انہوں نے اقتدار کی کانٹے دار راہ گذر پر چلتے اور زخم کھاتے ہوئے بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔ چند ماہ قبل وزیر اعظم نے پوری تائید اور اختیار کے ساتھ میجر(ر) اعظم سلیمان کو چیف سیکرٹری پنجاب تعینات کیا تو درحقیقت یہ پنجاب میں ایک متوازی انتظامی سیٹ اپ تھا ۔اس عرصہ میں سردار عثمان بزدار کو بالکل ہی ''کارنر'' کردیا گیا ۔ان کے قریب سمجھے جانے والے افسروں کو صرف تبدیل کرنے پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ انہیں صوبہ بدر کیا گیا لیکن پھر کچھ عرصہ بعد سردار صاحب نے''کم بیک'' کیا اور آخر کار چیف سیکرٹری تبدیل کروانے میں کامیاب ہو گئے۔
اس مقصد کیلئے انہوں نے 20 سے زائد اراکین پنجاب اسمبلی کے ''پریشر گروپ'' کا بھرپور فائدہ اٹھایا ۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ صوبہ بدر کئے جانے والے افسروں میں سے متعدد پنجاب واپس آچکے ہیں اور اہم تعیناتیاں بھی حاصل کر چکے ہیں۔ اس تمام کے باوجود پنجاب حکومت کا سب سے اہم مسئلہ'' گورننس'' اور''ڈیلیوری'' ہے ۔36رکنی پنجاب کابینہ میں سے ماسوائے 10 یا 12 وزراء کے باقی کوئی وزیر کام نہیں کر رہا ،سرکاری محکموں کی رفتار تشویش ناک حد تک سست ہے جبکہ بیوروکریٹس وزیر اعلی کے اجلاسوں اور ہدایات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔
ان عوامل کی وجہ سے حکومت کی بروقت فیصلہ سازی کی صلاحت شدید متاثر ہو چکی ہے اور اس کا براہ راست نقصان حکومت کو ہونے کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی ہو رہا ہے۔پنجاب میں تبدیلی کی باتیں تو تقریبا پونے دو سال سے ہو رہی ہیں لیکن مختلف وجوہات کی وجہ سے یہ تبدیلی لانا اتنا بھی آسان نہیں ہوگا اس کے لئے تمام اتحادیوں کا رضامند ہونا اشد ضروری ہے۔ لیکن عالم یہ ہے کہ مسلم لیگ(ق) طویل عرصہ سے شدید ناراض دکھائی دیتی ہے۔چوہدری پرویز الہی جیسا معتدل مزاج اور منجھا ہوا سیاستدان اگر ناراض ہے تو یقینی طور پر حکومت کی جانب سے کوئی خامی موجود ہے۔
چوہدری مونس الہی واضح کر چکے ہیں کہ چوہدری پرویز الہی وزیر اعلی بننے کے امیدوار نہیں ہیں۔ سینئر وزیر عبدالعلیم خان اور سردار عثمان بزدار میں اس دفعہ تعلقات بہت مضبوط ہیں اور علیم خان کوئی لابنگ نہیں کر رہے تاہم یہ الگ بات ہو گی اگر خود عمران خان اس بارے کوئی فیصلہ کر لیں۔ عبدالعلیم خان کو عمران خان کے سب سے خاص ساتھیوں میں شمار کیا جاتا ہے اور کپتان ان کی تنظیمی اور وزارتی کارکردگی سے مطمئن بھی ہے۔
چوہدری محمد سرور کسی وقت میں وزیر اعلی بننے کی دوڑ میں شامل ہوا کرتے تھے لیکن اب وہ گورنر بن کر خود کو فلاحی کاموں اور تحریک انصاف کے کارکنوں کی دلجوئی تک محدود کرچکے ہیں ۔ان کے اور وزیر اعلی کے تعلقات نشیب و فراز کا شکار رہتے ہیں۔ وزیر صنعت پنجاب میاں اسلم اقبال کا نام طویل عرصہ سے وزیر اعلی کے طور پر سنائی دیتا رہتا ہے ۔وزیر خزانہ ہاشم جواں بخت کو عمران خان بہت پسند کرتے ہیںاور ان کی کارکردگی سے مطمئن بھی ہیں اس لئے بہت سے حلقے مخدوم صاحب کا نام بھی امیدوار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
جس طرح سے عمران خان نے پہلے سرپرائز دیا اس مرتبہ بھی کپتان سرپرائز دے سکتا ہے خواہ یہ سرپرائز کوئی نیا چہرہ لانے کے بارے میں ہو یا پھر ایک مرتبہ پھر سردار عثمان بزدار پر مکمل اظہار اعتماد کی صورت میں ہو۔