ڈرامے کو پھانسی
اداکار نعمان اعجاز نے ڈرامے کو گھسے پِٹے موضوعات تک محدود کردینے کے جرم میں ڈرامہ انڈسٹری کو پھانسی کا مطالبہ کیا ہے
معروف اداکار نعمان اعجاز نے ایک بار پھر 'پھٹتے'ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ڈرامے کو گھسے پِٹے موضوعات اور فقط کچن سے لے کر بیڈروم اور بیڈروم سے لے کر ڈرائنگ روم (باتھ روم شامل نہیں) تک محدود کردینے کے جرم میں ڈرامے سے منسلک انڈسٹری کو پھانسی دے دینی چاہیے۔ انہوں نے ساتھ ڈرامے کی تالا بندی کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہا کہ حد تو یہ ہے کہ گھر کے دروازے اور کھڑکیاں بھی نہیں کھولے جاتے۔ یعنی دوسرے لفظوں میں ڈرامے کو کورونا ہوگیا ہے؛ قرنطینہ کا پیریڈ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا؛ نہ مر رہا ہے، نہ ہی بحال ہورہا ہے۔ تو بہتر ہے کہ اس کو عذاب سے نجات دلا کر موت کی نیند سلا دیا جائے۔ امید ہے کہ ان کے پھانسی کے مطالبے میں اسٹیج ڈرامہ شامل نہیں ہے، ورنہ اسے سنگسار کرنے کا مطالبہ کرتے۔
اس سے پہلے ان ہی لاک ڈاؤن کے دنوں میں 'سوشل ڈسٹینسنگ'انٹرویو میں نعمان اعجاز نے 'میرے پاس تم ہو'کے بالترتیب ولن اور ہیرو عدنان صدیقی اور ہمایوں سعید کی اداکاری کو پھینٹا لگایا تھا، جسے عدنان صدیقی نے ان کو استاد اور ہمایوں سعید نے 'ابّا' بنا کر سہہ لیا تھا۔
نعمان اعجاز کا شمار ٹی وی کے نمبر ون ہیروز میں رہا ہے۔ شروع میں یقیناً انھوں نے بڑی اسکرین پر بھی کوشش کی ہوگی، لیکن تب فلموں میں فقط ایک ہیرو اور اسسٹنٹ المعروف سیکنڈ ہیرو کی گنجائش ہوتی تھے۔ ہیرو کے طور پر شان موجود تھے، جبکہ جان ریمبو پھدکیاں شدکیاں اور الٹی قلابازیاں لگا کر معاونت کرتے تھے۔ تو یہ ہیروز کی اس لاٹ میں شامل ہوئے جس نے ڈرامہ انڈسٹری میں ہی عافیت جانی۔ 'دشت' 'نجات' وغیرہ ڈراموں سے اپنے کیریئر کے شروع میں ہی ٹی وی کی شان بن گئے۔ بطور اداکار ہیرو کی حیثیت بحال رکھتے ہوئے مختلف اور جاندار کردار ادا کیے۔ جب ڈرامے بھی ایک پیرائے میں نہیں تھے اور ڈرائنگ روم کنارے کے ساتھ 'دھوپ کنارے' بھی ہوا کرتے تھے۔
ان برسوں میں معاشرے کے ساتھ لوگوں کے رہن سہن میں بہت تبدیلی آئی ہے، اس لیے اس کو ٹی وی کی تمثیل نگاری میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ تب چھتوں اور محلوں کے علاوہ روشنیوں کے شہر میں گلیوں میں سونا بھی عام تھا، اب تو لوگ جاگتے بلوں میں گھستے ہیں۔ ڈرامے کی طرح گھر سے گاڑی، گاڑی سے دفتر اور دفتر سے اپنے بل۔ بند فضا، بند ڈرامہ۔ بہت ہوا تو مذکر پان کے کھوکھے یا خان کے ہوٹل تک، جبکہ مونث امی کے گھر، خالہ کے گھر، نانی کے گھر،'دوسری بیوی 'کے گھر... گھر سے گھر تک۔
'خدا کی بستی' اب گھروں میں ہی بستی ہے، گھر کا 'وارث' اب 'میرا سائیں ' بن کر گھر میں ہی رہتا ہے۔ 'اندھیرا اجالا' اب مکانوں میں لوڈشیڈنگ سے منسوب ہے۔
پاکستان کے ٹی وی ڈرامے دنیا میں اپنی مثال آپ تھے۔ خاص کر ہمسایہ ملک میں تو رشک کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ پی ٹی وی کے شروع ہونے کے بعد سے شاہکار ڈراموں کا سلسلہ چل نکلا۔ خدا کی بستی، شمع، وارث، اَن کہی اور دوسرے بہت سے اور۔ یہ ضرور ہے کہ اے آر خاتون کے ناولوں سے ماخوذ بجیا کی ڈرامائی تشکیل مکانوں اور حویلیوں میں ہی ممکن تھی اور حسینہ معین کی ٹام بوائے ہیروئنیں زیادہ سے زیادہ دیواریں پھلانگ لیتی تھیں، لیکن ڈرامے خانگی مسائل کے علاوہ معاشرتی مسائل پر بھی بنائے جاتے تھے، اسی لحاظ سے دیواروں اور گھروندوں کے پرے بھی پردہ اسکرین تھی۔
اکیسویں صدی سے پیشتر لذت کام و دہن رات کے آٹھ سے نو بجے کے ڈرامے میں تھی۔ ایک چینل، ایک ٹائم، لیکن مختلف موضوع۔ ڈراموں کی بے پناہ مقبولیت کے پیش نظر حکومتوں کی بھی خصوصی نظر ہوتی تھی۔ بھٹو کے دور کے بعد ضیاء الحق کی 'اسلامی'حکومت میں پابندیاں تو عائد ہوئیں، لیکن مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا۔ بے نظیر کے دور میں سنسر کم کیا گیا تو اسلامی جمہوری دور میں اداکاراؤں کو سر پر دوپٹے کا پابند کردیا گیا۔ دوپٹے کی اتنی پابندی تھی کہ مشہور گھریلو ڈرامے'عروسہ'کے ایک رونے دھونے کے سین میں عشرت ہاشمی اداکارہ شمع جونیجو کو تسلی سے زیادہ سر پر دوپٹہ دیتی رہیں۔
خیر نئی صدی کے آنے سے پہلے ہی ٹی وی ڈرامہ 'محبت کا اسیر'ہوگیا تھا۔ جبکہ نئے چینلز اور نئی صدی میں کہانیاں 'محبت کے انجام' کی طرف بڑھنے لگیں۔ اور محبت کے نتیجے کو بدقسمتی سے عورت کو ہی بھگتنا ہوتا ہے۔ تو عورت ہر کھڑکی، دروازے سے لگ کر رونے لگی، اور اسی حالت میں پسند کی جانے لگی۔ پس بے شمار ڈرامے پھر ان ہی آنسوؤں میں بننے (ڈوبنے) لگے۔
نعمان اعجاز یقیناً اداکاروں کے شعیب اختر نہیں ہیں، ان کا شمار سنجیدہ شخصیات میں ہوتا ہے حتیٰ کہ بطور کمپیئر ایک مزاحیہ پروگرام میں 'مذاق کی رات 'بنے رہے۔ صرف نعمان اعجاز پر کیا موقوف، بہت سے لوگوں کو ڈرامے کو اس طرح 'بند' کردینے پر سخت اعتراض ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جو خاص طور پر اس فیلڈ سے وابستہ ہیں، وہ خود سے کوشش کیوں نہیں کرتے؟ صرف تنقید! بلکہ نعمان اعجاز نے تو تنقید کا ایٹم بم برسا دیا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ لوگ محدود ہوگئے ہیں۔ ارطغرل کی یہاں کامیابی نے ثابت کیا کہ لوگ باہر بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن کیا یہ صرف باہر کے ڈراموں کی حد تک ہے؟ خلیل الرحمٰن قمر نے ارطغرل کی طرز پر لکھنے کا نعرہ مارا ہے۔ قمر صاحب کا جادوئی قلم لگتا ہے پاکستانی ارطغرل کو بھی آنگن میں لاکر مقبول کرائے گا، آخر ان کا 'لنڈا بازار' بھی تو مکاں اور کوٹھے میں لگا تھا۔
پرزور احتجاج کے طریقے میں ایک طریقہ یہ بھی شامل ہے کہ جس کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہو، اس کی ڈمی یا پتلا بنا کر نذر آتش کیا جائے یا پھانسی دی جائے۔ ممکن ہے صاحب نے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے بیان احتجاج میں اس کو شامل کیا۔ شخصیتوں کا تو معاملہ آسان ہے، اگر ملکوں کے خلاف اعتراض ہو تو اس ملک کا سربراہ نشانہ ہوتا ہے۔ لیکن اب اعتراض ڈرامہ انڈسٹری پر ہے، تو کس کا پتلا بنایا جائے؟ اس کا ایک حل یہ ہے کہ ڈراموں میں تو لوگ اداکاروں کو ہی جانتے ہیں اور نعمان اعجاز ٹی وی ڈرامے کے صف اول کے ہیرو رہے ہیں، اور اب بھی ہیں۔ کیوں نہ وہ اس احتجاجی سزا پر عمل درآمد کےلیے اپنی ڈمی پیش کردیں۔ اب اتنی سی قربانی تو آپ دے ہی سکتے ہیں!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اس سے پہلے ان ہی لاک ڈاؤن کے دنوں میں 'سوشل ڈسٹینسنگ'انٹرویو میں نعمان اعجاز نے 'میرے پاس تم ہو'کے بالترتیب ولن اور ہیرو عدنان صدیقی اور ہمایوں سعید کی اداکاری کو پھینٹا لگایا تھا، جسے عدنان صدیقی نے ان کو استاد اور ہمایوں سعید نے 'ابّا' بنا کر سہہ لیا تھا۔
نعمان اعجاز کا شمار ٹی وی کے نمبر ون ہیروز میں رہا ہے۔ شروع میں یقیناً انھوں نے بڑی اسکرین پر بھی کوشش کی ہوگی، لیکن تب فلموں میں فقط ایک ہیرو اور اسسٹنٹ المعروف سیکنڈ ہیرو کی گنجائش ہوتی تھے۔ ہیرو کے طور پر شان موجود تھے، جبکہ جان ریمبو پھدکیاں شدکیاں اور الٹی قلابازیاں لگا کر معاونت کرتے تھے۔ تو یہ ہیروز کی اس لاٹ میں شامل ہوئے جس نے ڈرامہ انڈسٹری میں ہی عافیت جانی۔ 'دشت' 'نجات' وغیرہ ڈراموں سے اپنے کیریئر کے شروع میں ہی ٹی وی کی شان بن گئے۔ بطور اداکار ہیرو کی حیثیت بحال رکھتے ہوئے مختلف اور جاندار کردار ادا کیے۔ جب ڈرامے بھی ایک پیرائے میں نہیں تھے اور ڈرائنگ روم کنارے کے ساتھ 'دھوپ کنارے' بھی ہوا کرتے تھے۔
ان برسوں میں معاشرے کے ساتھ لوگوں کے رہن سہن میں بہت تبدیلی آئی ہے، اس لیے اس کو ٹی وی کی تمثیل نگاری میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ تب چھتوں اور محلوں کے علاوہ روشنیوں کے شہر میں گلیوں میں سونا بھی عام تھا، اب تو لوگ جاگتے بلوں میں گھستے ہیں۔ ڈرامے کی طرح گھر سے گاڑی، گاڑی سے دفتر اور دفتر سے اپنے بل۔ بند فضا، بند ڈرامہ۔ بہت ہوا تو مذکر پان کے کھوکھے یا خان کے ہوٹل تک، جبکہ مونث امی کے گھر، خالہ کے گھر، نانی کے گھر،'دوسری بیوی 'کے گھر... گھر سے گھر تک۔
'خدا کی بستی' اب گھروں میں ہی بستی ہے، گھر کا 'وارث' اب 'میرا سائیں ' بن کر گھر میں ہی رہتا ہے۔ 'اندھیرا اجالا' اب مکانوں میں لوڈشیڈنگ سے منسوب ہے۔
پاکستان کے ٹی وی ڈرامے دنیا میں اپنی مثال آپ تھے۔ خاص کر ہمسایہ ملک میں تو رشک کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ پی ٹی وی کے شروع ہونے کے بعد سے شاہکار ڈراموں کا سلسلہ چل نکلا۔ خدا کی بستی، شمع، وارث، اَن کہی اور دوسرے بہت سے اور۔ یہ ضرور ہے کہ اے آر خاتون کے ناولوں سے ماخوذ بجیا کی ڈرامائی تشکیل مکانوں اور حویلیوں میں ہی ممکن تھی اور حسینہ معین کی ٹام بوائے ہیروئنیں زیادہ سے زیادہ دیواریں پھلانگ لیتی تھیں، لیکن ڈرامے خانگی مسائل کے علاوہ معاشرتی مسائل پر بھی بنائے جاتے تھے، اسی لحاظ سے دیواروں اور گھروندوں کے پرے بھی پردہ اسکرین تھی۔
اکیسویں صدی سے پیشتر لذت کام و دہن رات کے آٹھ سے نو بجے کے ڈرامے میں تھی۔ ایک چینل، ایک ٹائم، لیکن مختلف موضوع۔ ڈراموں کی بے پناہ مقبولیت کے پیش نظر حکومتوں کی بھی خصوصی نظر ہوتی تھی۔ بھٹو کے دور کے بعد ضیاء الحق کی 'اسلامی'حکومت میں پابندیاں تو عائد ہوئیں، لیکن مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا۔ بے نظیر کے دور میں سنسر کم کیا گیا تو اسلامی جمہوری دور میں اداکاراؤں کو سر پر دوپٹے کا پابند کردیا گیا۔ دوپٹے کی اتنی پابندی تھی کہ مشہور گھریلو ڈرامے'عروسہ'کے ایک رونے دھونے کے سین میں عشرت ہاشمی اداکارہ شمع جونیجو کو تسلی سے زیادہ سر پر دوپٹہ دیتی رہیں۔
خیر نئی صدی کے آنے سے پہلے ہی ٹی وی ڈرامہ 'محبت کا اسیر'ہوگیا تھا۔ جبکہ نئے چینلز اور نئی صدی میں کہانیاں 'محبت کے انجام' کی طرف بڑھنے لگیں۔ اور محبت کے نتیجے کو بدقسمتی سے عورت کو ہی بھگتنا ہوتا ہے۔ تو عورت ہر کھڑکی، دروازے سے لگ کر رونے لگی، اور اسی حالت میں پسند کی جانے لگی۔ پس بے شمار ڈرامے پھر ان ہی آنسوؤں میں بننے (ڈوبنے) لگے۔
نعمان اعجاز یقیناً اداکاروں کے شعیب اختر نہیں ہیں، ان کا شمار سنجیدہ شخصیات میں ہوتا ہے حتیٰ کہ بطور کمپیئر ایک مزاحیہ پروگرام میں 'مذاق کی رات 'بنے رہے۔ صرف نعمان اعجاز پر کیا موقوف، بہت سے لوگوں کو ڈرامے کو اس طرح 'بند' کردینے پر سخت اعتراض ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جو خاص طور پر اس فیلڈ سے وابستہ ہیں، وہ خود سے کوشش کیوں نہیں کرتے؟ صرف تنقید! بلکہ نعمان اعجاز نے تو تنقید کا ایٹم بم برسا دیا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ لوگ محدود ہوگئے ہیں۔ ارطغرل کی یہاں کامیابی نے ثابت کیا کہ لوگ باہر بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن کیا یہ صرف باہر کے ڈراموں کی حد تک ہے؟ خلیل الرحمٰن قمر نے ارطغرل کی طرز پر لکھنے کا نعرہ مارا ہے۔ قمر صاحب کا جادوئی قلم لگتا ہے پاکستانی ارطغرل کو بھی آنگن میں لاکر مقبول کرائے گا، آخر ان کا 'لنڈا بازار' بھی تو مکاں اور کوٹھے میں لگا تھا۔
پرزور احتجاج کے طریقے میں ایک طریقہ یہ بھی شامل ہے کہ جس کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہو، اس کی ڈمی یا پتلا بنا کر نذر آتش کیا جائے یا پھانسی دی جائے۔ ممکن ہے صاحب نے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے بیان احتجاج میں اس کو شامل کیا۔ شخصیتوں کا تو معاملہ آسان ہے، اگر ملکوں کے خلاف اعتراض ہو تو اس ملک کا سربراہ نشانہ ہوتا ہے۔ لیکن اب اعتراض ڈرامہ انڈسٹری پر ہے، تو کس کا پتلا بنایا جائے؟ اس کا ایک حل یہ ہے کہ ڈراموں میں تو لوگ اداکاروں کو ہی جانتے ہیں اور نعمان اعجاز ٹی وی ڈرامے کے صف اول کے ہیرو رہے ہیں، اور اب بھی ہیں۔ کیوں نہ وہ اس احتجاجی سزا پر عمل درآمد کےلیے اپنی ڈمی پیش کردیں۔ اب اتنی سی قربانی تو آپ دے ہی سکتے ہیں!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔