بلدیاتی الیکشن میں حکومتی اتحاد کی برتری
کامیاب بلدیاتی انتخابات کے بعد اب کونسلرز کی سطح تک اختیارات کی منتقلی کے لئے اقدامات کئے جائیں گے،وزیر اعلیٰ بلوچستان
بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ مکمل ہوگیا ہے جس میں 7189 نشستوں کے لئے انتخابات ہونے تھے تاہم2507 اُمیدوار بلامقابلہ منتخب ہوئے جس کے بعد 4168 نشستوں پر اٹھارہ ہزار امیدواروں میں مقابلہ ہوا۔
اب تک موصول ہونے والے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق حکومتی اتحاد نیشنل پارٹی ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اورمسلم لیگ (ن)کو برتری حاصل ہوئی، صوبے میں 4168 نشستوں میں سے نیشنل پارٹی کو 234، مسلم لیگ ن کو 144، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی112اور جمعیت علماء اسلام (ف) کو 103 نشستیں حاصل ہوئیں جب کہ آزاد امیدواروں کو 486 نشستیں ملی اس طرح سے جماعتی بنیادوں پر ہونے والے ان بلدیاتی انتخابات میں آزاد امیدوار سب سے زیادہ ابھر کر سامنے آئے۔ یہاں یہ بات قبل ذکر ہے کہ بلوچستان میں ہونے والے ان بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کو اس لئے بھی اہمیت حاصل رہی کہ پہلی مرتبہ صوبے میں پر امن ماحول میں یہ انتخابات منعقد ہوئے ۔ صوبائی حکومت کے دعوے کے مطابق ٹرن آؤٹ پچاس فیصد رہا جو کہ انتہائی حوصلہ افزا ہے ۔ تمام سیاسی جماعتوں نے ان انتخابات کو صوبے کی تاریخ کے سب سے پر امن الیکشنز قرار دیا، تاہم اپوزیشن جماعت جمعیت علماء اسلام (ف) نے انتخابات کے نتائج کو مسترد کردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے جنوبی اضلاع میں الیکشن میں سرکاری انتظامیہ اور مشینری کی واضح جانبداری رہی جس کی وہ شدید مذمت کرتے ہیں ۔ جمعیت کے رہنماؤں نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ ان اضلاع میں ایک لسانی جماعت نے حکومتی مشینری کو استعمال کیا ۔ جمعیت علماء اسلام صورتحال پر غور کرنے کے لئے تمام سیاسی پارٹیوں سے مل کر اس رویئے کے خلاف آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی۔
وزیراعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کا کہنا ہے کہ جمہوری قوتوں کی جدوجہد کی بدولت پہلے اختیارات صوبوں کو منتقل ہوئے، کامیاب بلدیاتی انتخابات کے بعد اب کونسلرز کی سطح تک اختیارات کی منتقلی کے لئے اقدامات کئے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت ان انتخابات میں مکمل طور پر غیر جانبدار رہی اور ہم نے بہت کم وقت میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنایا ۔ انتخابات کے ا نعقاد کا تمام سہرا صوبائی حکومت کے سر ہے۔ الیکشن کمیشن نے بھی بلوچستان میں انتخابات کے انعقاد کو نیک شگون قرار دیتے ہوئے کہا کہ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے امن و امان کی صورتحال کافی بہتر رہی، عوام نے بلا خوف و خطر گھروں سے نکل کر ووٹ کا حق استعمال کیا جو کہ جمہوریت کا حسن ہے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے بعد اب دوسرے مرحلے میں میئر ،ڈپٹی میئر ، ڈسٹرکٹ کونسلز کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کے انتخاب کا مرحلہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔
ان حلقوں کے مطابق بلوچستان میں میئر، ڈپٹی میئر، چیئرمین اور وائس چیئرمین کے انتخاب کا مرحلہ صوبائی حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے لئے کسی امتحان سے کم نہیں خصوصاً صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخاب میں حکومتی اتحاد کو کافی مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ ان حلقوں کے مطابق دیکھنا یہ ہے کہ حکومتی اتحاد اس امتحان سے کس طرح سے نکلتا ہے ۔ بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کے بعد صورتحال واضح ہوتی چلی آرہی ہے، پشتون علاقوں میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو برتری حاصل ہے۔ میٹروپولیٹن کارپوریشن کوئٹہ کے میئر اور ڈپٹی میئر کے عہدوں کیلئے سیاسی جماعتوں کی تگ و دو جاری ہے۔ پیر کی رات تک ایک آزاد کونسلر پشتونخواملی عوامی پارٹی میں شامل ہوا اور تین آزاد کونسلروں کے ساتھ ایم ڈبلیو ایم کے ایک کونسلر نے میئر شپ کیلئے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی حمایت کی جس کے بعد پشتونخواملی عوامی پارٹی کو میٹروپولیٹن کارپوریشن کے میئر کیلئے 25 کونسلروں کی عددی اکثریت حاصل ہوگئی ہے۔ جبکہ بلوچ علاقوں میں نیشنل پارٹی سبقت لئے ہوئے ہے تاہم بعض علاقوں میں علاقائی سیاست بھی چیئرمین، وائس چیئرمین کے انتخاب پر اثر انداز ہوگی۔
ان حلقوں کے مطابق اگلے مرحلے میں مخصوص نشستوں پر ارکان کے انتخاب کے بعد صورتحال واضح ہوکر سامنے آجائے گی ۔ مسلم لیگ ق کو بھی دو اضلاع چاغی اور خاران میں اکثریت حاصل ہوئی ہے جبکہ ژوب میں بھی (ق) کے ارکان کی اکثریت کامیاب ہوئی ہے تاہم ژوب میں علاقائی سیاست کو مد نظر رکھ کے ہی کوئی فیصلہ کیا جا سکے گا۔ سیاسی حلقوں کے مطابق اگلے مرحلے کے لئے بھی سیاسی جماعتوں نے حلقہ بندی شروع کردی ہے جبکہ بڑی تعداد میں کامیاب ہوکر آنے والے آزاد اراکین سے سیاسی جماعتوں نے رابطوں کا آغاز کر دیا ہے۔ آزاد ارکان کے فیصلے کے بعد دوسرے مرحلے میں سیاسی جماعتوں کی پوزیشن واضح ہوگی اور نئے سیاسی اتحاد بھی تشکیل پائیں گے ۔ سیاسی حلقوں کے مطابق ماضی میں بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات اس لحاظ سے بھی بڑے اہمیت کے حامل رہے ہیں کہ صوبے میں اب تک جو بھی بڑے بڑے قبائلی تنازعات نے سر اٹھایا ہے ان کی بنیاد یہی بلدیاتی انتخابات رہے ہیں۔ تاہم تاریخ میں پہلی مرتبہ پر امن انتخابات کے انعقاد نے موجودہ مخلوط صوبائی حکومت کو جہاں مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا وہاں توقع یہی کی جا رہی ہے کہ آگے چل کے صوبائی حکومت کے لئے بہت اہمیت کے حامل ہوسکتے ہیں خصوصاً مخلوط حکومت میں شامل اتحاد کو مزید قریب لانے میں بھی اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔
بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے دوران بلوچستان میں بی آر پی بلوچ نیشنل موومنٹ کی جانب سے پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کی اپیل کی گئی تھی جس کے باعث بلوچ علاقوں ، خصوصاً مستونگ ، قلات ،نوشکی ، کیچ، گوادراور خاران میں شٹر ڈاؤن و پہیہ جام رہا جس کے باعث معمولات زندگی مفلوج رہی اور عوام کو شدید مشکلا ت کا سامنا رہا ۔ الیکشن کمیشن نے بلوچستان میں پانچ سو سے زائد نشستوں پر جہاں کسی نے کاغذات جمع نہیں کرائے تھے پر دوبارہ الیکشن کرانے کا فیصلہ کیا ہے جس کا شیڈول بھی آئندہ چند روز میں جاری کردیا جائیگا، تاہم الیکشن کے دوران ایک ضلع ہرنائی میں دھاندلی اور بعض وجوہات کی بناء پر انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے دوبارہ انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ ضلع ہرنائی کی تمام انتظامیہ کو شکایات موصول ہونے پر تبدیل کردیا گیا ۔ بلدیاتی انتخابات کے موقع پر کوئٹہ سمیت صوبے بھر میں 54 ہزار سکیورٹی فورسز اہلکار تعینات کئے گئے جن میں 5 ہزار فوجی 17 ہزار فرنٹیئر کور، پولیس، بلوچستان کانسٹیبلری اور لیویز اہلکار شامل تھے۔
اب تک موصول ہونے والے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق حکومتی اتحاد نیشنل پارٹی ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اورمسلم لیگ (ن)کو برتری حاصل ہوئی، صوبے میں 4168 نشستوں میں سے نیشنل پارٹی کو 234، مسلم لیگ ن کو 144، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی112اور جمعیت علماء اسلام (ف) کو 103 نشستیں حاصل ہوئیں جب کہ آزاد امیدواروں کو 486 نشستیں ملی اس طرح سے جماعتی بنیادوں پر ہونے والے ان بلدیاتی انتخابات میں آزاد امیدوار سب سے زیادہ ابھر کر سامنے آئے۔ یہاں یہ بات قبل ذکر ہے کہ بلوچستان میں ہونے والے ان بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کو اس لئے بھی اہمیت حاصل رہی کہ پہلی مرتبہ صوبے میں پر امن ماحول میں یہ انتخابات منعقد ہوئے ۔ صوبائی حکومت کے دعوے کے مطابق ٹرن آؤٹ پچاس فیصد رہا جو کہ انتہائی حوصلہ افزا ہے ۔ تمام سیاسی جماعتوں نے ان انتخابات کو صوبے کی تاریخ کے سب سے پر امن الیکشنز قرار دیا، تاہم اپوزیشن جماعت جمعیت علماء اسلام (ف) نے انتخابات کے نتائج کو مسترد کردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے جنوبی اضلاع میں الیکشن میں سرکاری انتظامیہ اور مشینری کی واضح جانبداری رہی جس کی وہ شدید مذمت کرتے ہیں ۔ جمعیت کے رہنماؤں نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ ان اضلاع میں ایک لسانی جماعت نے حکومتی مشینری کو استعمال کیا ۔ جمعیت علماء اسلام صورتحال پر غور کرنے کے لئے تمام سیاسی پارٹیوں سے مل کر اس رویئے کے خلاف آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی۔
وزیراعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کا کہنا ہے کہ جمہوری قوتوں کی جدوجہد کی بدولت پہلے اختیارات صوبوں کو منتقل ہوئے، کامیاب بلدیاتی انتخابات کے بعد اب کونسلرز کی سطح تک اختیارات کی منتقلی کے لئے اقدامات کئے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت ان انتخابات میں مکمل طور پر غیر جانبدار رہی اور ہم نے بہت کم وقت میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنایا ۔ انتخابات کے ا نعقاد کا تمام سہرا صوبائی حکومت کے سر ہے۔ الیکشن کمیشن نے بھی بلوچستان میں انتخابات کے انعقاد کو نیک شگون قرار دیتے ہوئے کہا کہ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے امن و امان کی صورتحال کافی بہتر رہی، عوام نے بلا خوف و خطر گھروں سے نکل کر ووٹ کا حق استعمال کیا جو کہ جمہوریت کا حسن ہے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے بعد اب دوسرے مرحلے میں میئر ،ڈپٹی میئر ، ڈسٹرکٹ کونسلز کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کے انتخاب کا مرحلہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔
ان حلقوں کے مطابق بلوچستان میں میئر، ڈپٹی میئر، چیئرمین اور وائس چیئرمین کے انتخاب کا مرحلہ صوبائی حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے لئے کسی امتحان سے کم نہیں خصوصاً صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخاب میں حکومتی اتحاد کو کافی مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ ان حلقوں کے مطابق دیکھنا یہ ہے کہ حکومتی اتحاد اس امتحان سے کس طرح سے نکلتا ہے ۔ بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کے بعد صورتحال واضح ہوتی چلی آرہی ہے، پشتون علاقوں میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو برتری حاصل ہے۔ میٹروپولیٹن کارپوریشن کوئٹہ کے میئر اور ڈپٹی میئر کے عہدوں کیلئے سیاسی جماعتوں کی تگ و دو جاری ہے۔ پیر کی رات تک ایک آزاد کونسلر پشتونخواملی عوامی پارٹی میں شامل ہوا اور تین آزاد کونسلروں کے ساتھ ایم ڈبلیو ایم کے ایک کونسلر نے میئر شپ کیلئے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی حمایت کی جس کے بعد پشتونخواملی عوامی پارٹی کو میٹروپولیٹن کارپوریشن کے میئر کیلئے 25 کونسلروں کی عددی اکثریت حاصل ہوگئی ہے۔ جبکہ بلوچ علاقوں میں نیشنل پارٹی سبقت لئے ہوئے ہے تاہم بعض علاقوں میں علاقائی سیاست بھی چیئرمین، وائس چیئرمین کے انتخاب پر اثر انداز ہوگی۔
ان حلقوں کے مطابق اگلے مرحلے میں مخصوص نشستوں پر ارکان کے انتخاب کے بعد صورتحال واضح ہوکر سامنے آجائے گی ۔ مسلم لیگ ق کو بھی دو اضلاع چاغی اور خاران میں اکثریت حاصل ہوئی ہے جبکہ ژوب میں بھی (ق) کے ارکان کی اکثریت کامیاب ہوئی ہے تاہم ژوب میں علاقائی سیاست کو مد نظر رکھ کے ہی کوئی فیصلہ کیا جا سکے گا۔ سیاسی حلقوں کے مطابق اگلے مرحلے کے لئے بھی سیاسی جماعتوں نے حلقہ بندی شروع کردی ہے جبکہ بڑی تعداد میں کامیاب ہوکر آنے والے آزاد اراکین سے سیاسی جماعتوں نے رابطوں کا آغاز کر دیا ہے۔ آزاد ارکان کے فیصلے کے بعد دوسرے مرحلے میں سیاسی جماعتوں کی پوزیشن واضح ہوگی اور نئے سیاسی اتحاد بھی تشکیل پائیں گے ۔ سیاسی حلقوں کے مطابق ماضی میں بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات اس لحاظ سے بھی بڑے اہمیت کے حامل رہے ہیں کہ صوبے میں اب تک جو بھی بڑے بڑے قبائلی تنازعات نے سر اٹھایا ہے ان کی بنیاد یہی بلدیاتی انتخابات رہے ہیں۔ تاہم تاریخ میں پہلی مرتبہ پر امن انتخابات کے انعقاد نے موجودہ مخلوط صوبائی حکومت کو جہاں مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا وہاں توقع یہی کی جا رہی ہے کہ آگے چل کے صوبائی حکومت کے لئے بہت اہمیت کے حامل ہوسکتے ہیں خصوصاً مخلوط حکومت میں شامل اتحاد کو مزید قریب لانے میں بھی اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔
بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے دوران بلوچستان میں بی آر پی بلوچ نیشنل موومنٹ کی جانب سے پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کی اپیل کی گئی تھی جس کے باعث بلوچ علاقوں ، خصوصاً مستونگ ، قلات ،نوشکی ، کیچ، گوادراور خاران میں شٹر ڈاؤن و پہیہ جام رہا جس کے باعث معمولات زندگی مفلوج رہی اور عوام کو شدید مشکلا ت کا سامنا رہا ۔ الیکشن کمیشن نے بلوچستان میں پانچ سو سے زائد نشستوں پر جہاں کسی نے کاغذات جمع نہیں کرائے تھے پر دوبارہ الیکشن کرانے کا فیصلہ کیا ہے جس کا شیڈول بھی آئندہ چند روز میں جاری کردیا جائیگا، تاہم الیکشن کے دوران ایک ضلع ہرنائی میں دھاندلی اور بعض وجوہات کی بناء پر انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے دوبارہ انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ ضلع ہرنائی کی تمام انتظامیہ کو شکایات موصول ہونے پر تبدیل کردیا گیا ۔ بلدیاتی انتخابات کے موقع پر کوئٹہ سمیت صوبے بھر میں 54 ہزار سکیورٹی فورسز اہلکار تعینات کئے گئے جن میں 5 ہزار فوجی 17 ہزار فرنٹیئر کور، پولیس، بلوچستان کانسٹیبلری اور لیویز اہلکار شامل تھے۔