عوام کے خواب کب شرمندہ تعبیر ہوںگے

حکمراں آگاہ رہیں کہ غالب خستہ کے بغیر کوئی کام بند نہیں رہ سکتے۔

حکمراں آگاہ رہیں کہ غالب خستہ کے بغیر کوئی کام بند نہیں رہ سکتے۔ فوٹو: فائل

کسی دانا کا قول ہے کہ بڑے شہر احساس تنہائی کو بڑھاتے ہیں، آدمی بھری بزم میں تنہا رہ جاتا ہے۔ غالب نے اس احساس کو کتنی خوبصورتی سے اس شعر میں سمویا ہے:

بوئے گل، نالہ دل، دودِ چراغِ محفل

جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا

شاعرانہ فصاحت تو رہی ایک الگ بات مگر پھولوں کی مہک، دل سے نکلی ہوئی فریاد، آسمان چیر دینے والی کسی غریب کی آہ اور چراغ سے اٹھنے والا دھواں بھی جب بے منزل ہوکر فضائے بسیط میں تحلیل ہوجائے تو اس آدمی کا کیا حشر ہو جاتا ہے جو کسی خواب کے تعاقب میں جمہوریت کی دیوی سے دل لگا لیتا ہے۔ یہ آج کی بات ہو رہی ہے، جو جمہوری عہد ہے، اکیسویں صدی ہے، سائنس، ٹیکنالوجی اور قربتوں کے گلرنگ افسانے ہیں، کوئی سوال پوچھے کہ ووٹرز کسی پارٹی کو کیوں ووٹ دیتا ہے؟

سب کہیں گے کہ ہر ووٹر کے کچھ خواب ہوتے ہیں، اس کی آرزوئیں ہوتی ہیں، وہ چاہتا ہے کہ اس کی الیکشن جیتنے والی جماعت اس کی زندگی بدل دے، اسے ریلیف دے۔ پچھلی حکومتوں نے اگر اسے پوچھا تک نہیں تو یہ منتخب پارٹی اس کو آسودگی دے گی، اس کے حقوق اور انسانی آزادیوں کا بھرم رکھے گی، اس کے گھر میں خوشحالی آئے گی، بچے اسکول میں پڑھیں گے، غربت مٹ جائے گی، ہر شخص کو بقدر ہمت اوست روزگار ملے گا، مہنگائی ختم ہوگی، اس کا محلہ، قصبہ، گاؤں، شہر صوبہ اور ملک جمہوری ثمرات سے فیضیاب ہوگا، اس کے دکھوں کی شدت کم ہوجائے گی، حکومت زندگی کی ضمانت دے گی، چادر اور چار دیواری کا ریاست اور حکومت تحفظ کریگی، بجٹ الفاظ کا گورکھ دھندہ نہیں ہوگا، ملکی معاشی صورتحال پہلے سے بہتر ہوجائے گی۔

خطے میں امن و ترقی کا دور دورہ ہوگا، اقوام عالم میں وطن عزیز کا نام احترام سے لیا جائے گا، دہشتگردی، جرائم، جعل سازی، مذہبی اور فرقہ وارانہ منافرت کی جگہ فکری ہم آہنگی کو فروغ حاصل ہوگا، عدم رواداری کا جن بوتل میں بند ہوگا، ملک میں ایک خاموش انقلاب آئیگا، تبدیلی کی لہر قوم کو ماضی کے عذابوں سے الگ کردے گی۔ سنجیدگی اساس جمہوریت ہوگی۔

ایک غریب ووٹر اور عام آدمی کی تمنا ان بیان کردہ حقائق سے عبارت ہے، جمہوریت خواب دیکھنے کی اجازت دیتی ہے، رویوں میں برداشت کا جذبہ پیدا کرتی ہے، غریب و امیر دونوں ایک منصفانہ نظام معیشت و سیاست کی ڈور میں بندھے ہوتے ہیں، سیاست عوام کی خدمت سے مشروط ہے، یہ بزنس نہیں، اپنے گھر کو بھرنے کی ہوس کا نام نہیں، آج ووٹر کا دم گھٹ رہا ہے تو صرف اس طوائف الملوکی کو دیکھ کر، وہ اپنی تمناؤں کا خون ہوتا دیکھ کر آٹھ آٹھ آنسو رو تا ہے، اپنی قسمت پر ماتم کناں ہے کہ اس کے ساتھ جمہوریت کے نام پر یہ کیا کھلواڑ ہو رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا نوٹنکی تماشے ہوتے تھے، پھر فلم، ٹی وی چینلز اور اب انٹرنیٹ، یوٹیوب، انسٹا گرام اور سوشل میڈیا کے ہنگاموں نے مسلمہ اور روایتی میڈیا کو دھچکا لگا دیا، واجب تھا کہ سیاست عوام کو جدید عصری تقاضوں اور زمینی حقائق سے روشناس کرتی۔

بدنصیب قوم گزشتہ 72سالوں سے سیاسی، معاشی، سفارتی، تزویراتی، ماحولیاتی سایوں کا تعاقب کرتی آ رہی ہے، اس کے سامنے ایک تاریخ ہے جس میں حکومتیں آتی جاتی رہیں، مون سون کی بارشیں، سیلاب، زلزلے، آفات اور اب کورونا وائرس کی بلا سر پر نازل ہوئی ہے، دنیا میں کہرام برپا ہے، صحت کا انفرا اسٹرکچر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، کسی ویکسین کا انتظار ہے، پاکستان اس وبا سے سیاسی ومعاشی طور پر نڈھال ہوچکا ہے، دانشمندی کا تقاضہ تھا کہ حکمراں کورونا سے بچنے کے لیے ایک دل خوش کن معاہدہ عمرانی کرتے، جس کے تحت سیاسی سٹیک ہولڈرز مشترکہ قومی جد و جہد اور مثالی اشتراک عمل کے ذریعے اپنے عوام کو اس مہیب خطرے سے محفوظ رکھنے کی صائب تدابیر اختیار کرتے، معاشی اور سیاسی تنازعات کا مل بیٹھ کر کوئی حل نکالتے، مگر ایسا کچھ نہ ہوسکا۔ یہ بھی ایک عبرت انگیز داستان ہے اس پر وفاق سمیت چاروں صوبے اپنے ''درد آشوب'' قوم کے سامنے ضرور بیان کریں۔

امریکی جریدہ لکھتا ہے کہ وبائی امراض کے لیے پیشگی انتباہی نظام کی ضرورت ہے، آیندہ برسوں میں وبائی کے ساتھ ساتھ معتدی امراض بہت زیادہ عام ہوجائیں گے، جمہوری ادوار میں کبھی قحط نہیں پڑا۔ اسّی کی دہائی میں امریکا نے ''فیمن ارلی وارننگ سسٹم نیٹ ورک '' بنا کر غذائی بحرانوں کی درست اطلاع دی اور گزشتہ ڈیڑھ سو سال میں اموات میں واضح کمی اس نظام کے قائم ہونے کے بعد سامنے آئی۔ وبائی اور معتدی امراض سے نمٹنے کے لیے امریکا کو قحط نظام کی طرح کا پیشگی انتباہی نظام بنانا چاہیے۔


عالمی ادارہ صحت کا پیشگی انتباہی نظام مغربی افریقہ میں 2014 میں ایبولا وائرس پھیلنے اور موجودہ کووڈ-19 وائرس پھیلنے کے متعلق اطلاع دینے میں ناکام رہا۔ کورونا وائرس صدی کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ آیندہ بڑی وبا ان ممالک میں پھیل جائے گی جن میں صحت عامہ کے مضبوط ڈھانچے اور بیماریوں کی موثر نگرانی کے نظام کی کمی ہے۔ امراض کے اعداد و شمار کے حصول کے کئی ذرایع موجود ہیں، لیکن ان کا ابھی تک منظم ہونا باقی ہے۔

سیٹلائٹ سے اجتماعی قبروں کی اچانک نموداری یا قبرستانوں میں اضافہ، ہیلتھ کلینکس اور اسپتالوں کے باہر بھیڑ دیکھے جاسکتے ہیں۔ مریضوں کی اچانک آمد کسی وبا کا ثبوت نہیں ہے، لیکن اس سے صحت کا الارمنگ اشارہ ملتا ہے جس کی تحقیقات کو جواز بنایا جاسکے۔ آن لائن ڈیٹا کے ساتھ جب تجزیہ کیا جاتا ہے تو ریموٹ مانیٹرنگ سسٹم سے ڈیٹا اور زیادہ طاقتور ہو جاتا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی تحقیق کے مطابق، سیٹلائٹ نے اگست 2019 سے ووہان میں اسپتال ٹریفک میں نمایاں اضافہ کا پتہ لگایا، اسی وقت سرچ انجنوں نے مخصوص اور انوکھی علامات سے متعلق ووہان کے علاقے میں تیز رفتار سرچ ریکارڈ کی۔

یہ رجحانات واضح کرتے ہیں کہ کورونا وائرس کا پھیلاؤ پہلے سے شروع ہوچکا تھا۔ گزشتہ 50 سالوں میں 70 فی صد نئی بیماریاں جانوروں سے پھیلیں۔ امریکی جریدہ ''فارن افیئر'' لکھتا ہے کہ کسی بھی بڑے سانحے یا آفت سے نمٹنے میں شخصی نظام کے بجائے جمہوری ادوار نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ کسی بند نظام کے مقابلے میں آزاد اور شفاف سیاسی نظام میں بحران کی خبروں کو دبانا مشکل ہے۔

چین میں مرکزی حکومت مقامی عہدیداروں پر امراض کے متعلق آگاہ کرنے پر پابندی عائد کرتی ہے۔ دسمبر میں ایسا ہی ہوا تھا، جب ووہان میں کورونا وائرس کے متعلق عہدیداروں نے خاموشی اختیار کی اور اس وبا کی پہلے اطلاع دینے والے ڈاکٹروں کو سزا دی۔ جمہوری نظام میں چھپانا مشکل ہوتا ہے کیونکہ قانون ساز، سول سوسائٹی، تھنک ٹینکس اور میڈیا ناکامی کی رپورٹس کو عام کرسکتے ہیں۔ نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات امرتیہ سین کی یہی منطق ہے کہ جمہوریت میں کبھی قحط نہیں پڑا۔

قحط اس کو بھی کہتے ہیں جب آدمی ہوشربا مہنگائی اور بیروزگاری کے باعث سستی سبزی یا پھل بھی نہ خرید سکے، امرتیہ سین نے یہی کہا ہے کہ فرنگی حکمرانوں نے ہندوستان کی دھرتی کو لوٹ کر تاراج کردیا اور سارا مال اپنی نوآبادیوں میں منتقل کرتے رہے، ہم نے بھی گندم کی قلت کا شور مچایا تھا مگر خود گندم برآمد کی تھی۔ غربت کی لکیر تو کسی کو نظر نہیں آتی لیکن لاکھوں پژمردہ چہرے سڑکوں، گلی کوچوں، بازاروں اور شہروں میں اہل اقتدار کو تو روز نظر آتے ہیں، کراچی کی مثال لے لیں جو ماضی کا بندہ پرور شہر تھا، عروس البلاد یعنی شہروں کی دلہن کہلاتا تھا، اس کی زلفیں پارسی، ہندو اور مسلمان میئرز نے سواریں، عوام کو ہر چیز اس کی حیثیت کے مطابق مل جاتی تھی، غربت عام تھی، کون انکار کرتا ہے؟

اسی بندر روڈ (آج ایم اے جناح روڈ) پر ڈبل ڈیکر بسیں اور ٹرامیں چلتی تھیں، نالوں میں فینائل چھڑکنے کے لیے ہیلتھ آفیسرز خود مانیٹر کرنے آتے، مچھلی سستی، گوشت سستا، سبزی والا دھنیا، پودینا اور سبز مرچ مفت دیا کرتا، مروت عام تھی، ڈاکو بھی شادی بیاہ کی تقریبات سے واپس لوٹنے والی خواتین کے اصلی زیورات کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتے تھے، ڈاکو راج نہیں تھا، دس روپے میں دال چاول دستیاب تھا، بیس روپے کا ٹرک ریتی سمیت ٹرک ڈرائیور گھر کے سامنے ڈال کر چلے جاتے، 5روپے سیمنٹ کی بوری تھی۔ کوئی چھینا چھپٹی نہ تھی۔ ہوس ناک کلچر نہ تھا۔ لوگ اسیر حرص نہ تھے۔

افلاس کی حکمرانی ضرور تھی کیونکہ پاکستان کی اشرافیہ نے کبھی عوام کو آسودگی دلانے والا سیاسی و معاشی نظام قوم کو نہیں دیا، لیکن قومی حمیت زندہ تھی، غربت کے باوجود لوگ اپنے ضمیر اور دین وایمان بیچنے میں سبقت نہیں لے جاتے تھے، سیاست کی بات اور تھی، ایک بھوکے اور غریب آدمی کی دس مجبوریاں گنوائی جاسکتی ہیں، کسی دانا کا قول ہے کہ عالمی امن اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا اگر پوری قوم غربت زدہ ہو۔ ساحر نے کہا تھا:

مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے

بھوک تہذیب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی

حکمراں آگاہ رہیں کہ غالب خستہ کے بغیر کوئی کام بند نہیں رہ سکتے۔ کراچی سمیت ملک کے تمام شہروں کو آج بھی تبدیلی کی ایک لہر کا انتظار ہے مگر وہ ید بیضا رکھنے والی قوتیں اور وہ درد مند سیاستدان کہاں غائب ہوگئے جن سے قوم نے یہ توقع باند رکھی تھی کہ وہ عوام کو ایک تبدیل شدہ وطن دیں گے جس میں امن و انصاف ہوگا۔ جمہوریت خود پر نازاں ہوگی۔
Load Next Story