آئی ایم ایف کا راج
آئی ایم ایف کی ہر شرط ماننے کی پالیسی سے صرف ملک ہی تباہ نہیں ہورہا بلکہ پی ٹی آئی کی اپنی ساکھ بھی متاثر ہورہی ہے
حکومت سر جھکا کر، کسی چوں و چرا کے بغیر آئی ایم ایف کی تمام شرائط قبول کررہی ہے۔ حکومت پاکستان کی تابعداری کو دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف کے بھی حوصلے بلند ہورہے ہیں اور وہ ایک کے بعد ایک شرط پیش کرتے جارہے ہیں، جنہیں ہماری حکومت من و عن تسلیم کررہی ہے۔ حکومت کی اس تابعدارانہ پالیسی کی وجہ سے عوام پر بوجھ بڑھتا جارہا ہے، نئے نئے ٹیکس لگ رہے ہیں جس سے مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے۔ ملازمین کو فارغ کیا جارہا ہے جس سے بیروزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ کاروباری طبقے کو ستایا جارہا ہے جس سے سرمایہ کاری میں کمی واقع ہوئی ہے اور درآمدات بڑھ رہی ہیں۔ برآمدات میں کمی واقع ہورہی ہے، جس سے معیشت تباہ ہوچکی ہے۔
دو سال کے عرصے میں حکومت نے کوئی کارکردگی نہیں دکھائی جس سے ملک ترقی کرنے کے بجائے مزید تنزلی کی طرف چلا گیا ہے اور ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد پریشان حال ہیں۔ پرائیویٹ ملازمت کرنے والے، مزدوری کرنے والے، اپنے چھوٹے موٹے کاروبار چلانے والے سبھی زیادہ تر گھروں میں بیٹھے ہیں اور کام کاج نہ ہونے کی وجہ سے دوسروں کی امداد کے منتظر ہیں۔ ملک میں سب سے زیادہ خوش نصیب سرکاری ملازمین کو سمجھا جاتا تھا اور لوگ سرکاری ملازمتوں کے حصول کےلیے سرگرداں رہتے تھے۔ اگرچہ سرکاری ملازمت میں بہت سی پابندیاں برداشت کرنی ہوتی ہیں، حکومت کے دیے ہوئے پر ہی گزرا کرنا ہوتا ہے۔ اپنی محنت اور اپنی صلاحیتوں کی بنا پر انسان کچھ نہیں کرسکتا بلکہ صلاحیتیں زنگ آلود ہوجاتی ہیں اور یہ ملازمین ایک رسی میں بندھے رہتے ہیں۔ انہیں جو کام دیا گیا وہ مکمل کرنا ہے۔ جتنا وقت کام کرنے کےلیے مانگا گیا وہ دینا پڑے گا۔ اگر چوبیس گھنٹے بھی کام کرلیں، شدید محنت کریں پھر بھی ملنا وہی ہے جو حکومت نے مقرر کر رکھا ہے اور ترقی بھی حکومت کی پالیسیوں کے مطابق ہی ہونی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اکثر نالائق اور نکمے لوگ زیادہ تنخواہیں وصول کررہے ہوتے ہیں اور حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے ان کی ترقی بھی جلدی ہوجاتی ہے، جبکہ باصلاحیت اور محنتی لوگ کم تنخواہ میں نچلے درجے پر ملازمت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
وہ یہ سب کچھ اس لیے برداشت کررہے ہوتے ہیں کہ یہ سرکاری ملازمت ہے جس میں وقت پر تنخواہیں بڑھتی ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن بھی ملتی رہتی ہے۔ لیکن حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے ان کی یہ امیدیں بھی دم توڑتی جارہی ہیں۔ پہلے تو بجٹ میں ان کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے ملازمین پریشان تھے کیونکہ مہنگائی میں تو اضافہ ہوا ہے لیکن تنخواہوں میں نہیں ہوا تو ملازمین کےلیے حالات کا مقابلہ کرنا مشکل ہوچکا ہے۔ وہ سرکاری ملازمت کے ساتھ کوئی دوسرا منافع بخش کام بھی نہیں کرسکتے کیونکہ وہ سرکار کے ملازم ہیں۔ لیکن سرکار کو ان کا کوئی خیال نہیں ہے۔
اب یہ خبریں سننے میں آرہی ہیں کہ حکومت سرکاری ملازمین کی پنشن ختم کررہی ہے۔ ساتھ ہی بنیادی تنخواہوں میں ہونے والا سالانہ اضافہ بھی مستقل طور پر ختم کیا جارہا ہے۔ اب سرکاری اور پرائیویٹ ملازمت میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔ یہ اس لحاظ سے تو اچھا ہے کہ لوگ پڑھ لکھ کر سرکاری غلامی کےلیے دوڑنے کے بجائے پرائیویٹ کام کرنے کو ترجیح دیں گے، جہاں اپنی محنت و صلاحیت کے بل بوتے پر فائدے حاصل کریں گے۔ لیکن اس سے سرکاری اداروں کو قابل لوگ میسر نہیں ہوں گے اور انہیں ایسے لوگوں پر گزارا کرنا پڑے گا جو کہیں بھی کام کے نہیں ہوں گے تو وہ سرکاری اداروں میں پناہ لیں گے۔ اس طرح سرکاری ادارے تباہ ہوجائیں گے جس سے ملک کا نقصان ہونا بدیہی بات ہے۔
یہ سب کچھ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق ہو رہا ہے۔ وہ ہر بار حکومت کو نئی شرائط کے ساتھ قرض دیتا ہے۔ کبھی نئے ٹیکس لگانے کی شرط، کبھی بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کی شرط، کبھی ملازمین کو فارغ کرنے کی شرط اور کبھی ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے کی شرط لگا کر قرضہ فراہم کیا جاتا ہے۔ حکومت ان تمام شرائط کو کسی تاویل کے بغیر پورا کررہی ہے اور پھر تمام خرابیوں کی وجہ گزشتہ حکومتوں کو قرار دیتی ہے۔ گزشتہ حکومتوں کے ادوار میں اگر کرپشن زیادہ تھی تو پھر یہ سارا نظام کیسے درست چل رہا تھا؟ چلیے مان لیا کہ بالکل درست تو نہیں تھا لیکن آج کے مقابلے میں تو بہت بہتر تھا۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں تو ملازمین کی تنخواہوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا تھا، حالانکہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں کہا جاتا تھا کہ اس حکومت نے اتنی کرپشن کی ہے کہ اسے کرپشن پر ایوارڈ ملنا چاہیے۔ اس کے باوجود خزانہ اس قدر خالی نہیں تھا کہ حکومت آئی ایم ایف سے قرض لینے پر اتنی مجبور ہوجائے کہ ان کی تمام شرائط من و عن تسلیم کرلے۔
اب تو ان کے بقول نظام درست چل رہا ہے، کرپشن نہیں ہورہی بلکہ کرپشن کرنے والوں کو سزائیں ہورہی ہیں تو پھر ایسے حالات کیوں پیدا ہوچکے ہیں کہ کرپٹ لوگوں کی حکومتوں میں حالات قدرے بہتر تھے لیکن ایماندار لوگوں کے دور حکومت میں عوام کی واقعی چیخیں نکل گئی ہیں۔ حکومت آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر اتنی مجبور ہے کہ ملک پر ایک طرح سے ان کی ہی حکومت قائم کردی ہے۔ آج ملک پر انہی کے راج کا شدید احساس ہورہا ہے۔ جو اتنے زیادہ ٹیکس لگائے گئے ہیں وہ کہاں جارہے ہیں؟ عوام کے پاس بھی کچھ نہیں بچا اور خزانہ بھی خالی ہے۔ آئی ایم ایف کی ہر شرط ماننے کی پالیسی سے صرف ملک ہی تباہ نہیں ہورہا بلکہ پی ٹی آئی کی اپنی ساکھ بھی متاثر ہورہی ہے۔ عوام میں پارٹی کی مقبولیت میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ جو لوگ پارٹی کے حامی تھے بلکہ جنون کی حد تک عمران خان کو چاہتے تھے، اب وہی انہیں بددعائیں دے رہے ہیں اور اپنے کیے پر پچھتا رہے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
دو سال کے عرصے میں حکومت نے کوئی کارکردگی نہیں دکھائی جس سے ملک ترقی کرنے کے بجائے مزید تنزلی کی طرف چلا گیا ہے اور ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد پریشان حال ہیں۔ پرائیویٹ ملازمت کرنے والے، مزدوری کرنے والے، اپنے چھوٹے موٹے کاروبار چلانے والے سبھی زیادہ تر گھروں میں بیٹھے ہیں اور کام کاج نہ ہونے کی وجہ سے دوسروں کی امداد کے منتظر ہیں۔ ملک میں سب سے زیادہ خوش نصیب سرکاری ملازمین کو سمجھا جاتا تھا اور لوگ سرکاری ملازمتوں کے حصول کےلیے سرگرداں رہتے تھے۔ اگرچہ سرکاری ملازمت میں بہت سی پابندیاں برداشت کرنی ہوتی ہیں، حکومت کے دیے ہوئے پر ہی گزرا کرنا ہوتا ہے۔ اپنی محنت اور اپنی صلاحیتوں کی بنا پر انسان کچھ نہیں کرسکتا بلکہ صلاحیتیں زنگ آلود ہوجاتی ہیں اور یہ ملازمین ایک رسی میں بندھے رہتے ہیں۔ انہیں جو کام دیا گیا وہ مکمل کرنا ہے۔ جتنا وقت کام کرنے کےلیے مانگا گیا وہ دینا پڑے گا۔ اگر چوبیس گھنٹے بھی کام کرلیں، شدید محنت کریں پھر بھی ملنا وہی ہے جو حکومت نے مقرر کر رکھا ہے اور ترقی بھی حکومت کی پالیسیوں کے مطابق ہی ہونی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اکثر نالائق اور نکمے لوگ زیادہ تنخواہیں وصول کررہے ہوتے ہیں اور حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے ان کی ترقی بھی جلدی ہوجاتی ہے، جبکہ باصلاحیت اور محنتی لوگ کم تنخواہ میں نچلے درجے پر ملازمت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
وہ یہ سب کچھ اس لیے برداشت کررہے ہوتے ہیں کہ یہ سرکاری ملازمت ہے جس میں وقت پر تنخواہیں بڑھتی ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن بھی ملتی رہتی ہے۔ لیکن حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے ان کی یہ امیدیں بھی دم توڑتی جارہی ہیں۔ پہلے تو بجٹ میں ان کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے ملازمین پریشان تھے کیونکہ مہنگائی میں تو اضافہ ہوا ہے لیکن تنخواہوں میں نہیں ہوا تو ملازمین کےلیے حالات کا مقابلہ کرنا مشکل ہوچکا ہے۔ وہ سرکاری ملازمت کے ساتھ کوئی دوسرا منافع بخش کام بھی نہیں کرسکتے کیونکہ وہ سرکار کے ملازم ہیں۔ لیکن سرکار کو ان کا کوئی خیال نہیں ہے۔
اب یہ خبریں سننے میں آرہی ہیں کہ حکومت سرکاری ملازمین کی پنشن ختم کررہی ہے۔ ساتھ ہی بنیادی تنخواہوں میں ہونے والا سالانہ اضافہ بھی مستقل طور پر ختم کیا جارہا ہے۔ اب سرکاری اور پرائیویٹ ملازمت میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔ یہ اس لحاظ سے تو اچھا ہے کہ لوگ پڑھ لکھ کر سرکاری غلامی کےلیے دوڑنے کے بجائے پرائیویٹ کام کرنے کو ترجیح دیں گے، جہاں اپنی محنت و صلاحیت کے بل بوتے پر فائدے حاصل کریں گے۔ لیکن اس سے سرکاری اداروں کو قابل لوگ میسر نہیں ہوں گے اور انہیں ایسے لوگوں پر گزارا کرنا پڑے گا جو کہیں بھی کام کے نہیں ہوں گے تو وہ سرکاری اداروں میں پناہ لیں گے۔ اس طرح سرکاری ادارے تباہ ہوجائیں گے جس سے ملک کا نقصان ہونا بدیہی بات ہے۔
یہ سب کچھ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق ہو رہا ہے۔ وہ ہر بار حکومت کو نئی شرائط کے ساتھ قرض دیتا ہے۔ کبھی نئے ٹیکس لگانے کی شرط، کبھی بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کی شرط، کبھی ملازمین کو فارغ کرنے کی شرط اور کبھی ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے کی شرط لگا کر قرضہ فراہم کیا جاتا ہے۔ حکومت ان تمام شرائط کو کسی تاویل کے بغیر پورا کررہی ہے اور پھر تمام خرابیوں کی وجہ گزشتہ حکومتوں کو قرار دیتی ہے۔ گزشتہ حکومتوں کے ادوار میں اگر کرپشن زیادہ تھی تو پھر یہ سارا نظام کیسے درست چل رہا تھا؟ چلیے مان لیا کہ بالکل درست تو نہیں تھا لیکن آج کے مقابلے میں تو بہت بہتر تھا۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں تو ملازمین کی تنخواہوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا تھا، حالانکہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں کہا جاتا تھا کہ اس حکومت نے اتنی کرپشن کی ہے کہ اسے کرپشن پر ایوارڈ ملنا چاہیے۔ اس کے باوجود خزانہ اس قدر خالی نہیں تھا کہ حکومت آئی ایم ایف سے قرض لینے پر اتنی مجبور ہوجائے کہ ان کی تمام شرائط من و عن تسلیم کرلے۔
اب تو ان کے بقول نظام درست چل رہا ہے، کرپشن نہیں ہورہی بلکہ کرپشن کرنے والوں کو سزائیں ہورہی ہیں تو پھر ایسے حالات کیوں پیدا ہوچکے ہیں کہ کرپٹ لوگوں کی حکومتوں میں حالات قدرے بہتر تھے لیکن ایماندار لوگوں کے دور حکومت میں عوام کی واقعی چیخیں نکل گئی ہیں۔ حکومت آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر اتنی مجبور ہے کہ ملک پر ایک طرح سے ان کی ہی حکومت قائم کردی ہے۔ آج ملک پر انہی کے راج کا شدید احساس ہورہا ہے۔ جو اتنے زیادہ ٹیکس لگائے گئے ہیں وہ کہاں جارہے ہیں؟ عوام کے پاس بھی کچھ نہیں بچا اور خزانہ بھی خالی ہے۔ آئی ایم ایف کی ہر شرط ماننے کی پالیسی سے صرف ملک ہی تباہ نہیں ہورہا بلکہ پی ٹی آئی کی اپنی ساکھ بھی متاثر ہورہی ہے۔ عوام میں پارٹی کی مقبولیت میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ جو لوگ پارٹی کے حامی تھے بلکہ جنون کی حد تک عمران خان کو چاہتے تھے، اب وہی انہیں بددعائیں دے رہے ہیں اور اپنے کیے پر پچھتا رہے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔