چراغ یادوں کے دوسرا حصہ
ایک دوسرے ٹرک میں لالٹین بھی ٹرک سے لٹک کر سڑک پر ٹکرا کر اچھلتی ہوئی جا رہی تھی
ڈی جے سائنس کالج کے طلبا کو اس لیے بھی اہمیت دی جاتی تھی کیونکہ وہاں سے جو معاملہ بھی نمایاں ہوتا تھا وہ پورے شہرکو معلوم ہو جاتا تھا۔ دوم کراچی ابھی بھی ملک کا دارالسلطنت تھا۔ جس کی تبدیلی کا حکومت بالا نے پروگرام بنا لیے تھے جن پر بعد میں عمل ہوکے رہا۔ ہر بڑے احتجاج سے مرکزی حکومتیں ہل جایا کرتی تھیں۔
لہٰذا دارالخلافہ ایک ہزارکلو میٹر دور لے جانے کا فیصلہ کیا گیا۔ مشرقی پاکستان چونکہ ملک کا ایک مضبوط سیاسی حصہ تھا تو وہاں کے صاحب امرا حضرات یہ چاہتے تھے کہ شہرکی مرکزیت کو تھانہ بولا خان سے آگے نہ لے جایا جائے۔ جس میں نیشنل عوامی پارٹی کے جنرل سیکریٹری محمود الحق عثمانی بھی شامل تھے۔ خیر اس کی تفصیل میں جانے سے کچھ حاصل نہ ہوگا، کیونکہ یہ قصہ پارینہ ہوگیا۔گورنمنٹ کالج ناظم آباد میں بھی اس مسئلے پر بحث چلی مگر لاحاصل رہی،کالج کی تعلیم جاری رہی۔کالج میں مختلف کانفرنسیں ہوتی تھیں جن میں، میں اور سرورجاوید بھی حصہ لیتے تھے۔
کالج کے اساتذہ کے متعلق یہ کہنا جائز ہوگا کہ نہایت اصول پسند اور اپنے مضامین پر دسترس رکھتے تھے۔ اردو کے استاد اسلم فرخی غزلیات کا حصہ پڑھاتے وقت ایسے فن میں ڈوب جاتے تھے کہ بعض اوقات ہمیں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ہم دلی کے کوچہ وبازار میں بیٹھے ہیں۔ دن گزرتے گئے اور بالآخر صدر ایوب خان نے ملک میں عوامی انتخابات کا اعلان کردیا، لیکن یہ انتخابات بڑے پرپیچ تھے۔ جس کو براہ راست عوامی انتخابات نہیں کہہ سکتے تھے۔ یہ انتخابات بیسک ڈیموکریسی بنیادی جمہوریت کے نام سے ہوئے جس میں منتخب شدہ بی ڈی ممبر صدارتی امیدوارکو ووٹ دے سکے گا۔ اس پر کافی بحث مباحثہ ہوا، مگر ایوب خان نے ایک نہ سنی اور انتخابات کا اعلان کردیا، یہ سخت مارشل لا تھا۔ پھر بھی لوگ انتخابات کی آڑ میں پرجوش ہوکر سڑکوں پر نکل آئے۔
1965 کی جنوری کے ابتدائی دنوں میں انتخابات کا اعلان ہوگیا۔ حزب مخالف کی تمام کوششوں کے باوجود ایوب خان نے سیدھے سادے جمہوری انتخابات سے گریزکیا لیکن عوام اورلیڈروں نے اسی کو غنیمت جان کر ایک نرم عوامی حکومت تصورکرکے انتخابات میں حصہ لینے پر آمادگی کا اظہارکردیا۔
یہاں تک کہ جماعت اسلامی نے بھی اس میں حصہ لینے پر آمادگی کا اظہار کر دیا۔ شاید یہ جماعت اسلامی کا نہایت زیرک فیصلہ تھا، مگر حزب مخالف کے پاس کوئی مضبوط مدمقابل نہ تھا جہاں تک میری اطلاع ہے مشرقی پاکستان کے ایک لیڈر مولانا بھاشانی، مادرملت فاطمہ جناح کے پاس پہنچے اور ان کو ایوب خان کے خلاف الیکشن لڑنے پر آمادہ کرلیا اور یہاں تک کہا کہ اگر ایوب خان آپ کو ہلاک کردے گا تو آپ کے پیراہن کو انقلابی پرچم بنا دوں گا۔ اس پر فاطمہ جناح خاموش ہوگئیں اور انھوں نے عوام کو آزادی اور جمہوری اصولوں کی پاسداری کے لیے الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کردیا۔
فیلڈ مارشل ایوب خان کے لیے فاطمہ جناح کے مقابل آنا آسان نہ تھا۔ پھر بھی اس نے اپنے حکومتی نمایندوں کو چوکس کیا۔اور نت نئے چالبازوں کو بیلٹ باکس کی تیاری کے لیے مامور کردیا اور بیلٹ پیپر کو بھی انتہائی دقیق اور مرکب بنایا۔ دوسری جانب کراچی کی طلبا یونین کی میٹنگ میں یہ طے کیا گیا کہ مس فاطمہ جناح کا انتخابی نشان جو انھوں نے طے کیا تھا اس کو پورے شہر اور ملک میں متعارف کریں گے۔ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر باقر عسکری نے ایک چھوٹا سا بیج پرنٹ کروایا جو لاکھوں کی تعداد میں تھا، جسے طلبا اپنے سینے پر چسپاں کرتے تھے اس پر لکھا تھا کہ طلبا مادر ملت کے ساتھ ہیں اور مادر ملت کی تصویر بھی اس بیج پر چھپی تھی۔
ڈاکٹر باقر عسکری نے مادر ملت کا انتخابی نشان لالٹین قدآدم بنوایا اور یہ قد آدم لالٹین لے کر تین لاریوں میں پشاور قصہ خوانی بازارگئے جہاں ڈاکٹر شیر افضل ملک کا جلوس ان کی آمد کا منتظر تھا۔ دوسری جانب کراچی میں زورشور سے مادرملت کی تشہیر جاری تھی۔ یہاں تک کہ لالوکھیت نمبر ایک سے جسے عرف عام میں لیاقت آباد ڈاکخانہ کہا جاتا ہے، علی مختار رضوی وہاں سے بلاامتیاز جیت چکے تھے،کیونکہ کوئی امیدوار ان کے مقابل کھڑا نہ ہوا کیونکہ این ایس ایف کی سپورٹ کے ساتھ ساتھ عوام کی غیر معمولی سپورٹ بھی ان کے ساتھ تھی۔
دوسری جانب مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمن اور بھاشانی تو اپنا کام کر ہی رہے تھے۔ طلبا فرنٹ پر مس موتیا چوہدری اور چین نوازکمیونسٹ لیڈر طلبا میں انقلاب کا سنگیت بجا رہے تھے۔ مغرب سے مشرق تک شمال سے جنوب تک پاکستان میں مادر ملت کی دھوم تھی جس میں ایوب خان کا دبدبہ، رعب اورطاقت کا گھمنڈ اپنی تقریروں سے خاک میں ملا دیا تھا۔ لوگ آزادی کا سانس لینے لگے تھے۔ دل اور زبان میں ہمت پیدا ہوگئی تھی۔ فاطمہ جناح کے ہر جلسے کی ابتدا حبیب جالب کی آواز سے ہوتی تھی۔ بقول ان کے:
دیپ جن کے محلات ہی میں جلیں
ایسے دستورکو صبح بے نورکو
میں نہیں جانتا میں نہیں مانتا
اور ایک شعر جو اکثر وہ اپنے جلسوں میں پڑھا کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب وہ جالندھر میں تھے تو پاکستان کا خواب دیکھتے تھے تو آزادی، مساوات اور کھلی سانس محسوس کرتے تھے۔
تھا وطن ذہن میں زنداں تو نہ تھا
میرے پورے شب و روز انھی ہنگاموں میں گزرتے تھے۔ گھرکا خیال اور تعلیم دونوں پس منظر میں چلے گئے۔ رات گئے گھر جاتا تھا۔ کھانے کا بھی ہوش نہ تھا۔ کالج خدا کے فضل سے زورشور سے چل رہا تھا۔ والد محترم پروفیسر مجتبیٰ حسین ایک دو منٹ کے لیے مجھے بلاتے اور کہتے کہ بی ایس سی سائنس ہے۔
ذرا دھیان سے ہر کام کرو اور دیکھو کہ کہیں سال ضایع نہ ہو جائے۔ میں سر ہلا دیتا اور چند گھنٹوں کی نیند پوری کرکے پھر صبح ہوتے ہی طلبا کی محفلوں میں نمایاں ہو جاتا۔ اسی دوران ایک روز معراج محمد خاں جو اس وقت این ایس ایف کے جنرل سیکریٹری تھے میرے پاس آئے اور انھوں نے مجھے ایک کاغذ تھمایا اور بتایا کہ میں این ایس ایف کی سینٹرل کمیٹی کا رکن بن گیا ہوں کیونکہ ایک رکن ملک سے باہر چلا گیا ہے۔ میں نے اسے خوشی سے قبول کیا۔
اس پر معراج محمد خاں نے کچھ ذمے داریوں کا تذکرہ کیا جس میں مرکزی کمیٹی کے ارکان اور عام ورکرز کے لیے میٹنگ کا تذکرہ۔ کیونکہ ان دنوں موبائل فون نہ ہوتے تھے اس لیے ایک ہفتہ قبل ارکان کے گھروں پر پوسٹ کارڈ کیے جاتے تھے۔ جو کام بھی تھے بدستور رواں دواں تھے۔ اسی دوران چین میں ثقافتی انقلاب کی مہم زور و شور سے جاری تھی اور این ایس ایف کے بہت سے لڑکے اس مہم کو انقلاب کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ رفتہ رفتہ یہ ہوا کہ طلبا میں روس اور چین کے مکاتب فکر میں تضادات کی بحث محسوس کی جانے لگی۔ بہر صورت فاطمہ جناح اور ایوب خان کے درمیان الیکشن کا معرکہ تمام چیزوں پر حاوی تھا اور ہر علاقے میں این ایس ایف کے کارکن مباحثے کرتے نظر آتے تھے۔
جوں جوں الیکشن قریب آتے گئے فضا میں انتخابات کا ہی شور تھا۔ زیادہ تر کالجوں کی تعلیمی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں اور طلبا انتخابات کی مہم میں جوق در جوق، محلہ در محلہ سرگرداں نظر آتے۔ یہاں تک کہ مذہبی جلسے بھی انتخابات کا محور لیے آگے بڑھتے رہے۔ پورے ملک میں فاطمہ جناح کے بڑے اور کامیاب جلسے ہوتے رہے۔ مگر نتیجہ وہی ہوا کہ ایک ڈکٹیٹر نے مادر ملت کو شکست دے دی۔ مشرقی پاکستان سے لے کر مغربی پاکستان تک سوگ کی ایک لہر دوڑ گئی۔ دانشور، شاعر، ادیب اور مزدور انجمنیں اشک بار تھیں اسی دوران ایک روز دوپہر کے وقت یہ پتا چلا کہ حکمرانوں کا ایک فاتحانہ جلوس گورنمنٹ کالج ناظم آباد سے ہوتا ہوا لالو کھیت سے گزرے گا۔ یہ خبر ملتے ہی طلبا گوجر نالے کے قریب جمع ہونا شروع ہوگئے۔ یہ طلبا جلوس دیکھنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔
کچھ دیر بعد جلوس کے جھنڈے وغیرہ نظر آئے اور ناظم آباد پٹرول پمپ کے قریب ٹرک نظر آئے پانچ دس منٹ میں یہ جلوس طلبا کے قریب سے گزرنے لگا۔ مادر ملت کی تصویر ایک بڑی ہورڈنگ سے لٹکی ہوئی زمین سے رگڑتی ہوئی جا رہی تھی۔
ایک دوسرے ٹرک میں لالٹین بھی ٹرک سے لٹک کر سڑک پر ٹکرا کر اچھلتی ہوئی جا رہی تھی۔ اس پر طلبا کو غصہ آیا۔ انھوں نے پتھراؤ شروع کیا۔ جلوس سے ہوائی فائرنگ بھی ہوئی دیکھتے ہی دیکھتے لالو کھیت نمبر 4 سے نمبر 10 تک آگ کے شعلے نظر آنے لگے اور جلوس تتر بتر ہوگیا۔ جلوس والوں نے آگ کے شعلے پھینکے مگر یہ جلوس کراچی کے دوسرے علاقوں میں نہ بڑھ سکا۔ گوجر نالے پر سیکڑوں جھونپڑیاں اور کچے مکان نذر آتش ہوگئے اور سیکڑوں لوگ بے گھر ہوگئے۔ آج اس جگہ کے ایم سی کا دفتر ہے۔ یہ کچی آبادی کا آخری سرا تھا اس کے بعد ناظم آباد نمبر 2 کے بنگلے شروع ہو جاتے تھے۔ یہ کارنامہ جلوس کے ان لوگوں کا تھا جو جشن فتح منا رہے تھے۔ دوسرے روز شہر سوگوار تھا۔ کاروبار بند، اور شاعر اور ادیب کایہ اعلان:
الحضر الحضر اے خدایانِ زر
ہم نے دیکھا ہے یہ خواب وحشت اثر
کچھ شکستہ مکانوں سے شعلے اٹھے
اور پھر شہر کا شہر جلنے لگا
(شکیل احمد ضیا)
(جاری ہے۔۔۔۔)
لہٰذا دارالخلافہ ایک ہزارکلو میٹر دور لے جانے کا فیصلہ کیا گیا۔ مشرقی پاکستان چونکہ ملک کا ایک مضبوط سیاسی حصہ تھا تو وہاں کے صاحب امرا حضرات یہ چاہتے تھے کہ شہرکی مرکزیت کو تھانہ بولا خان سے آگے نہ لے جایا جائے۔ جس میں نیشنل عوامی پارٹی کے جنرل سیکریٹری محمود الحق عثمانی بھی شامل تھے۔ خیر اس کی تفصیل میں جانے سے کچھ حاصل نہ ہوگا، کیونکہ یہ قصہ پارینہ ہوگیا۔گورنمنٹ کالج ناظم آباد میں بھی اس مسئلے پر بحث چلی مگر لاحاصل رہی،کالج کی تعلیم جاری رہی۔کالج میں مختلف کانفرنسیں ہوتی تھیں جن میں، میں اور سرورجاوید بھی حصہ لیتے تھے۔
کالج کے اساتذہ کے متعلق یہ کہنا جائز ہوگا کہ نہایت اصول پسند اور اپنے مضامین پر دسترس رکھتے تھے۔ اردو کے استاد اسلم فرخی غزلیات کا حصہ پڑھاتے وقت ایسے فن میں ڈوب جاتے تھے کہ بعض اوقات ہمیں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ہم دلی کے کوچہ وبازار میں بیٹھے ہیں۔ دن گزرتے گئے اور بالآخر صدر ایوب خان نے ملک میں عوامی انتخابات کا اعلان کردیا، لیکن یہ انتخابات بڑے پرپیچ تھے۔ جس کو براہ راست عوامی انتخابات نہیں کہہ سکتے تھے۔ یہ انتخابات بیسک ڈیموکریسی بنیادی جمہوریت کے نام سے ہوئے جس میں منتخب شدہ بی ڈی ممبر صدارتی امیدوارکو ووٹ دے سکے گا۔ اس پر کافی بحث مباحثہ ہوا، مگر ایوب خان نے ایک نہ سنی اور انتخابات کا اعلان کردیا، یہ سخت مارشل لا تھا۔ پھر بھی لوگ انتخابات کی آڑ میں پرجوش ہوکر سڑکوں پر نکل آئے۔
1965 کی جنوری کے ابتدائی دنوں میں انتخابات کا اعلان ہوگیا۔ حزب مخالف کی تمام کوششوں کے باوجود ایوب خان نے سیدھے سادے جمہوری انتخابات سے گریزکیا لیکن عوام اورلیڈروں نے اسی کو غنیمت جان کر ایک نرم عوامی حکومت تصورکرکے انتخابات میں حصہ لینے پر آمادگی کا اظہارکردیا۔
یہاں تک کہ جماعت اسلامی نے بھی اس میں حصہ لینے پر آمادگی کا اظہار کر دیا۔ شاید یہ جماعت اسلامی کا نہایت زیرک فیصلہ تھا، مگر حزب مخالف کے پاس کوئی مضبوط مدمقابل نہ تھا جہاں تک میری اطلاع ہے مشرقی پاکستان کے ایک لیڈر مولانا بھاشانی، مادرملت فاطمہ جناح کے پاس پہنچے اور ان کو ایوب خان کے خلاف الیکشن لڑنے پر آمادہ کرلیا اور یہاں تک کہا کہ اگر ایوب خان آپ کو ہلاک کردے گا تو آپ کے پیراہن کو انقلابی پرچم بنا دوں گا۔ اس پر فاطمہ جناح خاموش ہوگئیں اور انھوں نے عوام کو آزادی اور جمہوری اصولوں کی پاسداری کے لیے الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کردیا۔
فیلڈ مارشل ایوب خان کے لیے فاطمہ جناح کے مقابل آنا آسان نہ تھا۔ پھر بھی اس نے اپنے حکومتی نمایندوں کو چوکس کیا۔اور نت نئے چالبازوں کو بیلٹ باکس کی تیاری کے لیے مامور کردیا اور بیلٹ پیپر کو بھی انتہائی دقیق اور مرکب بنایا۔ دوسری جانب کراچی کی طلبا یونین کی میٹنگ میں یہ طے کیا گیا کہ مس فاطمہ جناح کا انتخابی نشان جو انھوں نے طے کیا تھا اس کو پورے شہر اور ملک میں متعارف کریں گے۔ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر باقر عسکری نے ایک چھوٹا سا بیج پرنٹ کروایا جو لاکھوں کی تعداد میں تھا، جسے طلبا اپنے سینے پر چسپاں کرتے تھے اس پر لکھا تھا کہ طلبا مادر ملت کے ساتھ ہیں اور مادر ملت کی تصویر بھی اس بیج پر چھپی تھی۔
ڈاکٹر باقر عسکری نے مادر ملت کا انتخابی نشان لالٹین قدآدم بنوایا اور یہ قد آدم لالٹین لے کر تین لاریوں میں پشاور قصہ خوانی بازارگئے جہاں ڈاکٹر شیر افضل ملک کا جلوس ان کی آمد کا منتظر تھا۔ دوسری جانب کراچی میں زورشور سے مادرملت کی تشہیر جاری تھی۔ یہاں تک کہ لالوکھیت نمبر ایک سے جسے عرف عام میں لیاقت آباد ڈاکخانہ کہا جاتا ہے، علی مختار رضوی وہاں سے بلاامتیاز جیت چکے تھے،کیونکہ کوئی امیدوار ان کے مقابل کھڑا نہ ہوا کیونکہ این ایس ایف کی سپورٹ کے ساتھ ساتھ عوام کی غیر معمولی سپورٹ بھی ان کے ساتھ تھی۔
دوسری جانب مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمن اور بھاشانی تو اپنا کام کر ہی رہے تھے۔ طلبا فرنٹ پر مس موتیا چوہدری اور چین نوازکمیونسٹ لیڈر طلبا میں انقلاب کا سنگیت بجا رہے تھے۔ مغرب سے مشرق تک شمال سے جنوب تک پاکستان میں مادر ملت کی دھوم تھی جس میں ایوب خان کا دبدبہ، رعب اورطاقت کا گھمنڈ اپنی تقریروں سے خاک میں ملا دیا تھا۔ لوگ آزادی کا سانس لینے لگے تھے۔ دل اور زبان میں ہمت پیدا ہوگئی تھی۔ فاطمہ جناح کے ہر جلسے کی ابتدا حبیب جالب کی آواز سے ہوتی تھی۔ بقول ان کے:
دیپ جن کے محلات ہی میں جلیں
ایسے دستورکو صبح بے نورکو
میں نہیں جانتا میں نہیں مانتا
اور ایک شعر جو اکثر وہ اپنے جلسوں میں پڑھا کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب وہ جالندھر میں تھے تو پاکستان کا خواب دیکھتے تھے تو آزادی، مساوات اور کھلی سانس محسوس کرتے تھے۔
تھا وطن ذہن میں زنداں تو نہ تھا
میرے پورے شب و روز انھی ہنگاموں میں گزرتے تھے۔ گھرکا خیال اور تعلیم دونوں پس منظر میں چلے گئے۔ رات گئے گھر جاتا تھا۔ کھانے کا بھی ہوش نہ تھا۔ کالج خدا کے فضل سے زورشور سے چل رہا تھا۔ والد محترم پروفیسر مجتبیٰ حسین ایک دو منٹ کے لیے مجھے بلاتے اور کہتے کہ بی ایس سی سائنس ہے۔
ذرا دھیان سے ہر کام کرو اور دیکھو کہ کہیں سال ضایع نہ ہو جائے۔ میں سر ہلا دیتا اور چند گھنٹوں کی نیند پوری کرکے پھر صبح ہوتے ہی طلبا کی محفلوں میں نمایاں ہو جاتا۔ اسی دوران ایک روز معراج محمد خاں جو اس وقت این ایس ایف کے جنرل سیکریٹری تھے میرے پاس آئے اور انھوں نے مجھے ایک کاغذ تھمایا اور بتایا کہ میں این ایس ایف کی سینٹرل کمیٹی کا رکن بن گیا ہوں کیونکہ ایک رکن ملک سے باہر چلا گیا ہے۔ میں نے اسے خوشی سے قبول کیا۔
اس پر معراج محمد خاں نے کچھ ذمے داریوں کا تذکرہ کیا جس میں مرکزی کمیٹی کے ارکان اور عام ورکرز کے لیے میٹنگ کا تذکرہ۔ کیونکہ ان دنوں موبائل فون نہ ہوتے تھے اس لیے ایک ہفتہ قبل ارکان کے گھروں پر پوسٹ کارڈ کیے جاتے تھے۔ جو کام بھی تھے بدستور رواں دواں تھے۔ اسی دوران چین میں ثقافتی انقلاب کی مہم زور و شور سے جاری تھی اور این ایس ایف کے بہت سے لڑکے اس مہم کو انقلاب کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ رفتہ رفتہ یہ ہوا کہ طلبا میں روس اور چین کے مکاتب فکر میں تضادات کی بحث محسوس کی جانے لگی۔ بہر صورت فاطمہ جناح اور ایوب خان کے درمیان الیکشن کا معرکہ تمام چیزوں پر حاوی تھا اور ہر علاقے میں این ایس ایف کے کارکن مباحثے کرتے نظر آتے تھے۔
جوں جوں الیکشن قریب آتے گئے فضا میں انتخابات کا ہی شور تھا۔ زیادہ تر کالجوں کی تعلیمی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں اور طلبا انتخابات کی مہم میں جوق در جوق، محلہ در محلہ سرگرداں نظر آتے۔ یہاں تک کہ مذہبی جلسے بھی انتخابات کا محور لیے آگے بڑھتے رہے۔ پورے ملک میں فاطمہ جناح کے بڑے اور کامیاب جلسے ہوتے رہے۔ مگر نتیجہ وہی ہوا کہ ایک ڈکٹیٹر نے مادر ملت کو شکست دے دی۔ مشرقی پاکستان سے لے کر مغربی پاکستان تک سوگ کی ایک لہر دوڑ گئی۔ دانشور، شاعر، ادیب اور مزدور انجمنیں اشک بار تھیں اسی دوران ایک روز دوپہر کے وقت یہ پتا چلا کہ حکمرانوں کا ایک فاتحانہ جلوس گورنمنٹ کالج ناظم آباد سے ہوتا ہوا لالو کھیت سے گزرے گا۔ یہ خبر ملتے ہی طلبا گوجر نالے کے قریب جمع ہونا شروع ہوگئے۔ یہ طلبا جلوس دیکھنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔
کچھ دیر بعد جلوس کے جھنڈے وغیرہ نظر آئے اور ناظم آباد پٹرول پمپ کے قریب ٹرک نظر آئے پانچ دس منٹ میں یہ جلوس طلبا کے قریب سے گزرنے لگا۔ مادر ملت کی تصویر ایک بڑی ہورڈنگ سے لٹکی ہوئی زمین سے رگڑتی ہوئی جا رہی تھی۔
ایک دوسرے ٹرک میں لالٹین بھی ٹرک سے لٹک کر سڑک پر ٹکرا کر اچھلتی ہوئی جا رہی تھی۔ اس پر طلبا کو غصہ آیا۔ انھوں نے پتھراؤ شروع کیا۔ جلوس سے ہوائی فائرنگ بھی ہوئی دیکھتے ہی دیکھتے لالو کھیت نمبر 4 سے نمبر 10 تک آگ کے شعلے نظر آنے لگے اور جلوس تتر بتر ہوگیا۔ جلوس والوں نے آگ کے شعلے پھینکے مگر یہ جلوس کراچی کے دوسرے علاقوں میں نہ بڑھ سکا۔ گوجر نالے پر سیکڑوں جھونپڑیاں اور کچے مکان نذر آتش ہوگئے اور سیکڑوں لوگ بے گھر ہوگئے۔ آج اس جگہ کے ایم سی کا دفتر ہے۔ یہ کچی آبادی کا آخری سرا تھا اس کے بعد ناظم آباد نمبر 2 کے بنگلے شروع ہو جاتے تھے۔ یہ کارنامہ جلوس کے ان لوگوں کا تھا جو جشن فتح منا رہے تھے۔ دوسرے روز شہر سوگوار تھا۔ کاروبار بند، اور شاعر اور ادیب کایہ اعلان:
الحضر الحضر اے خدایانِ زر
ہم نے دیکھا ہے یہ خواب وحشت اثر
کچھ شکستہ مکانوں سے شعلے اٹھے
اور پھر شہر کا شہر جلنے لگا
(شکیل احمد ضیا)
(جاری ہے۔۔۔۔)