’’اُوپر والا ہاتھ‘‘

رحمت اللعالمین و خاتمُ النبین ﷺ کے فرمان گرامی کا مفہوم ہے: ’’اُوپر والا ہاتھ نچلے ہاتھ سے بہتر ہے۔‘‘

رحمت اللعالمین و خاتمُ النبین ﷺ کے فرمان گرامی کا مفہوم ہے: ’’اُوپر والا ہاتھ نچلے ہاتھ سے بہتر ہے۔‘‘ ۔ فوٹو : فائل

افراد ہوں یا اقوام سب کی خواہش اُوپر والے یعنی دینے والے ہاتھ کی ہوتی ہے۔ یعنی عزت، کام یابی، غلبہ، حکومت اور عروج و ترقی کو سبھی پسند کرتے ہیں اور ذلّت و ناکامی اور زوال و غلامی سے ہر ایک کوسوں دُور بھاگتا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ ہم قرآن و سنّت اور سیرتِ خاتمُ النبیین ﷺ کے سرچشمۂ ہدایت کو صرف انفرادی زندگی اور اپنے ذاتی نقطۂ نگاہ سے دیکھتے، پرکھتے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جہاں تک ہماری اجتماعی و سماجی زندگی اور اس سے متعلقہ مسائل کا تعلق ہے تو اس باب میں ہم قرآنی و نبویؐ تعلیمات اور ان سے اخذ شدہ اصولوں کو اپنے اجتماعی نظام کی اساس نہیں بناتے۔ نتیجتاً مختلف النوع اور بے پناہ مسائل میں گھری انسانیت کے لیے ہمارا قومی و ملّی وجود باعث کشش ہونے کے بہ جائے محض ایک فاضل عنصر اور دھرتی کا بوجھ بن چکا ہے۔

اُوپر والے یعنی دینے والے ہاتھ کا اوّلین تقاضا عدل اور خود کفالت پر مبنی نظام کا قیام ہے اور پھر خود کفالت و اقتصادی خوش حالی کے بعد حاصل شدہ خداداد نعمتوں اور وسائل قدرت کو ایثار و احسان کے زرّیں آفاقی اصولوں پر دیگر انسانیت تک پہنچانا ہے۔

جو اقوام کم ہمّتی و سہل پسندی کا شکار ہوتی ہیں وہ ہمیشہ دوسروں کی دستِ نگر یعنی ان سے مفادات سمیٹنے کی خواہش مند اور محتاج ہوتی ہیں جسے بلاشبہ نچلے ہاتھ سے تعبیر کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح بعض قومیں سیاسی غلبہ و اقتصادی استحکام کے ہوتے ہوئے بھی انسان دوستی اور سخاوت و ایثار کی انسانی و آفاقی خصوصیات سے عاری ہوتی ہیں لہذا ان کا غلبہ و استحکام پائے دار اور دیرپا نہیں ہوتا اور اگر کسی فرد یا قوم کی خود کفالت و خوش حالی کی تہہ میں ظلم و استحصال کی روش بھی موجود ہو تو پھر ایسے جبری غلبے کو سام راجیت و استعماریت کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ افراد ہوں یا اقوام دونوں کے لیے ''اوپر والا ہاتھ'' سخاوت اور جُود و عطا کا مظہر ہے اور اس کے برعکس ''نچلا ہاتھ'' محتاجی و مسکینی اور غلامی و محکومی پر دلالت کرتا ہے۔

رحمت اللعالمین و خاتمُ النبین ﷺ کے فرمان گرامی کا مفہوم ہے: ''اُوپر والا ہاتھ نچلے ہاتھ سے بہتر ہے۔''

سبحان اﷲ العظیم ! کیا ہی خوب حکیمانہ و بے مثال قاعدہ ہے جس کی طرف لسانِ نبوت و رسالتؐ اشارہ فرما رہی ہے۔ اگر آج کی مسلم اقوام اس فرمانِ ذی شان کی معنویت و حکمت کو جان جاتیں تو یقیناً آج دوسروں کی دست نگر اور مقروض ہرگز نہ ہوتیں۔

جب دربارِ رسالتؐ میں ایک اعرابی دستِ سوال دراز کرتا ہے تو نبی اکرم ﷺ اُس پر بھکاری پن کا لیبل لگانا پسند نہیں فرماتے بل کہ اُس سے دریافت فرماتے ہیں کہ اُس کے پاس کیا کچھ ہے؟ وہ جواباً ایک کمبل اور ایک پیالہ ذاتی اثاثہ ظاہر کرتا ہے تو رحمتِ دو عالم ﷺ وہ اشیاء منگوا کر ایک اور صحابی کے ہاتھ بیچ دیتے ہیں اور اس رقم سے کلہاڑا منگوا کر خود اپنے دستِ مبارک سے اس میں دستہ نصب کرکے اسے جنگل کی راہ دکھاتے ہیں۔

سرسری طور پر دیکھنے سے تو یہ محض ایک فرد کے ساتھ رحمت اللعالمین ﷺ کا تربیتی و اخلاقی برتاؤ ہے لیکن اہل نظر خوب جانتے ہیں کہ اُسوۂ رسالتؐ کے باب میں اس طرح کے واقعات اپنے اندر دراصل عمومی اصلاح و فلاح کا سامان سمیٹے ہوتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ نبی آخر الزماں ﷺ کی احادیث مبارکہ میں کئی ایک جوامع الکلام ہیں جن کی خصوصیت یہ بیان کی جاتی ہے کہ وہ انفرادی و خاندانی معاملات سے لے کر قومی و بین الاقوامی معاملات تک ہر دور اور ہر جگہ قابلِ عمل اور قابلِ تقلید ہوتی ہیں۔ اب اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو مذکورہ بالا واقعہ ایک فرد سے متعلق ہونے کے باوجود نہ صرف دیگر افراد بل کہ قوموں کو بھی خودداری و خود کفالت اور محنت کی قدر و عظمت کا سبق دیتا ہے۔


اسی طرح ''اُوپر والا ہاتھ نچلے ہاتھ سے بہتر ہے'' کے فرمانِ عالی شان کا جوامع الکلام میں سے ہونے میں کیا شک ہو سکتا ہے ؟ اِس جامع ترین حدیث پر کوئی فرد عمل پیرا ہو یا کوئی قوم اِسے اپنا منشور و دستور بنا لے تو تاریخ گواہ ہے کہ قدرت کبھی کسی کو مایوس نہیں کرتی۔ جب حکومتی و ریاستی سطح پر خود داری و خود انحصاری کا چلن عام نہ ہو تو بالائی سے زیریں سطح تک افراد بھی اپنے قوّت بازو سے کام لینے میں کاہلی و کم ہمتی کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

آپ نے دیکھا ہوگا کہ قومیں ہوں یا افراد دوسروں پر کسی پر انحصار کرنے والے ہمیشہ محتاج اور غلام ہی رہتے ہیں۔ جس نے بھی دستِ سوال دراز کیا تو پھر وہ دراز تر ہی ہوتا رہا اور جس نے قناعت اختیار کر لی اُس نے اپنے مسائل اور پریشانیوں میں کمی کرلی اسی لیے تو قناعت کو بھی دولت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کہ سوال کرنا یعنی مانگنا ذلت ہے۔ قرآن حکیم میں اﷲ رب اللعالمین نے تمام انسانیت کو احتیاج و ضرورت کی خاطر اپنی ذات کی طرف رجوع کرنے کی تاکید فرمائی ہے، مفہوم: ''اے انسانو! تم سب اﷲ کے در کے فقیر ہو اور اﷲ غنی ہے۔'' البتہ ذاتِ باری تعالیٰ نے اپنے بے پناہ خزانوں اور بے شمار نعمتوں تک تمام انسانوں کی رسائی کو عدل، مساوات، شراکت اور محنت کے اصولوں کی تنفیذ و تعمیل سے مشروط ٹھہرا دیا ہے۔ گویا اجتماعی سطح پر قانونِ الٰہی کی پیروی کیے بغیر نچلے ہاتھوں کو اوپر والے ہاتھوں سے بدلنا ناممکن ہے۔ تاریخ نے وہ سنہری دور بھی دیکھا ہے جب اوپر والے ہاتھ اِس قدر کثیر اور غالب تھے کہ نچلا ہاتھ ڈھونڈے سے نہیں ملتا تھا۔

سخاوت و ایثار کو اﷲ اور اس کے پیارے حبیب خاتمُ النبیین ﷺ کے ہاں نہایت درجے کی پسندیدگی حاصل ہے۔ آپ ﷺ نے عرب کے مشہور زمانہ سخی حاتم طائی کی بیٹی کے لیے اپنی چادر مبارک بچھا کر واضح فرمایا کہ سخاوت اور مال و دولت کے لٹانے پر خدا و رسولؐ کی عنایت کا عالم کیا ہوگا!

نچلا ہاتھ بے شک ناپسندیدہ اور باعث ذلّت ہے لیکن جب معاشرے کے اندر افراد کی شکل میں بھک منگے زیادہ ہوں تو اس سے وہاں کے سرمایہ دار و مال دار طبقہ کا بخل، کنجوسی اور ظلم و استحصال نمایاں ہوتا ہے۔ اور جب دنیا میں مقروض، غریب اور بدحال قومیں اور ریاستیں اپنا نچلا ہاتھ پھیلا کر دُہائی دے رہی ہوں تو لامحالہ اس کی ذمے داری بالادست عالمی سرمایہ داریت پر عاید ہوتی ہے۔

بہ ہر حال آج اگر ہم نے انفرادی طور پر عزت و آزادی سے جینا ہے یا پھر اجتماعی و قومی سطح پر حریّت و عزّت اور غلبہ و اقتدار حاصل کرنا ہے توبہ ہر صورت نچلے یعنی لینے والے ہاتھ کو اُوپر یعنی دینے والے ہاتھ سے بدلنا ہوگا۔

جن قوموں نے بھی عدل و مساوات کے زریں اصولوں پر خودداری و خود انحصاری کی راہ اختیار کی اور پھر سخاوت و ایثار کے دریا بہائے، تاریخ شاہد ہے کہ عالمِ انسانیت کی راہ بری پھر انھی کا مقدر ٹھہری۔ قرآن حکیم کے مطابق بھی زمین میں حقیقی بقاء صرف اُسی کو ملے گی جو تمام انسانیت کے لیے نفع رساں ہوگا۔

بے شک اُوپر والا ہاتھ نچلے ہاتھ سے بہتر ہے۔
Load Next Story